کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہا ہے:
ڈر لگتا ہے ان لوگوں سے صاحب،
جن کے دل میں بھی دماغ ہوتا ہے۔۔
شاعری میں دل اور دماغ کے بارے میں خیالات ایک دلچسپ اور متنوع موضوع ہے جس پر مختلف شاعروں نے اپنے منفرد انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ عمومی طور پر، دل کو جذبات، محبت، اور احساسات کا مرکز سمجھا گیا ہے، جبکہ دماغ کو عقل، منطق، اور سوچ کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ یہ دو پہلو زندگی کے دو اہم اور متضاد رخ ہیں، جن کے درمیان شاعری میں اکثر ایک کشمکش نظر آتی ہے۔
یہ تو ہوئی شاعری کی بات۔۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ڈر لگتا ہے ان لوگوں سے صاحب،
جن کے دل میں بھی دماغ ہوتا ہے۔۔ شاعرانہ حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن اب ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ جدید تحقیق نے ایک حیران کن اور دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ ہمارا دل اپنا ایک الگ دماغ رکھتا ہے اور یہ حیرت انگیز طور پر پیچیدہ ہے!
نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دل میں ایک پیچیدہ اعصابی نظام موجود ہے، جسے ’مِنی دماغ‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ نظام دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ دماغ سے آزاد ہو کر کام کرتا ہے۔
کارولنسکا انسٹی ٹیوٹ اور کولمبیا یونیورسٹی کے محققین نے یہ معلوم کیا ہے کہ دل میں ایک آزاد اعصابی نظام موجود ہے جو دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ نظام اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور متنوع ہے جتنا پہلے سمجھا جاتا تھا۔ اس نظام کو بہتر طور پر سمجھنے سے دل کی بیماریوں کے علاج کے لیے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہ تحقیق زیبرا فش کے ماڈل پر کی گئی اور اس کی تفصیلات نیچر کمیونیکیشنز میں شائع کی گئی ہیں۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ ہماری پیدائش سے بہت پہلے، ہمارے دل کے عضلات ایک ایسے ردھم میں مڑتے اور سکڑتے ہیں، جو صرف ہماری آخری سانس کے ساتھ ہی رکتا ہے۔
یہ عمل اتنا خودکار ہے کہ ہم اس کی پیچیدگی کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔ تاہم، دل کی ہر دھڑکن ایک موسیقار کے نوٹ کی مانند سوچ سمجھ کر ادا کی جاتی ہے، جو شدت یا نرمی کے ساتھ دل کی بیرونی تہوں کے نیچے موجود اعصابی ساخت کی ہدایت پر عمل کرتی ہے۔
اس اعصابی نظام کو ’انٹراکارڈیک نیوروسسٹم‘ کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ نظام صرف دماغ اور ریڑھ کی ہڈی سے منتقل ہونے والی معلومات کے لیے ایک گزرگاہ ہے اور دل کی دھڑکن کو صرف خودمختار اعصابی نظام کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، جو دماغ سے سگنلز منتقل کرتا ہے۔ دل کی دیوار کے سطحی تہوں میں موجود اعصابی نیٹ ورک کو ایک سادہ ڈھانچہ سمجھا جاتا تھا، لیکن نئی تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس کا کردار کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ دریافت دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے کے موجودہ نظریات کو چیلنج کرتی ہے اور ممکنہ طبی نتائج فراہم کر سکتی ہے۔
سویڈن کے کارولنسکا انسٹیٹیوٹ اور امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ زیبرا فش کے دل کے گرد موجود نیورونز میں ایک حیرت انگیز پیچیدگی پائی جاتی ہے، جو جانوروں میں دل کی دھڑکن کو برقرار رکھنے سے متعلق موجودہ نظریات کو چیلنج کرتی ہے۔
کارولنسکا انسٹیٹیوٹ کے نیوروسائنٹسٹ کانسٹنٹینوس ایمپاٹزس، جو اس تحقیق کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں، ”یہ ’چھوٹا دماغ‘ دل کی دھڑکن کو برقرار رکھنے اور کنٹرول کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، جیسے دماغ نقل و حرکت اور سانس لینے جیسے ردھمی افعال کو منظم کرتا ہے۔“
تاریخ کے بیشتر عرصے میں یہ سمجھا جاتا رہا کہ دل کی فعالیت خودمختار ہوتی ہے، جو اپنی ایک مستحکم دھڑکن پیدا کرتا ہے، اور بہت سی ثقافتوں کے نزدیک یہ خود زندگی کی اصل روح سمجھا جاتا تھا۔
