پُرولیا اسکینڈل: جب انڈیا کی فضاؤں سے آتشیں اسلحے کی کی بارش ہوئی!

امر گل

17 دسمبر 1995، ایک ایسا دن جب آسمانوں سے ہتھیار برسے اور ایک راز نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مغربی بنگال کے ایک چھوٹے سے ضلع، پرولیا میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف انڈیا کی انٹیلیجنس کمیونٹی کو بلکہ بین الاقوامی سطح پر حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں کو سوالوں کی زد میں لا کھڑا کیا۔ ایک روسی طیارہ، جس کا مقصد اور پس منظر مبہم تھا، انڈیا کی فضائی حدود میں داخل ہوا، بغیر کسی رکاوٹ کے ہتھیاروں کا ایک زبردست ذخیرہ گرایا اور پھر دوبارہ پرواز کر کے غائب ہو گیا۔ کیا یہ محض ایک حادثہ تھا، یا کسی بڑی بین الاقوامی سازش کا حصہ؟ کس نے یہ ہتھیار گرائے، اور ان کا مقصد کیا تھا؟ یہ سوالات آج تک بغیر جواب کے ہیں۔

17 دسمبر 1995 کو، ایک پرانا روسی AN-26 مال بردار طیارہ کراچی سے ڈھاکہ کے لیے روانہ ہوا۔ وارانسی میں ایندھن بھروانے کے بعد، اس نے بہار کے گیا کے اوپر اپنا راستہ تبدیل کیا۔ جب یہ طیارہ مغربی بنگال کے پُرولیا کے اوپر پہنچا، تو یہ خطرناک حد تک نیچے پرواز کرتا ہوا اندھیرے میں چار ٹن مہلک ہتھیار اور گولہ بارود گرا گیا، مشن مکمل کرنے کے بعد، طیارہ واپس اپنی اصل پرواز کے راستے پر لوٹا، کولکتہ کے ڈم ڈم ہوائی اڈے پر اتر کر ایندھن بھروایا اور تھائی لینڈ کے فُوکٹ کے لیے روانہ ہوگیا۔

اس دوران انڈین ایئر ٹریفک کنٹرول کی نظروں سے یہ طیارہ بالکل اوجھل رہا، گویا کسی جاسوسی کہانی کا کوئی نادیدہ کردار ہو۔ لیکن اس کے مشن کا راز اگلی صبح کھلا، جب پُرولیا کے حیرت زدہ کسانوں نے اپنے کھیتوں میں بڑے بڑے لوہے کے صندوق پڑے دیکھے، جو جدید ترین مہلک ہتھیاروں سے بھرے ہوئے تھے۔

جلد ہی علاقے میں شور مچ گیا اور لوگ دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے۔ جو کچھ بھی ہاتھ لگا، وہ لے بھاگے۔ کچھ نے اے کے-47 رائفلیں چھپا لیں، تو کسی نے راکٹ لانچر اپنی جھونپڑی میں دفن کر دیا۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی زیرِ زمین جنگی تیاری کا سامان ہوا میں برسایا گیا ہو۔

اس واقعے کو ’پُرولیا آرمز ڈراپ کیس‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جو کئی سالوں تک انڈیا کے سیکیورٹی نظام کے لیے ایک گہری گتھی بنا رہا۔ مقامی میڈیا کے مطابق پھینکے گئے صندوقوں میں 10 آر پی جی-7 راکٹ لانچر، 300 اے کے-47 رائفلیں، 25 نو ایم ایم پستول، 2 سنائپر رائفلیں 7.62 کیلیبر کی، 2 نائٹ ویژن دوربینیں، 100 گرنیڈز، 23,800 راؤنڈ 7.62 کیلیبر کی گولیاں، 6,000 راؤنڈ 9 ایم ایم کی گولیاں، 100 اینٹی ٹینک گرنیڈز اور 10 راکٹ لانچرز کے لیے دوربین نکلے، یہ سامان 4,375 کلوگرام وزنی تھا!

