بات چاہے کسی دوست کے چہرے کی ہو، کسی کتاب کے سرورق کی، یا کسی گھر یا کمرے میں دیواروں کے درمیانی فاصلوں کے بصری شعور کے بعد کسی جگہ کے تنگ یا وسیع ہونے کے احساس کی۔۔ کچھ خاص قسم کے انسان ایسے کسی بھی منظر کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔
یقیناً ایسی حالت کا تصور ہی عجیب لگتا ہے کہ آپ کو بظاہر سب کچھ دکھائی تو دے رہا ہو، لیکن اس کے باوجود نظر کچھ بھی نہ آئے۔۔۔ بصارت سے جڑی اس حالت کو ’ایفانٹازیا‘ (Aphantasia) کہتے ہیں، جس کی وجہ متعلقہ فرد کی آنکھوں کا اندرونی نابینا پن بنتا ہے۔
ایفانٹازیا ایک غیر معمولی ذہنی حالت ہے جس میں کسی شخص کو اپنے ذہن میں بصری تصورات (visual images) بنانے میں دشواری یا مکمل ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ عام طور پر، لوگ اپنے ذہن میں چیزوں یا مناظر کی تصویری شکل تخیل میں لانے کے قابل ہوتے ہیں، جیسے کسی چہرے یا جگہ کا تصور کرنا، لیکن ایفانٹازیا کے شکار افراد ایسا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔
مثال کے طور پر، اگر آپ کسی شخص سے کہیں کہ وہ اپنی آنکھیں بند کرے اور ایک سیب کا تصور کرے، تو زیادہ تر لوگ اس کی ایک واضح تصویر ذہن میں بنا سکتے ہیں، مگر ایفانٹازیا والے افراد اس تصویر کو بنانے میں ناکام ہوتے ہیں۔ یہ حالت بصری تخیل کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ایفانٹازیا کے شکار افراد معلومات کو یاد کر سکتے ہیں اور وہ مکمل طور پر ذہنی طور پر فعال ہوتے ہیں۔
انسانوں میں دیکھنے کی اہلیت کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف چیزوں کے واقعی نظر بھی آنے سے متعلق ایفانٹازیا نامی اس مرض میں کسی بھی متاثرہ فرد کی اندرونی آنکھوں کی اہلیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اندرونی آنکھ کے نابینا پن کی وجہ سے دکھائی دینے والی اشیاء کی وہ تصویری عکاسی نہیں ہوتی، جس کے باعث ہی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کچھ دیکھ رہے ہیں۔
اسی تصویر کشی کی وجہ سے انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ طبی تحقیق کے مطابق اس مرض کی انسانی آنکھوں کے پپوٹوں کی مدد سے یقینی تشخیص کی جا سکتی ہے۔
بصری تصور کی اہلیت سے محروم ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایفانٹازیا کے مریضوں کی آنکھوں میں کسی بھی ’منظر کی عکس بندی‘ نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ وہ اپنی آنکھوں کے پچھلے حصوں کے نابینا پن کا شکار ہوتے ہیں۔ ایفانٹازیا کی اس طبی حالت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی متاثرہ فرد میں اس مرض کی تشخیص زیادہ تر اس کے بالغ ہو جانے کے بعد ہی ہوتی ہے۔
اس موضوع پر آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے محققین کی تازہ ترین اور ایک سنگ میل قرار دی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایفانٹازیا کی تشخیص صرف بصری طور پر نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی ممکن ہے، پپوٹوں کے تقابلی مشاہدے کے ذریعے۔
چند سال قبل طبی تحقیقی جریدے ‘ای لائف‘ میں شائع شدہ اس تحقیق کے دوران نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے محققین نے ساٹھ افراد کا تحقیقی مشاہدہ کیا تھا، جو سب کے سب طالب علم تھے۔ ان میں سے اٹھارہ افراد ایفانٹازیا کے مریض تھے، جبکہ باقی ماندہ بیالیس کی بصری تصور کی اہلیت عام انسانوں جیسی تھی۔ اس ریسرچ کے دوران نیورو سائنٹسٹ جوئل پیئرسن اور ان کے ساتھیوں نے پہلے تو تمام زیرِ مطالعہ افراد کو بہت روشن ڈیزائنوں والی کئی مختلف تصاویر دکھائیں۔ ان تصاویر کو دیکھتے ہوئے دونوں گروپوں کے ارکان کی آنکھوں میں پپوٹوں کا رد عمل یکساں تھا۔
اس کے بعد ان تمام پانچ درجن افراد کو مختلف ایسی تصاویر دکھائی گئیں، جو کم روشن یا کافی تاریک تھیں۔ ایسی تصویروں کو دیکھتے ہوئے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے پپوٹے پھیل گئے تھے تاکہ ان میں سے زیادہ روشنی گزر سکے اور دیکھے جانے والے منظر کا عکس بہتر بن سکے۔ اسی طرح بہت زیادہ روشن تصویروں کو دیکھتے ہوئے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے پپوٹے سکڑ گئے تھے تاکہ ان سے گزرنے والی روشنی کو کم رکھا جا سکے۔