دل کی اس خودمختاری کو 18ویں صدی کے جرمن ماہر اناٹومی البریخت فان ہالر نے ایک نیا تناظر دیا، جنہوں نے فزیالوجی پر اپنی جامع تحریر میں دعویٰ کیا کہ دل میں ایک ’داخلی حساسیت‘ موجود ہے، جو اس میں داخل ہونے والے خون سے متحرک ہوتی ہے۔
19ویں صدی میں، اعصابی گچھے، جنہیں گینگلیا کہا جاتا ہے، پہلے مینڈک کے دلوں اور پھر انسانی دلوں میں دریافت کیے گئے۔ جلد ہی یہ بات سمجھ لی گئی کہ یہ گچھے دل کی دھڑکن کو منظم کرنے والے ’پیسمیکر‘ کا کردار ادا کرتے ہیں، جو عضلاتی سکڑاؤ کی رفتار کو کنٹرول کرتے ہیں۔
یہ وہ نقطہِ آغاز تھا، جہاں سے دل کی مسلسل دھڑکن برقرار رکھنے کی صلاحیت پر صدیوں پر محیط تحقیق کا آغاز ہوا، اور سائنس دان اس بات پر بحث کرتے رہے کہ مرکزی اعصابی نظام کس حد تک دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرتا ہے۔
آج، یہ سمجھا جاتا ہے کہ دماغ، دل کی کارکردگی پر اپنے دو شاخوں کے ذریعے اثرانداز ہوتا ہے: ’لڑو یا بھاگو‘ کے ردعمل کے لیے سمپیتھیٹک نظام اور ’آرام کرو اور ہضم کرو‘ کے لیے پیرا سیمپیتھیٹک نظام۔
یہ نظام متعدد اعصابی راستوں کے ذریعے کام کرتا ہے جو دل کے متحرک عضلاتی ریشوں کو پیریفرل گینگلیا peripheral ganglia سے جوڑتے ہیں۔ یہ گینگلیا مرکزی اعصابی نظام کے نیورونز کے مجموعوں سے جڑے ہوتے ہیں، جو کیمیکل اور دباؤ کے محرکات کے جواب میں دور سے دل کی دھڑکن کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔
پیریفرل Peripheral ganglia ایک طبی اصطلاح ہے جو اعصابی نظام (nervous system) کے ایک خاص حصے کو بیان کرتی ہے۔ اس سے مراد اعصابی خلیوں کے گروہ (clusters of nerve cells) ہیں جو مرکزی اعصابی نظام یعنی دماغ اور ریڑھ کی ہڈی سے باہر موجود ہوتے ہیں۔ یہ پیریفرل نروَس سسٹم کا حصہ ہیں۔
یہ سگنلز یا پیغامات کو مرکزی اعصابی نظام سے جسم کے مختلف حصوں تک، اور جسم سے مرکزی نظام تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔ کچھ گینگلیا حسی پیغامات (sensory signals) جیسے درد، دباؤ، اور درجہ حرارت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
صدیوں کی سائنسی تحقیق کے باوجود یہ حیرت انگیز بات ہے کہ دماغ کے اثرات پر بحث آج بھی جاری ہے، اور دل کی ساخت کے بارے میں بہت کچھ ایسا ہے جو ابھی دریافت ہونا باقی ہے۔
یہ تحقیق زیبرا فش پر کی گئی، جو دل کی دھڑکن اور مجموعی کارڈیک فنکشن کے لحاظ سے انسان کے دل سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ محققین نے سنگل سیل آر این اے سیکوینسنگ، جسمانی مطالعے، اور الیکٹروفزیولوجیکل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے دل کے اندر موجود نیورونز کی ساخت، ترتیب، اور افعال کا نقشہ تیار کیا۔
محققین نے خلیوں کی ایک وسیع اقسام دریافت کیں، جن میں اعصابی خلیات کا ایک ایسا گروپ بھی شامل تھا جو مرکزی اعصابی نظام میں موجود مرکزی پیٹرن جنریٹر نیورونز سے مشابہ تھا، وہی راستے جو کھانے کو چبانے، چلنے اور انزال جیسے اعمال کو کنٹرول کرتے ہیں۔
اگرچہ انسانوں اور زیبرا فش کے درمیان کروڑوں سالوں کا ارتقائی فاصلہ ہے، لیکن دونوں میں دل کی کارکردگی حیرت انگیز طور پر ایک جیسی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر فقاریے (vertebrates) ان اعصابی راستوں کو شیئر کرتے ہیں۔
موجودہ معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ امکان ظاہر ہوتا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے vertebrate جاندار کے دل توقع سے زیادہ پیچیدہ ’دماغ‘ رکھتے ہیں، جو ایک پیسمیکر پر مشتمل ہوتا ہے جو دل کو حرکت میں لاتا ہے، اور ایک انتظامی نظام جو مرکزی اعصابی نظام سے اشارے لے کر فیصلہ کرتا ہے کہ دل کو کس طرح ردعمل دینا چاہیے۔
کانسٹنٹینوس امپاٹزس کا کہنا ہے: ”ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دل کا اعصابی نظام کتنا پیچیدہ ہے۔ اس نظام کو بہتر طور پر سمجھنے سے دل کی بیماریوں کے بارے میں نئے انکشافات ہو سکتے ہیں اور بے ترتیبی دھڑکن جیسی بیماریوں کے لیے نئے علاج دریافت کیے جا سکتے ہیں۔“
انہوں نے مزید کہا: ”ہم اب یہ جاننے کے لیے تحقیق جاری رکھیں گے کہ دل کے دماغ اور دماغ کے درمیان رابطہ کس طرح دل کے افعال کو مختلف حالات، جیسے ورزش، دباؤ، یا بیماری کے دوران، کنٹرول کرتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ دل کے اعصابی نیٹ ورک میں خرابی مختلف بیماریوں میں کیسے کردار ادا کرتی ہے تاکہ نئے علاج کے ذرائع دریافت کیے جا سکیں۔“
