ریگستان ہمیشہ سے خاموشی، بے بسی اور تپتے ہوئے خوابوں کی سرزمین رہا ہے۔ عمرکوٹ کے لق و دق صحرا میں جہاں ریت کے ذرات ہوا کے سنگ رقص کرتے ہیں، وہاں دھرتی کے سینے سے اچانک ایک زندگی پھوٹ پڑی، جیسے کسی صدیوں پرانے راز نے اپنی زبان کھول دی ہو۔ 2005 کے زلزلے کے بعد، سومو سموں نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک چشمہ نمودار ہوا، ایسا چشمہ جو وقت کی قید سے آزاد، مسلسل بہتا چلا جا رہا ہے۔ یہ چشمہ محض پانی کا ایک ذریعہ نہیں، بلکہ امید کی وہ کرن ہے جو ریگستانی مٹی کو سرسبز میدانوں میں بدلنے کا خواب دکھاتی ہے۔
ریت کی سنسناتی ہواؤں میں، جہاں ہر آواز کھو جاتی ہے، وہاں یہ چشمہ ایک گیت کی مانند ہے۔ زمین کے دل سے پھوٹتی ہوئی ایک ایسی نغمگی، جو ہر سناٹے کو چیر دیتی ہے۔ سومو سموں کے باسی کہتے ہیں کہ یہ چشمہ کوئی عام چشمہ نہیں، بلکہ دھرتی ماں کی وہ پکار ہے جو اپنے بچوں کو زندگی دینا چاہتی ہے۔ چشمے کی رفتار اور روانی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی زیرِ زمین قوت بے صبری سے اپنے وجود کا اظہار کر رہی ہو۔ یہ داستان، زمین کے اندر چھپی طاقت اور انسان کے خوابوں کی گہری جستجو کی ہے۔
کہانی شروع ہوتی ہے 2005 کے زلزلے سے، جب ایک غیر سرکاری تنظیم کی مدد سے عمرکوٹ شہر سے کھوکھراپار کی طرف تقریباً پچھتر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صحرائی گاؤں سومو سموں میں ایک کنواں کھودا گیا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق اس کنویں کا پانی کھارا تھا اور کچھ دنوں بعد وہاں اچانک تیز رفتار چشمہ بہنے لگا۔
گاؤں کے باسیوں نے پینے کے پانی کے لیے ایک کنواں کھودا۔ ابتدا میں کنویں سے کھارا پانی نکلا، جو کسی کام کا نہ تھا۔ مگر چند دن بعد، جیسے زمین کے اندر کچھ بدل گیا ہو۔ اچانک ہی وہاں سے پانی کا ایک چشمہ پھوٹ نکلا، جو تیز رفتاری سے بہنے لگا۔
گاؤں کے لوگوں نے اس قدرتی چشمے پر ایک بڑے سائز کا پائپ لگا دیا ہے، جس سے مسلسل پانی کا بہاؤ جاری ہے۔ پانی کی رفتار سے ایسا لگتا ہے جیسے بجلی پر چلنے والی موٹر کی مدد سے ٹیوب ویل چل رہا ہو، مگر اس چشمے کا پانی قدرتی طور پر تیز رفتاری سے گذشتہ 20 سال سے مسلسل جاری ہے۔
گاؤں کے رہائشی عبدالخالق سموں بتاتے ہیں کہ یہ پانی اتنی رفتار سے نکلتا ہے کہ دیکھنے والے کو لگے، جیسے کسی مشین سے چلایا جا رہا ہو۔ ’’یہ چشمہ قدرت کا عطیہ ہے، جو پچھلے بیس سال سے مسلسل بہہ رہا ہے۔ ہم نے چشمے کے قریب حوض بنا رکھے ہیں، جن میں پانی جمع کر کے مویشیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
عبدالخالق نے اس پانی سے اپنی زمین پر گندم کاشت کی، اور فصل بہت اچھی ہوئی۔ مگر گاؤں کے وسائل محدود ہیں۔ پانی کو کھیتوں تک پہنچانے کے لیے پائپ لائن درکار ہے، جو گاؤں کے غریب لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ عبدالخالق کا خواب ہے کہ اگر حکومت مدد کرے تو یہ چشمہ پورے علاقے کی قسمت بدل سکتا ہے۔
