سندھ کا صحرائے تھر: بارش کی نوید، زندگی کا ساز، اور لوک گیتوں کی گونج

فیچر رپورٹ: امر گل

تھر میں زندگی کا ہر لمحہ ایک دعا کی طرح ہوتا ہے، اور ہر سانس جیسے دھرتی کے سینے پر چلتی ہوئی ہوا کا مدھم سرگم۔ یہ سرزمین جہاں زمین کی وسعتیں اور آسمان کی گہرائیاں ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتی ہیں، یہاں کے لوگ ان دو عظیم وسعتوں کے بیچ جھولتے، زندگی کو پیار سے سینچتے ہیں۔ تھر کی خشک زمین پر چلتے ہوئے لوگوں کی زندگی میں سب سے قیمتی شے، ایک خواب کی طرح، بارش ہے۔ بارش جو صرف ایک فطری ضرورت نہیں، بلکہ ایک جذبہ، ایک تمنا، اور ایک خواب بن کر تھر والوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہے۔

صحرائے تھر کی زندگی شاید دنیا کی سب سے پرانی اور صابر زندگیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگوں کے چہرے، ہوا سے تراشیدہ ریت کی چٹانوں جیسے، سادگی اور وقار کی علامت ہیں، اور ان کی آنکھوں میں تپتی دھوپ سے اس صحرا کی چمکتی ریت جیسے خواب ہیں۔ ان کے دلوں میں زمین کی طرح وسعت ہے، ان کی زندگی کا ہر دن ایک نئے امتحان کی طرح ہوتا ہے، جہاں کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنا ان تھک جفاکشی کا متقاضی ہے۔ پانی کی کمی اور فصلوں کی ناکامی کے باوجود، وہ ہر صبح ایک نئی امید کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں۔

لیکن یہ زندگی محض مشکلوں کا پلندہ نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنی سرزمین کی طرح دل کے بھی زرخیز ہیں۔ وہ محبت، وفا، اور صبر کی خوبصورت داستانیں رقم کرتے ہیں۔ اور جب آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں، تو جیسے ان کے دلوں کی خوشی بھی کھل اٹھتی ہے، جیسے ایک صدیوں پرانی پیاس بجھنے والی ہو۔

بارش صحرائے تھر کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔ تھر میں بارش کا ہر قطرہ ایک موتی کی طرح ہوتا ہے، جو زندگی کے دریا کو سیراب کرتا ہے۔ جب آسمان پر بادل گرجتے ہیں اور بارش کی پہلی بوند زمین کو چھوتی ہے، تو یوں لگتا ہے جیسے زمین نے ایک گہرا سانس لیا ہو۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جس کا تھر کے لوگ سالوں تک انتظار کرتے ہیں۔ خشک سالی کے دنوں میں، بارش کی دعا ان کے لبوں پر ورد کی طرح رہتی ہے۔ یہاں بارش صرف زمین کو ہی نہیں، دلوں کو بھی سیراب کرتی ہے۔

جب بارش ہوتی ہے، تو تھر کی زمین جیسے ایک نئی زندگی پا لیتی ہے۔ ہر طرف سبزہ چھا جاتا ہے، تالابوں میں پانی بھر جاتا ہے، اور جانور چراگاہوں میں خوشی سے چرتے ہیں۔ یہ موسم تھر والوں کے لیے کسی خوشخبری سے کم نہیں ہوتا۔ ساون کا آنا، جیسے ایک خوبصورت نغمہ ہو، جو دلوں کو خوشی سے بھر دیتا ہے۔

تھر کے لوگ صدیوں سے اپنے جذبات کو لوک گیتوں میں پروتے آئے ہیں۔ یہ گیت ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں، جہاں خوشی، غم، محبت اور فراق سب کچھ ان گیتوں میں جھلکتا ہے۔ خاص طور پر بارش اور ساون کے گیت ان کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان گیتوں میں بارش کو صرف ایک قدرتی عمل نہیں بلکہ ایک روحانی تجربہ سمجھا جاتا ہے۔

ساون کے گیت، جیسے ہوا کے ساتھ بہتے ہوئے دل کے جذبات، محبت اور انتظار کی داستان سناتے ہیں۔ ایک محبوبہ ساون کی بارش میں اپنے محبوب کا انتظار کرتی ہے، اور اس کی آنکھوں میں امید کے دیے جلتے ہیں۔ ایک کسان آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے کھیتوں کے لیے بارش کی دعا کرتا ہے، اور اس کے دل میں ایک امید جاگتی ہے کہ فصلیں ہری بھری ہوں گی۔

