مزدور سے ’لاٹری کنگ‘ بننے والا سینٹیاگو مارٹن۔۔ جس نے بھارتی سیاسی جماعتوں کو اربوں روپے کا چندہ دیا!

ویب ڈیسک

ان دنوں ذرائع ابلاغ میں ایک ایسے شخص کا خوب چرچا ہو رہا ہے ، جس نے انڈیا کی سیاسی جماعتوں، جن میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سرفہرست ہے، کو پانچ سال کے دوران 13 ارب 68 کروڑ روپے کی بھاری رقم چندے میں دان کر دی! اس شخص کا نام ہے سینٹیاگو مارٹن، انہوں نے یہ چندہ غیر معروف کمپنی ’فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز‘ کے ذریعے دیا

کمپنی کی ویب سائٹ ’سینٹیاگو مارٹن چیریٹیبل ٹرسٹ‘ کے مطابق سینٹیاگو نے نو عمری میں میانمار کے یانگون میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کیا، بعدازاں تیرہ سال کی عمر میں لاٹری فروخت کرنے کی ابتدا کی۔۔مزدور سے ’لاٹری کنگ‘ بننے کا سفر طے کرنے والے مارٹن، انڈیا میں سب سے زیادہ ایک ارب روپے سالانہ ٹیکس دینے والے شخص ہیں۔

انڈین الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے انتخابی بانڈز کے ڈیٹا کے مطابق سب سے زیادہ انتخابی فنڈ فیوچر گیمنگ اور ہوٹل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی نے دیا، جسے سینٹیاگو مارٹن چلاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی جانب سے تفصیلات فراہم کرنے کے چند دن بعد، سینٹیاگو مارٹن کا نام منظر عام پر آیا۔ سینٹیاگو کو عام طور پر ’لاٹری کنگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی فرم فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ نے سیاسی جماعتوں کو سب سے زیادہ روپے دیے اور سیاسی پارٹیوں کے لیے کام کیا۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مارٹن کا نام گھپلوں میں سامنے آیا ہو۔ 2021 میں، تمل ناڈو کے سابق کانگریس سربراہ الاگیری نے الزام لگایا تھا کہ مارٹن نے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو 83 فیصد چندہ دیا، جب کہ سیاسی جماعتوں کا کل چندہ 245.7 کروڑ روپے تھا۔

الیکشن واچ ڈاگ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی ایک رپورٹ نے ان پر لگے الزامات کو ثابت کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 2022-23 میں پانچ قومی پارٹیوں کے ذریعہ اکٹھا ہونے والے 680.49 کروڑ روپے کے تمام کارپوریٹ عطیات کا تقریباً 90 فیصد حصہ حاصل کیا۔ فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز پرائیویٹ لمیٹڈ 2019 اور 2024 کے درمیان 1368 کروڑ روپے کا عطیہ دینے کے لیے تنازع میں ہے۔

تمل ناڈو کے شہر کوئمبٹور سے کام کرنے والی لاٹری کی کمپنی ’فیوچر گیمنگ‘ یہ تفصیلات عام ہونے کے بعد سے خبروں میں ہے۔

اس کمپنی کا پورا نام ’فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز‘ ہے اور اس نے 12 اپریل 2019 سے 24 جنوری 2024 کے درمیان 13 ارب 68 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے اور سیاسی پارٹیوں کو چندہ دیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ کمپنی 1991 میں قائم ہوئی۔ پہلے اس کا نام ’مارٹن لاٹری ایجنسیز لمٹیڈ‘ تھا۔ اسے سینٹیاگو مارٹن نامی ایک شخص نے قائم کیا، جو آگے چل کر ’لاٹری کنگ‘ کہلائے۔ انہوں نے لاٹری کے ٹکٹ بیچنے اور خریدنے کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک قائم کیا۔

کمپنی کی ویب سائٹ ’سینٹیاگو مارٹن چیریٹیبل ٹرسٹ‘ کے مطابق سینٹیاگو نے نو عمری میں میانمار کے یانگون میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ 1988 میں بھارت لوٹ آئے اور تمل ناڈو میں راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھنے والوں کو لاٹری کے ٹکٹ بیچنے کا کاروبار شروع کیا۔

انہوں نے بلآخر پورے انڈیا میں لاٹری کے خریداروں اور بیچنے والوں کا ایک وسیع نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے کرناٹک، کیرالا اور شمال مشرقی ریاستوں میں لاٹری کے ٹکٹ بیچنے شروع کر دیے۔ کیرالا میں لاٹری کا کاروبار خوب چلتا ہے۔

