’وہ رویے جو ہمیں لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ بناتے ہیں‘ ایک ایسا موضوع ہے، جو انسانی تعلقات اور معاشرتی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں اکثر ایسے افراد سے ملتے ہیں جو اپنے رویے کی بنا پر ہمیں ناپسندیدہ لگتے ہیں، اور یہی بات ہم پر بھی لاگو ہو سکتی ہے۔ انسان فطرتاً ایک معاشرتی حیوان ہے، اور اس کی شخصیت کا زیادہ تر حصہ دوسروں کے ساتھ تعلقات میں پروان چڑھتا ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کون سے ایسے رویے ہیں جو دوسروں کو ناپسندیدہ لگ سکتے ہیں اور ان سے بچاؤ کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں۔
سماجی تعلقات کو نبھانا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار ہم نادانستہ طور پر کچھ ایسے رویے اپنا لیتے ہیں، جو لوگوں کو ناپسند آتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ رویے اکثر ہماری نظر میں نہیں آتے یا ہمیں ان کا احساس ہی نہیں ہو پاتا، مگر دوسروں کے ذہنوں میں ہمارے بارے میں منفی تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ خودنمائی اور گروہی جبلت کی وجہ سے ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں پسند کیا جائے اور قبول کیا جائے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم ان باریک اور ناپسندیدہ عادات کو پہچانیں اور تسلیم کریں۔
اس مضمون میں، ہم ان عام رویوں کا جائزہ لیں گے جو ممکنہ طور پر لوگوں کو آپ سے ناپسندیدگی کی طرف مائل کر رہے ہیں اور شاید آپ کو اس کا علم بھی نہ ہو۔
1) ذاتی باتوں کا زیادہ شیئر کرنا
دوسروں سے جُڑنے کی خواہش میں، ہم اکثر اپنی باتیں زیادہ شیئر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن کھلے دل کا مالک ہونا یا زندہ دل ہونا اور خود کو دوسروں کے ساتھ حد سے زیادہ شیئر کرنا، ان دونوں میں باریک سا فرق ہے۔
لوگ عام طور پر ایک متوازن گفتگو میں دلچسپی رکھتے ہیں، جہاں دونوں فریقوں کو برابر موقع ملے کہ انہیں بھی سنا جائے۔ لیکن جب ایک شخص گفتگو پر اپنی کہانیوں اور تجربات کے ذریعے حاوی ہونے لگتا ہے تو سننے والے کے لیے یہ بات جلد ہی بوجھ بن جاتی ہے۔
غلط مت سمجھیں۔۔ ایسا نہیں کہ لوگوں کو آپ کی زندگی کی پرواہ نہیں، لیکن وہ بھی گفتگو میں سنے جانے اور نظر آنے کا احساس چاہتے ہیں۔
اس کا راز توازن میں ہے۔ خود کے بارے میں باتیں اسی حد تک ہی شیئر کریں کہ مثبت تعلق قائم ہو، مگر اتنا نہیں کہ گفتگو ایک طرفہ ہو جائے۔ ورنہ آپ نادانستہ طور پر لوگوں کو خود سے دور کر سکتے ہیں۔
2) ذاتی حدود کا احترام نہ کرنا
سماجی تقریبات میں نئے لوگوں سے ملنا اور دوستیاں بنانا سب کے لیے بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ تاہم، یہ جاننا ضروری ہے کہ ہر کوئی ہماری قریبی بات چیت کے انداز کو پسند نہیں کرتا۔
سماجی تعلقات اور نفسیات کے ماہر لاچلن براؤن لکھتے ہیں، ”ایک بار، میں ایک نیٹ ورکنگ تقریب میں ایک ممکنہ کلائنٹ سے ملا۔ جوش میں، میں گفتگو کے دوران کچھ زیادہ ہی قریب ہو گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ شخص ہر بار ہلکے سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میرا جوش و خروش شاید ان کی ذاتی حدود کی خلاف ورزی بن رہا تھا۔ میری نیت تو اچھی تھی، مگر میرا انداز لوگوں کے لیے غیر آرام دہ یا حتٰی کہ دخل اندازی سمجھا جا سکتا تھا۔ تب سے، میں نے سیکھا کہ دوسروں کی حدود کا احترام کیسے کیا جائے اور ہر شخص کا ذاتی فاصلہ رکھنے کا الگ معیار ہے۔ میرے رویے میں یہ چھوٹا سا فرق میرے ارد گرد کے لوگوں سے بہتر اور زیادہ باعزت تعلقات قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔“
