شاعری میں اداسی اور اداس شاعری میں دسمبر۔۔ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ دسمبر کی اداس شاعری میں عموماً سرد موسم، شام کی اداسی، اور دنوں کی مختصر ہوتی روشنیوں کا ذکر ہوتا ہے جو ایک گہری تنہائی اور خاموشی کو جنم دیتی ہیں۔ دسمبر کو شاعر اکثر زندگی کے ان پہلوؤں سے تعبیر کرتے ہیں جو کھو جانے، بچھڑنے یا خاموشی کی علامت ہوتے ہیں۔ اس میں محبت کے زوال، یادوں کی تڑپ، اور بچھڑنے کی تلخی نمایاں ہوتی ہے۔ یوں دسمبر کی شاعری موسم کی اداسی سے زیادہ دل کی کیفیات اور زندگی کی ناپائیداری کو بیان کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے، جس میں ایک گہری جمالیاتی خوبصورتی بھی پنہاں ہوتی ہے۔
تو اب پھر سے سرد دسمبر چند دنوں کی دوری پر ہے۔۔موسم سردی کی جانب رواں دواں ہے۔ دن چھوٹے اور راتیں طویل ہو رہی ہیں۔ تو کیا اس موسم میں آپ کو بھی کبھی اچانک اداسی کا احساس ہونے لگتا ہے اور سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ یہ احساس بھی شدید تر ہو جاتا ہے؟
اگر آپ کا جواب ’ہاں‘ میں ہے تو آپ اکیلے نہیں، جن کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ دنیا میں کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ کی کیفیت موسم کے ساتھ بدلنا شروع ہو جاتی ہے اور انہیں باقاعدہ ذہنی دباؤ اور گھبراہٹ کا احساس ہونے لگتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں تھکاوٹ، اداسی، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری، اور آپ کی نیند کے شیڈول میں رکاوٹ کا سامنا کرنا معمولی بات ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں کے لیے، یہ مزاج کی تبدیلی عارضی ہوتی ہے اور طرزِ زندگی میں تبدیلی کے ساتھ آسانی سے منظم کی جاتی ہے، لیکن دوسروں کے لیے، موسم سرما کے یہ ’ونٹر بلیوز‘ (Winter Blue) زیادہ شدید قسم کے ڈپریشن میں بدل سکتے ہیں جسے سیزنل ایفیکٹیو ڈس آرڈر یا ایس اے ڈی (سیڈ SAD) کہتے ہیں۔
طبی ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں اور خاص طور پر سرد موسم میں ذہنی تناؤ کی شکایت کو ایک ذہنی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم اس بارے میں بہت کم ہی لوگ جانتے ہیں۔
واضح رہے کہ سیزنل ایفیکٹو ڈس آرڈر (Seasonal Affective Disorder – SAD) عام طور پر سردیوں کے موسم میں زیادہ تر لوگوں کو متاثر کرتا ہے، لیکن یہ صرف سردی تک محدود نہیں۔ کچھ افراد کو موسم گرما یا بہار میں بھی اس کا سامنا ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ کم عام ہے۔ مختصر یہ کہ، سیزنل ایفیکٹو ڈس آرڈر مختلف موسموں میں مختلف عوامل کی وجہ سے ہو سکتا ہے، لیکن سردیوں میں اس کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔
امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ایک ٹیم نے 1984 میں تحقیق کے بعد موسم سے جڑے ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کی تشخیص کی تھی۔
اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر نورمن روزنتھل کے مطابق اسے یاد رکھنے کے لیے آسان بنانے کی خاطر موسم کی تبدیلی کے باعث ہونے والی اداسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کے نام کا مخفف ’سیڈ‘ رکھا گیا تھا۔
اس ضمن میں بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ کس وجہ سے ہوتا ہے؟ تو سائنس دان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سیل روشنی میں پائے جانے والے نیلے رنگ کو کس طرح ایسے سگنلز میں تبدیل کرتے ہیں جو ہمارے موڈ میں تبدیلی اور الرٹ ہونے کے لیے مخصوص ہیں۔
ونٹر ڈپریشن پر تحقیق کرنے والے ایک ماہرِ نفسیات الفریڈ لیوی کے مطابق سردیوں میں دن کا آغاز ہی دیگر موسموں کی نسبت مختلف انداز میں ہوتا ہے۔ شدید سردی میں بستر سے نکلنا کسی محاذ سے کم نہیں ہوتا۔ اس محاذ کو جیسے تیسے سر کر کے ہم روزمرہ کے کام شروع کرتے ہیں تو دیگر عوامل رکاوٹ بنتے ہیں جن میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