بعد میں انہوں نے شمال مشرق میں حکومت کی لاٹری اسکیموں میں ہاتھ ڈالا۔ انہوں نے بھوٹان اور نیپال میں بھی اپنی کمپنی کی شاخیں کھول لیں اور وہاں بھی لاٹری کے ٹکٹ فروخت کرنے شروع کر دیے۔

آگے چل کر انہوں نے دوسرے شعبوں جیسے کہ تعمیرات، ریئل اسٹیٹ، ٹیکسٹائل، اسپتال، ٹیکنالوجی وغیرہ میں بھی کاروبار شروع کیا۔

کمپنی کا دعویٰ ہے کہ 22-2021 میں اس کا سالانہ بزنس 20 ہزار کروڑ روپے کا تھا۔ اس نے 2017 میں مغربی بنگال حکومت کو خرید و فروحت پر دیے جانے والے ٹیکس ’جی ایس ٹی‘ کے مد میں چھ ہزار کروڑ روپے ادا کیے۔

مارٹن انڈیا میں سب سے زیادہ ایک ارب روپے سالانہ ٹیکس دینے والے شخص ہیں۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ بلاواسطہ اور بالواسطہ دس لاکھ افراد کو روزگار دے رہی ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق مارٹن ’آل انڈیا فیڈریشن آف لاٹری ٹریڈ اینڈ الائڈ انڈسٹری‘ کے صدر ہیں۔ ان کی کمپنی ’ورلڈ لاٹری ایسوسی ایشن‘ کی رکن ہے۔ کمپنی نے آن لائن گیمنگ، کیسینو اور کھیل کی سٹے بازی میں بھی قدم رکھ دیا۔ وہ ’ایشیا پیسفک لاٹری ایسوسی ایشن‘ کی بھی رکن ہے۔

’فیوچر گیمنگ‘ پہلی لاٹری کمپنی ہے، جس نے مختلف حکومتوں کی جانب سے ان کے ذریعے ٹکٹوں کی قرعہ اندازی کے لائیو ٹیلی کاسٹ کا راستہ ہموار کیا۔

’فاونڈیشن فار ایکسلنس اِن بزنس پریکٹس جنیوا‘ نے سینٹیاگو مارٹن کو 2004 میں شاندار بزنس کے لیے گولڈ میڈل دیا۔

رپورٹس کے مطابق انڈیا کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں سے ان کے دوستانہ مراسم ہیں۔ وہ تمل ناڈو میں برسراقتدار جماعت ’دراوڑ مونیترا کژگم‘ (ڈی ایم کے) کے اور کیرالا میں حکمراں ’لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ‘ (ایل ڈی ایف) کے قریب ہیں۔

سینٹیاگو مارٹن مختلف ریاستوں میں خاص طور پر کیرالا میں سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے کے معاملے میں تنازعات میں بھی گھرے رہے ہیں۔ ان پر سکم حکومت کو 4500 کروڑ روپے کا دھوکہ دینے کا بھی الزام ہے۔

اخباری رپورٹوں کے مطابق مارٹن سیاسی ہوا پہچاننے میں ماہر ہیں۔ جب 2014 میں ان کو محسوس ہوا کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) انتخابات میں کامیاب ہونے والی ہے، تو ان کا جھکاؤ اس کی جانب ہو گیا اور ان کی اہلیہ وزیرِ اعظم کے عہدے کے امیدوار نریند رمودی کے ساتھ اسٹیج پر دیکھی گئیں۔

ان کے چھوٹے بیٹے چارلس نے 2015 میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ اور ڈی ایم کے کے بانی کروناندھی پر ایک فلم بھی بنائی۔

مارٹن کی کمپنی پر ، منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ادارے’انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ‘(ای ڈی) کی نظر پڑی۔ اس نے 2016 سے کمپنی کی نگرانی شروع کر دی۔ دو سال بعد ’سینٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن‘ (سی بی آئی) نے اس پر چھاپا مارا۔

ای ڈی نے 2023 میں مارٹن کے 457 کروڑ روپے ضبط کر لیے۔ جب کہ اس نے 2021 میں کمپنی کے 19.5 کروڑ روپے ضبط کیے تھے۔ اسی سال اس کے 70 ٹھکانوں پر چھاپے ڈالے گئے تھے۔

