یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنس دانوں نے ایک حیرت انگیز میکانزم دریافت کرتے ہوئے دلچسپ انکشاف کیا ہے: غیر پیدا شدہ بچے، یعنی جنین Fetus اپنے والد کے جینز کا استعمال کر کے ماں کے جسم میں غذائی اجزاء کو ’ریموٹ کنٹرول‘ کرتے ہیں!
یہ عمل نال (Placenta) کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو ایک حیرت انگیز عضو ہے۔ نال ماں کے جسم کو ہارمونز کے ذریعے سگنلز بھیجتی ہے تاکہ بچے کی نشوونما کے لیے زیادہ غذائی اجزاء فراہم کیے جا سکیں۔
ہارمونی سگنلز کے ذریعے کام کرنے والا یہ حیرت انگیز نظام جنین (رحمِ مادر میں مراحلِ نمو میں بچہ) کی نشوونما کو بہتر بنانے کے لیے ماں کے میٹابولک عمل میں تبدیلیاں لاتا ہے۔
دوسری جانب ماں کا جسم اپنی توانائی کا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ماں کو یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس کے توانائی کے لیے کافی گلوکوز اور چکنائیاں دستیاب رہیں، تاکہ وہ حمل کو برقرار رکھ سکے، دودھ پلانے میں معاون ہو، اور آئندہ حمل کے لیے تیار رہ سکے۔ لیکن جنین کا ’لالچی‘ جینی نظام اسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ گلوکوز اور چکنائیاں حاصل کر سکے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ غذائی اجزاء کے حصول کی یہ کشمکش نہ صرف جنین کی نشوونما کے لیے اہم ہے بلکہ ماں کی صحت اور اس کی مستقبل کی تولیدی صلاحیت کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔
یہ ایک دلچسپ قسم کی ’غذائی رسہ کشی‘ ہے، جہاں بچے کے جینز، خاص طور پر والد سے وراثت میں ملنے والے جینز، زیادہ وسائل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جین بچے کو صحت مند اور بڑا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ ماں کے جینز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ماں کے جسم کی صحت متاثر نہ ہو۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ جنین ایک ایسا جین استعمال کرتا ہے جو والد سے وراثت میں ملا ہوتا ہے تاکہ وہ ماں کے جسم کو زیادہ غذائی اجزاء فراہم کرنے پر مائل کر سکے۔
ویلکم-ایم آر سی انسٹیٹیوٹ آف میٹابولک سائنس میں ایم آر سی محقق اور مقالے کے شریک مصنف ڈاکٹر میگوئل کونسٹانسیا اور فیٹل اینڈ پلیسنٹل فزیولوجی کی پروفیسر اور اس مقالے کی شریک مصنفہ پروفیسر امانڈا سفیروززی پیری کا کہنا ہے کہ یہ پہلا ثبوت ہے کہ والد کا ایک جین ماں کے جسم کو سگنل دے کر غذائی اجزاء کو بچے کی طرف منتقل کرتا ہے۔ لیکن یہاں جینیاتی جنگ بھی جاری رہتی ہے: والد کے جینز بچے کی بڑھوتری کے لیے ’خود غرض‘ بن جاتے ہیں، جبکہ ماں کے جینز بچے کی نشوونما کو محدود رکھتے ہیں تاکہ ماں صحت مند رہے اور مستقبل میں مزید بچے پیدا کرنے کے قابل ہو۔
انہوں نے کہا، ”بچے کا ریموٹ کنٹرول سسٹم جینز کے ذریعے کام کرتا ہے جو اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ’والد‘ کے جین ہیں یا ’ماں‘’کے، بند یا فعال ہو سکتے ہیں۔ انہیں امپرنٹڈ جینز کہا جاتا ہے۔“
ان کا مزید کہنا تھا، ”والد سے متاثرہ جینز (حمل کے دوران زیرِ نمو بچے کے حق میں) ’لالچی‘ اور ’خود غرض‘ ہوتے ہیں اور ماں کے وسائل کو جنین کے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اسے زیادہ بڑا اور صحت مند بنایا جا سکے۔ حالانکہ حمل عمومی طور پر ایک تعاون پر مبنی عمل ہے، لیکن ماں اور بچے کے درمیان ممکنہ تنازعے کے لیے ایک بڑا میدان موجود ہوتا ہے، جس میں امپرنٹڈ جینز اور نال کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔“
یوں بچے کے وہ جینز جو والد سے متاثر ہیں جنین کی نشوونما کو فروغ دیتے ہیں، جبکہ ماں سے متاثرہ جینز جنین کی نشوونما کو محدود رکھتے ہیں۔
پروفیسر سفیروززی پیری اس کی وضاحت یوں کرتی ہیں، ”ماں کے وہ جینز جو جنین کی نشوونما کو محدود رکھتے ہیں، یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ماں کی بقا کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ ہے، تاکہ اس کا بچہ اتنا بڑا اور مشکل نہ ہو جائے کہ اسے پیدا کرنا چیلنج بن جائے۔ اس کے علاوہ، ماں کو مستقبل میں مختلف والد کے ساتھ مزید حمل کے امکانات رہیں، تاکہ وہ اپنے جینز کو وسیع پیمانے پر منتقل کر سکے۔“
