’شیطانی سانس‘ عرف اسکوپولامین: کیا یہ واقعی آپ کو زومبی بنا سکتا ہے؟

امر گل

شہر کی گلیاں ہمیشہ کی طرح شور سے بھری تھیں۔ حارث، ایک عام ملازم، اپنے دفتر سے واپس آ رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں دن بھر کی تھکن اور جیب میں آج ہی ملنے والی تنخواہ کے پیسے تھے۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنے معمول کے راستے پر چل رہا تھا، جب اچانک ایک خوش لباس آدمی اُس کے قریب آیا۔

”السلام علیکم بھائی صاحب! مجھے ایک پتہ معلوم کرنا تھا، کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں؟ پتہ اس پر درج ہے، شاید آپ میری مدد کر سکیں۔“ اُس آدمی نے نہایت خوش اخلاقی سے پرچہ حارث کی طرف بڑھایا۔

حارث نے پرچہ کچھ جھجھکتے ہوئے لے لیا، جسے چھوتے ہی ایک عجیب سی بو اُس کے نتھنوں میں پہنچی اور اُس کی آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی۔ اُس کے قدم رک گئے، جیسے وہ اپنی مرضی کھو بیٹھا ہو۔ اُس کی حالت کچھ یوں تھی جیسے وہ جاگ رہا ہو مگر قابو نہ کر پا رہا ہو۔

”چلیے، میرے ساتھ۔“ وہ شخص مسکراتے ہوئے بولا، اور حارث بے بسی سے اُس کے پیچھے چل پڑا۔

قریبی گلی میں پہنچ کر اُس آدمی نے حارث کی جیبوں کی تلاشی لی اور اُس کے تمام پیسے نکال لیے۔ یہاں تک کہ اُس نے حارث سے اُس کا موبائل لے لیا اور گھڑی بھی اُتروا لی۔ حارث خاموش کھڑا رہا، جیسے وہ ایک پتلا ہو۔

چند منٹوں بعد، وہ شخص غائب ہو چکا تھا۔ حارث دھیرے دھیرے ہوش میں آیا۔ اُس کے سر میں درد تھا اور ذہن دھندلا۔ اُسے یاد آیا کہ اُس نے کسی کے ہاتھ سے پرچہ لیا تھا، مگر اُس کے بعد کی کوئی یاد واضح نہ تھی۔ جب اُس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، تو سب کچھ خالی تھا۔

حارث یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ان کے ساتھ یہ سب کیا اور کیسے ہوا۔ اس نے اپنے اندر سامنے والے شخص کا حکم ماننے کے خلاف مزاحمت کی ہلکی سی رمق بھی نہیں پائی۔۔

تو کیا آپ جانتے ہیں۔۔ کہ آخر حارث کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا۔۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ ایسے نظربند کرنے کا عمل قرار دیں یا پھر ہپناٹزم۔۔

حارث کے ساتھ پیش آنے والا اس طرح کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ہم آئے دن اپنے آس پاس اس سے ملتے جلتے واقعات کے بارے میں سنتے رہتے ہیں کہ کسی اجنبی نے کسی کو ایک کاغذ کا پرچہ یا کارڈ دیا، اور جیسے ہی اس نے اسے چھوا، وہ مادہ اس کی جلد میں جذب ہو گیا۔ وہ ایک زومبی جیسے حال میں پہنچ جاتا ہے ، جہاں وہ اپنے حملہ آور کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے، چاہے بینک خالی کرنا ہو یا کسی پر گولی چلانا۔

اس کے پیچھے دراصل اسکوپولامین Skopolamine نامی دوا کا کردار ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں اس مادہ کو ہزاروں جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اس نشے آور دوا کے اسٹریٹ چوریوں میں استعمال ہونے کی اطلاعات ہیں۔ نازیوں سے لے کر ماہرین زچگی تک، اس کے استعمال کی ایک رنگین تاریخ ہے۔