جلد ہی ریاستی حکومت اور مرکز میں کانگریس حکومت تک یہ خبر پہنچ گئی۔ ایک خصوصی ٹیم کو فوری طور پر پُرولیا روانہ کیا گیا، جہاں سے جتنے ممکن ہو سکے ہتھیاروں کو برآمد کر لیا گیا۔ لیکن یہ سوال بدستور باقی رہا: آخر یہ ہتھیار کون اور کیوں گرایا گیا؟

پانچ دن بعد، 21 دسمبر کو، ایک اور طیارہ انڈین فضائی حدود میں داخل ہوا، مگر اس بار قسمت نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ انڈین فضائیہ کے مگ-21 جنگی طیارے نے اسے ممبئی ہوائی اڈے پر اترنے پر مجبور کر دیا۔

یہ وہی طیارہ نکلا جس سے پُرولیا میں ہتھیار گرائے گئے تھے۔ اس کے اندر سے چھ افراد کو حراست میں لے لیا گیا، جن میں پانچ لیٹویا کے شہری اور ایک برطانوی شہری پیٹر بلیچ شامل تھا، جو سابقہ برطانوی فوجی اور ہتھیاروں کے سوداگر کے طور پر جانا جاتا تھا۔

لیکن کہانی یہیں ختم نہ ہوئی۔ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ اس طیارے میں ایک ساتواں شخص بھی موجود تھا، جس کا نام کِم ڈیوی یا نیلس ہاک تھا، جو ڈنمارک کا شہری اور پورے معاملے کا ماسٹر مائنڈ نکلا۔

ٹائمز آف انڈیا میں شائع ایک آرٹیکل میں اس کی تفصیلات اس طرح بیان کی گئی ہیں:

”طیارے میں آٹھ افراد سوار تھے: ڈنمارک سے نِیلز کرسچین نیلسن عرف کِم ڈیوے، جو اس آپریشن کا مرکزی منصوبہ ساز تھا، پیٹر بلیچ، برطانوی ہتھیاروں کا تاجر اور برطانوی انٹیلی جنس کا جز وقتی ایجنٹ، دیپک منیکن، بھارتی نژاد سنگاپور کا شہری، اور پانچ روسی زبان بولنے والے لیٹوین عملے کے ارکان۔

اخبار کے مطابق: سازشیوں کے لیے، معاملات اس وقت بگڑ گئے جب انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ آپریشن ناکام ہو چکا ہے اور ’آنند مارگ‘ کے بجائے بھارتی سیکیورٹی فورسز ہتھیاروں کو اٹھا رہی ہیں، بھارت کے راستے واپس کراچی جانے کا فیصلہ کیا۔ نندی اپنی کتاب میں پہلی بار سب سے جامع انداز میں بھارتی سیکیورٹی نظام کی ’قدیم دور کی نااہلی‘ کو بے نقاب کرتے ہیں، جو پُرولیا سے پہلے اور بعد میں واضح طور پر نظر آئی۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق: یہ ایک عجیب و غریب بات ہے کہ بھارت کی بیرونی خفیہ ایجنسی ’را‘ کو برطانوی ایجنسی MI5 نے پُرولیا میں ہتھیاروں کی کھیپ کے بارے میں پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا۔ 25 نومبر 1995 کو ’را‘ نے انٹیلی جنس بیورو، کابینہ سیکریٹری، ہوم سیکریٹری اور دفاعی سیکریٹری کو باضابطہ طور پر اطلاع دی، اور تقریباً درست اندازے کے ساتھ بتایا کہ ہتھیار کہاں اتارے جائیں گے۔ لیکن تین ہفتے بعد، نہ صرف طیارہ بھارت میں داخل ہوا، بلکہ وارانسی میں ایندھن بھروایا، پُرولیا میں ہتھیار گرائے، کولکتہ میں دوبارہ ایندھن بھروایا (!) اور پھر فُوکٹ سے چنئی جا کر مزید ایندھن بھروایا! لیکن چنئی سے روانہ ہوتے ہی طیارے کی قسمت نے ساتھ چھوڑ دیا۔