ہماری روزمرہ کی روٹین سے ہمارے اندر کی گھڑی کی ٹائمنگ سیٹ ہوتی ہے اسے سائنسی اصطلاح میں ’سرکیڈین کلاک‘ کہا جاتا ہے۔ موسم سرما میں صبح کے وقت شدید سردی، کہر یا اسموگ کے باعث صبح 9 بجے تک بمشکل سورج نکل پاتا ہے۔ ایسے میں آفس، اسکول یا گھر کے کام کاج کے لیے وقت پر ہی اٹھنا پڑتا ہے مگر ہماری سرکیڈین کلاک کہتی ہے کہ ہمیں ابھی اور آرام کرنا چاہیے کیونکہ یہ گھڑی سورج کی روشنی پر چلتی ہے۔ اسی طرح رات جلدی ہو جاتی ہے اور شدید سردی میں لوگوں گھروں میں کمرے تک محدود ہو جاتے ہیں۔ ابتدا میں مونگ پھلیوں، خشک میوہ جات اور گرم طاقتور کھانوں کے ساتھ یہ سیشنز کافی لطف دیتے ہیں مگر آہستہ آہستہ بوریت اور اکتاہٹ بڑھنے لگتی ہے۔
سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں، جس کی وجہ سے سورج کی روشنی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ روشنی کی کمی دماغ میں موجود سیروٹونن نامی ہارمون کی سطح کو متاثر کرتی ہے، جو نیورو ٹرانسمیٹر یا اعصابی پیغامات کی ترسیل کا کام کرتا ہے اور خوشی اور ذہنی سکون کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اس سیال مادے میں کمی براہِ راست ہمارے موڈ اور کام کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جو کسی خاص وجہ کے بغیر ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔
دھوپ نیلی روشنی سے بھرپور ہوتی ہے، اسی لیے جب دن میں سورج کی روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے تو ہمارا دماغ زیادہ بیدار اور متحرک رہتا ہے اور اسی وجہ سے زیادہ خوش گوار بھی ہو جاتا ہے۔
سیروٹینن لیول میں کمی سے دماغ متاثر ہوتا ہے جس کا اثر پورے جسم پر پڑتا ہے اور دیگر مادوں مثلاً میلیٹونن کی پیداوار میں اضافہ بھی اس کی وجہ ہے۔ سردیوں میں اندھیرے کے بڑھ جانے سے جسم میں ملیٹونن نامی ہارمون کی پیداوار میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو نیند کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس سے سستی اور غنودگی پیدا ہوتی ہے جو ڈپریشن کو بڑھا سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ سے تعلق رکھنے والی محقق کیتھرین روکلین کا کہنا ہے کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ‘سیڈ‘ میں مبتلا افراد نیلی روشنی کے لیے کم حساس ہوتے ہیں اور خاص طور پر سردیوں کے موسم میں یہ حساسیت اور بھی کم ہو جاتی ہے۔
ان کے مطابق موسمِ سرما میں روشنی کم ہو جاتی ہے اور جن افراد میں نیلی روشنی کے لیے حساسیت بھی کم ہو تو سردی کے موسم میں ان کا دماغ اور جسم صحت مند سرگرمیوں کے لیے زیادہ فعال نہیں ہو پاتا، جس کی وجہ سے ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔
سردیوں کے ڈپریشن کی علامات میں اداسی اور مایوسی بنیادی اثرات ہیں۔ لوگ کبھی کبھی اداسی محسوس کرتے ہیں، اور اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے۔ درحقیقت، جذبات کا ہونا اس چیز کا حصہ ہے جو ہم سب کو انسان بناتا ہے۔
بعض اوقات اداس یا مایوسی محسوس کرنا، خاص طور پر سردیوں کے مہینوں میں، موسم سرما کے بلیوز (ڈپریشن) کی علامت ہو سکتی ہے۔ تاہم، جب اداسی آپ کی روزمرہ کی زندگی میں کام کرنے کی صلاحیت میں مداخلت کرتی ہے، تو یہ کچھ زیادہ سنگین ہو سکتا ہے۔
گیویرس کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے، موسم خزاں اور موسم سرما کے مہینے اداسی کو جنم دیتے ہیں، اور اس میں سے بہت کچھ سورج کی روشنی کی کمی کی وجہ بھی شامل ہے۔
سردیوں کے مہینوں یا موسم سرما میں، لوگ اپنے گھر سے اندھیرے میں نکلتے ہیں، سارا دن دفتر میں بغیر کھڑکیوں کے گزارتے ہیں، اور پھر اندھیرے میں دوبارہ گھر جانے کے لیے کام چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ زیادہ تر لوگوں کے مزاج کو متاثر کر سکتا ہے۔
