دنیا کے ’خوش قسمت ترین بد قسمت آدمی‘ فرین سیلک کی حیرت انگیز کہانی، جس نے 7 بار موت کو چکمہ دیا!

آپ خوش قسمتی کو کیسے بیان کریں گے۔۔۔؟ کسی حادثے سے بچنا یا لاٹری جیتنا؟ کچھ لوگ کہیں گے کہ خوش قسمتی صحیح وقت پر صحیح جگہ پر ہونا ہے۔۔ یا شاید غلط وقت پر غلط جگہ پر ہونا اور پھر بھی بغیر کسی نقصان کے نکل جانا۔۔ ایک شخص تھا، جس نے یہ سب کچھ دیکھا – اور اس سے بھی زیادہ!

اگر آپ نے آرنلڈ شوارزنیگر کی فلمیں دیکھی ہیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مضحکہ خیز اور ناممکن مناظر بس عام سی بات ہیں۔۔ یہ وہی طریقہ ہے جو بڑی اسکرین پر کام کرتا ہے، لیکن سیلک کے لیے حقیقت ہالی ووڈ کی کسی بھی تخلیق سے زیادہ عجیب اور ڈرامائی تھی۔ لیکن اصل حقیقت کیا ہے؟

یہ سادہ مزاج آدمی 1929 میں کروشیا میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے اپنی زندگی بطور موسیقی کے استاد گزاری، جو کہ زیادہ خطرناک یا دلیرانہ پیشہ نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن 1962 میں ایک بدقسمت ٹرین سفر نے ان کی زندگی میں ناممکن واقعات کی ایک ناقابل یقین لڑی کو جنم دیا۔

اس کی زندگی کی ناقابلِ یقین کہانی کی وجہ سے انہیں دنیا کا ’خوش قسمت ترین بد قسمت آدمی‘ قرار دیا گیا۔۔۔ یا شاید اس کا الٹ۔۔ کچھ لوگ اسے ’بدقسمت ترین شخص‘ کہتے ہیں، کچھ کے نزدیک وہ ’خوش قسمت ترین‘ اور کچھ اسے ’خوش قسمت ترین بد قسمت آدمی‘ کہتے ہیں۔۔ ان کی قسمت اتنی غیر معمولی تھی کہ چھ بار شادی کرنا ان کی زندگی میں پیش آنے والے دیگر واقعات کے مقابلے میں ایک معمولی بات معلوم ہوتی ہے۔

سیلک کو ایک ایسا شخص کہا جاتا تھا جس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے شکست دی۔۔ بار بار، مجموعی طور پر سات بار!

چار دہائیوں کے دوران، سیلک نے تقریباً ہر قسم کے نقل و حمل کے حادثے کا سامنا کیا، سوائے کشتی کے۔۔ لیکن کشتی سے تو دراصل اغاز ہوا تھا، جی ہاں، وہ 1929 میں ایک کشتی میں ہی پیدا ہوا تھا۔ اس کے والدین ڈبروونک کے قریب مچھلی پکڑنے گئے تھے؛ اس کی والدہ، جو اس وقت سات ماہ کی حاملہ تھیں، قبل از وقت درد زہ میں مبتلا ہوئیں اور ساحل تک پہنچنے سے پہلے ہی کشتی میں بچے کو جنم دیا۔۔ یہ سلیک کی پیدائش تھی۔

اس لمحے سے آگے، حقائق کچھ غیر واضح ہو جاتے ہیں۔ سیلک کی زندگی کی کہانی اکثر آن لائن شیئر کی گئی ہے اور جتنا زیادہ اس پر غور کریں، یہ کہانی اتنی ہی زیادہ رنگین اور سنگین ہو جاتی ہے، لیکن ان واقعات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے، قیاس کیا جاتا ہے کہ بعض تفصیلات کبھی کبھار کچھ بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ہوں۔

پھر بھی، یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جو زیادہ تر درست ہے اور ہم یہاں اس شخص کی وراثت پر تنقید کرنے کے لیے نہیں آئے – یہاں وہ سب کچھ ہے، جو اس نے خود کہا کہ یہ کیسے ہوا:

فرین سیلک نے موت کا پہلی بار 1957 میں اس وقت سامنا کیا، جب وہ ایک بس میں سوار تھا، بس سڑک سے پھسل کر ایک دریا میں جا گری۔ سیلک اور بس ڈرائیور دونوں بس سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور تیر کر کنارے تک پہنچے۔ سیلک نے بعد میں بیان کیا کہ ڈرائیور نے کبھی بھی آدھی بوتل راکیہ پیے بغیر گاڑی نہیں چلائی تھی، لیکن پھر بھی وہ ایک بہترین ڈرائیور تھا۔ درحقیقت، بس میں سوار ہونے سے پہلے دونوں نے راکیہ کا ایک گھونٹ پیا تھا، اور ان کا سفر کا مقصد مزید چند گھونٹ پینے کے لیے ہی تھا۔ وہ دونوں اس خطرناک حادثے میں بچ گئے اور انہیں صرف معمولی چوٹیں ہی آئیں۔۔ تاہم یہ دل دہلا دینے والا واقعہ اس کے لیے صرف ایک آغاز تھا۔