مطالعے نے اس بات کا جائزہ لیا کہ نال اس عمل میں کس طرح ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ نال مخصوص ہارمونی سگنلز خارج کر کے ماں کے جسم سے بات چیت کرتی ہے تاکہ بچے کی نشوونما کو ترجیح دی جا سکے۔ یہ اہم عضو، جو جنین کے ساتھ ہی ترقی کرتا ہے، نہ صرف انسانوں بلکہ دیگر ممالیہ جانوروں میں بھی جنین کی نشوونما میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ حاملہ چوہوں پر کیے گئے تجربات میں، سائنس دانوں نے نال کے ان سگنلنگ خلیوں میں تبدیلی کی جو غذائی اجزاء کو جنین تک پہنچانے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔
یہ دریافت نہ صرف ماں اور بچے کے درمیان تعلق کو مزید دلچسپ بناتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان کس قدر نازک اور پیچیدہ توازن قائم رہتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے ایک اہم جین Igf2 کا مطالعہ کیا، جو ایک خاص پروٹین انسولین لائک گروتھ فیکٹر 2 بنانے کی ہدایات دیتا ہے۔ یہ پروٹین انسولین کی طرح کام کرتا ہے اور خون میں گلوکوز کی سطح کو قابو میں رکھنے کے ساتھ ساتھ جنین کی نشوونما اور نال، جگر، اور دماغ جیسے اہم اعضا کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
مطالعے میں، محققین نے چوہوں میں Igf2 جین کو غیر فعال کیا، اور حیرت انگیز نتائج دیکھے۔ ڈاکٹر جارج لوپیز-ٹیلو کے مطابق:
”جب والد سے منتقل ہونے والے Igf2 جین کو نال کے سگنلنگ خلیوں میں غیر فعال کیا گیا، تو ماں کے خون میں گلوکوز اور چکنائیوں کی مقدار کم ہو گئی۔ اس کمی کی وجہ سے غذائی اجزاء جنین تک مناسب مقدار میں نہیں پہنچ سکے، جس کے نتیجے میں جنین کی نشوونما متاثر ہوئی۔“
مزید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جب Igf2 غیر فعال ہوتا ہے، تو نال دوسرے ہارمونی عمل کو بھی متاثر کرتی ہے، جو ماں کے لبلبے سے انسولین کی پیداوار اور جگر کے میٹابولک ردعمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔
پروفیسر امانڈا سفیروززی پیری وضاحت کرتی ہیں: ”اب تک ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ Igf2 جین کا ایک حصہ ماں کو سگنل دینے اور غذائی اجزاء جنین تک پہنچانے کا کام بھی کرتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ Igf2 ان ہارمونز کو کنٹرول کرتا ہے جو حمل کے دوران ماں کے انسولین کی حساسیت کم کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کے ٹشوز گلوکوز کو جذب نہیں کرتے، جس سے غذائی اجزاء خون میں زیادہ مقدار میں رہتے ہیں اور جنین تک پہنچتے ہیں۔“
لیکن جب Igf2 جین میں نقص ہو تو کیا ہوتا ہے؟
پروفیسر سفیروززی پیری کہتی ہیں کہ ایسے بچے یا تو ضرورت سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں یا بہت کمزور۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مطالعے میں شامل چھوٹے چوہے پیدائش کے بعد ذیابیطس اور موٹاپے کے آثار ظاہر کرنے لگے، جو زندگی بھر کے لیے صحت کے خطرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
پروفیسر پیری کے مطابق:
”نال حمل کے دوران نہ صرف غذائی اجزاء تقسیم کرنے کا کام کرتی ہے بلکہ جنین کے اعضا کی نشوونما پر دیرپا اثر ڈالتی ہے۔ جب نال ماں کے جسم سے باہر نکلتی ہے، تب بھی اس کے اثرات بچے کی زندگی بھر کی صحت پر قائم رہتے ہیں۔“
اب محققین جاننے کی کوشش کریں گے کہ Igf2 جین نال کے ہارمونز کو کس طرح کنٹرول کرتا ہے اور یہ ہارمونز ماں اور جنین کی صحت پر کیا اثر ڈالتے ہیں۔ ان تحقیقات کے نتائج مستقبل میں نال کے ذریعے ماں اور بچے کی صحت بہتر بنانے کے لیے نئے علاج دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ حمل کے دوران غذائی اجزاء کی تقسیم کتنا اہم اور نازک عمل ہے، اور جینیاتی عوامل اس عمل کو کیسے متاثر کرتے ہیں۔
حوالہ:
یہ نتائج کیمبرج کے سینٹر فار ٹروفوبلاسٹ ریسرچ، محکمہ فزیولوجی، ڈیولپمنٹ اینڈ نیوروسائنس، اور میڈیکل ریسرچ کونسل میٹابولک ڈیزیزز یونٹ کے محققین نے پیش کیے ہیں، جو ویلکم-ایم آر سی انسٹیٹیوٹ آف میٹابولک سائنس کا حصہ ہیں۔ یہ تحقیق سیل میٹابولزم میں شائع کی گئی ہے۔