”خدا کرے کسی غریب کا بچہ بیمار نہ ہو، کیوں کہ یہاں پر تو موت بھی سکون کی نہیں ملتی“ یہ الفاظ ہیں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہری محمد سجاول کے، جہاں ان دنوں سردی کی وجہ سے نمونیا کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محکمۂ صحت کے مطابق موسمِ سرما کے دوران اب تک نمونیا سے ڈھائی سو کے قریب بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں
پنجاب میں نمونیا کے کیسز ایسے وقت میں رپورٹ ہو رہے ہیں، جب صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت پنجاب کے میدانی علاقے شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں۔
پنجاب میں 24 گھنٹوں کےدوران مزید 7 بچے نمونیہ سے انتقال کر گئے، پنجاب میں 36 گھنٹوں کے دوران ایک ہزار 122 نمونیا کیسز رپورٹ ہوئے، لاہورشہر میں ایک روز کے دوران 280 سے زائد مزید کیسز رپورٹ ہوئے۔
رواں سال صوبے میں نمونیا کے بارہ ہزار سے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، اس حوالے سے اب حکومت نے شہریوں کو نمونیا سے بچاؤ کے لئے ویکسین لگوانے کی ہدایات کی ہیں۔
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نمونیا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی بڑی وجہ رواں سال موسمِ سرما میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی اسموگ بھی ہے۔
پنجاب میں متعددی بیماریوں کے کنٹرول کے ادارے ‘سی ڈی سی’ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ید اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال موسمِ سرما میں نمونیا کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ انھوں نے اس کی وجہ اسموگ کو قرار دیا
ثناء بی بی کا تعلق پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے نواحی قصبے منڈیالی سے ہے ان کے شوہر شہر میں ایک ہوٹل پر ملازمت کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ 25 جنوری کی صبح پانچ بجے میرے بچے کا جسم کانپنے لگا، رنگ بھی نیلا پڑ گیا، اسے بیڈ پر لٹا کر فوری ڈاکٹر کی طرف بھاگی جو دوسری وارڈ میں تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر پہنچے، بچے کا معائنہ کیا اور کہہ دیا کہ آپ کا بیٹا اللہ کو پیارا ہو چکا ہے۔
ثناء نے روتے ہوئے شکوہ کیا کہ ان کے بچے کو نمونیا ہی تو تھا، اگر بروقت مناسب طبی سہولیات مل جاتی تو شاید وہ آج زندہ ہوتا۔
ان کے مطابق 24 جنوری کی شام جیسے ہی ان کے بیٹے کی طبعیت بگڑی تھی تو وہ اپنے شوہر کے ہمراہ فوری طور پر اسے لے کر سول ہسپتال پہنچ گئیں۔ یہاں پر موجود ڈاکٹرز نے بچے کا معائنہ بھی نہیں کیا اور کہہ دیا کہ اسے دوسرے چلڈرن ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے جائیں جو وہاں سے تقریبا پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم دونوں میاں بیوی بیمار بچے کو لے کر چلڈرن ہسپتال پہنچے تو رات کے 8 بج چکے تھے۔ پرچی کاونٹر پر بھی بہت لوگ جمع تھے، قطار میں کھڑے رہ کر اندراج کی پرچی بنوائی۔ اس کے بعد بچے کے ڈاکٹر سے معائنے کے لیے بھی کافی دیر تک انتظار کرنا پڑا۔ ایک لمحے کا انتظار بھی مشکل ہو رہا تھا کیونکہ بچہ بہت تکلیف میں تھا اس کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی، باری آنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ نمونیا کی بیماری کی وجہ سے بچے کی حالت نازک ہو چکی ہے، اسے فوری طور پر وارڈ میں داخل کرا دیں