1962 میں ایک بار پھر آفت آئی، جب سیلک ایک ٹرین میں سوار تھا جو سراجیوو سے ڈبروونک جا رہی تھی۔ ایک بڑا پتھر پٹری پر گر گیا، جس سے ٹرین پٹری سے اتر کر برفیلے دریا نیریٹوا میں جا گری۔ سیلک نے ڈبے کی کھڑکی توڑ کر باہر نکلنے میں کامیابی حاصل کی اور اپنے ساتھ سفر کرنے والے ایک واقف کار کی بھی جان بچائی۔ دونوں کو قریبی گاؤں کے لوگوں نے دریا سے نکالا اور سیلک کو صرف ایک بازو ٹوٹنے اور ہائپوتھرمیا کا سامنا کرنا پڑا۔ حادثے میں دیگر سترہ مسافر ہلاک ہو گئے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ٹرین میں پھنسے زخمیوں کی مدد بھی کی جس پر انہیں بعد میں کروشیا کی حکومت کی جانب سے انعام سے نوازا گیا۔ اس ٹرین حادثے میں 19 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے۔

اگلے ہی سال یعنی 1963 میں، سیلک اپنی بیمار والدہ سے ملنے کے لیے زگریب سے ریکا جانے والی ایک چارٹر فلائٹ میں سوار ہوا۔ پرواز مکمل طور پر بُک ہو چکی تھی، لیکن اس نے بتایا کہ اسے ایک خاندانی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے اور عملے کو راضی کر لیا کہ اسے لے جائیں۔ وہ طیارے کی پچھلی نشست پر ایک فضائی میزبان روزیکا کے ساتھ بیٹھا تھا۔

منزل کے ہوائی اڈے کے قریب پہنچتے ہی طیارے میں ایک تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی اور یہ نیچے کی طرف جانے لگا، آخر کار ایک چٹان سے ٹکرا گیا۔

تصادم سے پہلے طیارے کا دروازہ اڑ گیا تھا، اور سیلک 800 میٹر کی بلندی سے طیارے سے باہر نکل گیا – تمام مشکلات کے باوجود، وہ ایک بھوسے کے ڈھیر پر جا گرا، جس نے اس کی جان بچا لی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی روزیکا بھی بچ گئی، جب کہ باقی تمام مسافر حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کے بعد سیلک نے دوبارہ کبھی ہوائی جہاز میں سفر نہیں کیا۔

لیکن عوامی نقل و حمل کے اس ذریعے سے گریز کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ 1970 میں، سیلک ایک کار چلا رہا تھا، کہ اچانک کار میں آگ لگ گئی۔ وہ ایندھن کے ٹینک تک آگ پہنچنے سے چند سیکنڈ پہلے گاڑی سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

1970 ہی کا ایک اور واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ فرین سیلک سکائی ڈائیونگ کے دوران مرتے مرتے اس وقت بچا، جب آسمان سے کودنے کے بعد اس کا پیرا شوٹ ہی نہیں کھُلا۔ لیکن خوش قسمتی سے اس واقعے میں بھی وہ بحفاظت زمین پر اترنے میں کامیاب ہوا اور سلامت رہا۔

1973 میں، ایک اور بار کار میں سفر کے دوران کار میں خرابی ہوئی۔ سیلک گاڑی چلا رہا تھا، جب ایک خراب فیول پمپ، گرم تیل انجن میں لیک کرنے لگا، جس سے کار کے اندر ہوا کے راستوں میں سے آگ کے شعلے نکلنے لگے۔ سیلک کے زیادہ تر بال جھلس گئے، لیکن اسے کوئی اور چوٹ نہیں آئی۔

1995 میں، وہ زگریب میں ایک بس کی زد میں آ گیا۔ وہ گلی پار کررہا تھا تو اچانک ایک تیز رفتار بس بے قابو ہو کر گلی میں گھس آئی۔ اس واقعے میں بھی جہاں کئی لوگ بس کے نیچے آکر جان سے گئے، فرین سیلک کو معمولی زخم آئے۔