دوسروں کی ذاتی حدود کا احترام نہ کرنا ایک ایسا رویہ ہے جو نہ صرف معاشرتی تعلقات میں بگاڑ پیدا کرتا ہے بلکہ انسان کو ناپسندیدہ اور غیر مہذب بنا دیتا ہے۔ ہر شخص کی اپنی ذاتی حدود ہوتی ہیں، جن میں اس کی ذاتی زندگی، خیالات، احساسات، وقت اور جسمانی حدود شامل ہیں۔ جب ہم دوسروں کی ان حدود کا احترام نہیں کرتے تو ہم ان کے لئے ناخوشگوار اور بوجھ بن جاتے ہیں۔
جب ہم کسی کے ذاتی مسائل یا تعلقات میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، ان سے ذاتی سوالات پوچھتے ہیں، یا ان کی نجی زندگی میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں، تو یہ رویہ لوگوں کو ہم سے دور کر سکتا ہے اور تعلقات میں فاصلے پیدا کر سکتا ہے۔
3) آنکھوں کے رابطے Eye Contact کو نظرانداز کرنا
جانوروں کی دنیا میں، آنکھوں کا رابطہ خطرے یا چیلنج کی علامت ہو سکتا ہے، لیکن انسانی تعلقات میں، یہ تعلقات بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ گفتگو کے دوران مناسب آنکھوں کا رابطہ رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ دوسرے کی بات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مخلص ہیں۔ یہ احترام اور توجہ کا غیر زبانی طریقہ ہے۔
اس کے برعکس، گفتگو کے دوران آپ کا بے توجہی سے کہیں اور دیکھنا عدم دلچسپی، غیر مخلصی، یا بے ادبی کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ یہ چھوٹا سا رویہ ممکنہ طور پر لوگوں کو آپ سے ناپسندیدگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
گفتگو میں یاد رکھیں کہ آنکھوں کا رابطہ کتنا طاقتور ہے۔ یہ محض کسی کو دیکھنے کا نام نہیں؛ بلکہ ان سے جڑنے کا ایک ذریعہ ہے۔۔ لیکن یاد رکھیں کہ آئی کونٹیکٹ کا مطلب مسلسل گھورتے رہنا نہیں ہے!
4) بات چیت میں بار بار مداخلت کرنا
ہم سب نے یہ صورتحال دیکھی ہے۔ آپ ایک دلچسپ کہانی سنا رہے ہوتے ہیں یا اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں، اور کوئی شخص درمیان میں ہی آپ کی بات کاٹ دیتا ہے۔ یہ مایوس کن اور بے ادبی ہے، ہے نا؟
دوسروں کی گفتگو میں مداخلت کرنا ایک عام رویہ ہے جو آسانی سے لوگوں کو ناپسندیدہ بنا دیتا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ اپنی باتوں کو ان کی باتوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
یقیناً، آپ اپنا نقطہ نظر شیئر کرنے یا گفتگو میں کچھ اضافہ کرنے کے لیے بے چین ہو سکتے ہیں، لیکن یاد رکھیں کہ اچھی گفتگو سننے اور بولنے دونوں پر مشتمل ہے۔
کوشش کریں کہ فعال سننے کا طریقہ اپنائیں۔ دوسروں کو ان کی بات مکمل کرنے دیں، پھر اپنی رائے دیں۔ اس سے نہ صرف احترام ظاہر ہوتا ہے بلکہ آپ کو ان کے نقطہ نظر کو بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
5) ہمدردی نہ دکھانا
ہم سب زندگی میں نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ ان مشکل لمحات میں، ارد گرد کے لوگوں کی تھوڑی سی ہمدردی ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے، لیکن جب لوگ ہمدردی نہیں دکھاتے، تو یہ ہمارے ضرورت کے وقت سرد مہری جیسا محسوس ہو سکتا ہے۔
ہمدردی دوسروں کے احساسات کو سمجھنے اور انہیں یہ دکھانے کا نام ہے کہ آپ کو ان کی پرواہ ہے۔ یہ ان کے ساتھ صرف خوشیوں کے لمحات میں ہی نہیں، بلکہ ان کی مشکلات میں بھی شامل ہونا ہے۔ جب لوگ یہ محسوس نہیں کرتے کہ انہیں سمجھا گیا ہے یا ان کی مدد کی جا رہی ہے، تو وہ اس شخص سے ناپسندیدگی محسوس کر سکتے ہیں، جو ہمدردی دکھانے میں ناکام رہتا ہے۔
