مردان کے بینائی سے محروم ٹیلی فون آپریٹر، جنہیں پانچ ہزار نمبر یاد ہیں

نیوز ڈیسک

مردان – خیبرپختونخوا کے ضلع مردان کے علاقے ہوتی سے سے تعلق رکھنے والے بینائی سے محروم عدنان حسین باچا خان میڈیکل کالج میں بطور ٹیلیفون سپروائزر کام کرتے ہیں، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہیں پانچ ہزار سے زائد ٹیلیفون اور موبائل فون نمبر یاد ہیں

پینتیس سالہ عدنان حسین کا کہنا ہے ”میں پیدائشی طور پر ٹھیک تھا، لیکن جب میری عمر سات سال ہوئی تو اچانک میری بینائی چلی گئی۔ نابینا ہونے کے بعد گرنے کے خوف سے میں نے زیادہ چلتا پھرنا چھوڑ دیا تھا جس کی وجہ سے پاؤں کی تکیلف بھی شروع ہوگئی، جو اب خاصی بڑھ گئی ہے اور اب چلنے پھرنے میں کافی دشواری ہوتی ہے“

انہوں نے کہا ”میری چار بہنیں ہیں اور مجھ سمیت ہم تین بھائی ہیں۔ میرا بڑا بھائی ٹھیک ہے جبکہ دوسرا بھائی بھی نابینا ہے اور وہ محکمہ پولیس میں سرکاری نوکری کررہا ہے“

عدنان شادی شدہ ہے اور ان کے تین بچے بھی ہیں اور ان کی دونوں بیٹیاں اور ایک بیٹا مکمل صحت مند ہیں

عدنان حسین نے بتایا ”مجھے پانچ ہزار سے زائد ٹیلیفون اور موبائل نمبرز یاد ہوچکے ہیں اور مجھے ٹیلیفون سیٹ اور موبائل فون سے نمبر ڈائل کرنے میں کوئی بھی مشکل پیش نہیں آتی“

انہوں نے کہا ”ٹیلیفون نمبر یاد کرنے میں مجھے کوئی وقت نہیں لگتا اور ایک مرتبہ سننے کے بعد وہ میرے دماغ میں خودبخود محفوظ ہوجاتا ہے۔“

عدنان بتاتے ہیں ”میں واٹس ایپ بھی استعمال کرتا ہوں کیونکہ اس کے بنا تو آج کل زندگی گزارنا بہت مشکل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ میں فیسبک اور یوٹیوب بھی استعمال کرتا ہیں۔ یوٹیوب پر ’وعدہ نیوز‘ کے نام سے میرا چینل بھی ہے“

عدنان نے بتایا ”2009 سے میں باچا خان میڈیکل کالج میں معذوروں کے کوٹے پر گریڈ 8 میں ملازمت کر رہا ہوں۔ خوش قسمتی سے مجھے دو فیصد کوٹے سے اپنا حصہ مل گیا ہے لیکن حکومت سے درخواست ہے کہ جتنے بھی سرکاری محکمے ہیں، ان میں بھرتی کے دوران معذوروں کے دو فیصد کوٹے پرعمل کیا جائے کیونکہ ہمارے بہت سے معذور ساتھی بے روزگار ہیں“

انہوں نے بتایا ”میں نے بی اے تک تعلیم حاصل کی، لیکن نوکری ملنے اور شادی کرنے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکس، تاہم اب میرا ارادہ ہے کہ ماسٹرز کروں“

عدنان کہتے ہیں ’ضلع مردان میں اسپیشل ایجوکیشن کمپلیکس میں صرف پانچویں تک تعلیم دی جاتی ہے، یہاں ہائی اسکول اور کالج کی ضرورت ہے جبکہ نابینا افراد کے لیے بریل ٹیچر کی بھی سخت ضرورت ہے۔‘

انہوں نے کہا ”ہمارے معاشرے میں معذور بچوں کی تعلیم پر والدین بھی توجہ نہیں دیتے جبکہ ایسے افراد کو لوگ حقارت سے دیکھتے ہیں“

عدنان کی خواہش ہے کہ وہ نابینا افراد کے لیے ایک کمپیوٹر سینٹر بنائیں، جہاں ایسے لوگوں کو جدید تعلیم دی جاسکے

جب عدنان حسین سے پوچھا گیا کہ نوکری کے لیے آنا جانا کیسے ہوتا ہے؟تو انہوں نے بتایا کہ وہ صبح سویرے اپنے دفتر کے ایک ساتھی کے ساتھ موٹرسائیکل پرآتے ہیں لیکن جب وہ چھٹی پر ہوتے ہیں تو پھر پبلک ٹرانسپورٹ پر آتے ہیں

عدنان کا کہنا ہے ”میں مایوس نہیں ہوں۔ اللہ نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ زندگی میں ہرچیز ممکن ہے، بشرط یہ کہ انسان خود کوشش کرے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close