آسٹریلیا کی نئی دس سالہ امیگریشن پالیسی اور آسٹریلیا جانے کے پاکستانی خواہشمند

ویب ڈیسک

آسٹریلیوی حکومت نے آئندہ دو برسوں میں آسٹریلین امیگریشن نظام میں بہتری لانے کے لیے ملک میں آنے والے غیرملکیوں کی تعداد نصف کر نے کا اعلان کیا ہے

یہ اعلان پیر کو ملک کی ’دس سالہ مائیگریشن اسٹریٹیجی‘ کی تقریب رونمائی پر کیا گیا، جس کی وجہ سے عارضی ویزوں پر آسٹریلیا میں مقیم غیر ملکی طلبا سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں

آسٹریلیا کی نئی امیگریشن پالیسی کے آسٹریلیا جانے کے خواہشمند اور وہاں مقیم غیر ملکیوں پر اثرات مرتب ہونگے

اس حوالے سے سڈنی کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سینٹر فار میڈیا ٹرانزیشن میں بطور پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ فیلو کام کرنے والی ڈاکٹر عائشہ جہانگیر، جو ماضی میں ایک مائیگریشن ایجنسی کے ساتھ تین سال تک منسلک بھی رہی ہیں، کا کہنا ہے کہ فی الحال ابھی پالیسی کے بارے میں کافی بے یقینی موجود ہے اور لوگ الجھن کا شکار ہیں

واضح رہے کہ کسی بھی ملک کی مائیگریشن پالیسی میں تبدیلی وہاں مقیم غیرملکیوں یا وہاں جانے کے خواہاں افراد کے لیے ایک انتہائی اہم خبر ہوتی ہے۔ سڈنی میں مقیم ڈاکٹر عائشہ جہانگیر کے پاس بھی ایسے افراد کا تانتا بندھا ہوا ہے، جو اس نئی پالیسی کے حوالے سے رہنمائی لینا چاہتے ہیں۔

عائشہ جہانگیر کے بقول، آسٹریلیا میں مقیم غیر ملکیوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ یہ پالیسی انہیں کس طرح سے متاثر کر سکتی ہے۔ کیا وہ تارکین وطن، جن کے ویزے ابھی پراسیسنگ میں ہیں، کیا وہ بھی متاثر ہوں گے؟

پالیسی آنے کے بعد سے صرف ڈاکٹر عائشہ کے ساتھ ہی ایسا نہیں ہوا، بلکہ سڈنی میں ہی مقیم پاکستانی طالب علم عمار رندھاوا کو بھی اس بارے میں کئی کالز آ چکی ہیں

عمار رندھاوا بتاتے ہیں ”یہ ایسے پاکستانی طلبا کی کالز تھیں، جن کے ویزوں کو (اس پالیسی کے بعد) منسوخی کا خطرہ لاحق ہے۔ وہ اب پی ایچ ڈیز میں داخلہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ آسٹریلوی حکومت نے کہا ہے کہ ہمیں ہنرمند افراد کی ضرورت ہے“

عمار خود کورونا کی عالمی وبا سے قبل آسٹریلیا اعلیٰ تعلیم کی غرض سے گئے تھے اور گذشتہ پانچ سال سے سڈنی میں ہی مقیم ہیں۔ اب وہ اپنا ماسٹرز کر چکے ہیں اور پی ایچ ڈی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں

عمار بتاتے ہیں کہ ان کو کالز کرنے والوں میں سے کچھ تو واقعی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن کچھ ایسے ہیں، جو صرف ایسا ویزا کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ ’لیکن وہ پھر بھی پی ایچ ڈے کے لیے پروپوزل لکھنا چاہتے ہیں یا ایسے شعبوں میں داخلہ لینا چاہتے ہیں جن کی آسٹریلوی حکومت کو ضرورت ہے۔‘

خیال رہے کہ آسٹریلیا کے ادارۂ شماریات کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران ملک میں آنے والے غیر ملکی تارکین وطن افراد کی تعداد پانچ لاکھ دس ہزار رہی ہے جبکہ کووڈ کی پابندیاں لاگو ہونے سے قبل یہ تعداد سالانہ ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہوا کرتی تھی

لیکن یہ نئی دس سالہ پالیسی کیا ہے، اسے آسٹریلوی حکومت کی جانب سے اب کیوں لاگو کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی کیا سوچ رہے ہیں، ذیل کی سطور میں ان سوالات کا احاطہ کیا گیا ہے