یہ دوا برانڈنگا یا اسکوپولامین کہلاتی ہے، جو نائٹ شیڈ پودوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں لاتعداد کہانیاں ہیں کہ کس طرح کولمبیا اور ایکواڈور میں مجرم اس کا استعمال کرتے ہیں، جس سے متاثرہ شخص کی آزاد مرضی ختم ہو جاتی ہے۔ اسے ’شیطانی سانس‘ اور ’دنیا کی سب سے خطرناک دوا‘ کہا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا میں اسے بطور نشہ استعمال کیا جاتا ہے، جس سے انسان ’زومبی‘ بن جاتا ہے۔ ’شیطان کی سانس‘ کے نام سے جانے جانے والے اس نشے میں یہ خاصیت موجود ہے کہ یہ نشئی کی یاداشت مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے اور اگلے دن اس شخص کو کچھ بھی یاد نہیں ہوتا کہ نشے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا۔

اس نشے کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے ایک مغربی صحافی ریان ڈیفی ایک ڈاکومینٹری بنانے کولمبیا پہنچا، جہاں اس نے کئی لوگوں سے اس کے بارے میں پوچھا اور تفصیلات نے اس کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے کیونکہ اس نے اس نشے کے بارے میں ایسی باتیں سنیں کہ اسے یقین ہی نہیں آیا۔

ایک ڈرگ ڈیلر نے اسے بتایا کہ اس بے رنگ اور بو بوٹی کو استعمال کرنا انتہائی آسان ہے اور استعمال کرنے والا فوراً اس کے زیر اثر آ جاتا ہے اور اسے کوئی علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے یعنی وہ ’زومبی‘ بن جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نشے کے زیر اثر انسان کو کچھ بھی یاد نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ کولمبیا میں اس نشے کے استعمال کے بعد جنسی اور دیگر جرائم کا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔

ڈاکومینٹری میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈرگ ڈیلرز اور ڈاکوﺅں کے علاوہ طوائفیں بھی اپنے چاہنے والوں پر خوب استعمال کرتی ہیں۔ ہسپتال کی ایک نرس کا کہنا تھا کہ کئی لوگ کسی پارٹی میں جاتے ہیں اور اس نشے کے بعد دو یا تین دن بعد ہوش میں آتے ہیں اور جب انہیں ہسپتال لایا جاتا ہے تو ان کے پاس کوئی پیسہ نہیں ہوتا یعنی انہیں پہلے ہی لوٹ لیا جاتا ہے۔ کولمبین پولیس نے گذشتہ سال 1200سے زائد ایسے کیس دیکھے جس میں لوگوں کو یہ نشہ دے کر مال و عزت سے محروم کر دیا گیا۔

امریکی اوورسیز سیکیورٹی ایڈوائزری کونسل، کیٹو میں مسافروں کو اسکوپولامین حملوں کے خطرے سے آگاہ کرتی ہے۔ وہ ’غیر سرکاری اندازوں‘ کا حوالہ دیتی ہے کہ ہر سال اس کے تقریباً پچاس ہزار واقعات پیش آتے ہیں۔

دوسری جانب گارجین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کالج لندن کی کلینیکل فارماکولوجی یونٹ کی پروفیسر وال کرن کہتی ہیں، ”یہ کہانیاں خوف پھیلانے کے لیے ہیں، جن میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔“ ان کے بقول، یہ کہنا کہ یہ اسکوپولامین ہے، مبالغہ لگتا ہے۔

ڈاکٹر لیس کنگ، جو ایک کیمسٹ اور سابق فارنزک سائنس دان ہیں، متفق ہیں۔ ان کے مطابق، یہ خیال کہ کسی کے چہرے پر دوا پھینک کر اسے زومبی بنا دیا جائے، کافی غیر حقیقی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”یورپی مانیٹرنگ سینٹر فار ڈرگز اینڈ ڈرگ ایڈکشن نے کبھی اس طرح کے استعمال کی اطلاع نہیں دی۔“

اسکوپولامین کو حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ ڈاکٹر کنگ کہتے ہیں، ”اگر آپ اسے کسی کیمیکل کمپنی سے خریدنے کی کوشش کریں، تو وہ شاید بیچنے سے انکار کر دیں۔“ یہ کوئی ایسی دوا نہیں جسے آپ گلیوں میں خرید سکیں۔