جب وہ بچے کو گود میں اٹھائے وارڈ میں داخل ہوئے تو وہاں پر بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ ایک ایک بستر پر پانچ، پانچ بچے تھے، بہت ساری مائیں اپنے بچوں کو گود میں لے کر بیٹھی تھیں اور ڈرپ کو ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا۔ وہ نرسنگ کاؤنٹر پر پہنچے تو یہاں بھی پندرہ منٹ تک انتظار کرنا پڑا، باری آئی نرس نے ڈرپ لگا کر مشورہ دیا کہ جس بیڈ پر جگہ ملے بچے کو گود میں لےکر بیٹھ جائیں۔
ثناء بتاتی ہیں ”میں ساری رات بچے کو لے کر بیٹھی رہی اس کے والد سخت سردی میں باہر کھڑے رہے، پھر صبح پانچ بجے میرا بچہ دم توڑ گیا۔“
فاروق آباد کے رہائشی محمد سجاول کی دو سالہ بیٹی نور فاطمہ بھی تین دن تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد 26 جنوری کو زندگی کی بازی ہار گئیں
سجاول نہ کسی سے شکوہ کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی شکایت ہے، انہوں نے بس اتنا ہی کہا ”خدا کرے کسی غریب کا بچہ بیمار نہ ہو، کیوں کہ یہاں پر تو موت بھی سکون کی نہیں ملتی“
چلڈرن ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے دو ہفتوں میں صرف اس شہر میں نمونیا سے کم از کم اکیس بچوں کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں متاثر ہو رہے ہیں۔
گوجرانوالہ کے قریبی قصبہ اروپ سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ غلام رسول مزدوری کرکے گزر بسر کرتے ہیں، دو روز پہلے ان کے تین سالہ اکلوتے بیٹے کا اسی مرض کی وجہ سے انتقال ہو گیا
غلام رسول بتاتے ہیں کہ کچھ دن پہلے جب ان کے بیٹے کی طبعیت خراب ہوئی تو انہوں نے ایک مقامی کلینک سے دوا لی اور گھر واپس آ گئے۔ بچے کو دو روز تک دوائی دی گئی جس میں بظاہر کچھ افاقہ بھی ہوا لیکن تیسرے روز اچانک بچے کی حالت بگڑ گئی جس پر سب گھر والے پریشان ہو گئے۔
غلام رسول کہتے ہیں کہ ہمیں اور کچھ نہ سجھائی دیا تو ہم بیٹے کو لے کر سول ہسپتال پہنچ گئے جہاں سے ہمیں قریب ہی نئے بننے والے چلڈرن ہسپتال بھجوادیا گیا، چلڈرن ہسپتال میں پہلے ہی بہت زیادہ رش تھا ، بچے کے ٹیسٹ کئے گئے تو انکشاف ہوا کہ اسے نمونیا ہو گیا ہے۔ ”میرا لخت جگر دو روز تک ہسپتال میں زیر علاج بھی رہا لیکن پھر تیسرے روز ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کی جان نہیں بچائی جا سکی“
میڈیا پر محکمہ صحت پنجاب کے حوالے سے چلنے والی خبروں کے مطابق یکم جنوری سے 26 جنوری تک صوبے میں نمونیے سے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 233 تک پہنچ چکی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق 25 جنوری کو 12 اور 26 جنوری کو 13 بچوں کا انتقال ہوا ہے۔ اسی طرح یکم جنوری سے اب تک نمونیے مرض میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد 12 ہزار کے قریب ہے۔
اس عرصے میں پنجاب کے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی پچیس سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب جنوبی پنجاب کے حالات بھی بہت زیادہ ابتر ہیں۔ ملتان کے چلڈرن اور نشتر ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق رواں ماہ بیالیس بچے نمونیے کی وجہ سے دم توڑ گئے ہیں، جبکہ جنوبی پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی کل تعداد سڑسٹھ ہے۔
ماہرینِ صحت نمونیا کے بڑھتے ہوئے کیسز کو شدید سردی اور موسمِ سرما میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کو بھی قرار دے رہے ہیں۔
شیخوپورہ کے ہسپتالوں میں زیر علاج بچوں کے والدین ایسی صورتحال میں نہ صرف ہسپتال کے عملے بلکہ اپنے مقامی سیاستدانوں کی بے اعتنائی کا شکوہ بھی کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق موجودہ الیکشن مہم کے دوران ہر کوئی ترقی کے دعوے تو بڑھ چڑھ کر رہا ہے، لیکن ان سے کوئی پوچھنے تک نہیں آیا۔