ہم سب انسان ہیں اور ہم سب جڑنے اور سمجھے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہمدردی دکھانا صرف مہربان ہونا نہیں بلکہ یہ انسان ہونے کا ثبوت ہے۔
6) حد سے زیادہ تنقیدی ہونا
لاچلن براؤن لکھتے ہیں ”جب میں نے اپنے کیریئر کی شروعات کی، تو میں خود کو ثابت کرنے کا بہت شوقین تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے علم اور مہارت کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس لیے میں اکثر غلطیوں کی نشاندہی کرتا اور بغیر مانگے مشورے دیتا، یہ سوچ کر کہ میں دوسروں کو بہتر ہونے میں مدد دے رہا ہوں۔ لیکن وقت کے ساتھ، میں نے محسوس کیا کہ یہ رویہ لوگوں کو دور کر رہا تھا۔ کوئی بھی مستقل تنقید یا درستگی برداشت نہیں کرتا۔ یہ انہیں نااہل اور حقیر محسوس کرا سکتا ہے۔ تب میں نے مثبت تقویت اور تعمیری تنقید کی اہمیت سیکھی۔ اب، میں اس پر توجہ دیتا ہوں کہ کیا صحیح ہے اور جہاں ضرورت ہو، وہاں نرمی سے رہنمائی کرتا ہوں۔“
جب کوئی فرد حد سے زیادہ تنقیدی ہوتا ہے، تو وہ نہ صرف دوسروں کی خود اعتمادی کو مجروح کر دیتا ہے بلکہ ان کے کام اور کوششوں کی بھی قدر نہیں کرتا۔ جب ہم ہر بات پر تنقید کرتے ہیں، تو لوگ ہماری صحبت میں سکون محسوس نہیں کرتے اور بیزار ہو جاتے ہیں۔
7) حد سے زیادہ پُرسکون یا حد سے زیادہ جارحانہ ہونا
گفتگو میں صحیح توازن پیدا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ایک طرف، حد سے زیادہ پُرسکون ہونا ہمیں عدم دلچسپی یا خود اعتمادی کی کمی کا حامل بنا سکتا ہے۔ دوسری طرف، حد سے زیادہ جارحانہ ہونا ہمیں حکم چلانے والا اور بے ادبی کی طرف مائل بنا سکتا ہے۔
یہ صحیح توازن ڈھونڈنے کا معاملہ ہے – یعنی خود اعتمادی کے ساتھ بات چیت کرنا۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے خیالات اور جذبات کو کھلے اور ایماندار طریقے سے بیان کریں، مگر اس طرح سے کہ دوسروں کے حقوق اور جذبات کا احترام کیا جائے۔
اپنے گفتگو کے انداز کو ایڈجسٹ کر کے اور خود اعتمادی کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کر کے، آپ بہتر تعلقات قائم کر سکتے ہیں اور غیر ارادی طور پر لوگوں کو ناپسندیدگی کی طرف مائل ہونے سے روک سکتے ہیں۔
آسان الفاظ میں بات یہ ہے کہ ”ہم کیا کہتے ہیں“ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ”ہم کیسے کہتے ہیں۔“
8) اپنے وعدے پورے نہ کرنا
اعتماد کسی بھی تعلق کی بنیاد ہوتا ہے۔ اور ٹوٹے ہوئے وعدے اعتماد کو سب سے تیزی سے ختم کر دیتے ہیں۔ چاہے وہ کسی ڈیڈ لائن کو پورا نہ کرنا ہو، وقت پر نہ پہنچنا ہو جب آپ نے کہا تھا کہ آپ پہنچیں گے، یا کسی وعدے کو پورا نہ کرنا ہو، یہ سب لوگ جلد ہی آپ پر سے اعتبار کھو دیتے ہیں۔ مالی معاملات تو اس حوالے سے خاص طور پر اہم ہیں۔
یاد رکھیں، آپ کے اعمال آپ کے الفاظ سے زیادہ بلند آواز میں بولتے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ کچھ کریں گے، تو اسے کریں۔ وہ شخص بنیں جس پر دوسرے بھروسہ کر سکیں۔ اس سے نہ صرف آپ کو احترام ملتا ہے بلکہ آپ کے تعلقات بھی مضبوط ہوتے ہیں۔
وعدے توڑنا لوگوں کو آپ سے جلد ہی ناپسندیدگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس لیے، اگلی بار جب آپ کوئی وعدہ کریں، تو یقینی بنائیں کہ وہ وعدہ ایسا ہو جو آپ نبھا سکیں۔
9) خود غرضی اور انا پرستی