اگر آپ گھر سے کام کر رہے ہیں، اور کام سے پہلے یا اپنے دوپہر کے کھانے کے اوقات کے دوران باہر نہیں نکل رہے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے گھر سے بالکل بھی باہر نہیں نکل رہے ہوں گے کیونکہ اندھیرا جلد ہو جاتا ہے۔
اس اے ڈی ایک زیادہ پیچیدہ عارضہ ہے جو کہ صرف اداسی نہیں ہوتی ہے۔ گیوراس کا کہنا ہے کہ ”اس سے متاثر لوگ ایک بڑے ڈپریشن کی خرابی کی علامات ظاہر کرتے ہیں، بشمول سونے اور کھانے میں دشواری، جو توانائی کی سطح اور وزن میں نمایاں اتار چڑھاؤ کے ساتھ آسکتی ہے۔“
جبکہ جسمانی اور ذہنی توانائی میں کمی محسوس ہوتی ہے، اور روزمرہ کے کاموں میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ زیادہ نیند کی طلب محسوس کرتے ہیں، مگر کچھ کو نیند پوری نہ ہونے کی شکایت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سردیوں کے ڈپریشن میں اکثر لوگ زیادہ کھانا شروع کر دیتے ہیں، خاص طور پر میٹھے یا کاربوہائیڈریٹس والی چیزیں، جس سے وزن بڑھ سکتا ہے۔ ارتکاز میں کمی بھی اس کی ایک علامت ہے۔ کسی بھی کام پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور اکثر لوگ چیزیں بھولنے لگتے ہیں۔
یا پھر کسی خاص واقعے یا وجہ کے بغیر گھبراہٹ محسوس ہونا جو سارا دن رہے اور مسلسل کئی ہفتوں تک جاری رہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنا جسے کنٹرول کرنے میں آپ کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔
علاج کی بات کی جائے تو اس کا علاج روشنی سے لیا جاتا ہے۔ ییل یونیورسٹی میں ونٹر ڈپریشن ریسرچ کلینک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر پال ڈیسان کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی سے ڈپریشن یا سیڈ کے علاج کے لیے ’لائٹ تھیراپی‘ کی جاتی ہے۔
اس تھیراپی میں ایک ایسی ڈیوائس کا استعمال کیا جاتا ہے جو انڈور روشنی سے بیس گنا تیز روشنی خارج کرتی ہے۔
ڈاکٹر پال ڈیسان کے مطابق، وہ اپنے پاس آنے والے ’سیڈ‘ کے مریضوں کو یہ تھیراپی دیتے ہیں، جن میں سے اکثر مریض کسی دوا کے بغیر ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
اکثر انتہائی سرد علاقوں میں یہ مسئلہ مزید شدید ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ وہاں طویل عرصے تک دھوپ نہیں نکلتی اور گھروں کے اندر بھی روشنی بہت کم ہوتی ہے۔
تحقیق کے مطابق ایسی تھیراپی کے لیے دس ہزار لکس تک کی روشنی استعمال کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ ’لکس‘ روشنی کی تیزی کی اکائی ہے۔
ایسی ڈیوائسز بھی بازار میں دستیاب ہیں جو سیڈ سے گزرنے والے افراد کے لیے مفید ہیں اور ایسے افراد کے لیے بھی کارگر ہیں، جو روشنی میں کم وقت گزارتے ہیں۔
ییل یونیورسٹی نے ایسی کئی پراڈکٹس کا جائزہ لینے کے بعد ان کی فہرست بھی مرتب کی ہے، جن کی روشنی سیڈ سے مقابلہ کرنے والے افراد یا روشنی میں کم وقت گزارنے والوں کے لیے مفید ہو سکتی ہے۔ سیڈ یا موسمی تبدیلی کے باعث ڈپریشن کا شکار ہونے والے افراد نے خود بھی اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کئی طریقے آزمائے ہیں اور انہوں نے اپنے لیے کئی کارگر طریقے دریافت بھی کیے ہیں۔ آئیے ذرا آزمودہ طریقوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی ستر سالہ ایلزبتھ ویسکوٹ کا کہنا ہے کہ بیَک وقت گرم اور ٹھنڈے پانی سے نہانے سے، انہیں اپنا موڈ بہتر کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
نیویارک سے تعلق رکھنے والی مریام چیری کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے باغیچے میں ایسے پھول لگائے ہیں جو سردی رخصت ہونے کے ساتھ ہی کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول پھولوں کا کِھلنا انہیں یہ خوش گوار احساس دلاتا ہے کہ بہار بس آنے والی ہے۔
ورزش بھی ڈپریشن کے علاج میں بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ سردیوں میں اگرچہ باہر ورزش کرنا مشکل ہوتا ہے، لیکن اندرونی ماحول میں ورزش کرنا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ دماغ میں اینڈورفنز نامی کیمیائی مادے کی سطح کو بڑھاتی ہے، جو خوشی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
