’جینومکس گیپ‘ کیا ہے اور اسے ’طبی نا انصافی‘ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟

ویب ڈیسک

محققین لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں رہنے والوں کے جینز میں تغیرات کے بارے میں بتدریج سیکھ رہے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ان مقامی آبادیوں کے علاج میں بہتری آئے گی۔

دنیا میں بہت سے لوگ کینسر جیسی بیماریوں میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں اور ایسی بیماریوں کے علاج کی صورت میں جسم کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔۔ ان سوالات کا جواب جینیاتی اختلافات میں موجود ہے۔

جینیاتی سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ انسانی ڈی این اے کا 99.9 فی صد ہم سب میں یکساں ہے، جبکہ اس کا محض 0.1 فی صد ایسا ہے، جو ہم میں سے ہر ایک میں مختلف ہے اور یہی چیز یہ بات واضح کر سکتی ہے کہ صحت کے حوالے سے ہم مختلف کیوں ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم مزید آگے بڑھیں، ہمیں جینیات اور جینومکس کے اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے:

جینیات (Genetics) حیاتیات کی وہ شاخ ہے جو جینز، وراثت، اور حیاتیاتی تنوع کے مطالعے سے متعلق ہے۔ جینیات میں جینز کے کام کرنے کے طریقے، ان کی وراثت کے اصول، اور جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حیاتیاتی اختلافات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

جینز وہ بنیادی اکائی ہیں جو والدین سے اولاد کو منتقل ہوتی ہیں اور جسمانی خصوصیات مثلاً قد، رنگ، اور بیماریوں کے امکانات کو متعین کرتی ہیں۔ جینز ڈی این اے (DNA) پر مشتمل ہوتے ہیں، جو خلیے کے اندر موجود ہوتے ہیں اور جسم کی نشوونما اور افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔

مختصراً، جینیات اس بات کا مطالعہ کرتی ہے کہ جینز کیسے کام کرتے ہیں، ان کے وراثت کے اصول کیا ہیں، اور جینیاتی تبدیلیاں کیسے حیاتیاتی تنوع کو جنم دیتی ہیں۔

جبکہ جینومکس (Genomics) حیاتیات کی ایک شاخ ہے، جو جینوم یعنی کسی جاندار کے مکمل جینیاتی مواد کا مطالعہ کرتی ہے۔ جینومکس میں جینز کے ڈھانچے، افعال، ارتقا، اور ان کے آپس میں تعاملات کی تحقیق شامل ہوتی ہے۔ اس کا مقصد جینوم کی ترتیب کا تعین کرنا، جینز کی فعلیاتی اہمیت کو سمجھنا، اور مختلف بیماریوں کے علاج اور تشخیص کے لیے جینیاتی معلومات کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ جینومکس کا اطلاق انسانی صحت، زراعت، اور دیگر سائنسی شعبوں میں ہوتا ہے۔

جینیات اور جینومکس میں بہت زیادہ تحقیق ہو چکی ہے، کیونکہ یہ شعبے وضاحت کر سکتے ہیں کہ جینز ایک نسل سے دوسری نسل میں کیسے منتقل ہوتے ہیں اور کس طرح ہمارے تمام جینز یعنی ہمارا جینوم، اس امکان کو کم یا زیادہ بناتا ہے کہ ہم کسی بیماری کا شکار ہوں گے۔

لیکن اس سارے معاملے میں مسئلہ یہ ہے کہ 80 فی صد جینیاتی مطالعات صرف یورپی نسل کے لوگوں پر کیے گئے ہیں، اس لیے یہ دنیا بھر کی آبادی کے محض 20 فیصد کی ہی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسی صورتحال کو ‘جینومکس گیپ‘ کہا جاتا ہے۔

’جینومکس گیپ‘ (Genomics Gap) کی اصطلاح جینیاتی تحقیق اور اس کے فوائد کے درمیان موجود عدم توازن کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ گیپ مختلف طبقات یا خِطوں کے درمیان جینیاتی علوم تک رسائی، اس کا علم، اور اس سے ہونے والے فوائد میں فرق کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہی وہ صورتحال ہے، جسے ماہرین طب میں نا انصافی قرار دیتے ہیں۔

