
کبھی کبھی زندگی میں ایسے ناقابلِ یقین واقعات رونما ہوتے ہیں کہ حقیقت اور کہانی میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے ایک چھوٹے سے قصبے سے جڑا ہے، جہاں ساٹھ برس قبل بچھڑنے والی بہن سات گھنٹوں میں اپنے اہل خانہ سے جا ملی۔ یہ کہانی صرف وقت کے جبر کی نہیں، بلکہ امید، جستجو اور سوشل میڈیا کے حیران کن اثرات کی بھی ہے۔
یہ کہانی 1960 کی دہائی میں مردان کے بغدادی بازار کے قریب ایک اینٹوں کے بھٹے سے شروع ہوتی ہے، جہاں نور محمد اپنے بچوں کے ہمراہ مزدوری کرتے تھے۔ ان کے تین بچے تھے: حمیدہ، سانگہ اور مجانہ۔ وقت گزرتا گیا، اور سانگہ کی شادی مالاکنڈ کے درگئی علاقے میں ہو گئی۔ والدین کے انتقال کے بعد حمیدہ اکثر اپنی بہن سانگہ کے گھر جایا کرتی تھیں، لیکن ایک دن، جب وہ اپنی بہن کے گھر گئیں، تو پڑوس میں رہنے والے گلزار نامی شخص نے انہیں اغوا کر لیا۔ اس وقت حمیدہ کی عمر صرف دس برس تھی۔
کراچی کے سماجی کارکن ولی اللہ معروف کے مطابق، گلزار نے حمیدہ کو محض ڈھائی ہزار روپے کے عوض فروخت کر دیا۔ اس کے بعد وہ مختلف ہاتھوں میں بِکتی رہی، یہاں تک کہ سندھ کے شہر شکارپور میں ایک شخص نے انہیں خریدا اور بعد میں نکاح کر لیا۔
حمیدہ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ شکارپور میں گزارا، جہاں ان کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہوئیں۔ اگرچہ ان کی اولاد نے انہیں ہر طرح کی محبت دی، عمرے پر بھیجا، اور ہر ممکن طریقے سے خوش رکھنے کی کوشش کی، مگر ان کے دل میں اپنے اصل خاندان سے ملنے کی خواہش کبھی مدھم نہ ہوئی۔
اب تک حمیدہ بی بی اپنی مادری زبان بھول چکی تھیں اور وہ اردو بھی نہیں بول سکتی تھیں۔ حمیدہ زیادہ تر بات چیت سندھی زبان میں کرتی ہیں۔
حمیدہ کو اپنے بھائی، بہنوں اور مردان کے آبائی علاقے کا نام یاد تھا، مگر وہ کبھی ہمت نہ کر سکیں کہ خود وہاں جا کر ان کی تلاش کریں۔ آخرکار، ایک دن انہوں نے اپنے بیٹوں کو اپنی کہانی سنائی، جنہوں نے انہیں مردان لے جانے کا فیصلہ کیا۔
مردان پہنچ کر انہوں نے اپنا پرانا علاقہ تو پہچان لیا، مگر معلوم ہوا کہ ان کا خاندان یہاں سے راولپنڈی منتقل ہو چکا ہے۔ یوں وہ راولپنڈی کے گلی کوچوں میں اپنے بہن بھائی کو تلاش کرتی رہیں، مگر کوئی کامیابی نہ ملی۔ یہ لمحہ ان کے لیے مایوسی سے بھرپور تھا۔
ادہر حمیدہ کی کہانی شکارپور میں عام ہو چکی تھی، اور مقامی افراد بھی ان کے خاندان کو تلاش کرنے میں دلچسپی لینے لگے۔ پھر ایک دن، کسی نے ان کے بیٹے کو کراچی کے سماجی کارکن ولی اللہ معروف کا حوالہ دیا۔ ولی اللہ، جو سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو ان کے گمشدہ رشتہ داروں سے ملواتے ہیں، فوراً متحرک ہوئے۔ انہوں نے حمیدہ سے ابتدائی معلومات حاصل کر کے اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ لگائی، جس میں ان کی ایک تصویر اور ان کے خاندان کے چند نام شامل تھے۔
یہ پوسٹ چند ہی گھنٹوں میں ہزاروں لوگوں تک پہنچ گئی، اور حیرت انگیز طور پر، محض سات گھنٹے بعد مردان کے ایک شخص، حاجی شاہ زمان، نے ولی اللہ سے رابطہ کیا۔
حاجی شاہ زمان، جو خود ساٹھ برس کے تھے، نے ولی اللہ کو بتایا کہ حمیدہ ان کی خالہ زاد بہن ہیں اور ان (شاہ زمان) کی عمر ساٹھ سال ہے۔ انہیں زیادہ تو یاد نہیں لیکن بچپن میں جب وہ اپنے والد کے ساتھ اینٹوں کی بھٹی پر جاتے تھے تو حمیدہ کے والد اور بھائی وہاں کام کرتے تھے
