اس بار عام انتخابات میں بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکیں اور ان کی نشستوں کی تعداد گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں مزید کم ہو گئی ہیں
واضح رہے کہ 2013 میں پانچ بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں کی بلوچستان اسمبلی میں مجموعی طور پر 27 جبکہ 2018 میں چھ قوم پرست جماعتوں کی 18 نشستیں تھیں، تاہم اس بار قوم پرست جماعتوں کی نشستوں کی تعداد صرف 8 رہ گئی ہے۔
قوم پرست جماعتوں نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور نتائج میں رد و بدل کے الزامات لگائے ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دھاندلی کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں کی انتخابات میں شکست کی وجوہات ماضی کی غیرمتاثر کن کارکردگی، مقبولیت میں کمی، اندرونی تقسیم، مصلحت پسندانہ اور پرانی طرز سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کی قوم پرست مخالف پالیسیاں شامل ہیں۔
فروری 2024 کے انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بیشتر الیکٹ ایبلز پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے جس کی وجہ سے مرکزی دھارے کی ان دونوں جماعتوں کی پوزیشن مضبوط ہو گئی۔ ان کے مقابلے میں قوم پرست جماعتوں کو انتخابات میں بڑا دھچکا لگا ہے
آٹھ سے زائد بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا، تاہم اس میں صرف چار جماعتوں کو بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی مل سکی ہے۔ قوم پرستوں میں سب سے زیادہ نیشنل پارٹی تین نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے اور اسے ایک خواتین کی مخصوص نشست ملے گی۔ 2018 میں نیشنل پارٹی بلوچستان اسمبلی سے باہر تھی اور 2013 میں دس نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی جماعت بنی تھی
گزشتہ انتخابات میں دس نشستیں جیتنے والی سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی اس بار صرف ایک نشست تک محدود رہی۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی 2018 کے مقابلے میں نشستیں تین سے کم ہوکر دو، بی این پی (عوامی) کی تین سے کم ہو کر ایک نشست رہ گئی ہے
سب سے زیادہ دھچکا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو لگا ہے، جس کا بلوچستان اسمبلی سے صفایا ہو گیا ہے۔ 1988 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی انتخاب لڑنے کے باوجود بلوچستان اسمبلی کی کسی نشست پر کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
پشتونخوا میپ کو گزشتہ انتخابات میں صرف ایک نشست ملی تھی جبکہ 2013 میں 14 نشستیں حاصل کرکے بلوچستان اسمبلی کی دوسری بڑی جماعت بنی تھی۔
2008 میں زیادہ تر قوم پرست جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ 2013 میں بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں کے پاس 65 رکنی ایوان کی 43 فیصد نشستیں تھیں۔ 2018ء میں 27 فیصد جبکہ فروری 2024 کے انتخابات میں قوم پرستوں کی بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی 9 فیصد تک محدود ہوگئی ہے
قوم پرست جماعتوں نے اپنی شکست کی وجہ دھاندلی کو قرار دیا ہے اور اس کے خلاف چار جماعتی اتحاد بنا کر احتجاجی تحریک بھی شروع کر دی ہے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے الزام لگایا ہے کہ فارم 45 کے مطابق نیشنل پارٹی کو بلوچستان اسمبلی کی 10 نشستوں پر برتری تھی لیکن فارم 47 میں رد و بدل کرکے اسے شکست میں بدلا گیا
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی الزام لگایا ہے کہ قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی چھ نشستوں پر پشتونخوا میپ کی جیت کو شکست میں بدلا گیا ہے
بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے بھی اسی طرز کے الزامات لگائے ہیں۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے چمن کی صوبائی نشست پر اپنی شکست کو دھاندلی اور مبینہ طور پر فارم 47 میں رد و بدل کو قرار دیا ہے
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ ’قوم پرستوں جماعتیں پہلے سے ہی کمزور تھیں تاہم ان کی پوزیشن اتنی بھی کمزور بھی نہیں تھی جتنی انتخابات کے نتائج میں نظر آرہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’نیشنل پارٹی کو مکران اور کچھ دیگر بلوچ علاقوں اسی طرح پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو پشین یا بعض دیگر حلقوں میں برتری حاصل تھی اور عوامی تاثر یہ ہے کہ یہ جماعتیں جیتی تھیں مگر نتائج اس کے برعکس سامنے آئے ہیں۔‘
رفیع اللہ کاکڑ کے مطابق ’1988 سے اب تک ہونے والے کسی بھی انتخابات حتیٰ کہ پرویز مشرف کے دور 2002 میں ہونے والے انتخابات میں بھی دھاندلی کی اتنی شکایات سامنے نہیں آئی تھیں جتنی اب آ رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی جیسی لبرل اور وفاقی جماعت اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ ان کے بقول بعض حلقوں پر جمعیت علماء اسلام خود دھاندلی کے حوالے سے شکایات کر رہی ہیں لیکن بعض حلقوں میں ان کے امیدواروں نے بھی شخصی تعلقات کی بنیاد پر فائدے لیے ہیں۔
کوئٹہ میں ایک مؤقر روزنامے کے مدیر اور چار دہائیوں سے صحافت کرنے والے تجزیہ کار انور ساجدی کہتے ہیں کہ بلوچستان ہمیشہ براہ راست مرکز کے کنٹرول میں رہا ہے، یہاں پر 1970 کے بعد آزادانہ انتخابات نہیں ہوئے اور کسی نہ کسی طریقے سے انتخابات کو مینیج کیا جاتا رہا ہے۔ اب تو یہ کہا جاتا ہے کہ نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں
ان کا کہنا تھا ”دھاندلی اپنی جگہ خود کو قوم پرست کہنے والی جماعتیں بھی گراؤنڈ پر جا کر ورک نہیں کرتیں۔ وہ حقیقی مسائل اور عوام سے لاتعلق بنی ہوئی ہیں۔ عوامی خواہشات اور ان جماعتوں کی پالیسیوں میں مطابقت نہیں ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اسمبلیوں میں جا کر مراعات حاصل کرنا ہے۔ آج قوم پرستوں کی پذیرائی وہ نہیں جو ماہ رنگ جیسی انسانی حقوق کی تحریکوں کی ہے۔“
انور ساجدی کا خیال ہے کہ ’نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کے لوگ حالات اور سیاسی جماعتوں سے مایوس ہو رہے ہیں لیکن انتخابات میں دھاندلی سے غیرحقیقی نمائندوں کے آنے سے لوگوں کا پارلیمانی سیاست پر اعتماد مزید ختم ہو گا۔ اس سے پرامن سیاست کے راستے بند اور لوگ مزاحمتی اور احتجاجی تحریکوں کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔‘
رفیع اللہ کاکڑ بھی سمجھتے ہیں کہ ’بلوچ نوجوان پارلیمانی سیاست سے مایوس اور بدظن ہو رہے ہیں اور پارلیمانی سیاست پر یقین نہ رکھنے والوں کو مقبولیت مل رہی ہے ماہ رنگ بلوچ کی تحریک اس کی بڑی مثال ہے اور اس نے انتخابی ٹرن آؤٹ کو بھی متاثر کیا۔‘
ان کا کہنا ہے ”بلوچ قوم پرستوں کی حمایت میں وقت کے ساتھ کمی ہو رہی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر لاپتہ افراد اور بنیادی انسانی حقوق، معدنیات، ساحل اور دیگر قومی وسائل پر اختیارات کے نعروں پر بار بار پارلیمانی سیاست میں حصہ لیا مگر ان مسائل کو حل نہ کر سکے۔“
رفیع اللہ کاکڑ کا مزید کہنا ہے کہ 2013 میں نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ ایک اچھی قوت کے ساتھ اسمبلیوں کا حصہ بنے بلوچستان میں ان کی ن لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت بنی۔ اس وقت ان کے پاس کارکردگی دکھانے کا وقت تھا تاہم دونوں جماعتیں اس میں زیادہ کامیاب نہیں رہیں۔
