ایک مشہور اور دلچسپ کہانی ہے۔۔ اس کہانی کے دو کرداروں کو ایک دنیا جانتی ہے۔
یہ کہانی شروع ہوتی ہے اسکاٹ لینڈ کے ایک غریب کسان سے۔۔ کھیتوں میں جانا، کام کرنا، محنت مشقت سے فصلوں کی کاشت اور انہیں بیچ کر اپنا اور خاندان کا پیٹ بھرنا۔۔ بس یہی اس کی زندگی تھی۔
کہتے ہیں کہ ایک روز وہ معمول کے مطابق اپنے کھیتوں کی طرف جا رہا تھا، تبھی رستے میں اس نے اچانک ایک جانب سے کسی بچے کے چیخنے کی آواز سنی، وہ فوراً اس جانب دوڑ پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ ایک بچہ دلدل کے ایک جوہڑ میں ڈوب رہا ہے۔ اس نے سب سے پہلے اسے تسلی دی، جب بچہ پرسکون ہو گیا، تو اس نے قریب درخت سے ایک لمبی سی شاخ توڑی اور اس کا ایک سرا بچے کی جانب پھینکتے ہوئے کہا، ”گھبراؤ مت، اس شاخ کو مضبوطی سے پکڑ لو، میں تمہیں کھینچ کر یہاں سے نکال لوں گا۔“
بچے نے ایسا ہی کیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ دلدل سے باہر خشک زمین پر کھڑا تھا۔ کسان نے اس کی زندگی بچا لی تھی۔۔
اس غریب کسان نے بچے سے کہا، ”تمہارے کپڑے گندے ہو چکے ہیں، میرے ساتھ میرے گھر تک چلو، وہاں نہا کر صاف کپڑے پہن لینا۔“
بچے نے جواب دیا: ”میرے والد انتظار کر رہے ہوں گے اور پریشان بھی ہوں گے، لہٰذا میں آپ کی یہ پیشکش قبول نہیں کر سکتا۔“ یہ کہہ کر بچے نے اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔
اگلی ہی صبح، جب کسان اپنے گھر سے نکل کر کھیتوں کی جانب جانے ہی لگا تھا کہ تو اس نے ایک خوب صورت بگھی کو اپنے گھر کی جانب آتے دیکھا۔ بگھی اس کے مکان کے پاس آ کر رکی تو اس میں سے ایک بارعب شخص نمودار ہوا۔ اس نے کسان سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا: ”کل آپ نے جس بچے کی جان بچائی تھی، میں اسی بچے کا باپ ہوں۔ آپ کا شکریہ، بتائیں اس کے بدلے میں، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“
غریب کسان نے جواب دیا، ”آپ کے یہاں آنے کا شکریہ۔۔ لیکن مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں، کیونکہ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی کرتا۔“
اس امیر رئیس شخص نے بہت اصرار کیا لیکن کسان کسی صورت اس کی پیشکش ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ مایوس ہو کر وہ جانے ہی والا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک لڑکے پر پڑی۔ تبھی اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوئی۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکا، کسان کے قریب آیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے لگا، ”کیا یہ آپ کا بیٹا ہے؟“
کسان نے ایک قدم دور کھڑے بیٹے کو اپنے قریب کھینچا اور محبت سے اس کا سر سہلاتے ہوئے جواب دیا، ”جی! یہ میرا ہی بیٹا ہے۔“
کسان کی بات سن کر اس نے سر ہلایا اور کہنے لگا، ”کیا تم میری یہ پیشکش ماننے کے لیے تیار ہو کہ تمہارا بیٹا میرے ساتھ لندن جائے اور اسی اسکول میں پڑھے، جس میں میرا وہ بیٹا پڑھتا ہے، جسے کل آپ نے بچایا تھا۔“
کسان نے اپنے بیٹے کی محبت میں یہ پیشکش قبول کر لی اور اسے لندن بھیج دیا۔ وہ بچہ وہاں جا کر پڑھنے لگا۔ اس نے اتنی محنت کی کہ وہ نہ صرف پوری دنیا میں مشہور ہوا، بلکہ لاکھوں لوگوں کا مسیحا بھی قرار پایا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ بچہ کون تھا، دنیا آج اسے ’الیگزینڈر فلیمنگ‘ کے نام سے جانتی ہے۔ جی ہاں! الیگزینڈر فلیمنگ۔۔ ایک اسکاٹش حیاتیات دان، فارماسولوجسٹ، اور بیکٹیریولوجسٹ، جنہیں اینٹی بایوٹکس کی دنیا میں انقلابی دریافت کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے 1928 میں پینسلین، جو کہ دنیا کی پہلی اینٹی بایوٹک ہے، دریافت کی۔ اس دریافت نے انفیکشنز کے علاج میں انقلاب برپا کیا اور لاکھوں زندگیاں بچائیں۔ فلیمنگ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1945 میں نوبل انعام دیا گیا۔
لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اس میں ایک مزیدار موڑ اس وقت آیا، جب وہ بچہ جسے کسان نے دلدل سے نکالا تھا، جنگِ عظیم سے پہلے ایک بار پھر موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ اب کی بار اسے کسی دلدل کا سامنا نہیں تھا بلکہ اسے ایک بیماری نے آن لیا تھا۔ اس کی موت یقینی تھی، لیکن اس بار بھی اس کی جان بچا لی گئی!
