دنیا کی ہر زبان کی طرح بلوچی زبان بھی انسانوں کے درمیان رابطہ و ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ جس طرح دنیا کی دیگر زبانوں کی تشکیل ارتقا کے طویل عرصے پر محیط ہے، اسی طرح بلوچی زبان بھی ارتقا میں ہزاروں سال لگے ہیں اور یہ عمل ہنوز جاری ہے۔
ماہر ینِ لسانیات کی درجہ بندی کے مطابق بلوچی، زبان، آریائی زبانوں کے ’انڈو یوروپین‘ خاندان انڈو ایرانی شاخ سے ہے۔ ان میں سے جو شاخ ’ایرانی‘ کہلاتی ہے، بلوچی اس میں شامل ہے۔ ہزاروں برسوں کی غلط و درست کو ششوں کے بعد یہ زبان تحریری صورت میں سامنے آئی۔
یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور اس میں کئی دیگر زبانوں کی طرح بلوچی زبان کو بھی عالمگیریت سمیت کئی چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں صرف نسل در نسل زبان کی منتقلی سے زبان کی بقا قائم رکھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ جدید دور میں والدین کی جانب سے بچوں کو مادری زبان کی تعلیم میں کمی واقع ہو رہی ہے، خاص طور پر شہروں میں۔
مزید برآں کسی بھی زبان کے لیے ڈیجیٹل مواد کی عدم موجودگی بھی اس دور کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ کئی زبانوں میں انٹرنیٹ پر مواد کی کمی ہے، جس سے ان زبانوں کی رسائی محدود ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ انٹرنیٹ پر مواد کی فراہمی بڑھائی جائے، جیسے ای بکس، ویڈیوز، اور پوڈکاسٹس، جو مقامی زبانوں میں دستیاب ہوں۔ اس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی جیسے مصنوعی ذہانت اور ترجمہ کاری سافٹ ویئر کا استعمال کرکے زبانوں کو محفوظ کیا جائے اور ان کی دستاویزات تیار کی جائیں۔
اگر بلوچی زبان کی بات کی جائے تو اس زبان نے گوگل ٹرانسلیشن نظام کا حصہ بن کر مصنوعی ذہانت اور ترجمہ کاری سافٹ ویئر کے استعمال کے میدان میں قدم رکھ دیا ہے، جو یقیناً ایک اہم سنگِ میل ہے
کوئٹہ میں قائم بلوچی اکیڈمی کے عہدیدار اور نیچرل لینگویج پروسیسنگ (این ایل پی) پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر ہیبتان عمر بلوچ کہتے ہیں کہ اس کی مدد سے بلوچی ادب کے طلبہ کے لیے بھی آسانی ہوگی۔
واضح رہے کہ سرچ انجن کمپنی گوگل نے حال ہی میں سو سے زائد زبانوں کو ڈیجیٹائز کر کے اپنی ایک ایپلیکیشن پروڈکٹ گوگل ٹرانسلیٹ میں شامل کیا ہے، جن میں بلوچی زبان بھی شامل ہے۔ یہ اہم سنگ میل عبور کرنے کے بعد بلوچی بھی ان زبانوں میں شامل ہو گئی ہے، جنہیں دنیا کی کئی زبانوں میں آسانی سے ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں کوئٹہ میں ’قائم بلوچی اکیڈمی‘ کے عہدیدار اور نیچرل لینگویج پروسیسنگ (این ایل پی) پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر ہیبتان عمر بلوچ اور ان کی ٹیم کام کر رہے ہیں۔
ہیبتان عمر کے مطابق اس ایپلیکیشن کی مدد سے ایک زبان کے الفاظ اور جملوں کو گوگل میں شامل کسی بھی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے اور اس سے بلوچی کو بھی دوسری زبانوں کے قریب لانے میں مدد ملے گی۔
ہیبتان عمر نے بتایا کہ وہ اس وقت ہزاروں الفاظ پر مشتمل ایک آن لائن ڈیٹا بیس ڈکشنری پر کام کر رہے ہیں، جس کی مدد سے بلوچی ادب کے طلبہ کے لیے بھی آسانی ہوگی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ اس وقت ابتدائی مراحل میں ہے اور اس میں مزید بہتری لانے کی گنجائش ہے۔
ہیبتان عمر کا کہنا ہے کہ اس وقت بلوچی زبان کو ڈیجیٹل دنیا میں منتقل کرنے کے لیے بلوچی اکیڈمی، بلوچستان اکیڈمی، عزت اکیڈمی اور نصیر کبدانی اکیڈمی اور دیگر کام کر رہے ہیں۔
ہیبتان عمر نے کہا کہ بلوچی زبان کسی بھی ملک کی زبان نہیں جس کی وجہ سے اس کے معدوم ہونے کے خطرات کئی گنا زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچی زبان میں ادب تو پیدا ہو رہا ہے لیکن یہ ٹیکنالوجی کی زبان نہیں تھی، کیونکہ انٹرنیٹ پر بلوچی زبان میں بہت کم مواد موجود ہے۔ اس تناظر میں گوگل ٹرانسلیشن میں بلوچی زبان کی شمولیت ایک خوش آئند عمل ہے۔