ای ڈی نے 2015 میں مغربی بنگال کے مقام سلی گوڑی میں مارٹن کے گھر سے 100 کروڑ روپے ضبط کیے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال بہار کے اسمبلی انتخابات میں ہونے والا تھا۔

مارٹن کو 2012 میں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات عام ہونے سے بی جے پی کے ’بدعنوان ہتھکنڈے‘ بے نقاب ہو گئے ہیں۔ اس نے بی جے پی پر کمپنیوں کے تحفظ کے لیے ان سے چندہ لینے کا الزام بھی لگایا ہے۔

پارٹی کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ 13000 سے زائد کمپنیوں اور افراد نے الیکٹورل بانڈز کے توسط سے چندہ دیا ہے۔ 2019 کے بعد سے بی جے پی کو 6000 کروڑ روپے ملے ہیں۔

انہوں نے مختلف کمپنیوں کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ای ڈی کے چھاپوں کے بعد کیسے چندہ دیا گیا۔ ان کے مطابق ای ڈی نے دو اپریل 2022 کو فیوچر گیمنگ کمپنی پر چھاپا ڈالا اور پانچ روز بعد یعنی سات مارچ کو اس نے 100 کروڑ روپے کے بانڈز خرید کر چندہ دیا۔

دوسری جانب وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کا کہنا ہے ہے ”الیکٹورل بانڈز کے ذریعے جو چندہ دیا گیا، اس کو ای ڈی کے چھاپوں سے جوڑنا ایک خیالی بیانیہ ہے۔ کمپنیوں نے چندہ دیا اور اس کے بعد بھی ای ڈی کے چھاپے پڑ رہے ہیں تو اسے کیا کہیں گے۔ یہ ایک خیالی بات ہے کہ ای ڈی نے چھاپہ ڈالا اور خود کو بچانے کے لیے چندہ دیا گیا۔“

انھوں نے کہا ”وسری خیالی بات بی جے پی کو چندہ ملنے سے متعلق ہے۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ انھوں نے بی جے پی کو چندہ دیا۔ ممکن ہے کہ انھوں نے علاقائی پارٹیوں کو دیا ہو۔۔“

الیکٹورل بانڈز کیا ہیں؟

انڈیا میں سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کے لیے الیکٹورل بانڈز متعارف کرائے گئے تھے اور ان بانڈز کے ذریعے دی جانے والی رقم پر سود نہیں لگتا یعنی ان میں کسی قسم کی کوئی کٹوتی نہیں ہوتی۔

سنہ 2018 میں متعارف کرائے جانے والے یہ بلاسود بانڈز ایک خاص مدت کے لیے جاری کیے جاتے ہیں، جن کے تحت سیاسی جماعتوں کو ایک ہزار سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کی رقم دی جا سکتی ہے۔

اس اقدام کے تحت انڈیا کا کوئی بھی شہری یا کمپنی سال کے مخصوص دنوں میں الیکٹورل بانڈز خرید کر اپنی پسند کی سیاسی جماعت کی مالی مدد کر سکتا ہے اور مذکورہ سیاسی جماعت پندرہ دن کے اندر یہ رقم کسی بھی سرکاری بینک سے نکلوا سکتی ہے۔

قانون کے مطابق ان بانڈز کے ذریعے کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کو پیسے دیے جا سکتے ہیں، جس نے قومی یا ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ایک فیصد سے کم ووٹ نہ حاصل کیے ہوں۔

انڈیا میں انتخابات پر نظر رکھنے والی تنظیم، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹِک ریفارمز (اے ڈی آر) کے مطابق سنہ 2019 میں ملک کی سات بڑی سیاسی جماعتوں کو ملنے والی فنڈنگ کا 62 فیصد الیکٹورل بانڈز سے آیا تھا۔

الیکٹورل بانڈز کو متعارف کرانے کا مقصد ملکی سیاست کو ناجائز پیسے سے پاک کرنا اور سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کو زیادہ شفاف بنانا بتایا گیا تھا، لیکن اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سکیم کا نتیجہ الٹ نکلا ہے۔

جب انڈیا میں الیکٹورل بانڈز جاری کرنے کا پہلی مرتبہ اعلان کیا گیا تھا تو الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ ان بانڈز کی وجہ سے انتخابات میں شفافیت کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر انڈیا کے سٹیٹ بینک، وزارت قانون اور بہت سے ارکانِ اسمبلی کا بھی یہی کہنا تھا کہ بانڈز سے ملکی سیاست میں ناجائز دولت کی ریل پیل ختم نہیں ہوگی۔