تھر کے یہ لوک گیت صرف الفاظ نہیں ہیں، بلکہ جذبات کا وہ سمندر ہیں جن میں تھر کے لوگ اپنی زندگی کی ہر آزمائش کو پار کرتے ہیں۔ جب بادل گرجتے ہیں اور بارش برسنے لگتی ہے، تو تھر کے گاؤں گاؤں میں یہ گیت گائے جاتے ہیں۔ ان گیتوں میں ایک فطری جادو ہوتا ہے، جو دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے اور بارش کے ساتھ محبت کا رشتہ جوڑتا ہے۔

ادبی نقاد کہتے ہیں کہ لوک گیت ایسی صنف ہے جس کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں ان کے بول اتفاقیہ طور پر چند حساس لوگوں کے کیفیات کی ترجمانی بن کر نکلے، پھر وہ زبان زد عام ہو گئے ہوں گے، جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔

ساون سے جڑے تھر کے لوک گیت، بارش کی آمد کو محبت کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک گیت میں محبوب بارش کے ساتھ آنے والے پیغام کو محبت کا استعارہ سمجھتا ہے۔ بارش جیسے ان گیتوں میں ایک عاشق کا لمس بن جاتی ہے، جو دوری اور فراق کو ختم کر دیتی ہے۔

ساون کے دنوں میں، جب تھر کی زمین پر بارش ہوتی ہے، تو یہ گیت دلوں میں گونجتے ہیں اور ہر گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ گیت زمین کی محبت، فطرت کی عظمت، اور انسان کے دل کی گہرائیوں کو بیان کرتے ہیں۔

تھر کے مقبول لوک گیت اور ان سے جڑی کہانیاں

ہمرچو

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک بار تھر میں بارش نہیں ہوئی اور غضب کا کال پڑا۔ تھر کے ایک گاؤں میں ’سوڈھی‘ اور اس کا شوہر ’چُھتا‘ رہتے تھے۔ قحط سے تنگ پورا گاؤں عمر کوٹ کے قریب آ کر آباد ہوا، لیکن کسی وجہ سے چُھٹا بے چارہ گاؤں میں ہی رہ گیا۔ جب بارش ہوئی تو فصل بھی اُگائی گئی اور پھر کٹائی کے وقت ’سوڈھی‘ نے ایک گیت گایا، جو آج ہمرچو کے نام سے مشہور ہے۔ اس گیت میں بارش کے بعد تھر کی کھیتی، باڑی، گھاس پُھوس، ہریالی اور جغرافیائی حالات کا ذکر ملتا ہے۔ ہمرچو کے بول یہ ہیں: میرا دیس تو دور رہ گیا الا، ہمرچو ہو رے الا سب سکھیاں ٹیلوں پر گھوم رہی ہیں۔ الا ہمرچو ہو رے الامیں یہاں اکیلی رہ گئی ہوں۔۔

ایک روایت کے مطابق لفظ ’ہمرچو‘ بنیادی طور پر ’’ہم راہ اچو‘‘ (ساتھیو آؤ!) ہے جو گیت میت میں بس کر ’ہمرچو‘ بن گیا ہے۔ یہ گیت تھر میں اُبھرا اور پھر پورے سندھ میں مشہور ہوا۔

جب تھر کے صحرا میں بارشیں ہوتی ہیں، صحرا میں ریت کے ٹیلوں اور درختوں کی ٹہنیوں پر مور، پرندے گانے لگتے ہیں۔ چرواہے بانسری اور ’چنگ‘ بجانے لگتے ہیں۔ تھر کے باسی بارش میں اپنے کھیتوں میں کھیتی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کے کھیت ہرے بھرے ہو جاتے ہیں اور فصل جب تھوڑی بڑی ہوتی ہے تو باسی اس وقت گروپ کی شکل میں یہ مخصوص گیت گاتے ہیں۔

یہ گیت فصل کے لیے زمین کی تیاری کے وقت یا پھر فصل کی کٹائی کے وقت لوگ مل کر گاتے ہیں۔ شروع میں دو یا تین لوگ سر میں گیت الاپنا شروع کرتے ہیں اور پھر باقی لوگ ان کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔

تھر کے ایک باسی پہلاج کولہی کا کہنا ہے ”ہمرچو ساون رت کا گیت ہے، ہم اسے خوشی کا گیت کہتے ہیں اور خوشی سے گاتے ہیں۔ یہ گیت اس وقت گایا جاتا ہے جب کھیت میں فصل تھوڑی بڑی ہو جاتی ہے اور کسان فصل سے گھاس نکالتے ہیں۔ اس وقت گانے کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہمرچو گاتے ہوئے اگر ہم گھاس نکالتے ہیں تو ہمیں تھکان محسوس نہیں ہوتی ہے۔ گیت ہمیں تھکنے نہیں دیتا۔“

وقت کے ساتھ ساتھ اس گیت کو گانے کا ایک مخصوص انداز بھی تشکیل پایا ہے۔ یہ گیت کھیتوں میں کسان گروپ کی شکل میں گاتے ہیں اس وقت اس گروپ میں کم سے کم پانچ بندے ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ 20 سے 25 بندے مل کر بھی گا سکتے ہیں۔

پہلاج کولہی کے مطابق، سارے کسان ایک ہی سر میں گاتے ہیں۔ اگر ایک بندا گا کر چھوڑتا ہے تو دوسرا وہاں سے شروع کرتا ہے جہاں دوسرا چھوڑتا ہے تو وہاں سے تیسرا گانا شروع کرتا ہے

پہلاج کہتے ہیں ”جب کسان اپنے کھیتوں میں گھاس نکالنے کے وقت یہ گیت گا رہے ہوتے ہیں، اس وقت ان کے بچے بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں، وہ بھی انہیں گاتے ہوئے سنتے رہتے ہیں اور گنگنانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہمارا گیت ختم ہونے والا نہیں ہے اگلی نسل تک چلتا رہے گا۔“

ان کا کہنا ہے کہ ہمرچو میں مختلف اقسام کے گیت ہیں ایک کھیت میں ایک گیت گاتے ہوئے کسان ملیں گے تو دوسرے کھیت میں گانے والے کسان کوئی دوسرا گیت گاتے ہوئے ملیں گے۔

رائدھن وَریہ

رائدھن وَریہ۔ تھر کابے حد مشہور گیت ہے ،جسے بارش کے موسم میں تھر کی نوخیز لڑکیاں گاتی ہیں۔ موسلادھار بارشوں کے بعد جب تھر کے لوگوں اور جانوروں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے تو لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں یہ گیت گا کر اس خوشی کو الفاظ کا روپ دیتی ہیں۔

اس گیت کا پس منظر یہ ہے کہ سومرا دور حکومت میں رائدھن سومرو نامی حکم راں ایک دفعہ ڈھٹ کے علاقے میں ایک تالاب کے کنارے ٹھہرا۔ اسی تالاب پر گاؤں کے مکھیہ کی خوبصورت بیٹی کے ساتھ گاؤں کی لڑکیاں پانی بھرنے آئی ہوئی تھیں۔ مکھیہ کی بیٹی پہلی نظر میں ہی رائدھن سومرو کو اپنا دل دے بیٹھی۔ بعد ازاں اس نے اپنی ماں سے، رائدھن سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ ماں نے اسے جواب میں دیا ’’وہ تو بادشاہ ہے، تم سے کیسے شادی کرے گا۔“ تب لڑکی نے اپنے جذبات کا اظہار اس گیت میں کیا: ’آج تو زبردست بارش ہوئی ہے، میں نے اپنے محبوب کو تالاب پر دیکھا اے ماں! اس سے میری شادی رچا، اے جیجل ماں! اے رانی ماں!اُس کی پگڑی میں لال پھندنا لگا ہوا تھا۔ میری اس سے شادی کروا دے ۔اس نے پیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ میرا اس سے بیاہ رچا ماں!‘ لڑکی کی ضد اور محبت دیکھ کر والدین نے بادشاہ کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ رشتہ قبول ہوا اور پھر ان کی شادی ہو گئی۔

بھئیو:

تھر کا یہ مشہور لوگ گیت بھی بارش کے موسم میں فصل کے لیے زمین کی تیاری کے وقت اور بعد ازاں فصل کی کٹائی کے وقت گایا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق کسی زمانے میں تھر کے ایک گاؤں میں بھائی بہن رہا کرتے تھے، دونوں میں بے حد محبت تھی۔ جب بہتلن بڑی ہوئی تو اس کی شادی دور دراز کے ایک گاؤں میں کر دی گئی، جس کے بعد وہ اپنے پیارے بھائی کی یاد میں یہ گیت گایا کرتی تھی، اس لیے اس گیت کا نام بھئیو (بھائی) رکھا گیا۔

”بھیا! اپنی بہن کو بُلا لو بھیا! تمہاری بہنا تمہاری راہ دیکھ رہی ہے کہ میرا بھیا آ رہا ہے۔ میں نے پیپل کے درخت میں جُھولا ڈالا ہے۔ بھیا آئے گا تو ساتھ جھولیں گے۔آج تو تالاب بھی بھر گئے ہیں۔ ٹیلے پر مورنی دوڑ رہی ہے بھیا۔ مور بھی ناچ رہا ہے بھیا! آ جاؤ! مجھے اپنے دیس لے جاؤ‘

خیالی گومند:

یہ تھر کا مشہور گیت ہے جو اپنے اندر شوخی لیے ہوئے ہے، اسے خواتین بارش کے موسم میں گاتی ہیں۔ تھری محاورے میں ’شوقین نوجوان‘ کو ’خیالی گومند‘ کہا جاتا ہے۔ ایک عورت اپنے دیور کی شادی کرانا چاہتی ہے اور اس کی آنکھوں میں کاجل ڈال رہی ہے تاکہ وہ خوبصورت نظر آئے اور اس کا کہیں رشتہ ہو جائے اور پھر اس کا شادی کا شوق پورا ہو جائے۔ ”ریت کے ٹیلے برسات سے سیراب ہو گئے ہیں، زمین پر باجرا اور مونگ اُگی ہے، اے شوقین جوان! آنکھوں میں کاجل ڈال۔ کاجل تو میرے دیور کی آنکھوں کا سنگھار ہے۔ کل میں اپنے میکے جاؤں گی، تمہارے رشتے کی بات کروں گی۔ تم آنکھوں میں کاجل تو ڈالو خیالی گومند۔۔“

چرمی

جب ساون رت میں گھنگھور گھٹائیں پیاسے صحرا پر برستی ہیں اور بارش کی بوندوں سے دھرتی کے ساتھ روح بھی راحت سے معمور ہو جاتی ہے۔ جب ہریالی چاروں طرف چھا جاتی ہے۔ صحرا کے پھولوں سے من مہکتا ہے۔ ان لمحوں میں چرمی کا لوک گیت بے ساختہ ہونٹوں پے آ جاتا ہے۔ محبت کا اظہار، شکوے گلے اور شکایتیں سب چرمی کے بولوں میں ڈھل کر گونجنے لگتیں ہیں۔ جنگل ہو کہ مال مویشی کے باڑے، چراگاہوں سے لے کر بستیوں کی چہل پہل میں سگھڑوں کی محفل، ہر جگہ چرمی کے سر آلاپے جاتے ہیں۔

چرمی دراصل پہاڑوں میں اگنے والی ایک خودرو بیل کا نام ہے، جو تھر کے پہاڑی سلسلے کارونجھر میں اگتی ہے۔ تھر کے نامور محقق حاجی محمد کمہار کا کہنا ہے ”اراولی رینج کے پہاڑی سلسلے سے لے کر ننگرپارکر کے کارونجھر تک چرمی کی بیل پائی جاتی ہے۔ چرمی کی بیل میں لال گلابی رنگ کے دانے ہوتے ہیں جو پرانے زمانے میں سنار سونا تولنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ چرمی کی اہمیت سونے کا وزن کرنے کے حوالے سے ہے۔ لال رنگ کے چرمی کے دانے کا منھ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔“

پرانے وقت میں چرمی کے بیج کے دانوں کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ سنار سونے کا وزن کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ چرمی کا بیج لوبیا کے دانے کے برابر سرخی مائل رنگت کا ہوتا ہے جس کا اوپری حصہ کالے رنگ کا ہوتا ہے۔

چرمی کے بیج کو مقامی لوگ چینوٹھی اور کانگڑی بھی کہتے ہیں۔ تھر کے حکما چرمی کے بیج اور پتوں سے مختلف امراض کے لیے دوائیں بھی بناتے ہیں۔