لیکن اب کی بار اس کی جان بچانے کسان نہیں آیا بلکہ اس کا بیٹا آیا۔ رئیس کے بیٹے نے اس کی بنی ہوئی ویکسین استعمال کی اور دنوں میں ٹھیک ہو گیا۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ پہلے کسان کی مدد سے دلدل سے اور اب اس کسان کے بیٹے کی بنائی گئی ویکسین کی مدد سے بچ جانے والا یہ شخص کون تھا؟
اس کا نام ونسٹن چرچل تھا۔۔ دوسری عالمی جنگِ عظیم کا فاتح اور اس وقت کے انگلستان کا وزیرِاعظم ونسٹن چرچل، جو صرف جنگجو ہی نہیں بلکہ فنونِ لطیفہ کا بھی رسیا تھا۔ ادب، مصوری، صحافت اور ثقافت بھی اس کے رگ و پے میں سرایت کرتی تھی۔
لیکن ابھی اس کہانی کے بارے میں سب سے بڑا اور سب سے اہم سوال باقی ہے۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کہانی کی حقیقت کیا ہے؟
آئیے ذرا اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں
یہ کہانی کہ سر الیگزینڈر فلیمنگ یا ان کے والد (کہانیاں مختلف ہیں) نے چرچل کی جان بچائی، انٹرنیٹ پر برسوں سے گردش کر رہی ہے۔
یہ قصہ عام طور پر مشہور ہے، لیکن تاریخی طور پر اس کی تصدیق نہیں ہوتی اور یہ ایک افسانہ ہے۔ الیگزینڈر فلیمنگ، جو پینسلین کے موجد ہیں، اسکاٹ لینڈ کے ایک کسان کے بیٹے تھے، لیکن اس کہانی میں بیان کی گئی تفصیلات درست نہیں سمجھی جاتیں۔ اس کہانی میں کہا جاتا ہے کہ فلیمنگ کے والد نے ایک رئیس بچے کی جان بچائی تھی اور اس بچے کے والد نے فلیمنگ کو تعلیم دلوانے کے لیے مدد کی، لیکن تاریخ دانوں کے مطابق اس کہانی کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔
الیگزینڈر فلیمنگ کی تعلیم اور کیریئر کا سفر ان کی اپنی صلاحیتوں اور محنت کا نتیجہ تھا، اور ان کے موجد بننے کی کہانی زیادہ تر ان کے علمی کام پر مبنی ہے۔
نوبل پرائز کی ویب سائٹ پر اس بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب بہت مختصر ہے: ”یہ کہانی جھوٹی ہے۔“
ونسٹن چرچل ڈاٹ آرگ نامی ویب سائٹ کے مطابق جتنی دلکش یہ کہانی ہے، اتنی ہی یہ یقینی طور پر افسانہ ہے۔ ہم نے بعد کے حوالہ جات کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ کہانی شروع کہاں سے ہوئی؟ 2009 میں کین ہِرش نے گوگل بُک سرچ کا استعمال کرتے ہوئے اس افسانے کے ممکنہ طور پر پہلی بار ظہور کا پتہ لگایا، اور وہ ہے: دسمبر 1944 کے کورونٹ میگزین کے صفحات 17-18 پر "ڈاکٹر لائف سیور” کے نام سے آرثر گلڈ اسٹون کینی کی کہانی۔
مسٹر ہِرش نے اس کہانی کے مصنف (1893-1955) کا بھی پتہ لگایا، جو فلوریڈا اور واشنگٹن ڈی سی کے ایک نیوزمین تھے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران انفارمیشن کے دفتر میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
مسٹر ہِرش لکھتے ہیں، ”چونکہ کینی کی کہانی چرچل کے نمونیا کے ساتھ نمایاں طور پر بیمار ہونے کے صرف ایک سال بعد شائع ہوئی تھی، میرے خیال میں یہ افسانے کا پہلا ظہور ہو سکتا ہے۔“