اسی طرح 2018 میں بلوچستان نیشنل پارٹی اچھی پوزیشن میں آئی مگر اختر مینگل اور ان کی جماعت کو عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کی حمایت اور اپوزیشن کا صحیح کردار ادا نہ کرنے سے نقصان ہوا اور ان کی مقبولیت میں کمی آئی۔
کسی زمانے میں قوم پرست جماعتیں اپنے واضح اور دو ٹوک موقف کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ اب یہ جماعتیں مصلحت کا شکار نظر آتی ہیں۔ شاید انہیں اس مصلحت پسندی کے بدلے امیدیں دلائی گئی تھیں مگر یہ امیدیں بھی انتخابات میں بر نہیں آئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب انتخابی نتائج کے بعد قوم پرست جماعتیں سخت گیر موقف کے ساتھ میدان میں آتی ہیں تو اس کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پچاس برسوں میں پہلی بار واضح طور پر تقسیم کا شکار ہوئی اور پارٹی کے سابق صوبائی صدر سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ مرحوم کے بیٹے خوشحال کاکڑ کی سربراہی میں سینیئر رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے 2022 میں الگ دھڑا بنا لیا جسے بعد میں پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کا نام دیا گیا۔ خوشحال کاکڑ سمیت پشتونخوا نیشنل پارٹی کے امیدواروں نے کئی حلقوں پر پشتونخوا میپ سے زیادہ ووٹ لیے۔
رفیع اللہ کاکڑ کہتے ہیں کہ پشتون قوم پرست جماعتوں کو اپنی اندرونی تقسیم کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ یہ جماعتیں اب تک پرانی طرز پر سیاست کررہی ہیں ۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور نوجوان اس سے زیادہ اثر لے رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی نے معمولی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنایا تو زیادہ تر پشتون نوجوانوں کو متاثر کر لیا۔
ان کا کہنا ہے کہ پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نوجوان سربراہ خوشحال کاکڑ نئی طرز کی سیاست کررہے ہیں اسی لیے انہیں اچھے ووٹ ملے۔
بلوچستان کے انتخابات کو کور کرنے والے صحافی عاصم احمد خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں کوئٹہ، ہرنائی، زیارت، پشین، موسیٰ خیل سمیت صوبے کے کئی علاقوں میں جہاں پشتونخوا میپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی بنیاد پر ووٹ ملتا تھا وہ اس بار تقسیم ہوا اور اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچا۔
بلوچستان یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے سابق پروفیسر ڈاکٹر عبدالمنان آزاد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پائی جانے والی بے چینی اور سیاسی مسائل کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں بلوچستان کی خصوصی حیثیت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے اور قوم پرستوں کے کردار کو آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا اور اس کے مقابلے میں اپنی پسند کے لوگوں کو آگے لاتی ہے۔
رفیع اللہ کاکڑ بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قوم پرستوں کے مقابلے میں طاقت ور حلقے ایسے لوگوں کو اقتدار میں لانا چاہتی ہیں جو تابعدار ہوں کیونکہ قوم پرست جتنے بھی کمزور ہوجائیں وہ اس طرح کی تابعداری نہیں کر سکتے جس طرح آزاد امیدوار، بلوچستان عوامی پارٹی یا پھر مرکزی دھارے کی جماعتوں میں شامل اثر و رسوخ رکھنے والے کر سکتے ہیں۔
