یہ صرف ساڑھے سینتیس روپوں کی کہانی نہیں ہے۔۔ اس کہانی میں چرائے گئے ان ساڑھے سینتیس روپوں کا بوجھ بھی ہے اور ضمیر میں کانٹے بن کر چبھتا تاسف اور پچھتاوا بھی، جو بالآخر پچاس سال بعد ایک ایسے فیصلے میں ڈھلتا ہے، جو حیران کن ہے!
اس کہانی کا تعلق 1970 کی دہائی سے ہے۔ ایک ایسا دور جو پیسے کی قدر کے اعتبار سے آج سے بالکل مختلف تھا اور تب پیسے کی ویلیو آج سے کہیں زیادہ تھی۔ سماج میں لوگوں کے دلوں میں دیانت، شرافت اور ایمانداری کے جذبات کی بڑی اہمیت تھی۔
تمل ناڈو کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہنے والے ایک بزنس مین کی ایک کہانی ایک انوکھی مثال پیش کرتی ہے۔ جب وہ کم عمر تھا، تو اس نے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ساڑھے سینتیس روپے چرائے تھے۔ یہ رقم شاید اُس وقت اُس کے لیے کسی بڑی ضرورت کو پورا کرنے کا سبب بنی ہو، لیکن آگے چل کر یہ معمولی چوری اس کے ضمیر پر برسوں کا بوجھ بن گئی۔
پچاس سال گزر چکے تھے۔ اس دوران دنیا میں بڑی تبدیلیاں آئیں، نئی نسلیں آئیں اور ایک نیا ہندوستان بنا، مگر ایک دن ایسا آیا، جب اس شخص کے دل میں یہ سوال چبھتنے لگا: ”میں نے 37 روپے چرائے تھے، کیا میں کبھی اپنی غلطی کا ازالہ کر پاؤں گا؟“ یہ سوچتے ہوئے اس کے دل میں ایک بے چینی تھی، اور یہ بے چینی بڑھتے بڑھتے اس کے بڑھاپے کا حصہ بن گئی۔ وہ شخص جو ایک کامیاب بزنس مین بن چکا تھا، اس چھوٹی سی چوری کا پچھتاوا اس کے دل سے کبھی نہ گیا۔
بڑھاپے کے اس مقام پر جب لوگ اکثر سکون اور آرام کی تلاش میں ہوتے ہیں، اس بزنس مین نے ایک حیران کن فیصلہ کیا۔ اس نے سوچا کہ اگر اس نے اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا نہ کیا تو وہ کبھی چین کی نیند نہ سو پائے گا اور شاید وہ اس بوجھ کے ساتھ چین سے مر بھی نہ سکے۔۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس 37 روپے کی چوری کی معافی مانگے گا اور یہ رقم کسی نہ کسی طرح لوٹائے گا۔
اس کہانی کی شروعات 1970 کے وسط میں ہوتی ہے۔ کم عمر رنجیت نامی شخص اپنی غربت میں مشکل دن کاٹ رہا تھا۔
اس زمانے میں وہ سری لنکا میں نوارا الیا ضلع میں ایک چائے کے باغ کے قریب ہی رہتا تھا۔ ایک دن اسی باغ میں مزدوری کرنے والے ایک جوڑے نے اسے اپنے گھر کا سامان اٹھانے کے لیے بلایا، جو ایک نئے مکان میں منتقل ہو رہے تھے۔
تبھی سامان اٹھاتے ہوئے رنجیت کو ایک بستر پر پڑے تکیے کے نیچے پیسے نظر آئے۔ یہ 37 روپے 50 پیسے کی رقم تھی، جو آج کے حساب سے تو نہایت معمولی لگتی ہے لیکن 1970 کی دہائی میں نوعمر اور غریب رنجیت کے لیے بہت بڑی رقم تھی۔
رنجیت نے کسی کو بتائے بغیر وہ پیسے رکھ لیے۔ کچھ عرصے بعد رنجیت سے اپنا سامان اٹھوانے والے مسروف سگوئی کو یاد آیا کہ ان کے تکیے کے نیچے پیسے پڑے تھے۔ جو اسے نہیں مل رہے تھے۔ اس نے رنجیت سے اس بارے میں بازپرس کی لیکن رنجیت نے لاعلمی کا اظہار کر دیا۔
اس زمانے میں کسی مزدور کے لیے بھی 37 روپے ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔
رنجیت کے والد اور والدہ بھی چائے کے باغات میں ہی کام کرتے تھے۔ رنجیت کا ایک بڑا خاندان تھا لیکن غربت نے اسے اسکول میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