کینی کے مطابق، چرچل کو اسکاٹ لینڈ کی ایک جھیل میں ڈوبنے سے ایک کسان لڑکے، ایلیکس، نے بچایا۔ کچھ سال بعد، چرچل ایلیکس کو فون کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے والدین، شکریہ کے طور پر، ایلیکس کی ناقابل برداشت میڈیکل اسکول کی تعلیم کے اخراجات ادا کریں گے۔ ایلیکس اعزازات کے ساتھ گریجویشن کرتا ہے اور 1928 میں دریافت کرتا ہے کہ کچھ بیکٹیریا کچھ سبزیوں کے سانچوں میں نہیں بڑھ سکتے۔ 1943 میں جب چرچل مشرق وسطیٰ میں بیمار ہو جاتا ہے، تو ایلیکس کی ایجاد، پینسلن، چرچل کو ٹھیک کرنے کے لیے ہوائی جہاز سے بھیجی جاتی ہے۔ اس طرح ایک بار پھر الیگزینڈر فلیمنگ نے ونسٹن چرچل کی جان بچائی۔
ڈاکٹر جان ماتھر لکھتے ہیں ”کہانی کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چرچل کا اس انتہائی سنگین نمونیا کا علاج پینسلن سے نہیں بلکہ ’ایم اینڈ بی‘ سے کیا گیا، جو مے اور بیکر فارماسوٹیکلز کی طرف سے تیار کردہ سلفا ڈایازین کا مختصر نام ہے۔ چونکہ وہ بہت بیمار تھے، غالباً یہ بیکٹیریل انفیکشن تھا نہ کہ وائرل، کیونکہ ایم اینڈ بی کامیاب رہا۔“
کی ہیلی اپنی دلکش کتاب ’ایری پریسیبل چرچل‘ (کلیولینڈ: ورلڈ 1966) میں لکھتے ہیں ”چرچل اپنے ڈاکٹروں، لارڈ موران اور ڈاکٹر بیڈفورڈ، کو ’ایم اینڈ بی‘ کے طور پر حوالہ دینے میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے۔ پھر، جب چرچل نے پایا کہ اس دوا کو لینے کا سب سے خوشگوار طریقہ وہسکی یا برانڈی کے ساتھ ہے، تو انہوں نے اپنی نرس سے کہا: ’پیاری نرس، یاد رکھیں کہ آدمی صرف ایم اینڈ بی سے زندہ نہیں رہ سکتا۔‘ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران نمونیا کے کسی بھی دورے کے لیے پینسلین حاصل کی ہو۔ بعد کی زندگی میں انہیں انفیکشن ہوئے اور مجھے شبہ ہے کہ انہیں پینسلن یا کوئی اور اینٹی بائیوٹک دی گئی ہوگی، جو اس وقت تک دستیاب ہو چکی ہوگی، جیسے ایمپیسلن۔ اس کے علاوہ، چرچل نے 27 جون 1946 کو سر الیگزینڈر فلیمنگ سے اسٹافائلوکوکل انفیکشن کے بارے میں مشورہ کیا تھا جس نے بظاہر پینسلن کے خلاف مزاحمت کی تھی۔“
سرکاری سوانح نگار سر مارٹن گِلبرٹ کا کہنا ہے کہ چرچل اور فلیمنگ (یا فلیمنگ کے والد) کی عمریں ان مختلف کہانیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں، جو گردش کر رہی ہیں؛ الیگزینڈر فلیمنگ چرچل سے سات سال چھوٹے تھے۔ اگر وہ 13 سال کی عمر میں کھیت جوت رہے تھے تو چرچل کی عمر 20 سال ہوتی۔ اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ چرچل کبھی بھی اسکاٹ لینڈ میں کسی عمر میں ڈوبنے کے قریب پہنچے ہوں؛ یا کہ لارڈ رینڈالف نے الیگزینڈر فلیمنگ کی تعلیم کے لیے ادائیگی کی ہو۔ سر مارٹن یہ بھی نوٹ کرتے ہیں کہ لارڈ موران کی ڈائریوں میں، ’ایم اینڈ بی‘ کا ذکر ہے، لیکن پینسلن یا اسے چرچل کے لیے مشرق وسطیٰ بھیجنے کی ضرورت کا کوئی ذکر نہیں۔