ایک سال بعد سلیک ایک پہاڑی سڑک پر اپنی گاڑی میں جا رہا تھا کہ اقوام متحدہ کا ایک ٹرک اس کی گاڑی سے ٹکرانے کے قریب پہنچا۔۔ سیلک نے ٹکر سے بچنے کے لیے آخری لمحے میں گاڑی کو پہاڑی سڑک کی حفاظتی دیوار کی طرف موڑا۔ دیوار ٹوٹ گئی اور اس کی کار تقریباً ایک سو میٹر نیچے کھائی میں جا گری۔

تاہم، سیلک صرف اس وجہ سے بچ گیا کہ اس نے اس وقت سیٹ بیلٹ نہیں پہنے ہوئے تھے، اس نے گاڑی کی کھڑکی سے چھلانگ لگائی اور ایک درخت سے لپٹ گیا، اس نے گاڑی کو نیچے گرتے اور پھٹتے ہوئے دیکھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس حادثے کے بعد اس نے کبھی بھی سیٹ بیلٹ استعمال نہیں کی۔

کئی بار کے حادثوں میں موت کو چکمہ دینے والا یہ شخص 2016 میں 86 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔۔ پچھلی دہائی یا اس سے زیادہ عرصے میں، سیلک کسی حد تک انٹرنیٹ کی مشہور شخصیت بن گیا تھا، اور اس کی زندگی کی کہانی ہر چند سالوں میں دوبارہ منظر عام پر آتی رہتی ہے۔ کروشیا کی میڈیا کے علاوہ، سیلک کی ناقابل یقین قسمت کو بی بی سی اور گارڈین نے بھی رپورٹ کیا، ساتھ ہی بہت سے چھوٹے بلاگز اور فورمز پر بھی ان کے بارے میں لکھا گیا۔

’دِس اینڈ دیٹ وژولز‘ نامی یوٹیوب چینل نے ان کی زندگی کی کہانی کو ایک اینیمیٹڈ فیچر میں تبدیل کیا، جسے 2014 میں ویڈیو شائع ہونے کے بعد سے 3 ملین سے زیادہ بار دیکھا گیا۔ یہ خاص واقعہ سیلک کو سب سے زیادہ پریشان کر گیا، کیونکہ اسے ویڈیو کا انداز پسند نہیں آیا اور وہ اس بات سے خوش نہیں تھا کہ اس کی مشکلات سے بغیر اس کی مرضی کے دوسروں نے فائدہ اٹھایا۔ اس نے اس وقت کہا تھا، ”امریکیوں کو کوئی اندازہ نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے مونچھیں لگا دی ہیں اور میرے تمام حادثات کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔“

ہماری طرف سے، ہم امید کرتے ہیں کہ ہم نے اس مضمون میں کوئی چیز گڈ مڈ نہیں کی۔ تمام واقعات ویسے ہی درج کیے گئے ہیں جیسے سیلک نے خود 2014 میں Jutarnji کے ساتھ ایک انٹرویو میں بیان کیے تھے۔۔

کیا سیلک انسانی تاریخ کا سب سے بدقسمت آدمی ہے، جس کے ساتھ یہ سب حادثات پیش آئے، یا وہ سب سے خوش قسمت ہے کہ وہ ان سے بچ نکلا؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کا نقطہ نظر کیا ہے۔

لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ ان کہانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ اس سلسلے میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کے ان سات واقعات پر کچھ شکوک ہیں۔ خود سیلک نے اپنی زندگی کی کہانی کے ڈرامے کو نمایاں کرنے کا خاص خیال رکھا اور ان واقعات کا اپنے اوپر پڑنے والے اثر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

”ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں خوش قسمت تھا کہ میرے پاس کوئی دوست بچا ہی نہیں تھا۔“ اس نے ایک بار کہا، ”بہت سے لوگوں نے کہنا چھوڑ دیا کہ میں بد نصیب ہوں۔“

لیکن حقیقت اور افسانے کی حد کہاں دھندلا جاتی ہے؟ یہ سچ ہے کہ ان واقعات کی کچھ سرکاری تصدیق نہیں ہے (مثلاً 1963 کے ہوائی جہاز کے حادثے اور اس سے پہلے کی ٹرین حادثے کی)، اور کچھ واقعات میں تضاد بھی ہے۔ چاہے یہ یادداشتوں کی ناکامی ہو، مبالغہ ہو یا کچھ اور۔۔ ہم شاید اس آدمی کی غیر معمولی زندگی کی پوری حقیقت کبھی نہ جان سکیں۔ ایک بات تو یقینی ہے: اس کہانی میں ایک اور حیرت انگیز عنصر بھی تھا، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ان کی زندگی میں ہونے والے قریب قریب جان لیوا حادثات میں آخری تھا، لیکن اس بار اس نے اپنی قسمت کو ایک اور طرح سے آزمایا۔

سیلک کی قسمت بدلتی ہے
2000 کی دہائی کے وسط میں، جیسے کہ خوش قسمتی ان کے ساتھ ہونے والے خوفناک واقعات کی تلافی کر رہی ہو

