اسلام آباد پولیس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر بدھ کی شب جاری کیے جانے والے بیان میں کہا ہے کہ ظہیر بلوچ کی رہائی کے بعد بلوچ مظاہرین نے بیان دیا ہے کہ اب صرف چونتیس افراد قید میں ہیں جو کہ اسلام آباد پولیس کے موقف کی تائید ہے، جبکہ بلوچ مظاہرین کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کا اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی اور مطالبات مانے جانے تک اسلام آباد میں دھرنا جاری رہے گا
واضح رہے کہ اسلام آباد میں دھرنا دینے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بدھ کی شب کہا تھا کہ ان کے چونتیس افراد اب بھی اسلام آباد پولیس کی حراست میں ہیں، جن کی رہائی اور دھرنے کے مطالبات پورے نہ ہونے تک وہ یہیں بیٹھیں گے
بلوچستان کے علاقے تربت سے بلوچ نوجوان بالاچ بخش کے مبینہ حراستی قتل کے خلاف شروع کیے جانے والے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے مظاہرین 20 دسمبر کو اسلام آباد پہنچنے کے بعد اس کیمپ میں شامل ہو گئے تھے، جو گذشتہ ایک ماہ قبل بلوچ لاپتہ اور جبری طور پر گمشدہ افراد کی واپسی کے لیے نیشنل پریس کلب کے باہر لگایا گیا تھا
جب یہ مظاہرین اسلام آباد پہنچے تھے تو ان کے خلاف پولیس نے کریک ڈاؤن کرکے کئی افراد کو حراست میں لے لیا تھا، جس کے خلاف مظاہرین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عالیہ نے بدھ کو اس کیس پر سماعت کرتے ہوئے چونتیس بلوچ مظاہرین کی شناخت پریڈ کا حکم دیا تھا
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 25 دسمبر کو ایکس پر اپنے پیغام میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے گرفتار افراد کو رہا کیے جانے سے متعلق دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے سو سے زائد افراد اب بھی گرفتار ہیں۔ بعدازاں 27 دسمبر کو کمیٹی نے اپنے ایک اور پیغام میں بتایا کہ ان کے رہنما ڈاکٹر ظہیر بلوچ کو رہا کردیا گیا ہے اور اب 34 افراد اسلام آباد پولیس کی حراست میں ہیں۔
ایکس پر جاری کی گئی ایک وڈیو میں گذشتہ روز میں رہا کیے گئے ڈاکٹر ظہیر بلوچ کے ہمراہ ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے بیانیہ دیا گیا کہ ظہیر بلوچ ان کی حراست میں نہیں ہیں، لیکن انہیں پانچ دن تک حراست میں رکھا گیا
ان کا کہنا تھا، ”بارہا ہمیں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن ہم مذاکرات کے نام پر کسی دھوکے کے لیے تیار نہیں۔ ہم ریاست کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ تحریک پورے بلوچستان کی تحریک ہے“
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ چونتیس طلبہ ابھی تک قید ہیں اور پولیس حکام نے اس کا اعتراف کیا ہے۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا ”ہم دھرنے کے مطالبات پورے نہ ہونے تک یہیں بیٹھے رہیں گے“
احتجاجی کیمپ یا دھرنے کی ایک منتظم اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد ان کے 283 افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا، جن میں سے اب تک 247 کو رہا کر دیا گیا ہے
سمی دین بلوچ نے بتایا ”ہمارے ساتھیوں کو مختلف جیلوں سے رہا کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک 34 افراد کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔ شاید ان افراد کو آج یا کل رہا کر دیا جائے گا“
حکومت سے مذاکرات یا آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے سمی بلوچ کا کہنا تھا ”تمام ساتھیوں کی رہائی کے بعد ہی حکومت سے بات کی جائے گی اور تب ہی ہم اگلا لائحہ عمل دیں گے“
دوسری جانب نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے گذشتہ روز بتایا کہ اس وقت بلوچستان سے آنے والے بلوچ مظاہرین سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے
انہوں نے کہا ”حکومت بلوچ مظاہرین کے مطالبات کی فہرست، مذاکرات کے وقت اور مقام کا انتظار کر رہی ہے“
مرتضیٰ سولنگی نے رواں ہفتے کے آغاز پر ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ مظاہرین اپنے گھروں کو واپس جائیں اور مزید مذاکرات اسلام آباد میں نہ ہوں۔
ادہر بلوچستان کے نگران وزیراعلیٰ میر مردان ڈومکی نے بدھ کو یقین دلایا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنا دینے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جائز مطالبات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
نگران وزیراعلیٰ بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کوئٹہ میں ایک اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں دھرنے والوں سے بات چیت کے لیے وفاقی حکومت نے کمیٹی قائم کر دی ہے، جبکہ بالاچ بلوچ کے واقعے سے متعلق تحقیقات کے لیے بھی علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں۔
علی مردان ڈومکی کا کہنا تھا کہ ’معاملات کو قوانین کے مطابق افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ بامقصد بات چیت اور مذاکرات کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔‘
بلوچ مظاہرین کی رہائی کے حوالے سے پیر 25 دسمبر 2023 کو وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی کے مذاکرات اور عدالت کے فیصلے کی روشنی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کرنے والے تمام افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پولیس تحویل اور جیل سے مجموعی طور پر 290 مظاہرین کو رہا کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کو بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں اور احتجاج کا حق دینے سے روکنے کے خلاف کیس میں 34 بلوچ مظاہرین کی شناخت پریڈ کا حکم دیا ہے جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ظہیر بلوچ کے حوالے سے عدالت کو بتایا گیا کہ وہ اس وقت اڈیالہ جیل میں موجود ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ بلوچ مظاہرین جب اسلام آباد کی طرف گامزن تھے تو انہیں گرفتار کیا گیا۔
اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد جمیل ظفر سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ نے آرڈر دیا کہ ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے؟ کسی کو آپ گود میں بٹھاتے ہیں، کسی کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں۔ وہ آئے ہیں ان کو بیٹھنے دیں۔‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں تو سیکرٹری داخلہ کو بلا لیتے ہیں، ایس ایس پی نے جواب دیا کہ انہوں نے ریکویسٹ کی تھی شناخت پریڈ جلدی کریں۔
عدالت نے دوبارہ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان سے زیادہ مظاہرین یہاں آتے رہے ہیں آپ ان کو پیمپر کرتے رہے، کیا کیا ہے انہوں نے؟‘
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 34 بلوچ طلبہ کی بدھ ہی کو شناخت پریڈ کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 29 دسمبر تک ملتوی کر دی۔