شیخوپورہ سے مسلسل تین بار منتخب ہونے والے اور طویل عرصہ حکومت میں رہنے والے مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے تو اپنی الیکشن مہم کے لیے ایک ایسا پمفلٹ بھی چھپوایا ہے، جس میں وہ چلڈرن ہسپتال سمیت شہر میں عوامی فلاح کے 36 منصوبوں مکمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے خود کو ووٹ کا صحیح حق دار قرار دے رہے ہیں۔
محمد سجاول جن کی تین سال بچی کا دو روز پہلے انتقال ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مقامی سیاستدان کی نظر میں صرف چوہدری اور وڈیرے ہی ووٹر ہیں، کیوں کہ آج کل وہ انہی کے ڈیروں پر پائے جاتے ہیں، شہر میں غریب لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا ”جس طرح مقامی سیاستدان انہیں نہیں پوچھ رہے، اسی طرح پورے ملک کے میڈیا کو بچوں کی اموات سے زیادہ الیکشن میں دلچسپی ہے۔“
شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور صحافی آصف کمبوہ کہتے ہیں کہ 24 جنوری کی رات 11 بجے وہ اپنے شہر کے چلڈرن ہسپتال گئے تو یہاں پر بجلی بند تھی۔ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ جنریٹر پچھلے گزشتہ پندرہ روز سے خراب ہے۔ کچھ والدین نے بتایا کہ نرسری میں آکسیجن کی سپلائی بیس منٹ معطل رہی ہے۔
ان کے مطابق ہسپتال میں چھاتی کے انفیکشن کا ٹیسٹ کرنے والی واحد مشین بھی خراب ہے، جو ایک کونے میں پڑی ہے اور اس کو زنجیر لگائی گئی ہے۔ ہسپتال میں داخل بچے سینکڑوں میں ہیں لیکن یہاں پر صرف بتیس عدد بیڈ ہی دستیاب ہیں، ان میں سے بھی کچھ ایمرجنسی وارڈ میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب اس ساری صورتحال سے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار علی خان کو آگاہ کیا تو انھوں نے فوری طور پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ فون کیا اور ان معاملات کو فوری طور پر حل کرنے کا حکم دیا۔ لیکن دو روز گزرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا
شیخوپورہ چلڈرن ہسپتال کے ایڈیشنل میڈیکل سپریڈنٹ ڈاکٹر اسامہ خان کے مطابق پہلے ہسپتال کی ایمرجنسی اور آئی سی یو میں بیڈز کی تعداد 32 ہی تھی، لیکن اب ان کو بڑھا کر 41 کر دیا گیا ہے کیوں کہ اسٹور روم میں پڑے ہوئے 9 بیڈز بھی اب استعمال میں لائے جارہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایمرجنسی میں روزانہ کی بنیاد پر دو سو سے ڈھائی سو بچے چیک اپ کے لیے آرہے ہیں جبکہ او پی ڈی میں چیک اپ والوں کی تعداد چار سو سے ساڑھے چار سو تک ہے۔ ہسپتال میں صرف انہیں بچوں کو داخل کیا جا رہا ہے جو شدید متاثر ہوں، اس کے علاوہ اگر کسی روز بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے تو والدین کو انہیں لاہور کے چلڈرن ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی بھی کمی ہے۔
وہ اپنے ہپستال میں پانچ بچوں کے لیے ایک ہی بستر کو بھی صحت کے اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے سوئیر انفیکشن کا شکار بچہ دوسرے بچوں پر بھی اثر انداز کر سکتا ہے۔
نمونیا کی علامات کیا ہیں اور اس بیماری سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر فیاض کھوکھر کا شمار گوجرانوالہ کے سینئر جنرل فزیشنز میں ہوتا ہے، جو کہ سول ہسپتال کامونکی کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ بھی رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارا نظام صحت کا ڈھانچہ زیادہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے احتیاطی تدابیر اپنا کر اس صورتحال سے بچا جا سکتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں ان کے کلینک پر ہر دس میں سے نو مریض سموگ اور نمونیا کا شکار آ رہے ہیں، سب کو سینے میں درد، نزلہ، زکام، کھانسی، آنکھوں کا دکھنا اور کپکپاہٹ کی ایک جیسی علامات ہیں۔