اخبار لکھتا ہے: چنئی سے اڑان بھرنے کے بعد، بھارتی حکام نے طیارے کو ممبئی میں اترنے کا حکم دیا۔ لیکن جب طیارہ اترا تو بھارتی حکام کی طرف سے بے مثالی نااہلی ایک بار پھر ظاہر ہوئی۔ کوئی سیکیورٹی اہلکار طیارے کے عملے کو گرفتار کرنے کے لیے موجود نہیں تھا! جو بھارتی اہلکار ابتدائی طور پر طیارے کے قریب گئے، وہ صرف یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ طیارہ کیوں اترا ہے! اسی ہلچل کے دوران کِم ڈیوے فرار ہو گیا۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق: چندن نندی، جنہوں نے یہ کہانی پہلے دی ٹیلی گراف اور بعد میں ہندوستان ٹائمز کے لیے رپورٹ کی، نے اب اس کہانی کی سب سے سنسنی خیز تفصیلات سامنے لائی ہیں، جس کے کئی پہلو اب بھی اسرار میں لپٹے ہوئے ہیں۔ وہ اس ’اجتماعی مفلوجی” کو بے نقاب کرتے ہیں جو ‘را’ کی پیشگی اطلاع کے بعد بھارتی سیکیورٹی نظام پر طاری ہو گئی تھی۔

اخبار لکھتا ہے: نندی کو اس بات کا پختہ یقین ہے – جیسا کہ ان کے بیشتر ذرائع کو بھی – کہ کِم ڈیوے مغربی خفیہ ایجنسی کے لیے ایک فرنٹ مین تھا، غالباً سی آئی اے کا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈنمارک کی حکومت نے، انٹرپول کو مطلوب ہونے کے باوجود، اس کی ہر ممکن حفاظت کی، یہاں تک کہ جب 1999 کے اواخر یا 2000 کے اوائل میں وہ ڈنمارک میں منظر عام پر آیا۔ 2009 میں، بھارت کا مذاق اڑاتے ہوئے، کِم ڈیوے نے فیس بک پر اپنا صفحہ بھی بنایا! اس وقت تک، ڈینش حکام نے نہ صرف ممکنہ قانونی کارروائی کی رفتار کو روک دیا تھا بلکہ بھارت حوالگی سے بچنے کے لیے ایک پیچیدہ دفتری جال بھی بُن دیا تھا۔“

دی کوئنٹ میں شائع ایک آرٹیکل میں چندن نندی لکھتے ہیں ”یہ آدھی رات کے بعد کا وقت تھا جب ایک روسی ٹرانسپورٹ طیارے کا دروازہ بمبئی کے سانتا کروز ہوائی اڈے پر کھلا۔ اندھیرے میں ایک پتلا دبلا، سنہرے بالوں والا، چشمہ پہنے شخص، جس کے چہرے پر باریك داڑھی اور دھنسی ہوئی آنکھیں تھیں، سیڑھیاں اتر کر ایک جیپ کے قریب آیا۔ یہ جیپ بھارتی ہوائی اڈوں کے محکمے کی تھی اور اسے AN-26 طیارے کے قریب لے جایا گیا تھا جسے وہاں اترنے کا حکم دیا گیا تھا۔ مختصر بات چیت کے بعد، اس شخص نے جیپ پر لفٹ لی تاکہ ہوائی اڈے کی عمارت تک پہنچے اور لینڈنگ/پارکنگ فیس ادا کرے۔ لیکن اس کے بجائے اس نے ایک فون بوتھ سے ہانگ کانگ دو کالز کیں، سکون سے عمارت سے باہر نکلا، ایک ٹیکسی بک کروائی، اور پونے کی طرف روانہ ہوگیا۔

22 دسمبر 1995 کی اس رات کے بعد، یہ شخص، جو بعد میں کم ڈیوی (Kim Davy) یا نیلز کرسچن نیلسن کے نام سے مشہور ہوا، تقریباً 10 سال تک غائب رہا۔ یہ وہی شخص تھا جسے پُرولیا اسلحہ اسکینڈل کا ماسٹر مائنڈ کہا گیا۔ وہ آخر کار اپنے آبائی شہر کوپن ہیگن، ڈنمارک میں منظر عام پر آیا۔“