یہ 1977 کی بات ہے، جب سترہ سال کی عمر میں رنجیت نے انڈیا میں تمل ناڈو منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اسے یاد ہے کہ آہستہ آہستہ اس کی زندگی تبدیل ہونا شروع ہوئی۔
پہلے اس نے ایک دکان کھولی لیکن نقصان اٹھانے کے بعد اس نے ایک ریسٹورنٹ میں صفائی کا کام کرنا شروع کیا۔ وہاں کافی عرصہ تک وہ دیہاڑی پر کام کرتا رہا لیکن ساتھ میں کھانا پکانا بھی سیکھتا رہا۔ وہ جلد ہی کھانا پکانے میں ماہر ہو گیا اور پھر اس نے ایک چھوٹی سی کیٹرنگ کمپنی کھول لی۔
یہ کمپنی وقت کے ساتھ ترقی کرتی رہی اور آج اس کی کمپنی میں 125 ملازمین کام کرتے ہیں۔
اب مالی لحاظ سے رنجیت ایک خوشحال زندگی گزار رہا تھا لیکن پھر جب اس کی صحت خراب ہوئی تو اس نے اس دوران بائبل کا مطالعہ کیا۔ جب اس نے یہ پڑھا کہ ’مکار شخص اپنا قرضہ واپس نہیں کرتا، لیکن نیک شخص اسے لوٹاتا ہے۔‘ تو رنجیت کے بقول، اس جملے نے اس پر گہرا اثر مرتب کیا۔
وہ بتاتے ہیں ”اس کے بعد جب بھی میں نے کسی سے ادھار لیا تو میں نے پیسے واپس کیے۔۔ لیکن مجھے اندر ہی اندر وہ 37 روپے بھی یاد آ رہے تھے، جو میں نے چرائے تھے۔“
تب رنجیت نے اپنے دوستوں کی مدد سے اس جوڑے کے ورثا کی تلاش شروع کر دی کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ میاں بیوی اب زندہ نہیں رہے۔
اس جوڑے کے چھ بچے تھے، تین بیٹے اور تین بیٹیاں۔ ایک بیٹے کی موت ہو چکی تھی جبکہ ایک پالانیادھی کولمبو جبکہ دوسرا بیٹا کرشن نوارا الیا میں ہی رہتا تھا۔
رنجیت نے ان دونوں سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ وہ ان کے والدین سے ’لیا جانے والا ایک قرض‘ لوٹانا چاہتا ہے۔
رواں برس 21 اگست کو رنجیت سری لنکا گیا اور ایک ریسٹورنٹ میں ان سے ملاقات کی۔ یہاں اس نے 1970 کی دہائی کے وسط میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا اور حساب کرنے کے بعد 70 ہزار روپے کی رقم ورثا کو لوٹا دی۔
پالانیادھی اور کرشن سکتے میں تھے۔ ان کے لیے یہ بہت ہی حیران کن تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ رقم ان کے لیے بڑی مدد ہے، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ چوری کا ایسا کوئی واقعہ ہوا تھا۔
پالانیادھی کے مطابق جب وہ بارہ سال کا تھا تو ان کے والدین کولمبو منتقل ہو گئے تھے۔ ”شاید میری ماں کو بھی نہیں پتہ تھا۔“
ان کی بیٹی بتاتی ہے ”میں تو اپنی دادی سے کبھی ملی بھی نہیں۔ اتنے برس بعد ان کی وجہ سے ہمیں اتنے پیسے مل گئے۔ لگتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے۔ سری لنکا میں بہت مہنگائی ہے اور معاشی حالات مشکل ہیں۔ یہ پیسے بہت مدد دیں گے۔“
یہ رقم ملنے کے بعد کرشن نے اپنے چاروں بچوں میں دس دس ہزار روپے تقسیم کیے۔
رنجیت کا کہنا ہے ” میں اس جوڑے کی ایک بیٹی تک بھی پیسے پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ میں یہ رقم لوٹا کر بہت خوش ہوں۔“
یہ واقعہ صرف ایک پرانی رقم لوٹانے کی کہانی نہیں، بلکہ ایک شخص کے ضمیر کی تڑپ کی ایک مثال ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ایماندار اور اچھا بننے کے لیے کبھی بھی دیر نہیں ہوتی، اگر کوئی دیر ہوتی بھی ہے تو بس احساس اور فیصلہ کرنے کی۔۔
آج کے تیز رفتار دور میں، جہاں سب کچھ پیسے اور وقت کے حساب سے تولہ جاتا ہے، وہاں اس بزنس مین نے ہمیں یہ سبق دیا کہ کسی بھی غلطی کا بوجھ ہمیشہ یاد رہتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