ڈائبیٹکس یو کے نامی برطانوی تنظیم کے مطابق چالیس سال سے زیادہ عمر کا ہر دس میں سے ایک شخص ذیابیطس کی بیماری کا شکار ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں اس کے اعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے
تحقیق یہ بتاتی ہے کہ سنہ 2030ع تک تقریباً مزید پچپن لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہوں گے۔
ذیابیطس کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں: ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو۔ ٹائپ ون بہت عام نہیں ہے اور اس کا علاج بھی نہیں ہے۔
ٹائپ ٹو زیادہ وزن بڑھنے، اور ایسے لائف سٹائل جس میں طویل مدت کے لیے بیٹھنا پڑتا ہے، سے ہوتی ہے لیکن اس کے علاوہ مزید وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
انٹرنیشنل ڈائبیٹکس فیڈیریشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بیس سے اناسی سال کے تقریباً تینتیس ملین افراد کو ذیابیطس ہے۔
واضح رہے کہ اگر آپ کا بلڈ شوگر بہت زیادہ ہے، لیکن ذیابیطس کی رینج میں نہیں تو آپ کو ’پری ڈائبیٹک‘ مانا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ذیابیطس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔۔ لیکن اس سب میں اچھی خبر یہ ہے کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے 80 فیصد تک علاج کے امکانات موجود ہیں۔۔
تو آخر ہم ذیابیطس سے بچنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔۔ ذیل میں ہم اسی سوال کا جواب مختلف نکات کی صورت میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں
⦿جانیں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں: ٹائپ ٹو ذیابیطس جلدی نہیں ہوتی اور اس کی علامات واضح ہوتی ہیں، لہٰذا ممکنہ خطرات کے بارے میں جاننا اہم ہے۔ آپ کو کیا خطرات ہیں، یہ جاننے کے لیے ٹیسٹ کروائیں۔
جن لوگوں کو ٹائپ ٹو ذیابطس ہے اور اس کی ابھی تک تشخیص نہیں ہوئی، ان میں شاید زیادہ پیاس، تھکاوٹ اور زیادہ پیشاب آنے والی علامات ہوں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کو ذیابیطس ہو، لیکن کوئی بھی علامات سامنے نہ آئے۔
⦿ صحت مند خوراک سے ذیابیطس کو شکست دیں: اگر آپ کا وزن بہت زیادہ ہے تو آپ وزن کم کر کے ذیابیطس کا خطرہ ٹال سکتے ہیں یا اس عمل کی رفتار روک سکتے ہیں۔ ایک کلو وزن کم کر کے آپ ذیابیطس کے خطرے کو 16 فیصد تک کم کر سکتے ہیں۔ ورزش اور اچھی خوراک سے آپ اپنے وزن پر قابو پا سکتے ہیں۔
لیکن خیال رہے کہ ہر قسم کا طریقہ وزن میں کمی لانے کے لیے بہترین نہیں ہوتا، لہٰذا متوازن غذا کی تجویز دی جاتی ہے۔ اگر آپ پری ڈائبیٹک ہیں یا آپ کو ٹائپ ٹو ذیابیطس ہے تو آپ کے لیے وزن پر قابو پانا بہت اہم ہے۔
صحت مند وزن رکھنے سے ذیابیطس پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے اور اس بیماری سے منسلک بڑی پیچیدگیوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
⦿ اچھی غذا کیا ہے؟ بغیر کسی فکر کے جتنی چاہیں سبزیاں کھائیں۔ ان میں کیلوریز کم ہوتی ہیں اور یہ سستی بھی ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔ سبزیوں میں کافی فائبر ہوتا ہے اور یہ ہاضمے کے لیے اچھی ہوتی ہیں۔ پیٹ بھی بھرا بھرا محسوس ہوتا ہے اور یہ خون میں شوگر کی تحلیل کو سست کرتی ہیں۔