بہرحال دلچسپ بات یہ ہے کہ کِم ڈیوی/نیلس ہاک بعد میں کئی میڈیا ہاؤسز سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا رہا، مگر ہمیشہ انڈین قانون کی گرفت سے دور رہا۔

یوں پُرولیا کا یہ پراسرار اسکینڈل، جس میں موت آسمان سے برسی تھی، آج بھی ایک ناقابلِ حل معمہ بنا ہوا ہے۔

کم ڈیوی نے بعد میں ایک حیران کن دعویٰ کیا کہ اس نے ’آنند مارگ‘ کے مذہبی فرقے کے ارکان کو کمیونسٹوں سے بچانے کے لیے ہتھیار خریدے تھے اور ان تک پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ اس فرقے کا آغاز بہار سے ہوا تھا اور اس کی شاخیں دنیا کے سو سے زائد ممالک تک پھیل چکی تھیں۔ لیکن کم ڈیوی کا کہنا تھا کہ اس کی یہ کوشش ایک وسیع تر سازش کا حصہ تھی، جس کا مقصد مغربی بنگال میں کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنا تھا، اور اس میں ہندوستان کی مرکزی حکومت، انڈیا کی خفیہ ایجنسی را اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کی ملی جلی سازش شامل تھی۔

اس کا کہنا تھا کہ انڈیا کی مرکزی حکومت نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ اسے محفوظ طریقے سے ڈنمارک واپس پہنچا دیں گے۔ لیکن اس نے الزام لگایا کہ انڈین رکن پارلیمنٹ پپو یادو اور اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے اس کی مدد کی اور اسے انڈیا سے فرار ہونے میں سہولت فراہم کی۔

کم ڈیوی کے مطابق اس پورے معاملے میں برطانوی شہری پیٹر بلیچ کو ہتھیاروں کا سودا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ بلیچ نے ہی اس طیارے کو خریدا تھا اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ پیٹر بلیچ دراصل برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 5 کا ایجنٹ تھا، جس کی وجہ سے 2004 میں انڈین صدر نے اسے معافی دے دی۔ اسی دوران، روس کی اپیل پر لیٹوین شہریوں کو بھی رہا کر دیا گیا، لیکن پورا مقدمہ ابھی تک بند نہیں ہوا تھا۔ اس ساری سازش کا اہم کھلاڑی، کم ڈیوی، انڈین سیکیورٹی ایجنسیوں کی پہنچ سے باہر تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق: ”چندن نندی کو یقین ہے کہ ڈنمارک کی جانب سے کِم ڈیوے کے خلاف کارروائی سے انکار ’ایک طاقتور مغربی ریاست‘ کے دباؤ کا نتیجہ تھا۔ پُرولیا میں ہتھیاروں کی کھیپ کے بعد برطانوی انٹیلیجنس بھی خاموش ہو گئی۔ نندی کہتے ہیں کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہتھیاروں کی کھیپ سے پہلے، کِم ڈیوے نے چار بار امریکہ کا دورہ کیا، حالانکہ وہ وہاں دو وفاقی جرائم میں مطلوب تھا۔ را کے ایک افسر نے مصنف کو بتایا کہ صرف کِم ڈیوے کے سی آئی اے سے تعلقات ہی ڈنمارک کی جانب سے دی جانے والی غیر معمولی حفاظت کی وجہ ہو سکتے تھے۔

اخبار لکھتا ہے: مزید یہ کہ کراچی ہوائی اڈے پر AN-26 طیارے کی دیکھ بھال کرنے والی پاکستانی کمپنی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے سی آئی اے سے منسلک ایک جعلی ہوائی کمپنی کے ساتھ تعلقات تھے۔ بھارتی انٹیلی جنس افسران نے نندی کے ساتھ اپنی تحقیقات شیئر کرتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ آیا کِم ڈیوے سی آئی اے کا ’ڈارٹی ایسٹ‘ تھا۔“