تھر کے لوک گیتوں پر تحقیق کرنے والے بھارومل امرانی، حاجی محمد کمہار اور پروفیسر نور احمد جنجھی کی یہ رائے ہے کہ تھر کے جو مقبول ترین لوک گیت ہیں ،ان میں چرمی کی بڑی اہمیت ہے۔

یوں تو چرمی کے لوگ گیت کو تھر کے ہر ایک فنکار نے گایا ہے لیکن مراد فقیر اور مائی بھاگی نے گا کر عالمی شہرت بخشی۔ آج بھی کوئی چرمی کا گیت گائے تو سننے والے کے ذہن میں مراد فقیر اور مائی بھاگی کا نام آ جائے گا۔

اس گیت علامتی اظہارِ بیاں پایا جاتا ہے، شاعر چرمی (بیل) کی زبانی سونے سے مخاطب ہوکر کہتا ہے ”اے سونا، تو میری بات سن! ساری بات کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اگر تم سورما ہو تو میرا رنگ بھی دیکھو۔ سونا کہتا ہے کہ کالے منہ والی کامنی تو بڑی بات مت کر۔ ترازو میں تو میرے ساتھ تولی جاتی ہو لیکن تمہاری قیمت میرے برابر نہیں۔ چرمی جواب دیتی ہے کہ اے سونا! میری بیل سبز رنگ کی ہے۔ میرا لال رنگ ہے۔ میں کالے منہ والی تب ہوئی، جب تم جیسے کنجوس کے ساتھ میں ترازو میں آئی۔ سونا سنار کو کہتا ہے کہ میرا خوبصورت رنگ ہے۔ تو مجھے کالے منہ والی چرمی کے ساتھ تولتا ہے۔“

شاعر اس گیت میں چرمی کی تعریف یوں کرتا ہے، ’چرمی بابا کی لاڈلی ہے۔ جس کو نت نت بارش کا پانی پلاؤ۔۔ ندی کنارے پر پیپل کا درخت ہے۔ اس کی چار شاخیں ہیں۔ اس پیپل کی ایک شاخ پر میرا جیٹھ اور جیٹھانی جی بیٹھے ہیں۔ دوسری شاخ پر گورل آپ بیٹھی ہے۔ میرے بابا جی نے بیر کا درخت اگایا ہے۔ جس کے بیر میٹھے ہیں۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔ اس چرمی کو نت نت اپنے میکے بیجھ دو۔ میں واری جاؤں اس چرمی پر۔“

پنہیاری:

پنہیاری کا مطلب ’پانی بھرنے والی عورت‘ ہے۔ بارش کے بعد تھر میں جب سارے تالاب پانی سے بھر جاتے ہیں تو پندرہ بیس لڑکیاں مٹکے اٹھا کر پانی بھرنے جاتی ہیں، ان میں ایک ایسی بھی لڑکی ہوتی ہے، جس کا شوہر پردیس میں ہوتا ہے، وہ میلے کپڑوں میں ہی تالاب پر جاتی ہے اور یہ گیت الاپتی ہے: ”میری سکھیاں تالاب پر ہیں سب نے ریشمی جوڑے پہنے ہیں، لیکن میرا جوڑا تو میلا ہے، سب کے شوہر تو گھروں پر ہیں پر میرا محبوب پردیس میں ہے۔“

اس گیت کا بنیادی موضوع شوہر اور بیوی کی اٹوٹ محبت ہے۔ جب کسی سہاگن کا پیارا شوہر مدت سے روزگار کی تلاش میں دور دیس میں جا بستا ہے تو وہ اسے اکثر یاد کرتی ہے۔ بارش کا موسم آتے ہی گاؤں کی گوریاں گھر سے باہر پانی بھرنے جاتی ہیں تو یہ ابھاگن بڑی حسرت سے ان کے بناؤ سنگھار اور ٹھاٹ، باٹھ دیکھ کر اپنا دکھڑا روتی ہے کہ میرا شوہر تو پر دیس میں ہے، میں کیسے ہار سنگھار کر سکتی ہوں اور کس کے لیے خوش رہنے کی بے سُود کوشش کروں۔‘

