غزہ میں جان سے جاتے بچے، بی بی سی اور صحافی کرشمہ پٹیل کا استعفیٰ

ویب ڈیسک

یوں تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) اور مغربی میڈیا اسرائیل کے جنگی جرائم اور فلسطینی بچوں پر ہونے والے مظالم کو نظر انداز کر کے صحافتی اصولوں کی دھجیاں بکھیرتے رہے ہیں۔

بی بی سی میں طویل عرصے تک مشرق وسطیٰ کی ماہر کے طور پر کام کرنے والی صحافی کرشمہ پٹیل کے حال ہی میں انڈپینڈنٹ انگلش میں شائع کالم نے مغربی میڈیا کی منافقانہ چہرے سے ایک مرتبہ پھر پردہ اٹھایا ہے۔

کرشمہ پٹیل کا یہ کالم ایک سنجیدہ، دل دہلا دینے والا اور فکر انگیز بیان ہے، جو صحافت میں سچائی اور غیر جانبداری کے درمیان کشمکش کو اجاگر کرتا ہے۔ کرشما پٹیل نے بی بی سی میں گزارے گئے اپنے پانچ سالوں کے تجربات کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح غزہ کی رپورٹنگ نے ان کے پیشہ ورانہ اصولوں اور بی بی سی کی پالیسیوں کے درمیان ایک ناقابلِ حل تضاد پیدا کر دیا۔

کرشما پٹیل نے بی بی سی میں بطور محقق اپنے سفر کا آغاز کیا اور بعد میں نیوزریڈر اور صحافی کے طور پر نمایاں ہوئیں۔ اس عرصے میں انہوں نے کووڈ-19، روس-یوکرین جنگ، اور بھارت میں ہندو قوم پرستی جیسے اہم عالمی معاملات پر رپورٹنگ کی، لیکن جب بات غزہ کی آئی تو انہیں پہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ بی بی سی کی ادارتی پالیسیوں میں ایک سنگین عدم توازن موجود ہے۔

ادارتی تضادات اور سچائی سے انحراف

بی بی سی جیسے عالمی نشریاتی ادارے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ غیر جانبدار رہے، لیکن کرشما پٹیل کے مطابق، غیر جانبداری کے نام پر بی بی سی حقیقت کو مسخ کرنے کا مرتکب ہو رہا تھا۔ صحافی ثبوتوں کی پیروی کرنے سے گریز کر رہے تھے، اور اس کا بنیادی سبب خوف تھا۔

انہوں نے ایک تشویشناک موازنہ پیش کیا کہ بی بی سی نے ماحولیاتی تبدیلی پر بھی ایک طویل عرصے تک غیر ضروری مباحثے جاری رکھے، حالانکہ سائنسی شواہد واضح طور پر ثابت کر چکے تھے کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ اسی طرح، غزہ کے معاملے میں بھی، بی بی سی نے واضح ثبوتوں کے باوجود معاملے کو ایک ”قابلِ بحث“ موضوع بنا کر پیش کیا۔

جب ہند رجب کی کہانی دبائی گئی

بی بی سی میں کرشمہ کے صحافتی تجربات میں سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا واقعہ ایک پانچ سالہ فلسطینی بچی، ہند رجب کی کہانی سے جڑا تھا۔ کرشمہ پٹیل نے انکشاف کیا کہ ان کے ادارے نے پانچ سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کی کوریج سے انکار کر دیا تھا۔ ہند رجب 29 جنوری 2024 کو اس وقت غزہ میں اسرائیل کی گولہ باری کا شکار بنی، جب وہ اپنے قریبی رشتے داروں کی لاشوں کے درمیان ایک کار میں پھنسی ہوئی تھی۔

لیکن بی بی سی نے بدترین بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کہانی کو نشر نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور تب تک اس کا ذکر تک نہیں کیا، جب تک کہ اسرائیلی فوج نے گاڑی پر تین سو گولیاں برسا کر ہند کو قتل نہ کر دیا۔ اور جب اس کی خبر دی گئی، تو بھی سرخی میں اسرائیل کا نام تک نہیں لیا گیا۔

یہاں ایک بنیادی سوال اٹھتا ہے: کیا غیر جانبداری کا مطلب مجرم کا نام چھپانا ہوتا ہے؟

بات جب غزہ کی آتی ہے تو بزعمِ خود مہذب دنیا کے میڈیا کو سچ سامنے لاتے ہوئے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اسی بددیانتی کی پیروی کرتے ہوئے بی بی سی نے غزہ کے بچوں پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم Gaza: How to Survive a Warzone کو ہٹا دیا۔

