اکثر والدین شکایت کرتے ہیں کہ ان کا بچہ اسکول میں استاد اور دیگر لوگوں کے ساتھ تو اچھا برتاؤ کر رہا ہے لیکن گھر میں ان کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے، آخر بچے ایسا کیوں کرتے ہیں؟
ممکن ہے آپ نے بعض اوقات اپنے بچوں میں بھی یہ تبدیلی دیکھی ہو کہ جب وہ اپنے دوستوں کے گھر جاتے ہیں تو ایک دوسرے سے نرم اور خوش مزاجی سے پیش آتے ہیں، لیکن گھر آنے کے بعد ان کے مزاج میں تبدیلی آجاتی ہے اور وہ روکھا رویہ اختیار کر لیتے ہیں، کبھی کبھار تو بدتمیزی تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے
جب وہ پڑوسیوں سے ملنے جاتے ہیں تو تمام اصولوں پر عمل کرتے ہیں لیکن اپنے گھر میں زور سے دروازہ بند کرتے ہیں یا تیز آواز میں بولتے ہیں اور پھر انہیں مسلسل تمیز کے دائرے میں رہنے کے اصول یاد کروانے پڑتے ہیں
تو آخت بچوں کے ایسے رویے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں، اسی بارے میں ہم آج یہاں بات کریں گے اور ساتھ ہی ہم اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے لیے درج ذیل نکات کو سمجھنا ضروری ہے
◉ یاد رکھیں بچے فطری طور پر متجسس ہوتے ہیں:
کرٹن یونیورسٹی میں کلینیکل سائیکالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ٹرویور میزوچلی کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ کھیلنے کے بعد یا اسکول میں ایک لمبا دن گزارنے کے بعد جب چھوٹے بچے تھک جاتے ہیں تو ان کے اندر توانائی کم رہ جاتی ہے، بچے فطری طور پر متجسس ہوتے ہیں اور وہ بعض اوقات غلط برتاؤ صرف یہ دیکھنے کے لیے کرتے ہیں کہ اب کیا ہوتا ہے۔
البتہ کچھ بچے دوسروں کے مقابلے بہت زیادہ بُرا برتاؤ کرتے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بچے اس طرح کا برتاؤ کیوں کرتے ہیں
شروع سے ہی بچے جو کام کرتے ہیں اس کے پیچھے وجوہات جلد معلوم ہوجاتی ہیں، مثال کے طور پر بچے رونے کے ذریعے بتاتے ہیں کہ انہیں فلاں چیز چاہیے یا والدین کو فوری طور پر پتا چل جاتا ہے کہ گیلے ڈائپر کو تبدیل کرنے یا انہیں کھانا کھلانے سے بچہ رونا شروع کردے گا، جب بچہ مسکراتا ہے تو آپ بھی عموماً مسکراتے ہیں یا انہیں گلے لگ کر پیار کرتے ہیں
لہٰذا بچے جلد سمجھ جاتے ہیں کہ وہ اپنے رویے یا اشاروں سے دوسروں کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
◉ بچے والدین کا بُرا رویہ فوری سیکھ جاتے ہیں:
پروفیسر ٹرویور میزوچلی کا کہنا ہے کہ بعض اوقات جب والدین یا بہن بھائی غلط برتاؤ پر اپنا شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں تو بچے یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ برا رویہ یا بُرا سلوک کرنے سے وہ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں، اس طرح بچے یہ سیکھتے ہیں کہ بُرا رویہ کرنے سے انہیں کیا سزا مل سکتی ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو پتا چلتا ہے کہ جب وہ اپنے بڑوں کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے اور اس کے خلاف جاتے ہیں تو والدین ان پر اضافی توجہ دیتے ہیں، اس توجہ کے نتیجے میں بچے آپ سے بحث کرتے ہیں یا آپ انہیں بار بار کسی بات کے بارے میں یاد دہانی کرواتے ہیں۔
اس دوران بچے یہ بھی سیکھتے ہیں کہ جب وہ رونا شروع کریں گے تو انہیں ان کی پسند کی چیزیں مل جائیں گی۔