بہرحال کم ڈیوی کے انکشافات نے اس معاملے کو بالکل نیا رنگ دے دیا تھا، مگر اس کے دعووں پر سب نے یقین نہیں کیا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے یہ ساری کہانیاں بنا رہا ہو، لیکن اس واقعے سے جڑے کچھ سوالات ایسے تھے جن کے جوابات آج تک نہیں مل سکے۔ مثال کے طور پر، جب طیارہ انڈیا میں داخل ہوا، اس دن تمام ریڈار کیوں بند تھے؟ کم ڈیوی ممبئی ایئرپورٹ سے کیسے فرار ہو گیا؟ اور اس کیس کا انڈین سیکیورٹی ایجنسی را اور برطانوی انٹیلیجنس ایم آئی 5 سے کیا تعلق تھا؟ یہ اور ایسے کئی سوالات اس کیس کی پیچیدگی کو مزید بڑھاتے ہیں۔

اس کے باوجود، بعد کے حالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایم آئی 5 کو اس اسلحہ کی کھیپ کے بارے میں علم تھا، کیونکہ پیٹر بلیچ اس میں شامل تھا، جو کئی سال تک برطانوی خفیہ ایجنسی میں کام کر چکا تھا اور بعد میں اسلحے کی تجارت شروع کر دی تھی۔ بلیچ اور کم ڈیوی کی ملاقات بلغاریہ میں ہوئی تھی، اور کم ڈیوی نے ان سے رابطہ کیا تھا کیونکہ بلیچ کئی ممالک کی حکومتوں کو ہتھیار فراہم کر چکا تھا۔ تاہم، جب بلیچ کو پتا چلا کہ ایک دہشت گرد تنظیم ہتھیار خریدنا چاہتی ہے، تو اس نے اس کی اطلاع ایم آئی 5 کو دے دی۔

انڈین تفتیشی ادارے سی بی آئی نے کم ڈیوی کے تمام دعوؤں کو مسترد کر دیا، لیکن کراچی سے طیارے کا انڈین سرحد میں داخل ہونا، اس رات ریڈار کا فیل ہونا اور دیگر پراسرار واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا جتنا دکھائی دیتا ہے۔

پُرولیا کیس: راز، دعوے اور غیر حل شدہ سوالات

دوسری طرف، ‘آنند مارگ’ فرقے نے اس دعوے کو قطعی طور پر مسترد کر دیا کہ ان کے ارکان کے لیے ہتھیار گرائے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام کہانیاں محض افواہیں تھیں اور ان کا اس پورے معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تاہم، پیٹر بلیچ، جو پولیس کی تحویل میں تھا، نے ایک حیران کن دعویٰ کیا کہ جو ہتھیار برآمد کیے گئے تھے، ان سے کہیں زیادہ ہتھیار گرائے گئے تھے۔ یہ بات نہ صرف عوامی سطح پر چونکا دینے والی تھی، بلکہ اس کے بارے میں سی بی آئی کے پاس بھی کوئی واضح جواب نہیں تھا کہ وہ اضافی ہتھیار کہاں گئے، اور کس نے ان کا استعمال کیا۔

2011 میں، بین الاقوامی ہتھیاروں کی تجارت سے متعلق کچھ دستاویزات سامنے آئیں، جن سے اس معاملے کا ایک نیا پہلو کھلتا تھا۔ ان دستاویزات کے مطابق، یہ اسلحہ بلغاریہ سے خریدے گئے تھے اور ان کا مقصد بنگلہ دیش کی فوج کے لیے تھا۔ ان پر بنگلہ دیش کے ایک اہم سیاسی شخصیت، میجر جنرل محمد علی بھوئیاں کے دستخط تھے۔ بھوئیاں اُس وقت خالدہ ضیا کی حکومت میں مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف تھے۔ ان دستاویزات کے مطابق، اسلحہ ایک خاص چھاؤنی کے لیے تھا جس کا ذکر پرولیا سے برآمد ہونے والے ڈبوں میں بھی تھا، اور ان پر بنگلہ دیش کا چھاؤنی کا نام درج تھا۔ تاہم، بنگلہ دیش کی حکومت نے ان تمام دعوؤں کی تردید کی، اور کہا کہ یہ دستخط جعلی تھے۔

