لوگوں کو زیادہ مہربان بننے سے کیا چیز روکتی ہے؟

کلاوڈیا ہیمونڈ

مہربان ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلے میں ’کائنڈنس ٹیسٹ‘ دنیا کا سب سے بڑا سروے ہے۔ یہ تحقیق ان عوامل پر روشنی ڈالتی ہے جو ہمیں مہربانی کرنے سے روکتے ہیں اور یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمدردی کا جذبہ ہر جگہ موجود ہے

ایک دن میں باہر ورزش کر رہی تھی, جب میں نے سڑک کے آخر میں دیکھا کہ ایک آدمی اور ایک عورت ایک وین سے ڈبل میٹرس (بڑا گدّا) اتارنے کی کوشش کر رہے تھے

وہ میٹرس کے ساتھ زور آزمائی کر رہے تھے۔ میں نے ورزش کے جوتے پہن رکھے تھے۔ میں کچھ اٹھائے ہوئے نہیں تھی۔ مجھے جلدی بھی نہیں تھی۔ میں انھیں مدد کی پیشکش کر سکتی تھی لیکن اگر میں کرتی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عورت سوچے کہ وہ گدا نہیں اٹھا سکتی کیونکہ وہ عورت ہے؟

اس دوران وہ میٹرس کو پچھلے باغیچے میں لے جا چکے تھے اور اب باہر بنی ہوئی سیڑھی پر چڑھا رہے تھے۔ گھر کی چار دیواری اونچی تھی اورمدد کی پیشکش کے لیے مجھے بن بلائے ان کے گارڈن میں جانا پڑتا۔ کیا اس طرح میں ان کی پرائیویسی میں دخل اندازی کرتی؟ شاید وہ اس کا برا مناتے؟

اب تو خاصی دیر ہو چکی تھی اور وہ آدھی سیڑھی چڑھ چکے تھے۔ شاید میں نے حد سے زیادہ ہی ان باتوں کی فکر کی مگر لگتا ہے کہ انجانے لوگوں کو مدد کی پیشکش کرنے سے ہچکچانے والوں میں میں اکیلی نہیں ہوں

اگست 2021 میں ہم نے بی بی سی ریڈیو فور پر کائنڈنس ٹیسٹ (مہربانی کا جذبہ جانچنے) کا آغاز کیا

یہ ایک آن لائن سوالنامہ تھا، جسے یونیورسٹی آف سسکس کے ماہر نفسیات رابن بینرجی کی سرکردگی میں مرتب کیا گیا تھا۔ اس میں ایک سو چوالیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا۔ اس طرح یہ مہربانی کے موضوع پر کی جانے والی سب سے وسیع تحقیق بن گئی

 ’کہیں مہربانی کا غلط مطلب نہ لے لیا جائے‘

لوگوں کی شخصیت، صحت اور جذبۂ ہمدردی کو جانچنے کے ساتھ مہربانی کا اندازہ لگانے کے لیے ان سے پوچھا گیا کہ وہ کس قدر تواتر کے ساتھ دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ لوگوں نے مختلف طرح کے جواب دیے

بعض نے تو بڑی ایمانداری کے ساتھ اعتراف کیا کہ وہ اکثر مہربانی کا مظاہرہ نہیں کرتے جبکہ دوسرے بہت زیادہ مہربان تھے

جب ان سے پوچھا گیا کہ آخری مرتبہ کب کوئی ان سے مہربانی سے پیش آیا تھا تو 16 فیصد نے کہا کہ پچھلے ایک گھنٹے میں اور 43 فیصد نے کہا کہ گزشتہ ایک روز میں

یہ بات تو واضح تھی کہ لوگوں کی جو بھی عمر ہو اور ان کا تعلق جہاں سے بھی ہو، مہربانی عام پائی جاتی ہے مگر پھر بھی ایسی بات ہیں جو ہمیں مزید مہربان ہونے سے روکتی ہیں اور ’کائنڈنس ٹیسٹ‘ میں ہم ان ہی کا پتا لگانا چاہتے تھے

جب ہم نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو انھیں مہربان ہونے سے روکتے ہیں تو ایک مشترکہ وجہ یہ سامنے آئی کہ کہیں ان کے اس فعل کا غلط مطلب نہ لے لیا جائے

اس نے مجھے میری وہ ہچکچاہٹ یاد دلا دی جو میں نے میٹرس اٹھانے میں مدد کی پیشکش کے ارادے کے وقت محسوس کی تھی کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میری پیشکش بری نہ لگ جائے

بعض اوقات نیک نیتی سے کی گئی مہربانی بھی مشکل پیدا کر سکتی ہے، مثلاً بس میں کسی عورت کے لیے اپنی سیٹ چھوڑنا جو حاملہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی اور بعض اوقات ہمیں شرمندگی یا پیشکش کے ٹھکرائے جانے کا ڈر بھی ہوتا ہے