پروفیسر کرن کہتی ہیں، ”یہ بہت بری چیز ہے۔ تجربات میں جب ہم نے لوگوں کو دی، تو وہ اسے سخت ناپسند کرتے تھے۔“ بڑی مقدار میں یہ مکمل طور پر غیر فعال کر سکتی ہے، لیکن آزاد مرضی ختم کرنے کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔

اسکوپولامین کو کم مقدار میں موشن سکنس کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، زیادہ تر جلد پر چپکنے والے پیچ کے ذریعے۔ تاہم، اس کا ایک متنازعہ ماضی بھی ہے۔ ابتدائی 20ویں صدی میں، اسے بعض ڈاکٹروں نے زچگی کے دوران درد کم کرنے کے لیے استعمال کیا، لیکن بعد میں اس کے سچائی کے سیرم کے طور پر استعمال کی افواہیں بھی عام ہوئیں۔

کہا جاتا ہے کہ نازی جرمنی میں اسے تفتیشی ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران خفیہ ایجنسیوں نے اسکوپولامین کا استعمال کیا ہے۔ بعد میں اسے انجیکشن کے ذریعے مائع کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ امر بھی تشویشناک ہے کہ امریکی ایجنسی سی آئی اے بھی اس نشے کا استعمال لوگوں سے سچ اگلوانے کے لئے کرتی رہی ہے۔ قرون وسطیٰ میں چڑیلوں کے ذریعے استعمال کی بھی کہانیاں ہیں۔ لیکن، جیسا کہ پروفیسر کرن کہتے ہیں، ”ان میں سے کتنی باتیں سچ ہیں، یہ واضح نہیں ہے۔“ اس مادہ کے بارے میں بہت سے افسانے اور کم حقیقت موجود ہے۔

بنگلہ دیش کی بنگلا بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی کے فارماکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سید الرحمن کہتے ہیں کہ اسکوپولامین کا بطور دوا استعمال اب بھی موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں ”یہ حقیقت ہے کہ یہ اور اس جیسی کئی دوسری دوائیں میڈیکل سائنس میں استعمال ہوتی ہیں۔ اسکوپولامین کو پہلی بار دوسری عالمی جنگ کے دوران جاسوسی میں (سچ اگلوانے کے لیے) ’ٹروتھ سیرم‘ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ یعنی جسے ٹیکہ لگ جائے تو وہ سچ کہنے لگتا ہے کیونکہ اس سے انسان کے دماغ پر اس کا اپنا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دوسروں کے کنٹرول میں آ جاتا ہے، دوسروں کی بات سنتا ہے اور وہی کرتا ہے جو اسے کہا جائے۔“

رحمان کہتے ہیں ”جب آپ اسے بات کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ سچائی (اگلوانے) والے سیرم کے طور پر کام کرتا ہے اور جب آپ اسے پاؤڈر کی شکل میں سانس میں لے رہے ہوتے ہیں تو یہ ’شیطان کی سانس‘ ہے مگر جب آپ اسے الٹی یا کسی بیماری کے لیے لے رہے ہیں تو یہ دراصل دوا کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔“

اسکوپولامین مجرمانہ طور پر دھوکہ دہی کے لئے ایک پاؤڈر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے. اسے وزیٹنگ کارڈ، کاغذ، کپڑے یا موبائل فون کی اسکرین پر لگا کر شکار بنائے جانے والے لوگوں کی سانسوں کے قریب لایا جاتا ہے۔

محکمہ نارکوٹکس کنٹرول کے چیف کیمیکل ایگزامینر ڈاکٹر دولال کرشنا ساہا کے مطابق، اسکوپولامین دراصل انسانی ناک کے چار سے چھ انچ کے فاصلہ سے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”اس کا اثر سانس لینے کے صرف 10 منٹ کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ پھر یاداشت اور دماغ شعوری طور پر کام نہیں کر سکتے۔ کچھ لوگوں کو معمول پر آنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ اور کچھ افراد تین چار گھنٹے میں بھی نارمل نہیں ہو سکتے۔“