دی انڈپینڈنٹ میں لکھے گئے کالم میں کرشمہ لکھتی ہیں کہ غزہ: ہاؤ ٹو سروائیو اے وار زون‘ (Gaza: How to Survive a Warzone) نامی دستاویزی فلم بی بی سی نے صرف اس وجہ سے ہٹا دی کیونکہ اس میں ایک 13 سالہ بچہ شامل تھا، جو حماس کے زیرانتظام علاقے کے نائب وزیر زراعت کا رشتہ دار تھا۔

کرشمہ پٹیل کا کہنا ہے کہ بی بی سی دراصل یہ نہیں دکھانا چاہتا تھا کہ اسرائیل فلسطینی بچوں کا قتل عام کر رہا ہے۔

کرشمہ پٹیل اپنے کالم میں لکھتی ہیں، ”اس فیصلے کے خلاف میں اور ایک ہزار سے زائد افراد، جن میں گیری لائنکر اور میریئم مارگولیز بھی شامل ہیں، نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں اس اقدام کی مذمت کی گئی۔“

”گزشتہ روز بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور چیئرمین ڈاکٹر سمیر شاہ نے کلچر، میڈیا اور اسپورٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر بی بی سی کے کام سے متعلق سوالات کے جوابات دیے۔ اس دوران رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر روپا ہُک نے سوال کیا کہ آیا بی بی سی نے یہ فلم ہٹا کر ’بچے کو غسل کے پانی کے ساتھ بہا دیا‘ یعنی ضروری مواد کو غیر ضروری تنازع کی نذر کر دیا۔“

سچائی کی اہمیت اور صحافی کی ذمہ داری

کرشما پٹیل اپنے کالم میں صحافت میں سچائی کے بنیادی اصول پر زور دیتے ہوئے لکھتی ہیں ”سچائی موجود ہے، اور صحافی کا کام ہے کہ وہ اسے ڈھونڈے اور رپورٹ کرے، نہ کہ مباحثے کو غیر ضروری طور پر طول دے۔“

اگر کسی کہانی کے دونوں پہلوؤں کو یکساں حیثیت دی جائے، چاہے ایک جھوٹ ہو اور دوسرا سچ، تو یہ غیر جانبداری نہیں بلکہ سچائی سے انحراف ہے۔

جب اسرائیلی جنگی جرائم کو ”بحث طلب“ بنایا گیا

وہ اپنے کالم میں لکھتی ہیں ”میں ایک جراتمندانہ دعویٰ کرنے والا ہوں: سچائی وجود رکھتی ہے۔

کم از کم ایک صحافی کے لیے، سچائی معقول، شواہد پر مبنی نتائج کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر طرف دعووں کا مقابلہ جاری ہے، ایک صحافی کا کام بے حد مشقت طلب ہے: اسے محض بحث چھیڑنے کے بجائے تحقیق کرنی ہوتی ہے اور نتیجے پر پہنچنا ہوتا ہے—چاہے اس سے کوئی بھی ناراض ہو، اور چاہے اس میں کتنا ہی محنت طلب کام کیوں نہ ہو۔

اگر غیر جانبداری کا مطلب ہر کہانی کے "دونوں پہلوؤں” کو یکساں طور پر سچ سمجھنا ہے، تو پھر یہ ناکام ہو چکی ہے۔ ایک ایسا نیوز ادارہ جو نتیجے پر پہنچنے سے انکار کر دے، وہ معلوماتی جنگ کا ایک آلہ بن جاتا ہے، جہاں بدنیت عناصر سوشل میڈیا پر بے بنیاد دعوے پھیلا کر "بعد از حقیقت” (post-truth) کا ایک دھندلکا پیدا کر دیتے ہیں۔ صرف ٹھوس، شواہد پر مبنی نتائج ہی اس دھند کو چیر سکتے ہیں۔

ہر روز، میرے ایکس (ٹوئٹر) اور انسٹاگرام فیڈ پر وہ بدترین تصاویر اور ویڈیوز آتی تھیں جو میں نے کبھی دیکھی تھیں۔ میں انہیں آہستہ آہستہ دیکھتا، صبح کی میٹنگ میں پیش کرنے کے لیے غزہ کی کہانیوں کی فہرست بناتا۔ یہ مناظر ذہن پر کندہ ہو جاتے، جیسے لوہے کی مہر جلتی ہوئی کھال پر ثبت ہو جاتی ہے۔