سپریم کورٹ نے 15 فروری 2024 کو الیکٹورل بانڈز کی سکیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کی تھی حکام کو کہا تھا کہ وہ اپریل 2019 سے اب تک موصول ہونے والے عطیات کی تفصیلات 6 مارچ تک الیکشن کمیشن کو فراہم کرے۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ وہ یہ تفصیلات 13 مارچ تک اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کریں جو اب کر دی گئی ہے۔

بی جے پی کے 60 ارب، کانگریس کے 16 ارب
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کی جانے والی دستاویزات اپریل 2019 سے 11 جنوری 2024 (لگ بھگ پانچ سال) کے دورانیے کی ہیں۔

معلومات کے مطابق بی جے پی نے اس مدت کے دوران 60 ارب روپے سے زیادہ کے انتخابی بانڈز کے عوض نقد رقم سرکاری بینکوں سے نکلوائی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر کانگریس رہی جس نے 16 ارب روپے سے زیادہ کے انتخابی بانڈز کو کیش کروایا۔

سب سے زیادہ انتخابی بانڈز خریدنے والی کمپنی ’فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز‘ ہے جس نے مجموعی طور پر 1368 بانڈز خریدے جن کی مالیت 13.6 ارب روپے سے زائد ہے۔ اس کے بعد میگھا انجینیئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ ہے جس نے 9.6 ارب روپے مالیت کے بانڈز خریدے اور ان کی مدد سے اپنی فیورٹ جماعت کو سپورٹ کیا۔ سنٹیاگو مارٹن نے سنہ 1988 میں تامل ناڈو میں اپنا لاٹری کا کاروبار شروع کیا۔

ایک اور تنازع۔۔ کیا الیکٹورل بانڈز میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی ’حبکو‘ پاکستانی ہے؟

انڈیا کے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ دستاویز، جس میں ملک کی سیاسی جماعتوں کے الیکٹورل بانڈز میں گذشتہ پانچ سال کے دوران سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی جو فہرست دی گئی ہے، ان میں سے ایک ’حب پاور کمپنی‘ بھی ہے، جس نے 18 اپریل 2019 کو انڈیا کی سیاسی جماعتوں کے 95 لاکھ انڈین روپے کے الیکٹورل بانڈز خریدے تھے۔

سوشل میڈیا پر متعدد انڈین صارفین کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ یہ دراصل پاکستانی کمپنی ’حب پاور کمپنی لمیٹڈ‘ (حبکو) ہے۔ دستاویز سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ رقم کون سی جماعت کے الیکٹورل بانڈز خریدنے میں صرف ہوئی لیکن ایک صارف انکت ماینک کی جانب سے کہا گیا کہ ’جب پورا ملک پلوامہ حملے کے بعد فوجیوں کی ہلاکت پر سوگ منا رہا تھا، تو اس وقت کوئی پاکستان سے فنڈنگ کے مزے لوٹ رہا تھا۔‘

تاہم پاکستان اور انڈیا دونوں سے ہی اس دعوے کی تردید سامنے آ گئی ہے۔

انڈین صحافی اور فیٹ چیک ویب سائٹ کے بانی محمد زبیر کا دعوٰی ہے کہ مذکورہ بالا حب پاور کمپنی پاکستانی نہیں، بلکہ نئی دہلی میں رجسٹرد ایک انڈین کمپنی ہے۔

اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے انڈین گڈز اینڈ سروسز کونسل کی ویب سائٹ کا قسکرین شاٹ شیئر کیا ہے۔

دوسری جانب ایک بیان میں حبکو کی جنرل مینیجر لیگل فائزہ کپاڈیا کا کہنا ہے کہ ’حبکو نے انڈیا میں کبھی کسی شخص کو کوئی ادائیگی نہیں کی ہے۔ پاکستان سے باہر تمام ادائیگیاں اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے منظوری حاصل کرنے کے بعد ہی کی جاتی ہیں۔ اس ساری کنفیوژن کی وجہ ایک انڈین کمپنی ہے جس کا نام ’حب پاور کمپنی‘ ہے۔“

خیال رہے کہ پاکستان کی حبکو پاور کمپنی کی ویب سائٹ پر درج معلومات کے مطابق یہ ملک کی پہلی اور سب سے بڑی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پی) ہے، جس کی بجلی کی پیداواری صلاحیت 3581 میگاواٹ ہے اور اس کے پاور پراجیکٹس بلوچستان کے شہر حب، پنجاب کے شہر ساہیوال، سندھ میں تھر پارکر اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close