اپنی عزتِ نفس کی حفاظت اہم ہے، لیکن انانیت کسی طرح بھی درست رویہ نہیں۔ اکثر انا پرست لوگ اپنی رائے کو ہی درست سمجھتے ہیں اور دوسروں کو کم تر سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے اور دوستوں اور خاندان والوں کو دور کر سکتا ہے۔ جبکہ خود غرضی ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو ناپسندیدہ بنا سکتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی ضروریات اور خواہشات کو دوسروں کے اوپر ترجیح دیتا ہے اور ان کی پروا نہیں کرتا، تو وہ دوسروں کے دل میں اپنی جگہ کھو دیتا ہے۔
10) حسد اور بدگمانی
حسد اور بدگمانی ایسے رویے ہیں جو ایک فرد کے دل میں دوسرے کے لیے نفرت اور بیزاری کا بیج بوتے ہیں۔ جب کوئی شخص دوسروں کی کامیابیوں کو حسد کی نظر سے دیکھتا ہے یا ان کے ارادوں پر بدگمان ہوتا ہے تو وہ نہ صرف خود کو اذیت میں مبتلا کرتا ہے بلکہ اپنے اطراف کے لوگوں کو بھی ناپسندیدہ محسوس کرواتا ہے۔ حسد تعلقات کو زہر آلود بنا سکتا ہے اور اکثر لوگ ایسے افراد سے دوری اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
11) بد زبانی اور بدتمیزی
بد زبانی اور بدتمیزی کے رویے سے لوگ بہت جلد دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ جب کوئی شخص دوسروں سے بد سلوکی کرتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو ناپسندیدہ بنا لیتا ہے۔ عزت، احترام اور نرمی کا رویہ تعلقات کو مضبوط بناتا ہے، جبکہ بد زبانی لوگوں کو قریب لانے کے بجائے دور لے جاتی ہے۔
12) احساس برتری
احساسِ برتری کے شکار لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھتے ہیں اور دوسروں کو کمتر خیال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتے۔ معاشرتی زندگی میں کامیاب تعلقات کے لیے عاجزی اور انکساری کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ احساس برتری کی۔
13) جھوٹ اور دوغلا پن
جھوٹ بولنا اور دوغلا پن اختیار کرنا ایسے رویے ہیں جو کسی بھی تعلق میں شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ جب کوئی شخص سچائی سے دور ہوتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے یا منافقانہ رویہ اختیار کرتا ہے، تو وہ دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اس سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور ایسے افراد سے بچنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
14) شکایتوں کی بھرمار
کچھ لوگ ہر وقت شکایتیں کرتے رہتے ہیں اور اپنی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ تو کسی بات میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ یہ رویہ دوسروں کے لیے بوجھ بن سکتا ہے اور لوگ ایسے افراد سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آخری بات: یہ سب احترام کا معاملہ ہے۔۔ ہر چیز کے پیچھے، زیادہ تر انسانی تعلقات ایک سادہ تصور پر مبنی ہیں: احترام۔
یہ تمام رویے جو لوگوں کو آپ سے ناپسندیدگی کی طرف مائل کرتے ہیں، بنیادی طور پر دوسروں کے جذبات، خیالات، یا ذاتی جگہ کا احترام نہ کرنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان عادات میں تبدیلی لا کر، ہم نہ صرف اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے ایک گہرا احترام بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
یاد رکھنا ضروری ہے کہ تبدیلی ایک دن میں نہیں ہوتی۔ اس کے لیے خود آگاہی، صبر، اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ لیکن جیسا کہ معروف شاعرہ اور سول رائٹس کارکن مایا اینجلو نے کہا، ”لوگ بھول جائیں گے کہ آپ نے کیا کہا، لوگ بھول جائیں گے کہ آپ نے کیا کیا، مگر لوگ کبھی نہیں بھولیں گے کہ آپ نے انہیں کیسا محسوس کرایا۔“