عجب انتخابات کے مسترد شدہ ووٹوں کی غضب کہانی

ویب ڈیسک

کسی بھی جمہوری عمل کی سالمیت کا انحصار اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ کاسٹ کیے گئے تمام ووٹوں کو گنتی میں شامل کیا جائے، لیکن اس کے باوجود پاکستان کی انتخابی تاریخ میں اس جمہوری اصول کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ 2024ء کے حالیہ انتخابات میں سامنے آنے والے حقائق تو اس قدر حیران کن ہیں یہ یقین کرنا مشکل ہے۔ حالیہ انتخابات میں صرف قومی اسمبلی کی 264 نشستوں کے لیے ڈالے گئے تقریباً بیس لاکھ ووٹوں کو مسترد کیا گیا!

یہ تعداد تشویش پیدا کرتی ہے، گیلپ پاکستان ڈیٹا اینالٹکس ٹیم نے تصدیق کی ہے کہ ڈالے گئے کُل ووٹوں میں سے مسترد ووٹوں کا تناسب گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ نہ صرف جمہوری نمائندگی کو چیلنج کرتا ہے بلکہ پاکستان کے انتخابی طریقہ کار کی افادیت اور اس کے جمہوری مستقبل کے وسیع تر اثرات کے حوالے سے بھی سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔

کامیاب امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں سے زیادہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد
قومی اسمبلی کے چوبیس حلقوں میں کامیاب امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد مسترد شدہ ووٹوں سے کم رہی۔ ان میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف اضلاع شامل ہیں۔

پنجاب کے حلقہ این اے 59 تلہ گنگ/چکوال میں سب سے زیادہ مسترد ووٹ ریکارڈ کیے گئے۔ اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار غلام عباس ایک لاکھ 41 ہزار 680 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد رومان احمد نے ایک لاکھ 29 ہزار 716 ووٹ حاصل کیے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جیت کا مارجن 11 ہزار 964 رہا جبکہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 24 ہزار 547 رپورٹ کی گئی

اس کے بعد این اے 213 عمرکوٹ ہے، جہاں 17 ہزار 571 ووٹ مسترد ہوئے۔ 137 کے قریب اضلاع میں 5 سے 10 ہزار کے درمیان مسترد ووٹ رپورٹ ہوئے۔ یوں ان مسترد کردہ ووٹوں کے ذریعے بازی پلٹی گئی

اگر فیصد کے لحاظ سے بات کریں تو این اے 255 صحبت پور/جعفر آباد میں 8.1 فیصد کے ساتھ مسترد ووٹوں کا تناسب سب سے زیادہ رہا۔ اسی طرح این اے 196 قمبر-شہدادکوٹ میں 7.1 فیصد ووٹوں کو مسترد قرار دے کر گنتی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔

ماہرین کے مطابق یہ غیرمعمولی تناسب الیکشن انجنیئرنگ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس رائے میں اس لیے بھی وزن ہے کہ اس طرح کی کئی وڈیوز بھی منظر عام پر آئیں، جن میں باقاعدہ ٹھپے لگا کر ووٹوں کو ضایع کرتے ہوئے دکھایا گیا

گراف میں 264 حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کی تقسیم سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر ووٹ 1 سے 4 فیصد کی حد میں آتے ہیں۔

بالخصوص کچھ حلقوں میں یہ 5 سے 9 فیصد کے درمیان بھی رہا۔ یہ تفاوت ان مخصوص اضلاع میں ضائع ہونے والے ووٹوں کی بڑی تعداد میں کن عوامل نے کردار ادا کیا، اس حوالے سے خدشات کو جنم دیتا ہے۔ ان حلقوں میں آخر ہوا کیا؟

بعض حلقے جیسے این اے 255 صحبت پور/جعفر آباد، این اے 196 قمبر-ایس، این اے 191 جیکب آباد کشمور، این اے 59 تلہ گنگ، این اے 151 ملتان-IV، این اے 198 گھوٹکی، این اے 190 جیکب آباد، این اے 213 عمرکوٹ میں واضح طور پر مسترد شدہ ووٹوں کی شرح بلند رہی۔