دل کی تڑپ اور انتظار کی شدت میں جب مزید اضافہ ہونے لگتا ہے تو وہ گھر سے نکل کر اس کا رستہ تکتی ہے اور وہاں سے گزرتے مسافروں کو مایوسانہ نظروں سے دیکھتی ہے۔ اس وقت ایک حسین اونٹنی سوار مسافر اس کے قریب سے گزرتا ہے۔ اسے مغموم پا کر ہمدردی کے لہجے میں بات کرتا ہے اور پھر پوچھتا ہے: ’’ اے حسینہ! تو ایسے وقت میں جب دونوں وقت مل رہے ہیں، تنہا بستی سے باہر سرِراہ کیوں کھڑی ہے؟ کہیں تیری ساس تو بدمزاج نہیں، جس کی وجہ سے تو بھاگ کر میکے جا رہی ہو اور دوریٔ مسافت کے باعث ملول ہو؟‘‘ وہ جھینپ کر کہتی ہے: ’’اے راہی! تو اپنا رستہ لے، تجھے ان باتوں سے کیا غرض؟ میری ساس بُری ہے اور نہ ہی میرا میکہ دور ہے۔ میرا تو شوہر پردیس گیا ہے، میں کھڑی اس کی راہ دیکھ رہی ہوں اور یہ اس کی جدائی ہے جو مجھے اس درجہ مغموم کیے ہوئے ہے۔‘‘ وہ اجنبی نوجوان کہتا ہے:’’اپنے شوہر کا خیال اب دل سے نکال دے۔ اس کی امید میں اپنے حسن اور روپ کو یوں برباد نہ کر ۔ آ ، میرے ساتھ چلی چل۔ میں تجھے سونے سے لاد دوں گا۔ تیرے بال بال میں موتی پرو دوں گا۔ تجھے مالا مال کر دوں گا۔ تم خواہ مخواہ مغموم ہو۔ دیکھو! میں حاضر ہوں۔ اگر مجھے منظور کرو گی تو تمہیں شوہر سے بھی زیادہ خوش رکھوں گا۔ بولو، منظور ہے؟‘‘

اس پر وہ عورت اجنبی سے لڑ جھگڑ کر گھر کو لوٹتی ہے۔ جب اس کی ساس سارے قصے سے واقف ہوتی ہے تو ہنس کر اپنی بہو سے کہتی ہے: ’’اری! وہ تو تیرا شوہر تھا، جسے تُونے بہت دن دور رہنے کی وجہ سے پہچانا نہیں۔‘‘ اس پر وہ عورت اپنی سچائی اور آزمائش پر ناز کرنے لگتی ہے۔

ساون ٹیج:

ساون ٹیج، تھر کا معروف لوک گیت ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس گیت کا تعلق ساون کے موسم سے ہے اور اس کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس تھری لوک گیت کو کنواریاں اور نئی نویلی دلہنیں ساون کے خوشگوار اور اندھیری رات کے موقع پر گاتی ہیں۔ اس گیت میں تھری لوک گیت کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ تھر کی نوجوان لڑکیاں دن کے وقت درختوں میں جھولے ڈال کر جھولا جھولتی ہیں اور پانی کے کنارے ساون ٹیج کے گیت گاتی ہیں۔ اس گیت میں تھر کی نئی نویلی اور کنواری لڑکیاں ’پردیس‘ میں بیاہی گئی اپنی سہیلی کے جذبات کا بھی اظہار کرتی ہیں۔ ساون کے موسم میں جب آسمان پر بادلوں کی گڑگڑاہٹ اور بجلی کی چمک دیکھتی ہیں، تو گھر سے دور بیاہی لڑکی اپنے مائیکے کی یاد میں بے چین ہوجاتی ہے۔ نوبیاہتا لڑکی اپنی ماں کو ساس کے متعلق شکایتوں سے بھرا ہوا ایک پیغام بھجواتی ہے: ماں ری ماں، دیکھو بارش آئی ہے، تمہاری لاڈلی بیٹی سسرال میں ہے۔ ساری سکھیاں کھیلنے کو گئی ہیں، ساس نگوڑی مجھے اجازت نہیں دیتی، اس نے باجرا صاف کرنے کو دیا ہے۔ آدھا من باجرا صاف کیا ہے ماں! سکھیاں تالاب پر نہانے گئی ہیں اور ساس نے مجھے چکی پر بٹھایا ہے اور میں باجرا پیس رہی ہوں۔ اے ماں! جی چاہتا ہے میں چکی کو توڑ ڈالوں اور سارا باجرا آنگن میں بکھیر دوں۔۔ ماں، چھوٹے بھائی کو بھیج دو، وہ آئے تاکہ میں تمہارا مُنہ دیکھ سکوں۔ میں انتظار میں بیٹھی ہوں۔“