یہ دوا مائع اور پاؤڈر دونوں شکلوں میں دستیاب ہے۔ جرم کرنے کے لیے اس دوا کو کاغذ، کپڑوں، ہاتھ حتیٰ کہ موبائل فون کی اسکرین پر بھی لگایا جا سکتا ہے تاکہ اس کی خوشبو سے کچھ وقت کے لیے کسی کا بھی دماغ قابو کیا جا سکے، یہی وجہ ہے کہ عام طور پر اسے ’ڈیولز بریتھ‘ یعنی ’شیطان کی سانس‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اسکوپولامین بنیادی طور پر قدرتی دوا نہیں بلکہ اس کو قدرتی اجزا میں شامل کر کے مصنوعی طور پر بنایا جاتا ہے۔ یہ مائع اور پاؤڈر دونوں شکلوں میں دستیاب ہے۔ لیکن اس کا اہم جزو دھوترا پھول سے آتا ہے۔

بنگلہ دیش کے محکمہ نارکوٹکس کنٹرول کے چیف کیمیکل ایگزامینر دولال کرشنا کہتے ہیں ”ایک زمانے میں بنگلہ دیش میں لوگوں کو دیوانہ بنانے کے لیے دھتر کو دودھ میں ڈال کر پلایا جاتا تھا۔ دھوترا کا پھول ایک زہر ہے۔ یہ ان دھتروں کے اجزا کے ساتھ مصنوعی طور پر بنایا جاتا ہے۔“

ان کا دعویٰ ہے کہ ’میکسیکو کے منشیات کے کارٹلز، جو یہ منشیات بنا رہے ہیں وہی اسے پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔‘

طبی ویب سائٹ ویب میڈ کے مطابق شیطانی سانس، جسے اسکوپولامین یا ہائیوسین بھی کہا جاتا ہے، ایک ٹروپین الکلائیڈ ہے۔ تمام الکلائیڈز نامیاتی اور قدرتی مرکبات ہیں جن میں کم از کم ایک نائٹروجن ایٹم شامل ہوتا ہے۔ ٹروپین الکلائیڈز (TAs) الکلائیڈز کی ایک خاص قسم ہے جس میں 200 سے زیادہ مرکبات شامل ہیں اور یہ ایک ٹروپین رنگ نظام بناتے ہیں۔

ٹروپین الکلائیڈز کی تین اہم اقسام ہیں، اور ہر ایک میں یہ ٹروپین رنگ ڈھانچہ پایا جاتا ہے: کوکین، ہائیوسایامین اور اسکوپولامین، کیلائسٹجینز

کوکین اور ہائیوسایامین/اسکوپولامین خون کے دماغی رکاوٹ سے گزر کر خوراک پر مبنی ہذیانی اور نفسیاتی اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، کیلائسٹجینز حال ہی میں دریافت ہونے والے ٹروپین الکلائیڈز ہیں، لیکن ان کے اثرات کے بارے میں ابھی تک کافی تحقیق نہیں ہوئی۔

’شیطانی سانس‘ اسکوپولامین کی پاؤڈر کی شکل ہے۔ جہاں اسکوپولامین کو طبی طور پر پوسٹ آپریٹو متلی اور قے (PONV) اور موشن کی بیماری کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہیں اس کے خطرناک مضر اثرات اور مجرمانہ استعمال کی تاریخ بھی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں، مجرم اسکوپولامین سے بھرپور بیجوں کا استعمال متاثرین کو بے ہوش/نیم بے ہوش کرنے یا ان کے حواس کو متاثر کرنے کے لیے کرتے ہیں۔

شیطانی سانس مختلف پودوں کی اقسام سے تیار کی جاتی ہے۔ ان میں سے ایک کو برگمینسیا کہا جاتا ہے، جسے اس کے بڑے، ترہی نما پھولوں کی وجہ سے ’فرشتے کی ترہی‘ Angel’s trumpets بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنوبی امریکہ کے مقامی پودے ہیں لیکن دنیا کے دیگر حصوں، بشمول امریکہ میں، بطور آرائشی پودے استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ خوبصورت اور دیکھ بھال میں آسان ہیں۔

اینجلز ٹرمپیٹس میں مختلف بیلاڈونا الکلائیڈز پائے جاتے ہیں، جن میں ایٹروپین، ہائیوسایامین، اور اسکوپولامین (شیطانی سانس) شامل ہیں۔ اس پودے کی جڑوں اور بیجوں میں الکلائیڈز کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم، اس کے پھولوں کو کھانے، خشک پتوں کو سگریٹ کی طرح پینے، یا اس پودے کے کسی بھی حصے سے بنی چائے پینے سے سنگین مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔

یہ پودا اتنی آسانی سے دستیاب ہے کہ نوجوان اکثر اسے نشے کے طور پر بطور ہذیانی دوا استعمال کرتے ہیں۔

دیگر ذرائع کی بات کریں تو اسکوپولامین دیگر پودوں میں بھی پایا جاتا ہے، جیسے: ڈیٹورا اسٹرومونیم (جمسن ویڈ، عرف عام میں دھتورا) اسکوپولیا کارنیولیکا، ہائیوسایامس نائیجر (ہین بین)

یہ سبھی پودے بیلاڈونا الکلائیڈز پیدا کرتے ہیں، جو خود کو دفاعی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے زہریلے مرکبات کے طور پر کام کرتے ہیں۔

طبی طور پر اسکوپولامین کو عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے ایک ’ضروری دوا‘ قرار دیا ہے کیونکہ یہ مؤثر اور کم قیمت ہے۔

اگرچہ اسکوپولامین کی زیادہ مقدار نقصان دہ ضمنی اثرات پیدا کر سکتی ہے، لیکن طبی ماہرین کے ذریعے یہ اینٹی کولینرجک دوا مختلف حالتوں کے علاج کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ پیشہ ورانہ طبی نگرانی اور درست مقدار کے ساتھ، اسکوپولامین درج ذیل مسائل کے علاج میں مددگار ہو سکتی ہے: معدے کے کھنچاؤ، کیموتھراپی کی وجہ سے متلی، دمہ کے دورے، ڈپریشن، ضرورت سے زیادہ پسینہ آنا، سگریٹ چھوڑنے کی تھراپی، عمومی بے ہوشی کے تحت سرجری کے بعد متلی اور قے

اسکوپولامین کا سب سے عام طریقہ جلدی پیچ (patch) کے ذریعے ہے۔ جلد پر لگائے جانے والی دوائیں ایک پیچ کی شکل میں دی جاتی ہیں، جو عام طور پر کان کے پیچھے لگایا جاتا ہے۔ یہ دوائی اثر دکھانے میں چند گھنٹے لیتی ہے۔ اگر آپ کی سرجری طے ہے، تو آپ کا ڈاکٹر آپ سے کہہ سکتا ہے کہ پیچ سرجری سے ایک شام پہلے لگائیں۔

اسکوپولامین کے استعمال سے لوگوں نے چند ضمنی اثرات رپورٹ کیے ہیں۔ اسکوپولامین کے زہر کے علامات میں شامل ہیں: منہ خشک ہونا، دھندلی نظر، پھیلی ہوئی پتلیاں، سر درد، نیند آنا، چکر آنا، الجھن، پسینہ آنا، گلے میں درد، فریب نظر، بولنے میں دشواری، بے چینی

بیلاڈونا الکلائیڈز، جیسے شیطانی سانس، طبی نگرانی کے بغیر استعمال کرنے پر سنگین نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ چونکہ اسکوپولامین خون کے دماغی رکاوٹ سے گزر سکتی ہے، یہ ہذیان اور نفسیاتی اثرات پیدا کر سکتی ہے، جو لی گئی خوراک پر منحصر ہیں۔

بطور نشہ پر استعمال کرنے والوں نے درج ذیل علامات رپورٹ کی ہیں:بے چینی، فریب نظر، بے چینی کی حالت، ذہنی انتشار، جھٹکے، بے ہوشی

کچھ سنگین کیسز میں خود کو نقصان پہنچانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں ایک مریض کا کم گہرے پانی میں ڈوب کر مر جانا شامل ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق، شیطانی سانس کے صرف ایک گرام پاؤڈر سے انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ کم مقدار میں بھی یہ فریب نظر پیدا کر سکتی ہے، اور متاثرہ افراد کو ایک ایسے حالت میں چھوڑ سکتی ہے، جہاں وہ جنسی حملوں، ریپ اور دیگر زیادتیوں کے لیے کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں طویل مدتی جذباتی نقصان ہو سکتا ہے، جو متاثرہ شخص کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close