بلوچی اکیڈمی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق اکیڈمی، کوئٹہ ایک قدیم رجسٹرڈ ادبی اور ثقافتی ادارہ ہے جس کے پاس بلوچی زبان، فن اور ثقافت کے فروغ اور دیگر علاقائی زبانوں کے ساتھ تعامل کا مینڈیٹ ہے۔ اکیڈمی رضاکاروں کے ذریعے چلائی جاتی ہے، اس کا کوئی سیاسی یا مذہبی تعلق نہیں ہے۔ اس سمت میں گزشتہ صدی کی پانچویں دہائی کے آخری سالوں میں کچھ بلوچ دانشوروں کی جانب سے قابل تعریف کوششیں کی گئیں جب انہوں نے بلوچی اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا عزم کیا جس کا بنیادی مقصد بلوچی زبان، ادب، ثقافت اور تہذیب کی ترقی اور فروغ تھا۔ جناب عبدالقیوم بلوچ اس مہم کے سب سے آگے تھے۔ اسی کوشش کے نتیجے میں 1958 میں مستونگ میں ادیبوں، شاعروں، سیاسی اور قبائلی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی، جس کا بنیادی مقصد بلوچی اکیڈمی کے لیے ان کی عملی، مالی، سیاسی اور اخلاقی حمایت حاصل کرنا تھا۔ لیکن اس وقت کی حکومت نے مزاحمت کی اور ان کوششوں کو ناکام بنایا اور چند ہفتوں کے بعد بلوچی اکیڈمی کے کنویئر جناب عبدالقیوم کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔ چنانچہ بلوچی اکیڈمی کے باضابطہ قیام کی کوششیں کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دی گئیں۔ تاہم ان تمام رکاوٹوں کے باوجود اکیڈمی کا باقاعدہ قیام 1961 میں عمل میں آیا
اپنے بنیادی مقاصد کی تکمیل میں، اکیڈمی نے بلوچی زبان و ادب کی ترقی اور پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے بلوچی ادب، ثقافت، روایات اور کلاسیکی اقدار کے تعارف کے لیے کئی کتابیں شائع کیں۔ بلوچی زبان اور اس کے ادب کے علاوہ اکیڈمی نے اردو، انگریزی اور فارسی میں بھی 350 سے زائد کتابیں شائع کی ہیں، جن میں بلوچی اور بلوچستان کے مختلف موضوعات شامل ہیں۔ اس طرح اس اسٹیبلشمنٹ نے بلوچ قوم کے علم، ادب، تاریخ اور ثقافت سے متعلق قیمتی مواد اکٹھا کیا اور شائع کیا جو اسے نسل در نسل دل سے منتقل ہوتا رہا۔
یوں اس ادارے نے اب تک بلوچی شاعری، تاریخ اور ثقافت کے موضوعات پر سینکڑوں کتابیں شائع کر کے بلوچی زبان کے قیمتی ورثے کو کتابی صورت میں محفوظ کیا ہے، یہ کتابیں بلوچستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں۔
اس اکیڈمی نے بلوچی زبان کو جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس(اے آئی) چیٹ جی پی ٹی اور روبوٹکس سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک باقاعدہ پراجیکٹ ’بلوچی نیچرل لینگویج پراسیسسنگ‘ (این ایل پی) پر کام کا آغاز کیا ہے۔
بلوچی اکیڈمی کے علاوہ دنیا کے مختلف کونوں میں بسنے والے بلوچ، اپنی زبان کو ڈیجیٹائز کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اس میں گوگل کمپنی میں کام کرنے والے محمد جہانگیر بھی شامل ہیں، جنہوں نے بلوچی زبان کو گوگل ٹرانسلیٹ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سوشل میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارمز پر بلوچی زبان کو ڈیجیٹلائز یا گوگل ٹرانسلیٹ کا حصہ بنانے کے اقدام کو بہت سراہا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں مزید اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے۔
گوگل ٹرانسلیشن کے عمل میں شامل عبداللہ دشتی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹرانسلیشن کے حوالے سے گوگل کے ساتھ کام کیا تھا۔ ابتدائی طور پر گوگل نے اسے عمل کو 2021 میں شروع کیا تھا جبکہ مارچ 2023 میں گوگل نے اس حوالے سے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ان کے لیے کام کریں۔
عبداللہ بتاتے ہیں ”گوگل نے ٹرانسلیشن کے حوالے سے ایک کنٹریبیوٹری لنک شیئر کیا تھا، جس کی مدد سے ہر وہ شخص، جو بلوچی اور انگریزی لکھنا اور پڑھنا جانتا تھا، انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنا حصہ ڈالا۔“
انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے اب بلوچی زبان جاننے والے اسے آسانی سے دنیا کی دو سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔
لسانی جغرافیہ کی بات کی جائے تو بلوچی زبان پاکستان میں بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران، افغانستان، عرب ممالک، ترکمانستان، روس اور دنیا کے دیگر خطوں میں بھی بلوچی زبان بولنے والے مقیم ہیں۔
بلوچی زبان ابھی تک کسی بھی ملک کی سرکاری زبان نہیں بن سکی ہے۔ یوں تو بلوچی زبان کو آٹھ سے نو ہزار سال قدیم تہذیب مہر گڑھ سے جوڑا جاتا ہے، لیکن تاریخی طور پر یہ بات واضح نہیں کہ مہر گڑھ میں کون سی زبان بولی جاتی تھی۔ کچھ ماہرین کے مطابق بلوچی زبان تقریباً تین سے پانچ ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے
تاہم اس زبان کے تحریری آثار اٹھارویں صدی میں پائے جاتے ہیں، جب انگریزوں نے بلوچی ادب کو انگریزی یا رومن رسم الخط میں لکھنا شروع کیا تھا، لیکن اب بلوچی فارسی یا عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور بلوچی ادب کا بیشتر سرمایہ اسی رسم الخط میں محفوظ کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ بلوچی زبان خطے میں لاکھوں لوگوں کی مادری زبان ہے، اور دنیا کے کئی ملکوں میں بلوچی زبان بولنے والے لوگ موجود ہیں لیکن جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے پلیٹ فارمز پر اس کی نمائندگی بہت محدود رہی ہے۔
بلوچی زبان کو گوگل ٹرانسلیشن میں شامل کرنا نہ صرف زبان کے بولنے والوں کو سہولت فراہم کرے گا بلکہ یہ ثقافتی ورثے کے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ زبان کسی بھی قوم کی شناخت کا حصہ ہوتی ہے، اور اس کی ڈیجیٹل دنیا میں شمولیت اس کی بقا اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ اس سے بلوچی ادب، شاعری، اور تاریخ کو بھی عالمی سطح پر پہنچنے کا موقع ملے گا۔
گوگل ٹرانسلیشن میں شمولیت کے بعد بلوچی زبان کو سیکھنے اور سکھانے کے لئے نئے مواقع پیدا ہوں گے، خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جو بلوچی زبان نہیں جانتے لیکن سیکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ڈیجیٹل مارکیٹ میں بلوچی زبان کی شمولیت کاروباری افراد کو نئے صارفین تک پہنچنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔
تاہم لسانی ماہرین کے مطابق ابھی اس حوالے سے کئی تکنیکی چیلنجز درپیش ہیں۔ ڈیٹا کی دستیابی کی دستیابی کی بات کی جائے تو گوگل ٹرانسلیشن کے لئے بڑے پیمانے پر متن کا ڈیٹا درکار ہوتا ہے تاکہ مشین لرننگ کے ماڈلز کو تربیت دی جا سکے۔ بلوچی زبان کے لئے ایسے ڈیٹا کی کمی ہے، خاص طور پر ڈیجیٹل فارمیٹ میں۔
لسانی پیچیدگیاں بھی اہم مسئلہ ہے۔ بلوچی زبان کے کئی لہجے ہیں، اور ہر ایک میں الفاظ کی ادائیگی اور جملے کی ساخت مختلف ہو سکتی ہے۔ ان تمام لہجوں کو مدنظر رکھ کر ایک جامع ترجمہ سسٹم تیار کرنا چیلنجنگ ہو سکتا ہے۔
تکنیکی ترقی کے لئے زبان کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جو زبان کی باریکیوں کو سمجھ سکیں اور ماڈلز کو تربیت دینے میں مدد کر سکیں۔
بلوچی زبان کو گوگل ٹرانسلیشن میں شامل کرنے کے لئے حکومتوں، تعلیمی اداروں، اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مشترکہ کوششوں سے ڈیٹا اکٹھا کرنے، ماڈلز کو تربیت دینے، اور زبان کے ماہرین کو شامل کرنے کے لئے وسائل فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
بلوچی زبان کی گوگل ٹرانسلیشن میں شمولیت ایک مثبت قدم ہوگا جو نہ صرف زبان کے بولنے والوں کو فائدہ پہنچائے گا بلکہ عالمی سطح پر زبان کی شناخت اور ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کے لئے مستقل کوششوں اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت کی ضرورت ہوگی تاکہ زبان کو ڈیجیٹل دنیا میں کامیابی سے شامل کیا جا سکے۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں کچھ مواد انڈیپینڈنٹ میں شائع گہرام اسلم بلوچ کی ایک رپورٹ سے لیا گیا ہے۔ اضافی رپورٹ: امر گل