رانو:

یہ گیت سندھ کی مشہور رومانوی داستان ’’مومل رانو‘‘ سے متعلق ہے اور تھر میں رائج ہے۔ جب بارش ہوتی ہے اور پھر ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے اور جانور ٹیلوں پر گھاس چرنے جاتے ہیں تو ایسے میں مومل اپنے محبوب شوہر رانو کو یاد کرتی ہے اور اس کے ہجر میں درد بھرے گیت گاتی ہے۔ محبت اور محبوب شوہر سے ملاقات کے جذبات پر مشتمل یہ گیت عام طور پر تھر میں بارش کے موسم میں بہت گایا جاتا ہے۔

چوماسو:

’چوماسو‘ سندھی زبان میں مون سون یا بارشوں کے موسم کو کہا جاتا ہے۔ یہ لوک گیت تھر میں بہت چاہ سے گایا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ گیت بہت پرانا سمجھا جاتا ہے۔ اس گیت کو خاص طور پر عورتیں ساون کے دلکش موسم میں گاتی ہیں۔ خاص طور پر وہ لڑکیاں جو اپنے آبائی گھروں سے دور بیاہی گئی ہوتی ہیں، اپنے والدین کے گھر کی یاد، سہیلیوں کی یاد، اور اپنے وطن کی محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بارشوں کے موسم میں بادلوں کو اپنا قاصد بنا کر محبت بھرے پیغامات بھیجتی ہیں۔ وہ اپنے دل کی آواز کے ذریعے محبت کے حسین مناظر پیش کرتی ہیں۔ محبت کے یہ پیغامات وہ ایسی سریلی اور میٹھی آواز میں گاتی ہیں کہ سننے والوں کے دل پگھل جاتے ہیں۔ ’بابل کے دیس میں بارش ہوئی ہے، بابل کا گاؤں بارش نے بھگودیا ہے۔۔ بھائی! اونٹ کو تیار کر کے لے آ اور پھر اپنی بہنا کو لے جا۔ بجلیاں چمک رہی ہیں اور بارش برس رہی ہے۔۔ میں صدقے جاؤں! میرا بھائی آ گیا! اونٹ بھی پُورا بھیگ گیا ہے، بھائی کی تو پگڑی بھی بھیگ گئی ہے۔‘

بادلیئو:

تھر والوں کو بارش کا ہمیشہ شدید انتظار رہتا ہے۔ جب شمال سے کالے بادل جھوم کر آتے ہیں اور برساتی ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہوتی ہے تو پھر سہیلیاں مل کر یہ گیت گاتی ہیں: ’اے بادل! تھر پر آ کر خوب برس۔ تمہارے بغیر ہاری کیسے ہل چلائیں؟ کنویں سُوکھ گئے ہیں۔ پانہیاری (پانی بھرنے والی) پریشان ہے۔ ایسے بَرس کہ میں پوری بھیگ جاؤں۔“

ورسارو:

ورسارو کے معنی ہیں: تیز بارش۔ یہ گیت خاص طور پر بارش کے موسم میں تھری خواتین فرصت کے وقت مل کر گاتی ہیں۔ مضمون کے لحاظ سے ایک بیوی اپنے شوہر کی تڑپ میں اور بہن اپنے بھائی کے لیے، ماں اپنے بیٹے کے لیے، جو پردیس میں ہوتے ہیں، یہ گیت گاتی ہے۔ جب تھر میں بارش ہوتی ہے تو سارے تالاب پانی سے بھر جاتے ہیں اور کھیت بھی سر سبز ہو جاتے ہیں، ایسے میں یہ گیت گایا جاتا ہے۔ بیوی بولتی ہے: ”میرے محبوب! راستوں میں بارش ہوئی ہے۔ تمہارا دیس جل تھل ہو گیا ہے۔ اب پردیس سے لوٹ کر واپس گھر کی طرف آؤ۔ میں واری جاؤں تم پر۔ آؤ تو ساتھ گزاریں یہ ساون۔۔“ اور بہن یوں گاتی ہے: ”ٹیلے پر بیٹھ کر تمہاری بہن کب سے تمہاری راہ تک رہی ہے۔ اونٹوں پر جانے والوں سے کہتی ہوں، بھائی کو دیکھو تو ادھر بھیجنا۔۔ آؤ تو مکھن میں پکی روٹی کھلاؤں۔ اور تمہیں لسی بھی پلاؤں۔“