نئی پالیسی کیا ہے؟

آسٹریلوی حکومت نے پیر کو نئی دس سالہ مائیگریشن سٹریٹیجی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے جون 2025 تک غیرملکیوں کے ملک میں داخلے کی سالانہ تعداد کم کر کے ڈھائی لاکھ تک محدود کرنے کی امید ہے

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آسٹریلیا میں اس وقت لگ بھگ ساڑھے چھ لاکھ غیر ملکی طلبا مقیم ہیں اور ان میں سے بیشتر پہلے عارضی ویزے (اسٹوڈنٹ ویزا) کی میعاد پوری ہونے کے بعد دوسرے ویزا حاصل کر کے یہاں مقیم ہیں

نئے منصوبے کے تحت بین الاقوامی طلبا اور کم ہنر والے ورکرز کے ویزا قواعد کو مزید سخت کیا جائے گا

اب بھی ملک میں ہنرمند ورکرز کی کمی ہے اور ان کی ملک میں آمد کے حوالے سے اب بھی مشکلات موجود ہیں

یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے موجود ’عارضی اسکلز شارٹج‘ ویزا کی جگہ ’اسکلز ان ڈیمانڈ‘ ویزا کا اجرا کیا جائے گا۔ اس چار سال پر محیط ویزا کے لیے تین مختلف راستے ہوں گے۔ ایک راستہ ’اسپیشلسٹ اسکلز‘ (خصوصی مہارت) رکھنے والے افراد کے لیے ہوگا اور اس کے ذریعے ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں سے منسلک انتہائی باصلاحیت افراد کو آسٹریلیا بلانے کی کوشش کی جائے گی

ایک راستہ ’کور اسکلز‘ یعنی بنیادی صلاحیتوں کے حوالے سے ہوگا، جس میں شعبوں کی فہرست کو آسٹریلوی مارکیٹ کی ضرورت اور طلب کے اعتبار سے تبدیل کیا جاتا رہے گا، لیکن اس راستے سے ورک فورس کی کمی کو پورا کیا جائے گا

تیسرا راستہ ’ضروری صلاحیتوں‘ کے حوالے سے ہے، یعنی ہیلتھ کیئر جیسے شعبے، جہاں ورکرز کی کمی ہے۔ اس کے حوالے سے تفصیلات ابھی زیرِ غور ہیں۔

ان نئے قوانین میں بین الاقوامی طلبا کے لیے انگریزی زبان کے ٹیسٹ یعنی آئلٹس کے حوالے سے سخت معیار رکھے گئے ہیں

یعنی پہلے جہاں گریجویٹ ویزا کے لیے آئلٹس 6 بینڈ کی ضرورت ہوتی تھی، اب وہ بڑھا کر 6.5 کر دی گئی ہے۔ جبکہ اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے آئلٹس کی شرط 5.5 سے بڑھا کر 6 کر دی گئی ہے

اس کے علاوہ دوسری مرتبہ ویزا کی درخواست دینے والوں سے مزید سوالات کیے جائیں گے۔ اس دوران انھیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ مزید پڑھائی سے انھیں اپنے کریئر یا اپنی تعلیم میں بہتری لانے میں کیسے مدد مل سکے گی

ایسے تارکینِ وطن جن کے پاس ’مخصوص‘ یا ’ضروری‘ ہنر موجود ہیں ان کے لیے ویزا حاصل کرنے کے طریقے بھی بہتر کیے گئے ہیں تاکہ انھیں مستقل رہائش حاصل کرنے کے لیے بہتر مواقع دیے جا سکیں

آسٹریلیا کے وزیر داخلہ کلیئر او نیل کا کہنا تھا کہ نئی پالیسی سے آسٹریلیا میں ایسے ہنر مند افراد کو آنے کا موقع ملے گا، جن کی ملک کو زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ پہلے سے ہی ملک میں رہ رہے ہیں، کام کر رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ان کے استحصال کا خاتمہ کیا جا سکے گی۔

’جعلی‘ کالجز اور جھانسے میں آنے والے طلبا

آسٹریلیا کی حکومت کی جانب سے ایک اصطلاح ’بیک ڈور‘ کے بارے میں بھی اس 99 صفحات پر مشتمل اسٹریٹجی میں بار بار بات کی گئی ہے، جس کے ذریعے مختلف ’جعلی‘ کالجز طلبا کو آسٹریلیا لے آتے ہیں، لیکن پھر ان کی ان ڈگریوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا

ان ’جعلی‘ کالجز کے حوالے سے آسٹریلیا کے مقامی اخبارات سے لے کر حکومتی سطح پر پہلے بھی بات کی جاتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ حکومت ایک مربوط کریک ڈاؤن کا عندیہ دے رہی ہے

اس بارے میں ڈاکٹر عائشہ جہانگیر کہتی ہیں ”ہوتا یہ ہے کہ یہ کالجز یا ادارے طلبا کو آسٹریلیا لانے میں مدد تو کر دیتے ہیں لیکن یہاں کی جو ورک فورس ہے، اس میں ان کی جگہ نہیں بن پاتی۔ کیونکہ یہاں مقابلہ صرف ایک قصبہ یا ایک شہر کے لوگوں کے درمیان نہیں بلکہ دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔“

عائشہ کے مطابق ”تو پھر یہ تارکینِ وطن عام طور پر نظام میں فٹ نہیں ہو پاتے بلکہ بوجھ بن جاتے ہیں اور ان کے لیے ’مستقل طور پر عارضی‘ کی اصطلاح استعمال ہونے لگتی ہے۔“

سڈنی اور میلبرن میں مقیم چند پاکستانی طلبا ایسے بھی ہیں، جو ان کالجز کے ذریعے آسٹریلیا آئے تھے اور اب اوبر چلا کر گزر بسر کر رہے ہیں اور اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ان میں سے ایک طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ کیسے بھاری رقم کے عوض کئی سال پہلے آسٹریلیا آئے تھے لیکن پھر نہ صحیح طریقے سے پڑھائی پر توجہ دے سکے اور نہ ہی اتنا کما سکے کہ کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں

ان کے مطابق ”اب ہم پھنسے ہوئے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ ہمارے ساتھ جنہوں نے زیادتی کی ہے ان پر کریک ڈاؤن ضرور کرے لیکن ہمیں کوئی رعایت دے“

خیال رہے کہ آسٹریلیا میں اب نظامِ زندگی گزرانے کے لیے اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے اور کرائے پر رہنے کے لیے مکان لینا مشکل ہو گئے ہیں اور طلبہ کو کام یا پڑھائی کی جگہ سے خاصا دور رہنا پڑتا ہے

عمار رندھاوا کا کہنا ہے کہ اس پالیسی میں طلبا اب ہر ہفتے چالیس کی بجائے صرف بیس گھنٹے کام کر سکیں گے۔ یہ وہ رعایت ہے، جو انھیں کووڈ کے دوران دی گئی تھی

عمار کہتے ہیں ”یہاں پر کرائے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں، دو سال پہلے تک آپ کو اسٹوڈیو تین سو ڈالر میں مل جاتا تھا، اب آپ کو کمرے ڈھائی سو ڈالر سے کم کے نہیں مل رہے۔ اب زیادہ طلبا کو جو مسئلہ آئے گا وہ مالی بحران کا ہوگا، انھیں اپنی فیس دینے میں مسائل کا سامنا ہوگا“

وہ کہتے ہیں ”پہلے ہم چالیس گھنٹے ہفتے میں کوئی بھی کام کر کے کم سے کم پندرہ سو ڈالر بنا لیتے تھے، جن میں سے لگ بھگ ایک ہزار ڈالر تک ہم بچا کر مہینے کے چار ہزار ڈالر بچا لیتے تھے اور یوں فیس ادا کرنے کے قابل ہو جاتے تھے۔۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت نے دوبارہ ہفتے میں صرف بیس گھنٹے کی گنجائش رکھی ہے اور اب تو کرائے بھی اتنے بڑھ گئے ہیں تو طلبا کا گزارا کیسے ہوگا“

ڈاکٹر عائشہ نے ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی، جو وہ اس طرح کے موقعوں پر عموماً تارکین وطن کے بارے میں مقامی آبادی کے جذبات کے بارے میں ہے، انہوں نے کہا ”جب حکومتوں کی جانب سے اس قسم کی بات کی جاتی ہے، لوگ بیک ڈور کے ذریعے ملک میں داخل ہوتے ہیں اور نظام میں موجود خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو معاشرہ اسے مختلف نظریے سے دیکھ سکتا ہے“

خیال رہے سنہ 2008 اور 2009 کے دوران آسٹریلیا میں انڈین طلبا کی جانب سے ملک میں ان کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے اور یہ آسٹریلیا اور انڈیا کے درمیان سفارتی خلیج کا باعث بنے تھے

ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں ”حکومت کو چاہیے کہ وہ آسٹریلوی شہریوں کو جا کر سمجھائے کہ یہ کریک ڈاؤن اس لیے نہیں کیا جا رہا ہے کہ غیر ملکی طلبا کی غلطی ہے بلکہ اس لیے کیونکہ یہاں کہ مقامی چھوٹے کاروبار ہی اس خامی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close