سبزیوں کی جتنی زیادہ اقسام آپ کھاتے ہیں اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تاہم آلو، شکر قندی اور کیلے ہر روز نہیں کھا سکتے۔ ان میں سٹارچ بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے انھیں اعتدال میں کھانا چاہیے۔ پھلیاں اور دالیں روزانہ کے کھانے میں شامل کی جا سکتی ہیں۔
⦿ ہول گرین: چھلکے والے اناج جیسے کہ براؤن رائس اور ہول میل بریڈ میں کاربوہائڈریٹس ہوتے ہیں اور اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آیا ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا افراد یا جنھیں یہ بیماری ہو سکتی ہے انھیں ایسا کھانا کھانا چاہیے جن میں کاربوہائڈریٹس زیادہ ہوتے ہیں؟
جہاں کاربوہائڈریٹس کا سوال ہے تو ان کی کوالٹی کافی اہم ہے۔ ریفائنڈ کاربوہائڈریٹس کو بنانا آسان ہوتا ہے جیسا کہ ہول ویٹ بریڈ، پاستا وغیرہ لیکن بہتر ہے کہ اگر ہو سکے تو ان سے گریز کریں۔
چھلکے والا اناج ریفائنڈ اناج سے بہتر ہے۔ چھلکا، اناج کا سب سے زیادہ غذائیت سے بھرپور حصہ ہوتا ہے جس میں فائبر اور پروٹین ہوتے ہیں۔
⦿ خریداری کے وقت لیبل غور سے پڑھیں: کچھ پراڈکٹ کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ان میں صحت بخش ہول گرین ہیں لیکن ان میں زیادہ چینی اور دوسری اشیا بھی ہوتی ہیں۔ جیسے کہ کچھ براؤن بریڈ وائٹ بریڈ ہوتی ہیں لیکن ان کا رنگ صرف براؤن ہوتا ہے۔
⦿پروٹین: پروٹین پیٹ بھر جانے کا احساس دیتا ہے اور آپ کی بھوک کو قابو میں لانے کی آپ کی مدد کر سکتا ہے۔
جن چیزوں میں پروٹین ہوتا ہے ان میں فائبر، وٹامنز اور اچھی چکنائی بھی ہوتی ہے۔ لیکن پروسیسڈ گوشت جیسی چیزوں میں پروٹین کے ساتھ بہت زیادہ چکنائی اور نمک بھی ہوتا ہے لہٰذا اسے کبھی کبھار اور کم کھانا چاہیے۔
پروٹین کے اچھے ذرائع میں مچھلی، گری دار میوے، دال، کم چکنائی والا گریک یوگرڈ (دہی) اور بہت سی پھلیاں (جیسے سویابین جو ٹوفو بنانے میں استعمال ہوتی ہیں) شامل ہیں۔
⦿ پھل: پھل ہمارے لیے اچھے ہیں کیونکہ وہ وٹامنز، منرلز اور فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں۔۔ لیکن کچھ پھل ایسے ہوتے ہیں جن میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے مختلف قسم کے پھلوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔
ٹراپیکل پھلوں میں خاص طور پر چینی زیادہ ہوتی ہے۔
جوس اور سموتھیز پینے کے بجائے پھلوں کو کھائیں۔ پھلوں میں فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو ہمارے جسم میں شکر کے جذب ہونے کے عمل کو سست کردیتی ہے۔ پھل کھانے سے ہماری بھوک بھی مٹ جاتی ہے۔
پھلوں کا جوس نکالنے سے زیادہ تر فائبر ختم ہوجاتا ہے۔ جب ہم کسی پھل کا جوس نکالتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ہمیں کتنا جوس پینا چاہیے۔
⦿ چکنائی: چکنائی اچھی صحت کے لیے ضروری ہے لیکن ہمیں اس کی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اسے کھانے کے بعد پیٹ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے جو ہمیں بھوک پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے۔