پہلی بار جب میں نے ایک شخص کو اسرائیلی بلڈوزر کے نیچے کچلے جانے کا منظر دیکھا، تو تصویر اتنی دھندلی تھی کہ یوں لگا جیسے میں کسی سرخ پھولوں کے گچھے کو دیکھ رہا ہوں۔ جب تصویر واضح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ایک آدمی کا گوشت زمین میں دبا ہوا تھا—نارنجی اور سرخ رنگ کا ایک مسلا ہوا وجود۔ مہینوں تک، میں اس کے بارے میں سوچتا رہا، اور میرا سینہ بھنچنے لگتا۔ لیکن میں نے نظریں نہیں چرائیں۔ ان شواہد کا بوجھ اٹھانا اور ان کی شدت کو سمجھنا میرا کام تھا۔

جب روزانہ اتنے ناقابل تردید شواہد دیکھنے کے بعد میں اسرائیل کے رویے پر 50/50 کی بحثیں سنتا، تو یہی وہ لمحہ تھا جب میرے سچائی کے عزم اور بی بی سی میں میرے صحافتی کردار کے درمیان سب سے بڑا تضاد پیدا ہوا۔ ہم اس مرحلے سے آگے نکل چکے ہیں جہاں اسرائیل کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کو قابل بحث سمجھا جائے۔ زمین پر موجود فلسطینیوں، امدادی تنظیموں اور قانونی اداروں کے فراہم کردہ شواہد اسرائیل کے اقدامات پر نتیجہ خیز اور رپورٹنگ کا رخ متعین کرنے والے نتائج اخذ کرنے کے لیے کافی ہیں۔“

یہ وہ لمحہ تھا جب کرشما پٹیل کے اندر ایک کشمکش پیدا ہوئی: کیا وہ بی بی سی کے اصولوں کے مطابق رپورٹنگ جاری رکھیں یا سچائی کے ساتھ کھڑی ہوں؟ بالآخر، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسے ادارے کا حصہ نہیں بن سکتیں، جو سچائی کو دھندلا رہا ہو۔

ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بی بی سی کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے کرشمہ پٹیل لکھتی ہیں کہ صحافی دانستہ طور پر ثبوتوں کا پیچھا کرنے سے گریز کر رہے تھے—خوف کے مارے۔ میں نے مہینوں تک بی بی سی کو اسی بڑی ادارتی غلطی کو دہراتے دیکھا جو اس نے ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے میں کی تھی: کسی ایسی حقیقت پر غیر ضروری بحث کرنا جس کے بارے میں شواہد پہلے ہی واضح تھے۔ ہمیں ایک ایسا عوامی نشریاتی ادارہ چاہیے جو بغیر خوف و طرفداری کے بروقت ثبوتوں کی پیروی کرے۔ ادارتی جرات سب سے اہم ہے۔

کرشما پٹیل نے بی بی سی کے 2018 کے ماحولیاتی تبدیلی کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ”2018 میں، بی بی سی نے ماحولیاتی تبدیلی پر اپنے عملے کے لیے ایک طویل عرصے سے زیر التوا ادارتی رہنما اصول جاری کیے، جن میں کہا گیا: "ماحولیاتی تبدیلی ہو رہی ہے۔” سائنس دانوں نے سکھ کا سانس لیا، کیونکہ وہ برسوں سے بی بی سی کو خبردار کر رہے تھے کہ اس کی غیر ضروری بحثیں نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد سے، رپورٹنگ اس سائنسی حقیقت پر مبنی ہوئی۔“

کرشمہ لکھتی ہیں کہ اب سوال یہ ہے: بی بی سی کب یہ تسلیم کرے گا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے؟

”ایک صحافی کا کام یہ نہیں کہ وہ رپورٹ کرے کہ بارش ہو سکتی ہے یا نہیں۔ اس کا کام یہ ہے کہ وہ باہر جا کر دیکھے اور عوام کو بتائے کہ بارش ہو رہی ہے یا نہیں۔“

اور کرشما پٹیل کے الفاظ میں: ” میں آپ کو بتا رہی ہوںکہ یہاں طوفان آیا ہوا ہے۔“

یہ مضمون صرف ایک فرد کے استعفے کی کہانی نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ گہری اور وسیع حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ صحافت، سچائی اور طاقت کے درمیان کشمکش کی داستان ہے، جو ہر اس صحافی کے لیے ایک سوال چھوڑتی ہے جو انصاف اور غیر جانبداری کے درمیان صحیح راستے کی تلاش میں ہے۔

فلسطین اور مغربی میڈیا کی منافقت

غزہ کے حوالے سے مغربی میڈیا کے کردار کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں تجزیہ نگار مہک فاطمہ لکھتی ہیں کہ فلسطین کی کوریج پر دوہرے معیار کی داستان میں بی بی سی ہی نہیں بلکے دیگر مغربی میڈیا آؤٹ لیٹس بھی شامل ہیں۔

نیو یارک ٹائمز دنیا کے بڑےاخباروں میں سے ایک ہے۔ اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی غزہ جنگ سے پہلے نیو یارک ٹائمز حماس کے لیے دہشت گرد کی اصطلاح استعمال نہیں کر رہا تھا۔

فلپ کوربیٹ نیویارک ٹائمز کے سٹینڈرز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں، جن کا کام ہی مختلف الفاظ، اصطلاحوں اور صحافتی معیار کو یقینی بنانا ہے۔ جنگ شروع ہونے کے کچھ دن بعد انہیں اپنی ذمہ داریاں چھوڑنا پڑیں کیونکہ وہ حماس کے ساتھ دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرنے کو ادارتی اصولوں کے خلاف سمجھتے تھے اور اس کے بعد سے نیویارک ٹائمز نے اپنی کوریج میں حماس کو دہشت گرد تنظیم کہہ کر ہی پکارا ہے۔

نیویارک ٹائمز ہی کا ایک اور واقعہ جس میں انہوں نے اسرائیلی مظالم کو چھپانے کے علاوہ حماس پر جنسی تشدد کے الزامات کے حوالے سے بھی ایک مضمون شائع کیا۔ اس مضمون کے مواد پر شکوک و شبہات کے بعد نیویارک ٹائمز کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اخبار نے اس مضمون کی رپورٹنگ ٹیم میں اسرائیلی فلم ساز اور فضائیہ کی سابق انٹیلی جنس افسر کو شامل کیا، جس کا رپورٹنگ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

یہ وہی ایجنٹ تھیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر ’غزہ کی پٹی کو مذبح خانے میں تبدیل کرنے‘ کی ضروت ہے، جیسی پوسٹس لائک کی تھیں۔ نیویارک ٹائمز نے یہ تو کہہ دیا کہ وہ اس پوسٹ کے لائک کیے جانے کی تحقیقات کر رہے ہیں مگر آج تک اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیسے ایک سابق انٹیلی جنس افسر کو صحافتی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور نہ ہی مضمون میں بے ضابطگیوں پر کوئی معافی مانگی۔

نیو یارک ٹائمز کے علاوہ اور بھی متعدد مثالیں موجود ہیں۔

چھ ستمبر 2024 کو اسرائیلی فوج نے ترک نژاد امریکی انسانی حقوق کی کارکن عائشے نور کو مغربی کنارے میں سر میں گولی مار کر قتل کر دیا۔ امریکی نیٹ ورک اے بی سی نے اس کی ہیڈلائن دی کہ ’مغربی کنارے میں امریکی کارکن کو سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا: حکام‘

لیکن کس نے مارا؟ صرف سرخی ہی نہیں بلکہ خبر میں بھی اسرائیلی فوج کا ذکر 18ویں سطر میں جا کر کیا گیا۔

جبکہ واشنگٹن پوسٹ کی ہیڈلائن میں بھی اسرائیل کا نام غائب تھا۔

جب اسرائیل نے غزہ میں پانی کی فراہمی بند کر دی تو گارڈین اخبار نے یہ نہیں لکھا کہ اسرائیل عام شہریوں کے خلاف سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہے بلکہ اس کی سرخی تھی کہ ’غزہ میں پانی ختم ہونے سے لوگوں کی اموات کا خدشہ‘

’دی انٹرسیپٹ‘ نے بھی اپنی رپورٹس میں مغربی میڈیا کو بے نقاب کیا کہ کیسے نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلس ٹائمز جیسے ادارے یکطرفہ کہانی بیان کر رہے ہیں۔

سات اکتوبر سے 25 نومبر 2023 کے درمیان جیسے جیسے فلسطینیوں کی اموات میں اضافہ ہوتا گیا، ویسے ویسے اس کی رپورٹنگ کے تناسب میں کمی آتی گئی۔

ایک اور چارٹ کے ذریعے یہ بھی دکھایا گیا کہ ’قتل عام، ہولناک‘ جیسے الفاظ جہاں اسرائیلی اموات کے لیے بے دریغ استعمال کیے گئے، وہیں فلسطینیوں کی اموات پر ان الفاظ کا استعمال نہ ہونے کے برابر تھا۔

دی انٹرسیپٹ کے ذریعے حاصل کردہ نیویارک ٹائمز کے ایک اندرونی میمو کی ایک کاپی کے مطابق نیویارک ٹائمز نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جنگ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو جہاں ’نسل کشی‘ اور ’نسلی صفائی‘ کی اصطلاحات کے استعمال کرنے سے روکا، وہیں لفظ ’فلسطین‘ کا استعمال بھی کم سے کم کرنے کی ہدایات دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close