اس ریسرچ کے دوران تمام زیر مشاہدہ افراد کو ایک ایک بار پھر وہی سب تصاویر دکھائی گئیں اور ان سے پوچھا گیا کہ انہیں ان تصاویر میں سے ہر ایک کتنی اچھی طرح یاد تھی۔ عام بصری اہلیت والے افراد میں ان تصویر میں سے یر ایک کو دیکھتے ہوئے ان کے پپوٹے دوبارہ اسی حد تک پھیل گئے، جتنی روشنی ان کی آنکھیں ان تصاویر میں پہلے ہی دیکھ چکی تھیں۔
اس کے برعکس ایسے افراد میں، جو مختلف اشیاء کے بصری تصور کی اہلیت سے محروم (اندرونی آنکھوں کے نابینا پن سے متاثر) تھے، ان میں مختلف تصاویر کو دوبارہ دیکھنے سے پپوٹوں کے پھیلنے یا سکڑنے جیسے کسی بھی عمل کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکا۔ یہی وہ واضح ترین اشارہ ہے، جس کی بنیاد پر طبی ماہرین کسی بھی انسان کے ایفانٹازیا سے متاثر ہونے کی حتمی تشخیص کر سکتے ہیں۔
اس ریسرچ کے نتائج میں آسٹریلوی محققین کی ٹیم کے سربراہ جوئل پیئرسن لکھتے ہیں کہ اس مرض کی یقینی اور درست تشخیص کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی متاثرہ انسان میں دیکھی جانے والی اشیاء کی بصری عکس بندی اور ان کی بصری تصور کی اہلیت کی پیمائش کے کئی مختلف طریقے رائج ہیں۔
لیکن اس میں بھی فیصلہ کن بات متاثرین کی آنکھوں کے پپوٹوں کے پھیلنے یا سکڑنے کا وہ عمل ہے، جو دراصل ایفانٹازیا کے مریضوں میں بہت ہی کم دیکھنے میں آتا ہے یا سرے سے ہی نہیں۔
ایفانٹازیا ایک نسبتاً غیر معمولی حالت ہے، اور تحقیق کے مطابق، یہ آبادی کے تقریباً 1-3 فیصد افراد میں پائی جاتی ہے۔ تاہم، یہ درست تعداد ابھی تک پوری طرح معلوم نہیں ہے کیونکہ ایفانٹازیا کے بارے میں شعور حالیہ برسوں میں ہی بڑھا ہے، اور بہت سے لوگ اس کا علم ہونے سے پہلے ہی اس کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔
یہ حالت اتنی عام نہیں ہے، مگر حالیہ تحقیق اور سائنسی دلچسپی کے باعث اس کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے۔
ایفانٹازیا کی وجوہات ابھی تک مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آئیں، لیکن محققین کا ماننا ہے کہ یہ دماغ کے کچھ مخصوص حصوں کے کام کرنے کے انداز سے منسلک ہو سکتی ہے، خاص طور پر وہ حصے جو بصری تخیل اور یادداشت سے متعلق ہیں۔
کچھ ممکنہ وجوہات یہ ہو سکتی ہیں:
1. دماغی نیٹ ورک میں فرق:
دماغ کے وہ حصے جو بصری تخیل (visual imagination) کو پیدا کرنے میں شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ پری فرنٹل کورٹیکس اور ویژول کارٹیکس، ایفانٹازیا کے شکار افراد میں مؤثر طور پر آپس میں رابطہ نہیں کر پاتے۔ اس وجہ سے یہ افراد ذہنی تصاویر بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔
2. پیدائشی (Congenital) یا موروثی عوامل:
کچھ لوگوں میں ایفانٹازیا پیدائشی ہو سکتی ہے، یعنی وہ اس حالت کے ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں۔ موروثی عوامل یا جینیاتی فرق بھی اس حالت میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
3. دماغی چوٹ یا بیماری:
کچھ کیسز میں، ایفانٹازیا دماغی چوٹ یا بیماری کے نتیجے میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر دماغ کے وہ حصے جو بصری پروسیسنگ سے متعلق ہیں، متاثر ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں بصری تخیل کی صلاحیت ختم ہو سکتی ہے۔
4. عصبی نظام کی تبدیلیاں:
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایفانٹازیا عصبی نظام میں تبدیلیوں یا غیر معمولی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے، جو دماغ کے بصری حصے میں مناسب طریقے سے تصاویر تخلیق نہیں کرنے دیتیں۔
بہرحال حالیہ تحقیق اس حالت کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے جاری ہے، لیکن فی الحال اس بارے میں کوئی حتمی جواب موجود نہیں ہے کہ ایفانٹازیا کیوں ہوتی ہے۔