برسوں سے، ہم امتحان کے قلمی کاغذ کی شکل سے واقف ہیں، جہاں طلباء کو ایک سوالیہ پرچہ ملتا ہے، جس میں سوالات ہوتے ہیں، جن کا جواب لکھ کر حل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ان دنوں امتحان کے موڈ کو جدید بنانے اور طلباء کی تنقیدی سوچ اور علم کو بہتر بنانے کے لیے ان دنوں اسکولوں اور کالجوں میں اوپن بک امتحان کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
جی ہاں، تصور کیجیے ایک ایسے امتحان کا، جس میں سوالیہ پرچہ دے کر آپ کو اجازت دی جائے کہ آپ اپنی کتابیں کھول کر سوالات کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کتابیں کھول کر جواب ڈھونڈنے کو یہاں نقل یا چیٹنگ کا نام بھی نہیں دیا جائے گا اور نہ آپ کو ایسا کرنے پر کوئی سزا دی جائے گی۔۔
بظاہر تو امتحان دینے کا یہ طریقہ آسان سا لگتا ہے، لیکن ’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کہلانے والا یہ طریقہ اپنے جوہر میں اس قدر سہل بھی نہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے، جس کے تجربات اس خطے میں انڈیا سمیت کئی ممالک میں کیے جا رہے ہیں۔
کھلی کتاب کے امتحانات کے پیچھے ایک طالب علم کی علم کو لاگو کرنے، تنقیدی انداز میں سوچنے اور دستیاب وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کا اندازہ لگانا ہے۔ اگرچہ یہ امتحانات جانچ کے لیے زیادہ آرام دہ انداز کی طرح لگ سکتے ہیں، لیکن وہ اپنے اپنے چیلنجوں اور تحفظات کے ساتھ آتے ہیں۔
کھلی کتاب کے امتحانات، جنہیں اکثر OBEs کہا جاتا ہے، تعلیم کے دائرے میں طویل عرصے سے شدید بحث کا موضوع رہا ہے۔ اس سوال نے کہ آیا اس طرح کے امتحانات کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے، ماہرین تعلیم، طلباء اور متعلقہ والدین کے درمیان جذباتی بحث کو ہوا دی ہے، جس سے نقطہ نظر اور غور و فکر کا ایک سلسلہ پیدا ہوا ہے۔ یہ بحثیں کھلی کتاب کے جائزوں کی افادیت اور منصفانہ ہونے کی بنیادی تحقیقات کی عکاسی کرتی ہیں
’اوپن بُک ایگزامینیشن‘ کا مطلب یہ ہے کہ امتحان دیتے وقت طالب علم کتاب یا دیگر مطالعاتی مواد کو دیکھ کر سوالات کے جوابات لکھ سکتے ہیں۔ اوپن بک امتحان کا مطلب ایک تشخیصی طریقہ ہے، جو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے جو طلباء کو سوالات کے جوابات دیتے وقت نصابی کتب، کلاس کے نوٹس، یا کسی دوسرے منظور شدہ مواد کا حوالہ دینے کی اجازت دیتا ہے۔ اوپن بک امتحان کا مطلب یہ ہے کہ طلباء کو امتحان میں لکھنے سے پہلے سوالیہ پرچہ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ طالب علموں سے معلومات کا تجزیہ، ترکیب، موازنہ، یا تشخیص کرنے کے لیے کہتا ہے۔ وہ جانچتے ہیں کہ آیا آپ کورس کی اصل چیز کو سمجھتے ہیں اور یہ کیسے کام کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ مواد کو صحیح طریقے سے سمجھیں اور معلومات اور مواد کو یاد رکھنے کے بجائے اس کا اطلاق یا تجزیہ کرنے کے قابل ہوں۔ یہ امتحان طلباء کو کورس کے مواد کو جذب کرنے اور سمجھنے کا دوسرا سیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
دراصل دنیا بھر میں ’اوپن بُک ایگزام‘ لینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طالب علموں کی سوچنے، سمجھنے، تجزیہ کرنے اور تنقیدی نگاہ سے پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔
عام امتحانات میں طلباء صرف ایک سے دو دن تک مواد کو یاد کرکے نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ طالب علم اس سے سب کچھ سمجھ گیا ہے۔ تاہم، کھلی کتاب کے امتحانات میں، آپ نصابی کتاب سے براہ راست جواب نہیں دے سکتے اور بالواسطہ سوالات کے جوابات دینے کے لیے آپ کو مضامین کی اچھی سمجھ ہونا ضروری ہے۔ اس سے طلباء کو نصابی کتاب پر مبنی آموزش کی بجائے ایپلیکیشن بیسڈ لرننگ کی اجازت ملے گی۔ کھلی کتابوں کے امتحانات طلباء کو حقیقی زندگی کے تصورات سیکھنے کا موقع دیتے ہیں
’اوپن بُک ایگزام‘ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم میں طالب علموں میں رٹّا لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جس سے ان کی تعمیری، تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
حقیقی دنیا میں، فیصلے کرتے وقت یا مسائل کو حل کرتے وقت پیشہ ور افراد کو اکثر حوالہ جاتی مواد تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ کھلی کتاب کے امتحانات کی اجازت دینے سے طلبہ کو ان حالات کے لیے بہتر طریقے سے تیار کیا جا سکتا ہے، جن کا انہیں اپنے مستقبل کے کیریئر میں سامنا ہو سکتا ہے
کیمبرج یونیورسٹی میں 2020 میں کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ’اوپن بُک ایگزام‘ کے نظام میں امتحان دینے والے طالب علموں پر پڑھائی کا دباؤ کم ہوتا ہے۔
سال 2021 میں اس حوالے سے ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں بھی ایک تحقیق کی گئی تھی اور محققین کا دعویٰ ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں اوپن بُک امتحان میں حصہ لینے والے طالب علموں نے روایتی امتحان دینے والے طالب علموں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی تھی۔
’اوپن بُک ایگزام‘ کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس سے طالب علموں پر ذہنی دباؤ کیسے کم ہوگا؟
ماہرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ امتحانی نظام بچوں میں مضامین کی سمجھ بیدار کرنے کے بجائے رٹّے کو زیادہ فروغ دیتا ہے۔ ایسے میں ’اوپن بُک ایگزام‘ ان کے لیے تناؤ کی کمی کا باعث بن سکتا ہے۔
انڈیا کے ماہرِ تعلیم جگموہن سنگھ راجپوت کہتے ہیں ”موجودہ امتحانی نظام بچوں میں ذہنی تناؤ بڑھا رہا ہے۔ آج جب میں ہر ہفتے کسی نہ کسی بچے کی خودکشی کے بارے میں سُنتا ہوں تو مجھے دُکھ ہوتا ہے۔ اس لیے اوپن بُک امتحانات جتنی جلدی شروع ہوں اُتنا اچھا ہے۔“
اس نظام کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ OBE میں، طلباء معلومات کی تلاش میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کر سکتے ہیں، اصل مسئلہ حل کرنے کے لیے کم وقت چھوڑتے ہیں۔ یہ ان کی مقررہ مدت کے اندر امتحان مکمل کرنے کی صلاحیت کو روک سکتا ہے۔
اس پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کچھ طالب علم حوالہ جاتی مواد پر بہت زیادہ انحصار کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے موضوع کی گہری تفہیم کی بجائے سطحی سطح پر سیکھنا پڑتا ہے۔ وہ آسانی سے دستیاب وسائل پر منحصر ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ اوپن بک ایگزامز OBEs پراکٹر کے لیے زیادہ چیلنجنگ ہو سکتا ہے، جس سے دھوکہ دہی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ طالب علموں کو امتحان کے دوران غیر مجاز مواد استعمال کرنے یا دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کا لالچ دیا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ ایک OBE ڈیزائن کرنا جو طالب علم کی سمجھ بوجھ اور مسئلہ حل کرنے کی مہارتوں کا مؤثر طریقے سے جائزہ لے، مشکل ہو سکتا ہے۔ انصاف پسندی کو یقینی بنانا اور طلباء کو تمام جوابات تلاش کرنے سے روکنا ایک پیچیدہ کام ہے۔