یہ تحقیق دل اور دماغ کے درمیان ایک واضح حد کھینچنے کے بجائے نئے سوالات کو جنم دیتی ہے کہ یہ اشارے بیماری، خوراک، اور سرگرمی کے ساتھ کیسے بدلتے ہیں۔ مستقبل کی تحقیقات انکشاف کر سکتی ہیں کہ ایسے علاج کے لیے نئے اہداف کون سے ہو سکتے ہیں جو دل کی دھڑکن کو سالوں تک برقرار رکھ سکیں۔
اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی انوکھی تحقیق نہیں ہے، اس طرح کا نظریہ کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جے انڈریو آرمر پہلے بھی پیش کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر جے انڈریو آرمر دل اور دماغ کی جدید تحقیق کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ ان کا شمار اُن سائنس دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے طب کے میدان میں ایک نئے شعبے کی بنیاد رکھی: نیورو کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ Neurocardiology Department جس کو انسانی دل کا اعصابی نظام Nervous System بھی کہا جاتا ہے۔
کینیڈین سائنس دان ڈاکٹر جے انڈریو آ رمر نے دل اور اعصابی نظام کے بارے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے کہ دل میں ایک چھوٹا سا برین موجودہے۔ ’دل کے اندر چھوٹا سا دماغ‘ A little Brain in the heart۔
انہوں نے اپنی تحقیق میں یہ واضح کیاہے کہ انسانی دل کے اندر تقریباََ چالیس ہزار 40,000 اعصابی خلئے پائے جاتے ہیں اور یہ وہی خلئے ہیں، جن سے دماغ معرض وجود میں آتا ہے۔ خلیوں کی تعداد اتنی بڑی ہے کہ دماغ کے کئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں اور دل کے یہ خلئے دماغ کی مدد کے بغیر کام کرسکتے ہیں۔ دل کے اندر پایا جانے والا دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور خود فیصلہ کرنے کے بعد جسم کے باقی اعضاء حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات بھیجتا ہے۔
ڈاکٹر جے انڈریوآمر کی تحقیق نے یہ بھی واضح کیا کہ دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی یادداشت Short Term Memory کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے اور دل کو دھڑکنے کے لیے دماغ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
1970 ء کی دہائی میں امریکی ریاست اوہایو کے فیلس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے دو سائنس دانوں جان لیسی اور اس کی بیوی Beatrice Lacey نے بھی حیرت انگیز دریافت کی تھی کہ ”انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ Two-way communication between heart and the brain ہوتا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے دماغ کا کام حسیات سے معلومات لے کر اُن کو یاد کرنا، تجزیہ کرنا، متعلقہ خانوں میں اسٹور اور موازنہ کرنا ہے، جبکہ دل معلومات کی پیچیدگیوں میں نہیں پڑتا اور نہ ہی عقل اور منطق کے زور پر چیزوں کو سمجھتا ہے۔
اب ذکر ہو جائے قرآن کی دو آیات کا۔۔ سورۃ الاعراف آیت نمبر 179 کا مفہوم ہے کہ ”ان کے پاس دل ہیں، جن سے وہ سوچتے نہیں ہیں۔“ سورۃ الحج آیت نمبر 46 میں فرمایا: ”کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں جس سے انہیں وہ دل حاصل ہوتے جو انہیں سمجھ دے سکتے۔“
بہرحال۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ انسانی تخلیق ایسی پیچیدہ ہے کہ اس پر جتنی بھی تحقیق ہوگی، اس کے نئے سے نئے پہلو سامنے آتے رہیں گے۔۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ دل اور دماغ کا رشتہ صرف شاعری کی خوبصورت تشبیہوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ حقیقت میں بھی ایک پیچیدہ اور حیرت انگیز ہم آہنگی کا مظہر ہے۔ دل کے اندر موجود یہ ’چھوٹا دماغ‘ نہ صرف ہماری دھڑکن کو زندگی بخشتا ہے بلکہ یہ تحقیق ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہماری اندرونی کائنات کتنی گہری اور غیر معمولی ہے۔ شاید دل کی یہ پوشیدہ حکمت ہی ہے جو انسانی جذبات اور عقل کو ایک انوکھے امتزاج میں پروتی ہے، اور یوں دل واقعی زندگی کا مرکز بن جاتا ہے – ایک ایسا مرکز جسے سمجھنے کی جستجو ابھی جاری ہے۔