اس کیس کی پیچیدگی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب 2014 میں ڈنمارک میں بنائی گئی ایک ڈاکیومنٹری نے اس معاملے کی مزید تفصیلات کو اجاگر کیا۔ اس کے بعد انڈین مصنف چندن نیندی نے اس پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا "جس رات آسمان سے بندوقیں برسیں”۔ اس کتاب نے اس واقعے کو ایک نیا روشنی دی، اور پھر 2017 میں کترینہ کیف اور رنبیر کپور کی فلم ‘جگا جاسوس’ آئی، جسے اسی واقعے پر مبنی بتایا گیا۔

اگرچہ اس واقعے کے قریب تین دہائیوں کے بعد، معاملہ بند ہو چکا ہے اور تمام ملزمان رہا ہو چکے ہیں، مگر ایک سوال اب بھی فضا میں لٹکا ہوا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ گرائے گئے اسلحے کی اصل تعداد کیا تھی؟ ان ہتھیاروں کو کس کے لیے گرایا گیا تھا؟ اور کیا اس معاملے میں انڈین حکومت کا کوئی ملوث کردار تھا؟ ان سوالات کا جواب آج تک نہیں مل سکا، اور یہ راز اب بھی اس کہانی کی گہرائیوں میں دفن ہیں۔

پرولیا آرمز ڈراپ کیس کے پردے کے پیچھے کی حقیقت ابھی تک ایک معمہ ہے، جس کے پیچیدہ دھاگے آج بھی انٹلیجنس ایجنسیوں، سیاستدانوں اور مختلف حکومتوں کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔ ہتھیاروں کا گرنا، پھر ان کے غائب ہونا، اور اس کے بعد کے انکشافات نے اس کیس کو ایک سنسنی خیز کہانی بنا دیا ہے جس کی گونج کئی دہائیوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ اس نے نہ صرف انڈیا کے داخلی اور خارجی تعلقات کو جھنجھوڑا بلکہ دنیا بھر میں انٹیلیجنس کی پیچیدگیوں اور سازشوں کی ایک نئی پرت کھول دی۔ سوالات کے بے شمار بادل آج بھی اس واقعے کے گرد منڈلا رہے ہیں، اور شاید یہی وہ راز ہے جو اس کیس کو ہمیشہ کے لیے ایک پراسرار داستان بنا کر چھوڑ جائے گا۔ اس کے باوجود، شاید ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے کہ کچھ سوالات کبھی حل نہیں ہو پاتے، اور کچھ کہانیاں ہمیشہ نیم روشن ہی رہتی ہیں۔

پرولیا آرمز ڈراپ کیس ایک ایسا سنسنی خیز واقعہ ہے جس کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی سازشیں، پیچیدہ تعلقات اور غیر معمولی حالات نہ صرف تاریخ کا ایک تاریک باب بن گئی ہیں، بلکہ اس نے انڈیا اور عالمی سطح پر انٹیلیجنس ایجنسیوں کے طریقہ کار اور سیاست پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ واقعہ محض ایک معمولی اسلحہ اسمگلنگ کا کیس نہیں تھا؛ بلکہ ایک بین الاقوامی سطح پر چل رہی سازش کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کی کوشش تھی، جس میں مختلف ممالک، خفیہ ایجنسیاں اور مذہبی فرقے ملوث تھے۔ کم ڈیوی کے انکشافات، جو بار بار ایک نیا موڑ لیتے ہیں، اس پورے کیس کو مزید پراسرار اور دلچسپ بنا دیتے ہیں۔

اس رپورٹ میں جہاں ایک طرف پیچیدہ سیاسی کھیل، بین الاقوامی تعلقات اور انٹیلیجنس کی دنیا کی حقیقتیں اجاگر کی گئی ہیں، وہیں اس میں انسانوں کی حفاظت، سیاسی چالاکیوں اور حکومتوں کے اندر ہونے والی ملی بھگت کو بھی سامنے لایا گیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود، یہ سوالات اب تک حل طلب ہیں کہ حقیقت میں اس ہتھیاروں کی کھیپ کا مقصد کیا تھا؟ اور کیا اس میں انڈین حکومت کا کوئی کردار تھا؟ ان سوالات کا جواب نہ ملنا اس کیس کو مزید سنسنی خیز اور پراسرار بناتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close