شاہ زمان نے انہیں مزید بتایا ”یہ وہی حمیدہ بی بی ہیں جو بچپن میں کھو گئی تھیں اور اب ان کا خاندان مل گیا ہے۔“
حاجی شاہ زمان کا کہنا تھا ”میرا ہاتھ فالج زدہ ہے تو اس لیے میرا دن زیادہ تر گھر پر موبائل استعمال کرتے ہی گزر جاتا ہے۔ میں فیس بُک سکرول کر رہا تھا کہ میرے سامنے ولی اللہ معروف کی پوسٹ آئی۔ معلوم نہیں کیوں لیکن اس پوسٹ نے میری توجہ حاصل کی۔ میں نے جب تفصیل سے پڑھا تو مجھے حمیدہ بی بی کے بتائے ہوئے نام شناسا لگے۔“
حاجی شاہ زمان نے فیس بُک پر پوسٹ دیکھنے کے بعد فوری طور پر اپنے قریبی رشتہ داروں سے رابطے کیے تاکہ تصدیق کی جا سکے۔ اب تک رات کے 11 بج چکے تھے۔ انہوں نے حمیدہ بی بی کے بھائی یار محمد سے رابطہ کیا۔ ”میں نے یار محمد سے پوچھا کہ آپ کی ایک بہن بچپن میں کھو گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے خود بھی نہیں یاد لیکن بڑی بہن نے بتایا تھا۔ ہم نے اپنی بہن کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ آج تک نہیں ملی۔“
حاجی شاہ زمان نے یار محمد کو بتایا کہ آپ کی بہن مل چکی ہے۔ وہ حیران تھے کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟
اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنی بہن کی تلاش میں بھٹکتے یار محمد کو ابتدا میں اس بات پر جیسے یقین ہی نہیں آیا، تاہم جب حاجی شاہ زمان نے ولی اللہ معروف کے ذریعے حمیدہ سے ان کی بات کروائی اور ان کی تصویر یار محمد کو بھیجی، تو ہر شک دور ہو گیا۔
ولی اللہ معروف نے فوری طور پر حمیدہ کو لے کر مردان جانے کا انتظام کیا۔ جب وہ یار محمد کے گھر پہنچے تو وہاں ایک جشن کا سماں تھا۔ حمیدہ کے بھانجوں نے انہیں پھولوں کے ہار پہنائے، اور جب بھائی بہن کی نظر ملی، تو دونوں زار و قطار رونے لگے۔ وہ لمحہ جذبات سے لبریز تھا۔ برسوں بعد، آخرکار بچھڑے ہوئے بہن بھائی مل رہے تھے۔
یار محمد نے اپنی بہن کے لیے ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں اپنی بہن کی سلامتی اور ملاقات کے لیے جو دعائیں مانگی تھیں، وہ آج پوری ہو رہی تھیں۔ حمیدہ کے لیے یہ ایک خواب کی تکمیل تھی۔
ولی اللہ معروف کے مطابق ”یار محمد نے ہمیں بتایا کہ اگر مجھے معمولی نشانی بھی مل جاتی تو میں دنیا کے کسی بھی کونے میں جا پہنچتا لیکن مجھے اپنی بہن سے متعلق کسی چیز کا علم نہیں تھا۔“
”حمیدہ کا کہنا تھا کہ اللہ نے مجھے سب کچھ دیا۔ بیٹے دیے، بیٹیاں دیں اور ہم مال مویشی پالنے لگے لیکن اپنے خاندان سے ملنا میرا خواب تھا جو اب پورا ہوا۔“
حمیدہ کچھ دن اپنے بھائی اور بہن کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس شکارپور چلی گئیں، مگر اس بار یہ جدائی کسی غم کا سبب نہ تھی۔ حاجی شاہ زمان نے کہا: ”ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وقتاً فوقتاً ہم بہن بھائی اور رشتہ دار ان کے ہاں جایا کریں گے تاکہ حمیدہ کو اپنے خاندان کے نہ ہونے کی کمی محسوس نہ ہو۔“
یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا، جب صحیح مقصد کے لیے استعمال ہوں، تو بچھڑوں کو ملا سکتے ہیں اور برسوں کے فاصلے مٹا سکتے ہیں۔