اس سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں نے مہربانی کا جو کام کرنے کا سب سے زیادہ ذکر کیا وہ ہے ’جب ان سے مدد کرنے کو کہا گیا‘

سوال یہ ہے کہ کوئی مہربانی کرنے کو کہے تو کیا وہ مہربانی ہو بھی سکتی ہے؟ شاید ہم مدد کی پیشکش کرنے میں تو تذبذب محسوس کرتے ہیں لیکن اگر کوئی مدد مانگ لے تو بخوشی کر دیتے ہیں کیونکہ پھر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مدد مانگنے والا ہمارے کام کی قدر بھی کرے گا

سب سے زیادہ مہربان لوگ، خوش مزاج اور ملنسار تھے
مہربانی کا تعلق عمر یا آمدن سے نہیں بلکہ شخصیت سے ہوتا ہے۔ ہم نے ایک پیمانہ استعمال کیا جو شخصیت کے پانچ بڑے عوام کی جانچ کرتا ہے۔ اس کے مطابق سب سے زیادہ مہربان وہ لوگ پائے گئے جو خوش مزاج، ملنسار اور کھلے دل کے حامل تھے

میں سوچتی ہوں کہ آیا ایسے لوگ مدد کی پیشکش کرنے کے زیادہ اہل ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مدد کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کی ملنساری اور کشادہ دلی (اور نئے تجربات سے گزرنے کا شوق) انھیں انجام سے بے پروا اور نڈر بنا دیتی ہے

ہم میں سے وہ لوگ، جو دوسروں کی مدد کرنے میں ہچکچاتے ہیں، ان لوگوں کے جواب سے تسکین حاصل کر سکتے ہیں، جن سے جب پوچھا گیا کہ جب ان کی مدد کی گئی تو انہوں نے کیا محسوس کیا تھا

زیادہ تر جواب ان الفاظ پر مشتمل تھے: خوشی، احسان مندی، پیار، اطمینان اور مسرت۔ ایک سے کم فیصد لوگ نے کہا کہ انھیں شرمندگی ہوئی

یورنیورسٹی آف سسکس کی جِلین سینڈسٹورم کا، جو کائنڈنس ٹیسٹ کا تجزیہ کر رہی تھی، مشاہدہ تھا کہ انجانے لوگوں سے بات کرنے کا خوف زیادہ دیر تک نہیں رہتا اور لوگوں کو ایسا کرکے توقع سے زیادہ مزہ آتا ہے

جب دنیا کے مختلف خطوں کا موازنہ کیا گیا تو غلط فہمی کا خوف برطانیہ اور افریقی ممالک کے مقابلے میں امریکہ میں کم پایا گیا

امریکہ میں سوشل میڈیا کے استعمال کو مہربانی کے کاموں میں زیادہ بڑی رکاوٹ کے طور پر پیش کیا گیا

زیادہ مہربان نہ ہونے کی دنیا بھر میں دوسری وجہ، خاص طور سے مغربی اور شمالی یورپ میں، وقت کی کمی بتائی گئی۔ یہ شمالی امریکہ اور جنوبی یورپ میں کم عامل ہے

یہ حقیقت ہے کہ اگر آپ کسی مدد کریں گے تو اس کے لیے وقت تو نکالنا پڑے گا مگر مدد کرنے کے بہت سے ایسے کام ہیں جن کے لیے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ مہربانی کے جس تازہ کام کا سب سے زیادہ ذکر لوگوں نے کیا وہ کسی سے کوئی اچھی بات کہنا تھا جس میں زیادہ وقت نہیں لگا

تقریباً ایک چوتھائی شرکا نے اس خوف کا اظہار کیا کہ کہیں ان کی مہربانی کو ان کی کمزوری نہ سمجھ لیا جائے۔ پھر بھی کائنڈنس ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ کسی کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کے بعد لوگ نہ صرف خود کو زیادہ مربوط اور خوش محسوس کرتے ہیں بلکہ انھوں نے بتایا کہ ایسا کرنے سے انھیں اچھا انسان ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے اور ان کی زندگی کو معنی ملتے ہیں

اور یہ تو وہ لوگ ہیں جو مہربانی سے پیش آتے ہیں۔ جن کے ساتھ مہربانی کی جاتی ہے وہ بھی اچھا محسوس کرتے ہیں

ابھی تو کائنڈنس ٹیسٹ کے تجزیے کا آغاز ہوا اور آئندہ اس کے مزید نتائج سائنسی جریدوں میں شائع کیے جائیں گے مگر ان تمام شواہد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شاید ہمیں مہربانی کو کمزوری کی بجائے ایک طاقت کے طور پر دیکھنا شروع کر دینا چاہیے

اور شاید اگلی بار جب میں میٹرس کے ساتھ زور آزمائی کرتے ہوئے کسی کے پاس سے گزروں گی تو اپنے اندر اتنی ہمت پیدا کرلوں گی کہ انھیں مدد کی پیشکش کر سکوں۔

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close