جی ہاں، سیلک نے ان سب واقعات کے بعد جیک پاٹ (لاٹری) کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ معلوم ہوا، واقعی قسمت بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔

اپنے 73ویں یوم پیدائش کے چند دن بعد، سیلک نے کروشیا میں 6.5 ملین کُنا کا جیک پاٹ جیت لیا (تقریباً نو لاکھ یورو)۔ اس نے ایک گھر خریدا اور ساتھ ہی چھٹیاں گزارنے کے لیے بھی ایک خوبصورت مکان لے لیا، پھر اپنی جیت میں سے باقی رقم دوستوں اور خاندان کے ساتھ فراخ دلی سے بانٹ دی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نے 25 کاریں خریدیں اور بہت سے لوگوں کو قرض دیا – جن میں سے زیادہ تر، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، کبھی واپس نہ مل سکا۔ یہ انہیں کڑوا نہیں بنا سکا، اور وہ کبھی کبھار مذاق میں کہا کرتا تھا کہ اس کے پاس کاروباری ذہن نہیں ہے۔

اس نے 2010 میں اپنا ارادہ بدل کر گھر فروخت کر دیا۔ اس نے اپنی پانچویں بیوی کے ساتھ سادہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔

”اس عمر میں مجھے صرف میری کترینا (بیوی کا نام) کی ضرورت ہے۔ پیسہ کچھ نہیں بدلے گا… جب وہ آئی تو مجھے پتہ چلا کہ میری زندگی واقعی خوش قسمتی سے بھری ہوئی ہے۔“

جو کچھ بھی زندگی کے راستے میں ہوا، فرین سیلک کی کہانی کا اختتام خوشگوار رہا۔ اس نے اپنی جیتی ہوئی رقم کا آخری حصہ اپنے کولہے کے آپریشن پر خرچ کیا اور اپنے خوش نصیب ہونے پر اظہارِ تشکر کے لیے ورجن میری کا ایک مجسمہ نصب کیا۔

اضافی نوٹ: کچھ دیگر آرٹیکلز میں اس کی زندگی میں پیش آنے والے سات واقعات، جن میں وہ یقینی موت کے دہانے پر پہنچ کر بچ نکلا، کی ترتیب اور تفصیل درج ذیل ہے:

1. ٹرین حادثہ (1962): سیلک ایک ٹرین میں سفر کر رہا تھا، جو پٹری سے اتر کر ایک برفانی دریا میں جا گری۔ اس حادثے میں 17 افراد جاں بحق ہوئے، لیکن سیلک کو معمولی زخم آئے اور وہ زندہ بچ نکلا۔

2. ہوائی جہاز کا حادثہ (1963): وہ ایک ہوائی جہاز میں سفر کر رہا تھا جب جہاز کا دروازہ کھل گیا اور سیلک جہاز سے باہر گر گئے۔ یہ حادثہ ہنگامی لینڈنگ کے دوران پیش آیا، اور سیلک ایک کھیت میں گر کر محفوظ رہا جبکہ 19 افراد جاں بحق ہو گئے۔

3. بس حادثہ (1966): ایک بس حادثے میں، جو کہ ایک دریا میں جا گری، سیلک زندہ بچ گیا، جبکہ چار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

4. کار حادثہ (1970): اس کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اچانک انجن میں آگ لگ گئی۔ وہ وقت پر گاڑی سے باہر نکل آیا اور محفوظ رہے، لیکن گاڑی مکمل طور پر جل گئی۔

5. دوبارہ کار حادثہ (1973): تین سال بعد، ایک اور کار حادثے میں اس کی گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی۔ وہ بچ نکلا، لیکن اس بار اس کے بال جل گئے۔

6. بس کی ٹکر (1995): سیلک کو ایک بس نے ٹکر ماری لیکن اسے معمولی چوٹیں آئیں اور وہ دوبارہ بچ گیا۔

7. پہاڑ سے گرنا (1996): سیلک ایک پہاڑی سڑک پر اپنی کار چلا رہا تھا جب اس کی کار بے قابو ہو کر پہاڑ سے نیچے جاگری۔ وہ وقت پر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور ایک درخت کی شاخ کو پکڑ کر زندگی بچائی۔

بہرحال فرین سیلک کی کہانی اس بات کی مثال ہے کہ بعض اوقات زندگی کیسے حیرت انگیز اور ناقابل یقین موڑ لے سکتی ہے۔

(اس فیچر کی تیاری میں ریپلیز ڈاٹ کام، ٹوٹل کروشیا ڈاٹ کام اور دیگر ویب سائٹس کے مضامین سے مدد لی گئی ہے۔ ترجمہ، ترتیب و اضافہ: امر گل)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close