اس کہانی کا آغاز ایک ایسے اسرائیلی سائنسدان سے ہوا، جو اسرائیل کے خفیہ جوہری منصوبے پر کام کر چکا تھا اور جس کے پاس ایسی معلومات تھیں، جن سے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا پردہ فاش ہو سکتا تھا
یہ گذشتہ صدی کی پچاس کی دہائی کے اواخر کی بات ہے، جب اسرائیل نے صحرائے نیگیو میں خفیہ طور پر ڈیمونا جوہری ری ایکٹر کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا
سنہ 1962 اور 1964 کے دوران اسرائیل نے صحرائے نیگیو میں اس ری ایکٹر کو ایکٹیویٹ کیا۔ اس دوران تل ابیب نے جوہری تحقیق سے فائدہ اٹھانے کے لیے فرانس کی مدد سے اس ری ایکٹر سے جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کیا
سنہ 80 کی دہائی میں دنیا کی توجہ ڈیمونا ایٹمی پلانٹ کی جانب مبذول ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ اسرائیل کے جوہری سائنسدان مردخائی وینیون تھے، جن کے بیانات اور تصاویر نے دنیا کی توجہ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی جانب مبذول کروائی۔
مردخائی وینیون سنہ 1954 میں مراکش میں پیدا ہوئے۔ 9 برس کی عمر میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ اسرائیل منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اسرائیلی فورسز میں ملازمت اختیار کی اور وہ کیپٹن کے رینک پر پہنچے
فزکس میں دلچسپی کی وجہ سے وینیون نے خود کو متعلقہ شعبے میں تحقیق کے کام لے لیے وقف کر دیا اور مختلف تجربات کرتے رہے۔ بعدازاں انہیں ڈیمونا ری ایکٹر میں تعینات کر دیا گیا
انہوں نے اس دوران بن گوریون یونیورسٹی میں جغرافیہ کا مضمون بھی پڑھا، جہاں فزکس کے اس ماہر کا تعارف کمیونسٹ طلبہ سے ہوا۔ اس طرح وہ آہستہ آہستہ ذہنی طور پر بائیں بازو کے رجحانات سے متاثر ہونے لگے
سنہ 80 کی دہائی میں مردخائی وینیون نے اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کی اور 1982 میں لبنان کے خلاف جنگ پر تنقید کی۔ دوسری جانب انہوں نے ایک بنیاد پرست خیالات کی حامل طلبہ تنظیم تشکیل دی اور فلسطینیوں کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے انہیں سکیورٹی پراسیکیوشن کا نشانہ بنایا گیا
وینیون نے اس دوران ایک خفیہ کیمرے کا بندوبست کیا، جس سے انہوں نے اسرائیلی ایٹمی ری ایکٹر کے حساس مقامات کی تصاویر لیں اور کچھ عرصے بعد ان کی مشکوک سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں نوکری سے نکال دیا گیا
نوکری سے نکالے جانے کے بعد مردخائی وینیون نے متعدد مشرقی ایشیائی ممالک کا دورہ کیا اور اس دوران مسیحی مذہب قبول کر لیا، جس کی وجہ سے ان کے بعض دوست ان سے دور ہو گئے۔
1980 کی دہائی کے وسط میں مردخائی وینیون نے برطانوی جریدے ’دا سنڈے ٹائمز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں پیشکش کی کہ وہ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں حساس معلومات اور تصاویر انہیں دینا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر اخبار کی انتظامیہ شش و پنچ میں پڑ گئی کہ کیا کریں
یہ موضوع بہت حساس تھا۔ اخبار کی انتظامیہ اس لیے بھی گومگو کا شکار تھی کیوںکہ اس سے قبل ہٹلر کے بارے میں ایک غلط خبر کی اشاعت سے قارئین کی جانب سے سخت ردِعمل ظاہر کیا گیا تھا، اور اب بھی اگر معلومات درست نہ ہوئیں تو قارئین ان پر اعتماد کرنا چھوڑ سکتے تھے۔ دوسری جانب اسرائیل کے خلاف خبر لگانا بھی اخبار انتظامیہ کو خوفزدہ کیے ہوئے تھا، اور خبر بھی اس کے ایٹمی پروگرام کا پردہ فاش کرنے کی!
سنڈے ٹائمز کی انتظامیہ نے وینیون سے حاصل ہونے والی معلومات کی تصدیق کے لیے تصاویر ایٹمی امور کے ایک ماہر کو دکھائیں، جس نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ درست ہیں۔ علاوہ ازیں ماہر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اسرائیل کے پاس کم از کم دو سو ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کو اس بات کی اطلاع مل گئی کہ مردخائی وینیون کیا کچھ کرنے جا رہے ہیں اور ان کی سرگرمیاں کیا ہیں، تو اس کے تدارک کی خاطر موساد نے اپنی ایک ایجنٹ لڑکی کو ان سے قربت اختیار کرنے اور تعلقات بڑھانے کا ٹاسک دیا
اس لڑکی کو یہ ٹاسک بھی دیا گیا تھا کہ وہ وینیون کے قریب ہونے کے بعد انہیں اٹلی کے دارالحکومت روم میں لے آئے۔ ایجنٹ لڑکی اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئی، جس کے بعد موساد کے ایجنٹوں نے وینیون کو اغوا کر کے انہیں اسرائیل منتقل کر دیا
لیکن سنڈے ٹائمز کی انتظامیہ نے اس دوران وہ دھماکہ کر دیا، جس نے دنیا بھر کی توجہ اسرائیل کے خفیہ ایٹمی منصوبے کی طرف موڑ دی۔ اخبار نے وینیون سے حاصل ہونے والی تمام تصاویر اور معلومات بالآخر اپنی خصوصی اشاعت میں شائع کر دیں
اسرائیلی عدالت میں مردخائی وینیون پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا اور انہیں اٹھارہ برس قید کی سزا کا ہوئی۔ سنہ 2004 میں انہیں اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ گھر میں نظر بند رہیں گے اور کہیں آنے جانے کی آزادی نہیں ہوگی۔