لُلریاڑی لو:

یہ گیت عمر کوٹ اور چھاچھرو کے شمالی علاقوں میں بارش کے دنوں میں گایا جاتا ہے۔ للر بارش میں اگنے والا ایک خودرو پودا ہوتا ہے، جس کا سالن پکا کر تھر کے لوگ کھاتے ہیں۔ اس گیت میں بتایا جاتا ہے کہ خوب بارشیں ہوئی ہیں، ہر طرف ہریالی ہے، جانور خوشی سے اٹھکیلیاں کر رہے ہیں۔ بہت گھاس اُگی ہے اور قدرت نے بڑی کرم نوازی کی ہے۔ ٹینڈے، شلغم اور کو کلے بھی بہت آ گئے۔تربوز سے تو بہت پیار ہے، جو ٹیلوں کے دامن میں اُگا ہے۔ اس بار اناج بہت ہے۔ جانور گھاس چَر رہے ہیں۔دودھ بہت مل رہا ہے۔ میں پیالہ بھر کے پیتی ہوں۔ دلیہ بھی بہت مزےدار ہے۔ مالک کی کرم نوازی سےسارے خوش حال ہیں۔“

تھر میں بارش کے ان گیتوں کی تاریخ بہت پر انی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں ان گیتوں کے بول ، اتفاقیہ طور پر اور اختصار سے چند حساس لوگوں کے ما فی الضمیر سے اُبھر کر زبان زدِ عام ہوگئے ہوں گے۔ جن میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔ بہ ہر حال، اصلیت کچھ بھی ہو ، یہ حقیقت ہے کہ یہ گیت انسانی ذہن اور احساسات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔

یہ گیت موضوع اور مضمون کے اعتبار سے بہت زیادہ وسیع، متنوع و مختلف ہوتے ہیں۔ یہ لوک گیت وقتی اور عوامی ہونے کی وجہ سے بڑی حد تک زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ کے قواعد و شرائط سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں تھر میں جو گیت گائے جاتے ہیں ، ان کا دامن بڑا وسیع، کشادہ اور اس کا آنچل بہت رنگا رنگ ہوتا ہے۔

ان گیتوں میں نہ صرف تھری زبان کی عوامی اور دیہی خصوصیات ملتی ہیں، بلکہ ان میں فن کارانہ ذہانت اور جمالیاتی ذوق کی چاشنی اس قدر موجود ہےکہ آدمی حیرت کے جہاں میں پہنچ جاتا ہے۔ ان گیتوں کو چاہے وقت، جذبات و احساسات کی قلم رو میں بہنے والے چشموں سے تعبیر کریں جو اپنی روانی کے آپ مالک ہوتے ہیں یا طبیعت کی آزاد روی اور مزاج کی بے ساختگی سے تشبیہہ دی جائے، مگر فکر و خیال کے ان مرقعوں میں عوامی زندگی کی چھاپ بڑی گہری ہوتی ہے۔

صحرائے تھر، جہاں زندگی اور موت کے درمیان صرف بارش کا ایک لمحہ حائل ہے، وہاں بارش صرف ایک قدرتی مظہر نہیں بلکہ ایک مکمل روحانی تجربہ بن کر ابھرتی ہے۔ تھر کے لوگوں کے لیے بارش زندگی، محبت، اور خوشی کا استعارہ ہے، اور یہ احساس ان کے لوک گیتوں میں گونجتا ہے۔ بارش کے ساتھ تھر کی زمین تو سیراب ہوتی ہی ہے، لیکن ان کے دل بھی ایک نئی زندگی پاتے ہیں، اور ان کی آنکھوں میں خوابوں کی ایک نئی دنیا جاگ اٹھتی ہے۔

یہی تو ہے تھر۔۔۔ جہاں زمین کی خشک سالی دل کی خوشی سے بدل جاتی ہے، اور بارش کا ہر قطرہ زندگی کا ایک نیا سرور لے کر آتا ہے۔

(نوٹ: اس فیچر میں تھری لوک گیتوں کے بارے میں دی گئی معلومات بھارو مل امرانی، خالد کنبھار اور غلام مصطفیٰ سولنگی کی مختلف رپورٹس سے لی گئی ہے۔ امر گل)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close