بچے یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ جب وہ کسی الیکٹرانک ڈیوائس کے لیے روتے اور شکایت کرتے ہیں، تو ان کے اسے ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے، اس منظر نامے میں، بچے کو رونے کا بدلہ دیا جاتا ہے اور والدین انہیں آئی پیڈ دیتے ہیں کیونکہ یہ انتہائی پریشان کن شور کو روکتا ہے (کم از کم مختصر مدت کے لیے)۔ جیسا کہ بچہ اور والدین دونوں کو انعام دیا جاتا ہے، یہ بات چیت دوبارہ ہونے کا امکان ہے۔
◉بچے اسکول میں اچھا برتاؤ کیوں کرتے ہیں؟
جب بچے ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں، جن سے وہ اتنے مانوس نہیں ہوتے ہیں، تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ لوگ ان کے رویے پر کیا ردعمل ظاہر کریں گے، تو ان حالات میں بچے عام طور پر اچھا برتاؤ کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں
بچے گھر کے مقابلے اسکول میں بھی بہتر کام کرتے ہیں، کیونکہ ان کے ساتھ استاد ہوتا ہے جو جماعت میں بہتر نظام لے کر چلتا ہے، مثال کے طور پر وہ بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھتا ہے، اچھے برتاؤ کے لیے ان کی تعریف کی جاتی ہے اور انعامات دیے جاتے ہیں۔
◉والدین کیا کر سکتے ہیں؟
اچھی بات یہ ہے کہ اگر بچے ایک جگہ پر اچھا برتاؤ کرتے ہیں، جیسا کہ اسکول میں، تو وہ گھر میں بھی ایسا ہی برتاؤ کر سکتے ہیں، اگر والدین اپنی طرف سے تھوڑی سے کوشش کریں تو ایسا ممکن ہے۔
اس حوالے سے پروفیسر ٹرویور میزوچلی نے والدین کو جو مشورے دیے ہیں، انہیں یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔
⁃ بچوں کے ساتھ روٹین مرتب کریں:
جب آپ کا بچہ اسکول یا باہر سے گھر آتا ہے تو انہیں تھوڑا آرام کرنے دیں، صحت بخش کھانا فراہم کریں اور پھر تفریحی اور دلچسپ سرگرمیوں میں مشغول رہنے کی کوشش کروائیں۔
بچوں کی سرگرمیوں کے ساتھ آپ بھی ان کے ساتھ حصہ لیں، مثال کے طور پر رنگ بھرنا، ورزش کرنا، بھاگنا وغیرہ
⁃ گھر کے اصول طے کریں:
گھر میں کچھ سادہ اصول طے کریں، جس سے یہ واضح ہو کہ آپ ان سے کیسا سلوک کرنے کی توقع رکھتے ہیں، مثال کے طور پر دھیمی آواز میں بات کرنا، کھلونوں سے کھیلنے کے بعد انہیں ڈبے میں رکھ لینا وغیرہ۔
⁃ بچوں کے اچھے سلوک کو نوٹ کریں:
اپنے بچوں کی اچھی عادات پر ان کی تعریف کریں، انہیں انعام دیں، اگر آپ صرف ان کے بُرے رویے پر توجہ دیں گے تو بچہ مزید چڑچڑاہٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔
⁃ اپنے بچوں کے ساتھ تھوڑا وقت گزاریں:
والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اکیلے وقت گزاریں، ایسا کرنے سے بچہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آپ سے مدد طلب کر سکتا ہے، والدین کے اس رویے سے بچے کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والدین ہر وقت ان کے ساتھ موجود ہیں۔
⁃ حقیقت پسندانہ توقعات رکھیں:
اگر آپ ایک وقت میں ایک یا دو مقاصد پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو تبدیلی آسان ہے۔ اس کے علاوہ، رویے کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے وقت، کبھی کبھار ناکامیوں کی توقع بھی کریں۔ کوئی بچہ (یا والدین) کامل نہیں ہے!
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں ’دا کنورسیشن‘ میں شائع ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے۔