صحیح قسم کی چکنائی کھانا ضروری ہے۔ چکنائی کی کئی اقسام ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، مثلاً ٹرانس فیٹ، پروسیسڈ فوڈز میں پائی جانے والی چکنائی اور پروسیسڈ گوشت یا گھی میں پائی جانے والی چکنائی بھی ہمارے لیے اچھی نہیں ہے۔
اضافی چربی حفاظتی اثر بھی رکھتی ہے۔ اچھی چکنائیوں میں ایکسٹرا ورجن زیتون کا تیل اور مچھلی، سبزیوں اور پھلوں میں پائی جانے والی چکنائی شامل ہیں۔
وہ غذائیں، جن میں چکنائی اور چینی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، وہ آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، ان سے بچنا چاہیے۔
ایسے کھانوں سے ہوشیار رہیں، جن پر کم چکنائی کے لیبل لگے ہوتے ہیں کیونکہ ایسے کھانوں میں چکنائی کی جگہ دوسرے غیر صحت بخش اجزا ڈال دیے جاتے ہیں۔
⦿ پانی: ہم اکثر بھوک اور پیاس میں فرق نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اگر آپ کھانا کھانے کی بہتر عادات چاہتے ہیں تو زیادہ پانی پینا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پانی ہمارے لیے اچھا ہے، یہ بہترین ہے کیونکہ اس میں کیلوریز نہیں ہوتیں۔ بہت سے دیگر مشروب میں بہت چینی، کیفین یا لت لگا دینے والا مواد ہوتا ہے حاض طور پر سافٹ ڈرنکس، انرجی ڈرنکس اور کافی میں یہ موجود ہوتے ہیں۔
کوشش کریں اس قسم کے میٹھے مشروب شاز و نادر ہی نوش کریں، ایسے ثبوت بھی ملتے ہیں کہ میٹھے کھانے بھوک لگنے کے احساس کو بڑھاتے ہیں۔ نیز اگر آپ کو پانی کا ذائقہ پسند نہیں تو اس کو بہتر بنانے کے لیے لیموں، ادرک، پودینہ ڈال لیں۔ اس کی جگہ آپ ہربل چائے بھی بنا سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ ہر کسی کو مختلف مقدار میں پانی چاہیے ہوتا ہے، لیکن آپ اپنے پیشاب کے رنگ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کو کتنا پانی چاہیے۔ اگر پیشاب کا رنگ صاف یا ہلکا پیلا ہے تو آپ صحیح مقدار میں پانی پی رہے ہیں۔
⦿ جم اور ورزش: ورزش اچھی صحت کے لیے ضروری ہے۔ نہ صرف یہ اچھا وزن قائم رکھنے میں مدد کرتی ہے بلکہ اس کے بدولت بلڈ شوگر بھی کم رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ورزش جسم کو انسولین کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد دیتی ہے۔
آپ کو جم جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس روزمرہ کے کام کرتے رہیں اور کچھ ورزش کے گول بنا لیں۔آپ کوئی بھی ایسا کام کر سکتے ہیں، جس سے آپ کا جسم حرکت کرے جیسے چہل قدمی، گھر کے کام، بچوں کے ساتھ کھیلنا وغیرہ۔
⦿ کیا کھانے میں پرہیز سے ٹائپ ٹو ذیابیطس سے چھٹکارا مل جاتا ہے؟
نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے شکار لوگوں کو بلڈ شوگر لیول کو معمول پر رکھنے کے لیے بہت کم کیلوریز والی غذا کھانی چاہیے۔
تحقیق میں شریک افراد نے طبی نگرانی میں مختلف قسم کی خوراک کھائی۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ وزن کم کرنے سے جگر اور لبلبے میں چربی کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ ایسا ہونے سے بلڈ شوگر کی سطح نارمل ہو جاتی ہے اور انسولین فنگشن بہتر ہو جاتا ہے۔
تو قارئین کرام، اپنے وزن اور خوراک پر نظر رکھ کر ہم ذیابیطس پر قابو پا سکتے ہیں۔