’’یہ ریگستان زرخیز ہے۔ بارش کے بعد ہریالی چھا جاتی ہے اور باجرے، گوار، مونگ جیسی فصلیں اگتی ہیں۔ اگر اس چشمے کے پانی کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، تو یہاں کے لوگوں کے لیے روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔‘‘ عبدالخالق کی آنکھوں میں امید جھلکتی ہے، مگر ان کی آواز میں بے بسی کا عنصر بھی محسوس ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں ”یہ عام تصور ہے کہ یہ ریگستانی علاقہ ہے اور یہاں پر فصلیں کاشت نہیں کی جا سکتیں، مگر اس چشمے کے پانی کو استعمال کیا جائے تو کئی اقسام کی فصلیں کاشت کی جا سکتی ہیں اور اس کے علاوہ مویشیوں کے لیے گھاس بھی اگائی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں، کیونکہ اس ریگستان میں لوگوں کے لیے روزگار کے ذرائع انتہائی کم ہیں۔“
زلزلے کے نتیجے میں کسی صحرا میں چشمے کے پھوٹنے کا تعلق زمین کی اندرونی ساخت، زیر زمین پانی کے ذخائر اور زلزلے کی شدت سے ہوتا ہے۔ یہ عمل قدرتی مظاہر کا ایک نادر لیکن سائنسی طور پر ممکنہ پہلو ہے۔ ماہرینِ ارضیات اس چشمے کے وجود کو زیرِ زمین پانی کے چینلز میں ہائیڈرولک پریشر سے جوڑتے ہیں۔
زلزلے زیرِ زمین چٹانوں اور پانی کے ذخائر (ایکویفرز) میں تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں، جس سے پانی کے بہاؤ کے راستے تبدیل ہو سکتے ہیں۔ زلزلے کے دوران ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت سے زیرِ زمین پانی کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے، جو نئے چشموں کے پھوٹنے کا باعث بن سکتا ہے۔
صحرا کی خشک زمین کے نیچے بعض اوقات پانی کے ذخائر موجود ہوتے ہیں۔ جب زلزلے کے جھٹکے ان ذخائر کے قریب موجود زمین کو ہلاتے ہیں تو پانی کے راستے کھل جاتے ہیں، اور یہ سطح پر چشمے کی صورت میں نمودار ہو سکتا ہے۔ زلزلے کے بعد زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں ہائیڈرولک پریشر بڑھ سکتا ہے، جس سے پانی تیزی سے سطح پر آتا ہے۔ عمرکوٹ کے چشمے کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ زلزلے کے باعث زیرِ زمین پانی کے چینلز میں ہائیڈرولک پریشر پیدا ہوا، جس سے یہ چشمہ پھوٹا۔
زلزلے کے جھٹکوں سے زیرِ زمین پانی کے راستے تبدیل ہو سکتے ہیں، جس سے پانی نئی جگہوں پر جمع ہو کر چشموں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ عمرکوٹ کے واقعے میں دریائے ہاکڑو کے زیرِ زمین چینلز کا ذکر کیا گیا ہے، جو ممکنہ طور پر زلزلے کے بعد فعال ہوئے۔
محمد سومر سامٹیو نے عالمی ماہرینِ ارضیات بشمول جرمن ماہر رابرٹ براؤن اور آسٹریلوی ماہر ڈاکٹر برن کے ساتھ تھر کے زیرِ زمین پانی کے معیار، پانی کی موجودگی اور میٹھے پانی پر 2011 سے 2015 تک تفصیلی تحقیق کی، جو عالمی تحقیقی ادارے ریسرچ گیٹ میں بھی شائع ہوئی۔
سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر محمد سومر سامٹیو اور ان کی ٹیم نے اس خطے میں تحقیق کے دوران دریافت کیا کہ 2005 کے زلزلے کے بعد زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ کچھ علاقوں میں میٹھا پانی کڑوا ہو گیا، تو کہیں چشمے اور کنویں پانی کے دباؤ سے بہنے لگے۔