پاکستان میں غیر نصابی اور غیر رسمی تعلیمی سرگرمیوں پر کام کرنے والے مشرف علی فاروقی کہتے ہیں ”میں نے اسی رٹّا فکیشن والے نظام میں میٹرک کیا تھا لیکن اس وقت امتحانات کے نام پر وہ دوڑ نہیں لگی ہوئی تھی، جو ہمیں آج نظر آتی ہے۔“
وہ کہتے ہیں ”میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کے اندر تنقیدی صلاحیتیں اس وقت تک نہیں آئیں گی جب تک انھیں ان کے پاس موجود معلومات کو پروسیس کرنے کا وقت نہیں ملے گا۔“
مشرف علی فاروقی کا مزید کہنا ہے ”کون سا نظامِ تعلیم رائج ہو،مجھے لگتا ہے کہ اس سے فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی سوال یہ ہونا چاہیے کہ کون سے نظام میں بچوں کی ذہنی صلاحیتیں بڑھیں گی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر امتحانی عمل کو 95 فیصد تک کم کر دیا جائے تو ہمیں حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔“
تو کیا یہ ’اوپن بک ایگزام‘ کا نظام پاکستان میں قابلِ عمل ہے؟
اس حوالے سے اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر الہان نیاز کا ماننا ہے کہ ’اوپن بُک ایگزام‘ پاکستان میں بھی قابلِ عمل ہے اور ہمیں اس کا تجربہ کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں ”میں اپنی کلاس میں اکثر یہ ایسا کرتا ہوں کہ طالب علموں کو اجازت دے دیتا ہوں کہ وہ اپنی کتابیں یا دیگر مواد ساتھ لے آئیں لیکن پھر ان سے جو سوال پوچھے جاتے ہیں، وہ سادہ نہیں ہوتے بلکہ تجزیاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔۔ اس کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ طالب علم رٹّا لگانے کی روایت سے باہر نکلتے ہیں۔“
پروفیسر الہان نیاز کے مطابق، اگر ’اوپن بُک ایگزام‘ کا طریقہ کار پاکستان میں اپنایا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ سیکھنے کا عمل بہتر ہوگا اور طالب علموں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔
تاہم پاکستان میں اس نظام کو رائج کرنے میں کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس میں سب سے بڑی وجہ اس حوالے سے تربیت یافتہ استادوں کا نہ ہونا ہے۔
الہان نیاز کہتے ہیں ”اس نظامِ تعلیم کو رائج کرنے سے اساتذہ پر یقینی طور پر اضافی بوجھ پڑے گا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ٹیچرز کو اپنی سبجیکٹ پر اتنی کمانڈ حاصل نہیں ہوتی۔۔ اگر وہ خود کتاب کا مطالعہ نہیں کریں گے تو اوپن بُک ٹیسٹنگ کے لیے سوالات کیسے بنا پائیں گے؟“
ان کے مطابق پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم اتنا کامیاب نہیں ہے، بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ چھوٹے یا سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اپنی کلاس کے حساب سے کارکردگی نہیں دکھا پا رہے ہوتے
الہان نیاز کہتے ہیں ”آپ کا موجودہ نظامِ تعلیم ویسے ہی فارغ ہوگیا ہے اور اس نظام میں بچوں کی سوچنے اور سمجھنے صلاحیتیں بھی کم ہو رہی ہیں۔۔ اس لیے اگر ہم ’اوپن بُک ٹیسٹنگ‘ پورے پاکستان میں نافذ نہیں بھی کر سکتے تو کم سے کم ہمیں اس کا تجربہ پاکستان کے بڑے شہروں میں تو کر کے دیکھنا چاہیے۔“