ایسے لوگ جوکہ موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں وہ اس بیماری کا سب سے پہلا شکار ہوتے ہیں، اس کے علاوہ چھوٹے بچوں کو نمونیا منٹوں میں پکڑ لیتا ہے، جس کی پہلی علامت یہی ہوتی ہے کہ انہیں سانس میں تکلیف ہوتی ہے اور سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فیاض کھوکھر کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ مزید ایک ماہ یعنی ماہ فروری تک بچوں کے بارے میں لاپرواہی نہ برتیں، ان کو گرم ملبوسات پہنائیں، انڈر گارمنٹس کا لازمی استعمال کریں، بچوں کو ضروری حالات کے سوا باہر نہ نکلنے دیں، جو بچے اسکول جاتے ہیں ان کو ٹوپی دستانے اور جرابیں ضرور پہنائیں اور جب بھی پانی پئیں، اسے نیم گرم کرلیں، ابلے انڈوں، سوپ، گرم دودھ اور چائے کا استعمال کریں۔
ڈاکٹر فیاض کھوکھر کہتے ہیں کہ جو نمونیا ان دنوں پھیلا ہوا ہے وہ عام نمونیا نہیں بلکہ وائرل نمونیا ہے، جس میں وہ ویکسین کارآمد نہیں ہوتی جو کہ بچوں کو پیدائش کے بعد حفاظتی ٹیکا جات میں لگائی جاتی ہے، بہتر یہی ہے کہ والدین احتیاط سے کام لیں اور اس وائرل نمونیا سے خود بھی بچیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں۔
ڈاکٹر یداللہ کہتے ہیں کہ اگر کسی بچے کو تیز بخار کے ساتھ کھانسی ہے، سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے اور اس کی چھاتی چلنا شروع ہو جائے تو ان کے بقول یہ نمونیا کی بڑی علامتیں ہیں۔
اُن کے بقول نمونیا سے پانچ سال سے کم عمر بچے اور وہ معمر افراد متاثر ہوئے ہیں جو شوگر، بلڈ پریشر اور دمے سے متاثر ہیں یا وہ لوگ جن کے پھیپھڑے کووڈ کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے متاثر ہوئے۔
طبی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کی رپورٹ کے مطابق دراصل نمونیا پھیپھڑوں کے اندر انفیکشن کو کہا جاتا ہے، نمونیا کے زیادہ تر کیس وائرس کی وجہ سے ہوتے ہیں اور یہ نزلہ و زکام کی علامات کے بعد ظاہر ہو سکتا ہے۔
نمونیا ہلکا یا سنگین ہو سکتا ہے، عام طور پر 5 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں میں زیادہ عام ہوتا ہے۔
نمونیا اگر کسی صحت مند انسان کو ہو تو وہ اس کا مقابلہ با آسانی کرسکتا ہے مگر بچوں کے لیے اس سے نمٹنا بعض اوقات انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔
بچوں کو نمونیا ہونے کی وجوہات میں انہیں دودھ پلانے کی کمی، آلودگی، غذائیت کی کمی، ٹھنڈ میں زیادہ دیر تک رہنا اور کمزور مدافعتی نظام شامل ہے۔
نمونیا کی ہلکی علامات بھی جان لیوا ہو سکتی ہیں، اس بیماری کی یہ علامات ہیں:
بلغم اور کھانسی ، بخار، بہت زیادہ پسینہ آنا یا سردی لگنا، معمول کی سرگرمیاں کرنے کے دوران سانس پھولنا، سانس لیتے وقت یا کھانسی کے وقت سینے میں درد محسوس ہونا، تھکاوٹ کا احساس، بھوک میں کمی، متلی محسوس ہونا، سر درد ہونا۔
دیگر علامات آپ کی عمر اور صحت کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں:
شیر خوار یا نومولود بچوں میں بعض اوقات کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن بعض اوقات انہیں متلی ہو سکتی ہے، توانائی کی کمی ہو سکتی ہے یا پینے یا کھانے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔
پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹرز ابتدائی طور پر تو سینے کا ایکسرے تجویز کرتے ہیں جس سے پھیپھڑوں کے بارے میں صحیح معلومات ملتی ہیں۔
جبکہ وائرس کے نتیجے میں ہونے والے نمونیا کے لیے اینٹی وائرس ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