برازیل میں ’یونیورسیڈاڈ فیڈرل ڈی میناس جیرائس‘ کے جینیاتی ماہر ایڈوارڈو تارازونا سانتوس کہتے ہیں ”طب میں نا انصافی ہے، خاص طور پر جینیات میں: ہم دیگر نسل کے لوگوں کے مقابلے میں یورپی نسل (یورپی یا امریکی سفید فام) کے لوگوں میں بیماریوں کی جینیاتی بنیاد کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔‘‘

تارازونا سانتوس اس نا انصافی کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس کے لیے وہ لاطینی امریکہ میں دو مقامی آبادیوں میں جینیاتی اختلافات کے بارے میں اعداد و شمار جمع کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اینڈیئن پہاڑی علاقوں میں جبکہ دوسری ایمیزون کے نشیبی علاقوں بستی ہیں۔

طبی شمارے ’سیل‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان جینیاتی اختلافات کے سبب خون کے لوتھڑے یا بلڈ کلاٹس بننے اور ہائی کولیسٹرول کے علاج کرنے والی ادویات کے مختلف ردعمل سامنے آتے ہیں۔

یہ بات جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ ایک دوسرے سے محض سو سے دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ان دو آبادیوں کے درمیان جینیاتی اختلافات اتنے ہی بڑے تھے، جتنے یورپی اور مشرقی ایشیائی اقوام کے افراد کے درمیان دیکھے گئے تھے۔

تارازونا سانتوس بتاتے ہیں ”ہمارے نتائج اس بات پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں کہ نسلی گروہ، جنہیں ہم اکثر یکساں سمجھتے ہیں، جیسا کہ امریکہ کے مقامی لوگوں کی نسلیں، دراصل وہ (جینیاتی حوالے سے) یکساں نہیں ہیں۔‘‘

تارازونا سانتوس کی ٹیم نے سترہ مقامی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے دو سو انچاس افراد کے جینیاتی ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ تحقیق کے شریک مصنف وکٹر بورڈا کے مطابق، ”اس کے بعد ہم نے ان جینیاتی تغیرات کی جانچ کی جو ادویات پر ردعمل کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘

انہوں نے اینڈیئن ہائی لینڈرز اور ایمیزون کے نشیبی علاقوں میں رہنے والی مقامی آبادیوں کے درمیان دو مخصوص جینز میں فرق پایا۔ ایک کو ’اے بی سی جی 2‘ اور دوسرے کو ’وی کے او آر سی 1‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

یہ جینیاتی متغیرات اہم ہیں کیونکہ ’اے بی سی جی 2‘ کولیسٹرول کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوائی سمواسٹیٹن کی تاثیر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بورڈا کے مطابق جن افراد میں جینیاتی متغیرات کا مختلف امتزاج موجود ہے، انہیں ایک مختلف دوا کا استعمال کرنا چاہیے۔

نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ’وی کے او آر سی 1‘ کے ویریئنٹس یا متغیرات وارفارین نامی دوا کی تاثیر پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ دوا بلڈ کلاٹس کے علاج اور دل کے دورے اور فالج کے خطرے کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

تارازونا سانتوس کا کہنا ہے، ”ہم نے دیکھا کہ 69 فی صد اینڈیئن میں جبکہ ان کے مقابلے میں ایمیزونین کے 93 فی صد لوگوں کو وارفارین کی کم خوراک کی ضرورت ہو گی کیونکہ ان میں ’وی کے او آر سی 1‘ جینیاتی متغیر موجود ہے۔

برطانیہ کی کوئین میری یونیورسٹی کے جینیاتی ماہر سیگن فتومو کے مطابق یہ اس تحقیق اس بات پر زور دیتی ہے کہ جینیاتی ماہرین کو دیگر متنوع آبادیوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟

سیگن فتومو کہتے ہیں ”دنیا بھر میں (اینڈیئن اور ایمیزون کے مقامی لوگوں) جیسی بہت سی دوسری آبادیاں ہیں، جن کا اسی طرح مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

سیگن فتومو کے مطابق جینومکس کی تحقیق کو بر وقت متنوع نہ کر کے سائنس نے ’خود کو نقصان‘ پہنچایا ہے۔