اپنے موڈ کو بہتر بنانے کے لیے ایک سادہ تبدیلی یہ ہے کہ آپ جو کھانا کھاتے ہیں اس پر غور کریں۔ ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے کے ساتھ پروٹین کا استعمال موڈ کو بہتر بنا سکتا ہے اور دن میں شوگر اور کاربوہائیڈریٹ کی خواہش کو روک سکتا ہے۔
متوازن غذا اور خاص طور پر کاربوہائیڈریٹس میں اعتدال ضروری ہے۔ زیادہ سبزیاں، پھل، اور پروٹین والے کھانے موڈ کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ وٹامن ڈی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دودھ، مچھلی، یا وٹامن ڈی سپلیمنٹس بھی لیے جا سکتے ہیں۔
خبروں سے ایک وقفہ لیں
زیادہ تر گھر کے اندر رہنے کا مطلب ہے اسکرین کے وقت میں اضافہ۔ اور اگر یہ وقت نان اسٹاپ نیوز سائیکل استعمال کرنے میں صرف کیا جاتا ہے تو، آپ کو موسم سرما کے بلیوز میں اضافہ محسوس ہوسکتا ہے۔ سارا دن صرف خبریں سننے سے انسان ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے اس لیے خبروں کے ساتھ تفریحی پروگرامز بھی دیکھیں۔
سردیوں میں لوگ عموماً کم گھر سے باہر نکلتے ہیں، جس سے تنہائی اور ڈپریشن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنا اور سماجی تعلقات کو بہتر بنانا ڈپریشن کی شدت کو کم کر سکتا ہے۔
کوشش کیجیے کہ دن میں ایک یا دو گھنٹے سورج کی روشنی اور حدت میں گزاریں۔ اگر آپ بند آفس میں کام کرتے ہیں تو لنچ آفس سے باہر کھلی جگہ پر کیجیے۔ شام میں کسی پارک یا کھلی جگہ پر واک کے لیے وقت نکالیے۔ جس سے نہ صرف موڈ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ زیادہ توانائی والی غذا کھانے سے وزن میں اضافہ بھی نہیں ہوگا۔
اپنی نیند کا معمول بنائیں۔ نیند موڈ کا ایک بہت بڑا جزو ہے۔ مناسب، باقاعدہ نیند کے بغیر، ہمارے سرکیڈین تال میں خلل پڑ سکتا ہے، جو کورٹیسول کی تال کو بھی متاثر کرتا ہے اور ہارمون کی پیداوار کو متاثر کرتا ہے۔ اپنی نیند کو بہتر بنانے کے لیے جو تجاویز دی جاتی ہیں وہ یہ ہیں۔
● ٹائم پہ بستر پر جائیں اور ہر روز ایک ہی وقت پر اٹھیں۔
● سونے کے وقت کے ایک سادہ معمول پر عمل کریں جو آرام کا اشارہ دیتا ہے، جیسے نہانا، لائٹس بند کرنا، یا ہربل چائے/ قہوہ کا کپ پینا۔
● جیسے ہی آپ بیدار ہوں اپنے آپ کو سورج کی روشنی میں لے جائیں۔
● اپنے سونے کے کمرے میں الیکٹرانکس کا استعمال نہ کریں۔
سردیوں میں لوگ عموماً سستی کا شکار رہتے ہیں اور درجۂ حرارت منفی ہوتے ہی روزمرہ کے کام سرانجام دینا بھی مشکل ہونے لگتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بے شک آپ ٹھنڈی ہوا میں باہر زیادہ وقت نہ گزاریں مگر بند کمروں میں بھی خود کو متحرک رکھنے کی کوشش کریں۔ موسم سرما کتابیں پڑھنے کا لکھنے لکھانے کے حوالے سے آئیڈیل موسم ہوتا ہے۔ کوشش کریں کہ آپ کے اندر کا قاری اور لکھاری سونے نہ پائے۔
اگرچہ ونٹر ڈپریشن ایک وقتی موسمیاتی مرض ہے لیکن کچھ افراد میں اس کی شدت بڑھ بھی جاتی ہے جس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً 2018 میں بلوچستان بھر میں موسم سرما نومبر سے اپریل تک رہا اور فروری تک بارشوں کی قلت کے باعث خشک سردی پڑی۔ مقامی افراد چار سے پانچ ماہ تک نزلہ، زکام، دمہ یا جوڑوں کے درد جیسے امراض کا شکار رہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر افراد نے اس دوران شدید گھٹن اور ڈپریشن کی محسوس کی اور مئی سے موسم بہتر ہوتے ہی مقامی افراد نے سکون کا سانس لیا۔ اگر موڈ میں تبدیلی سے آپ کے دوست و احباب کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے لگیں، کچھ بھی کرنے کو دل نہ چاہے تو کسی ماہر نفسیات یا اچھے ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ مناسب ادویات کے ذریعے سیروٹانن اور میلا ٹانن لیول کو درست رکھا جاسکے اور ڈپریشن شدید نہ ہو۔