پچاس کروڑ سال پرانی آبی مخلوق کے حیران کن فوسلز کی دریافت

ویب ڈیسک

اگر آپ نے کبھی کسی نیچرل ہسٹری میوزیم کی فوسل گیلری یا اس معاملے میں اس کی گفٹ شاپ کا دورہ کیا ہے تو آپ نے شاید جانوروں کے ایک معدوم گروہ کے بکتر بند جسم (یا exoskeletons) دیکھے ہوں گے جنہیں ٹریلوبائٹس کہتے ہیں ۔ یہ قدیم سمندری آرتھروپڈ 521 ملین سے 252 ملین سال پہلے تک دنیا کے سمندروں میں رہتے تھے۔

حال ہی میں سائنسدانوں نے پچاس کروڑ سال پرانی اور اب ناپید ہو چکی ایک سمندری مخلوق کی جسمانی باقیات تلاش کی ہیں، جو حیران کن حد تک اچھی حالت میں محفوظ ہیں، حتیٰ کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان فوسلز کی حالت ایسی ہے کہ جیسے یہ جاندار ابھی کل تک زندہ تھا۔

سائنس میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں ، ہم آتش فشاں راکھ میں محفوظ مراکشی ٹرائیلوبائٹس کی ایک قابل ذکر دریافت کو بیان کر رہے ہیں، جو اب تک پائی جانے والی جسمانی طور پر مکمل مثالوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ان نئے نمونوں میں نہ صرف اینٹینا اور چلنے والی ٹانگیں محفوظ ہیں بلکہ منہ کے ڈھانچے اور یہاں تک کہ پورے نظام انہضام بھی تین جہتوں میں محفوظ ہے۔

برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق قدرتی طور پر ’انتہائی شاندار اور ناقابل یقین حد تک اچھی حالت میں محفوظ‘ یہ قدیمی جسمانی باقیات جن جانوروں کی ہیں، وہ ٹریلوبائٹس (trilobites) کہلاتے تھے اور ان کی کئی انواع اور ضمنی انواع ہوتی تھیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے جانور زمین کے سمندروں میں تقریباً پچاس کروڑ سال پہلے بہت بڑی تعداد میں زندہ تھے، پھر حیاتیاتی ارتقا اور تغیّر کے عمل کے دوران وہ ناپید ہو گئے اور اب اس بات کو بھی کروڑوں برس گزر چکے ہیں۔

تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کو اب ٹریلوبائٹ نسل کے جن آبی جانداروں کے فوسلز ملے ہیں، وہ ایسی حالت میں ہیں کہ لگتا ہے کہ جیسے یہ جاندار شاید ابھی کل تک زندہ تھے۔

ٹریلوبائٹس کی معدومیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم ’نیچرل ہسٹری میوزیم‘ کے ناپید ہو چکی قدیمی حیاتیات کے ماہر ڈاکٹر گریگ ایج کومب نے کہا کہ کروڑوں برس پہلے ایک بہت بڑے آتش فشانی دھماکے کے نتیجے میں پھیلنے ہونے والی راکھ میں پوری طرح دب جانے کی وجہ سے ٹریلوبائٹس کا وجود ختم ہو گیا تھا۔

دھماکہ خیز آتش فشاں، خاص طور پر ایک قسم جسے پائروکلاسٹک فلو کہتے ہیں، راکھ کے تیز رفتار بادل پیدا کرتے ہیں جو بہت کم وقت میں سمندری ماحول سمیت وسیع علاقوں کو ڈھانپ سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعے نے ان ٹریلوبائٹس کو تیزی سے دفن کر دیا ہوگا، جو ساحل کے قریب اتھلے پانیوں میں رہ رہے تھے، آتش فشاں کی راکھ تیزی سے جانوروں کو ڈھالنے اور سیمنٹ کرنے کے ساتھ جگہ جگہ پر موجود تھی۔

لیکن اس وجہ سے ان جانداروں کی جسمانی بافتیں اور دیگر اعضا قدرتی طور پر اتنی اچھی طرح محفوظ ہو گئے کہ اس بات سے خود سائنسی محققین بھی انتہائی حیران ہیں

ڈاکٹر گریگ ایج کومب نے بتایا، ”میں نے تقریباً چالیس برس تک ٹریلوبائٹس کا سائنسی تحقیقی مطالعہ کیا ہے، لیکن مجھے آج سے پہلے کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ جیسے میں کسی زندہ ٹریلوبائٹ کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔‘‘

واضح رہے کہ قدیمی حیاتیات کے ماہرین کو ٹریلوبائٹس کے یہ نئے نمونے مراکش میں ہائی اٹلس نامی پہاڑی سلسلے سے ملے ہیں اور ان کی اوسط جسامت دس ملی میٹر سے لے کر چھبیس ملی میٹر تک بنتی ہے۔ بہت چھوٹی سی جسامت والے ان قدیمی جانداروں کو محققین نے عرف عام میں ’پومپئی ٹریلوبائٹس‘ (Pompei trilobites) کا نام دیا ہے۔

انہیں یہ نام دیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان سمندری جانوروں کا وجود بھی تقریباً اسی طرح ختم ہوا تھا، جیسے قدیم زمانے میں پومپئی شہر کے رہنے والے تمام انسان اس وقت ہلاک ہو گئے تھے، جب وَیسُوویئس (Vesuvius) نامی آتش فشاں پھٹ گیا تھا اور شہر اس کے نتیجے میں بہہ کر آنے والے لاوے میں دب گیا تھا۔

ان قدیمی جانداروں کی جسمانی باقیات کے کمپیوٹر اسکین سے انکشاف ہوا ہے کہ ان کے جسموں کے کئی حصے حتیٰ کہ ان میں نظامِ ہضم بھی اب تک بہت اچھی حالت میں محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ ان ٹریلوبائٹس کے جسموں کی بیرونی سطح پر بنے ہوئے قدرتی خول یا Lamp Shells بھی ابھی تک ان کے جسموں سے ایسی گوشت والی ڈنڈیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جیسے وہ ان جانداروں کی زندگی میں ہوا کرتے تھے۔

ٹریلوبائٹس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ قدیمی حیاتیات کے ماہرین نے آج تک جانداروں کی کسی دوسری قسم کا اتنا وسیع مطالعہ نہیں کیا، جتنا کہ اس طرح کے دیگر بحری حیاتیاتی فوسلز کا۔ سائنسی ماہرین ٹریلوبائٹس کی گزشتہ دو سو برسوں میں بیس ہزار سے زائد انواع کی شناخت کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر ایج کومب کہتے ہیں، ”ٹریلوبائٹس کا سائنسی مطالعہ اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل اور بیش قیمت سائنسی تحقیقی عمل ہے کہ اس سے ماہرین کو ایسی بہت وسیع اور متنوع معلومات تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے، جن کی مدد سے یہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے کہ اب ناپید ہو چکی حیاتیانی انواع ماضی میں کس طرح کی ارتقائی تاریخ سے گزری تھیں۔‘‘

برطانیہ میں برسٹل یونیورسٹی کے قدیمی حیاتیات کے ماہر ہیری بیرکس کا کہنا ہے، ”ان ٹریلوبائٹس کی ریسرچ اسٹڈی سے ناقابل یقین حد تک واضح تفصیلات ملی ہیں، مثلاً یہ بھی کہ پانچ سو ملین سال پہلے ایسے سمندری جاندار کس طرح کی خوراک کیسے کھاتے تھے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close