وہ کہتے ہیں ”دیگر آبادیوں میں بھی اسی طرح کے یکسان جینیاتی ویریئنٹس پائے جاتے ہیں۔ وہ نئے علاج تلاش کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، اور ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں کچھ ادویات کچھ لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں، لیکن دوسروں کے لیے نہیں۔‘‘

مگر اب حالات بدل رہے ہیں۔ افریقہ اور ایشیا کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکہ میں جینیاتی تجزیے جاری ہیں، جو اکثر بڑے پروگراموں کا حصہ ہیں، جیسے نائجیریا 100K جینوم پراجیکٹ۔

اور تارازونا سانتوس کے تحقیقی گروپ نے ایک بہت بڑے ڈیٹا سیٹ پر کام شروع کر دیا ہے، جس میں مختلف مقامات پر آباد مقامی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ ہزار برازیلی افراد کے جینوم کی سیکوئنسنگ کی جا رہی ہے۔

نئی جینیات کے حوالے سے نئی عالمی تحقیق کے اب فوائد سامنے آنے لگے ہیں۔ سیگن فتومو بتاتے ہیں ”ہمارے پاس ایسے علاج ہیں، جو کولیسٹرول کو کم کرتے ہیں اور دل کے دورے کو روکتے ہیں۔ پی سی ایس کے 9 انہیبیٹرز اس لیے دریافت ہوئے کیونکہ کچھ افریقی نسل کے افراد میں پی سی ایس کے 9 جین میں جینیاتی متغیرات موجود تھے، جن کی وجہ سے ان میں کولیسٹرول کم تھا۔‘‘

سیگن فتومو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اسی طرح دیگر علاج بھی دنیا بھر میں رہنے والے لوگوں کے جینوم کے تجزیے کی مدد سے دریافت ہو سکیں گے۔

ایشیا میں جینومکس تحقیق کی صورت حال حالیہ برسوں میں کافی ترقی کر چکی ہے، لیکن یہ خطہ ابھی بھی یورپ جیسے دیگر خطوں کے مقابلے میں کچھ پیچھے ہے۔

ایشیا کے کئی ممالک، جیسے چین، جاپان، بھارت، اور سنگاپور، جینومکس تحقیق میں نمایاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ چین خاص طور پر اس میدان میں عالمی سطح پر نمایاں حیثیت رکھتا ہے، جہاں بیجنگ جینومکس انسٹیٹیوٹ (BGI) جیسے ادارے بہت بڑے پیمانے پر تحقیق کر رہے ہیں۔

ایشیا میں بڑی آبادی کے ساتھ جینیاتی تنوع بھی زیادہ ہے، جس سے تحقیق کے لیے زبردست مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ البتہ، بہت سی جگہوں پر ابھی بھی جینیاتی ڈیٹا جمع کرنے اور اس کے تجزیے کی رفتار سست ہے۔

پاکستان میں جینومکس کی تحقیق کا شعبہ ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن اس میں نمایاں پیشرفت ہو رہی ہے۔ پاکستان میں مختلف یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں نے جینومکس پر تحقیق کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے ہیں۔ مثال کے طور پر، کامسیٹس، قائد اعظم یونیورسٹی، اور آغا خان یونیورسٹی اور دیگر ادارے جینومکس اور بایو انفارمیٹکس کے شعبے میں تحقیقی منصوبے چلا رہی ہیں۔

پاکستان میں جینومکس کے شعبے میں کچھ اہم منصوبے بھی جاری ہیں، جیسے کہ پاکستانی عوام کی جینیاتی ترتیب کا مطالعہ، نایاب جینیاتی بیماریوں کی شناخت، اور زرعی شعبے میں جینیاتی بہتری کے لیے تحقیق۔

اگرچہ پاکستان میں جینومکس تحقیق میں ابھی بہت سے چیلنجز ہیں، جیسے کہ وسائل کی کمی، تربیت یافتہ محققین کی قلت، اور تکنیکی انفراسٹرکچر کی محدودیت، لیکن مستقبل میں یہ شعبہ مزید ترقی کی امید رکھتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close