پروفیسر سامٹیو کہتے ہیں، ’’یہ پانی کسی ایکویفر سے مسلسل ریچارج ہو رہا ہے، شاید بارشوں یا کسی قریبی ندی سے۔۔ لیکن یہ سب محض اندازے ہیں، اور اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‘‘
محمد سومر سامٹیو کے مطابق نہ صرف ضلع عمرکوٹ کے گاؤں سومو سموں کے اس کنویں سے پانی پریشر سے نکل رہا ہے بلکہ عمرکوٹ کی تحصیل پتھورو میں ایک ٹیوب ویل لگایا گیا، وہاں بھی پانی پریشر کے ساتھ نکلنے لگا، جس سے آس پاس کی انسانی آبادی ڈوبنے کا خدشہ ہو گیا تھا، اس لیے اس ٹیوب ویل کو بند کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا ”ہماری تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ دریائے ہاکڑو کے کئی چینلز اس پورے خطے میں پھیلے ہوئے ہیں اور 2005 کے زلزلے میں ممکنہ طور پر ان چینلز میں ہائیڈرولک پریشر پیدا ہوا، جس کے بعد کنواں کھودنے یا ٹیوب ویل لگانے پر پانی اس پریشر کے ساتھ نکلنے لگا، مگر اس پر ایک علیحدہ تحقیق کی ضرورت ہے، جس سے معلوم کیا جا سکے کہ پانی اتنے پریشر سے کیوں نکل رہا ہے؟“
دنیا کے دیگر صحرائی علاقوں میں بھی زلزلوں کے بعد چشموں کے پھوٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ مثلاً، مصر کے صحرائے مغرب میں بحریہ اور فرافراہ کی کھائیاں زیرِ زمین پانی کے ذخائر کی موجودگی کی مثالیں پیش کرتی ہیں، جہاں گرم پانی کے چشمے موجود ہیں۔ سینٹرل ایشیا کے صحرا جیسے علاقوں میں زلزلوں کے بعد چشموں کے بننے کی اطلاعات ملی ہیں، خاص طور پر وہ علاقے جہاں پانی کی تہیں زمین کے قریب ہوتی ہیں۔
بعض صحراؤں میں موجود ایسے چشمے جنہیں ’زلزلہ چشمے‘ کہا جاتا ہے، وہ زلزلوں کے بغیر بھی زیر زمین دباؤ کے نتیجے میں وقفے وقفے سے پھوٹتے رہتے ہیں۔ یہ مظاہر فطرت کے عجائبات کا حصہ ہیں، اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات زبردست ہو سکتے ہیں، خاص طور پر پانی کی قلت والے علاقوں میں۔
عمرکوٹ کے اس چشمے کی کہانی قدرت کے انمول تحفے اور ساتھ ہی انسان کی بے حسی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ چشمہ علاقے کے لوگوں کے لیے امید کی کرن ہے، وہیں اس کے گرد وسائل کی کمی اور حکومتی عدم توجہی کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔
یہ چشمہ نہ صرف عمرکوٹ بلکہ پورے سندھ کے لیے ایک سبق ہے: اگر قدرت موقع دے، تو اسے ضائع نہ کریں۔ عبدالخالق، گاؤں کے دیگر لوگوں اور اس چشمے کی روانی کے درمیان ایک کہانی پوشیدہ ہے، جو نہ صرف قدرت کی طاقت بلکہ انسان کی ذمہ داری کی بھی یاد دہانی ہے۔
سومو سموں کا یہ چشمہ کسی معجزے سے کم نہیں، مگر یہ معجزہ کب تک یونہی بہتا رہے گا؟ یہ سوال عبدالخالق اور ان کے جیسے ہزاروں لوگوں کے دلوں میں گونجتا ہے۔ یہ کہانی صرف پانی کی نہیں، یہ کہانی اس خواب کی ہے جو خواب ہی رہ جاتا ہے، جب تک انسان اسے حقیقت کا جامہ نہ پہنائے۔