متعلقہ اعداد و شمار کی روشنی میں، بالخصوص ان 15 حلقوں کے معاملے میں یہ اخلاقی اور جمہوری ضرورت بن جاتی ہے کہ مسترد شدہ ووٹوں کی بڑھتی ہوئی گنتی کے اسباب کو آشکار کیا جائے۔ مسترد شدہ ووٹوں کی حیران کُن تعداد مطالبہ کرتی ہے کہ اس حوالے سے فوری جانچ اور کارروائی کی جائے۔

عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے صحافی اللہ بخش آریسر کق کہنا ہے کہ انہوں نے پریزائیڈنگ افسر سے مسترد شدہ ووٹوں کی بڑی تعداد کی وجوہات دریافت کیں۔

ایک وجہ جو سامنے آئی وہ کمزور نظر والے ووٹرز کو انتخابی نشانات کی شناخت میں پریشانی کا سامنا تھا۔ مثال کے طور پر وہ اکثر سفید مور اور ہرے مور کو پہچاننے میں پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب ایک جیسے نظر آنے والے انتخابی نشانات کو بیلٹ پیپر پر ایک ساتھ چھاپ دیا جاتا ہے تو گمان ہوتا ہے کہ یہ کہیں اس حکمت عملی کے تحت تو نہیں کیا گیا کہ ووٹرز اپنے ترجیحی انتخاب کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہو جائیں اور اس سے مماثل نشان پر مہر لگا دیں، خیر اس حوالے سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے۔

اللہ بخش آریسر نے بتایا ”بااثر وڈیروں نے انتخابی عملے کے ساتھ مل کر دو دو بار مہر لگائی، جس سے مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ انگوٹھے کے نشانات لینے کے عمل کے دوران، اکثر ووٹرز کے انگوٹھوں پر سیاہی رہتی ہے اور اسے مؤثر انداز میں صاف کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا۔ نتیجتاً جب لوگ ووٹنگ بوتھ میں داخل ہوئے تو ان کے انگوٹھوں کی سیاہی نادانستہ طور پر بیلٹ پیپر پر منتقل ہوگئی اور یوں ضائع شدہ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا“

گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے صحافی شمس بھٹو کہتے ہیں ”حلقوں میں حریف، مخالف امیدواروں کی جیت کو شکست میں بدلنے کی کوشش میں دہری ووٹنگ کو یقینی بنانے کے لیے مذموم ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔ علاقوں میں سرداروں اور وڈیروں جیسی طاقتور شخصیات کا اثرورسوخ ووٹ مسترد ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے“

ان تضادات کو دور کرنے میں ناکامی جمہوری عمل کی ساکھ کو خطرے میں ڈالتی ہے، جس کی وجہ سے انتخابی نظام پر عوام کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے جبکہ یہ اعتماد پہلے ہی نازک ڈور سے جڑا ہے۔

یہ حکام کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مکمل چھان بین کریں کہ ہر ووٹ کی گنتی کی جائے اور ووٹر کی رائے سنی جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ اس عزم کے بغیر ہم تقسیم کے نام پر جمہوریت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا خطرہ موہ لیتے ہیں۔

پاکستان کے 12ویں عام انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم رہا جہاں رجسٹرڈ ووٹرز کے محض 47.90 فیصد نے اپنا نمائندہ منتخب کرنے میں حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی عمل میں شہریوں کی شرکت بڑھانے کا چیلنج کتنی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ قوم کی انتخابی سرگرمی کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں زیادہ جامع انتخابی عمل کو فروغ دینے کے لیے ووٹنگ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

ایک طرف تو یہ صورتحال ہے، دوسری جانب الیکشن کے ایک ہفتے بعد پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں صحافیوں نے ایک ایسی پرنٹنگ پریس پر چھاپہ مارا، جہاں نواز شریف کے مانسہرہ والے حلقے کے بیلٹ پیپر پرنٹ کیے جا رہے تھے۔۔ یہ واقعات پاکستان کے انتخابات کو مذاق بنا رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب فارم 45 میں جیتے ہوئے امیدواروں کو فارم 47 میں شکست کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے

مزید مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جس الیکشن کمیشن پر نتائج کے ردو بدل کا الزام ہے، الزامات کی تحقیقات بھی وہی الیکشن کمیشن کر رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close