پروفیسر منان آزاد کا کہنا ہے کہ قوم پرستوں کی پرانی طرز کی سیاست کے مقابلے میں عمران خان کی طرز سیاست پورے ملک میں مقبول اور کارآمد ثابت ہوئی ہے اور اس نے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں قوم پرست انتہائی کمزور ہو گئے ہیں۔ بلوچستان میں بھی پشتون علاقوں میں اس کے گہرے اثرات نظر آ رہے ہیں۔
2002 سے اب تک قوم پرستوں کا ووٹ بینک
2002 میں بلوچستان اسمبلی کے لیے ڈالے گئے 11لاکھ 34 ہزار ووٹوں میں سے 17 فیصد ووٹ قوم پرست جماعتوں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی(اس وقت بلوچستان نیشنل موومنٹ)، بلوچستان نیشنل پارٹی نے لیے۔
2008 میں زیادہ تر بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ 2013ء میں قوم پرست جماعتوں کا ووٹ بینک بڑھ کر 28 فیصد تک پہنچا۔ پشتونخوا میپ نے ایک لاکھ 67 ہزار یعنی 12.8 فیصد ووٹ لیے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے 81 ہزار ووٹ یعنی 6.1 فیصد، نیشنل پارٹی نے 76 ہزار ووٹ یعنی 5.7 فیصد، اے این پی نے 31 ہزار ووٹ یعنی 2.3 فیصد جبکہ بی این پی عوامی نے 10ہزار ووٹ یعنی 0.8 فیصد ووٹ لیے۔
2018ء میں 18 لاکھ 17 ہزار ووٹوں میں قوم پرستوں کا حصہ 27 فیصد تک رہا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی قوم پرست جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت بنی اور اس نے سات جنرل نشستیں جیتیں۔ بی این پی نے ایک لاکھ 64 ہزار ووٹ یعنی 8.6 فیصد ووٹ لیے تھے۔ پشتونخوا میپ ایک لاکھ 18 ہزار ووٹ لینے کے باوجود صرف ایک نشست تک محدود رہی۔ نیشنل پارٹی نے مجموعی طور پر 89 ہزار ووٹ لیے مگر اسے بلوچستان اسمبلی کی کوئی نشست بھی نہیں ملی۔
قوم پرستوں کے ووٹ بینک کا جائزہ لیتے ہوئے انور ساجدی نے بتایا کہ ماضی کے اعداد و شمار دیکھیں تو بھی قوم پرست جماعتیں کبھی واضح اکثریت کے ساتھ اسمبلیوں میں نہیں آئیں۔ 1970 میں پہلی بار بلوچستان کی اسمبلی بنی تو کل 20 نشستوں میں نیشنل عوامی پارٹی کو جمعیت علماء اسلام کو ساتھ ملا کر بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی جس پر نواب اکبر بگٹی نے انہیں اپنا ایک رکن دیا اور سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت بنی مگر اسے نو مہینے بعد ہی مرکزی حکومت نے برطرف کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ 1985 کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد 1988 میں انتخابات ہوئے تو بھی قوم پرستوں کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ بلوچ یوتھ نیشنل موومنٹ نے کچھ نشستیں حاصل کی تھیں اس وقت نواب اکبر بگٹی مخلوط حکومت کے سربراہ بنے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح 1993 میں قوم پرستوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ 1997 میں 40 نشستوں میں سے بلوچستان نیشنل پارٹی متحدہ کو آٹھ سے10 نشستیں ملیں اور اسے جے یو آئی اور باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانی پڑی جس کے سربراہ سردار اختر مینگل تھے۔ بعد میں یہ حکومت بھی ٹوٹ گئی
ان کا کہنا تھا کہ 2002 میں مرکزی پارٹیوں مسلم لیگ ق وغیرہ کی حکومت تھی اور قوم پرستوں کی پوزیشن کمزور تھی۔ 2008 میں قوم پرست بائیکاٹ کی وجہ اسمبلیوں سے باہر رہے جبکہ 2013 میں مسلم لیگ ن بڑی جماعت بن کر سامنے آئی لیکن اس نے پشتونخوا میپ کے ساتھ مل کر تیسرے نمبر پر آنے والی قوم پرست جماعت کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو حکومت دی۔
’2018 میں نیشنل پارٹی کا صفایا ہو گیا۔ پشتونخوا میپ کے پاس واحد نشست رہ گئی۔ بی این پی کو 10 نشستیں ملیں مگر وہ اپوزیشن کا حصہ بنی۔ حالیہ انتخابات میں یہ جماعتیں مزید کمزور ہو کر رہ گئی ہیں۔ان سب جماعتوں کو اب اپنی حکمت عملی اور کردار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔‘