ملک ریاض نے دباؤ میں نہ آنے کا ٹویٹ کیوں کیا؟ سینئر صحافی عمر چیمہ نے اندر کی خبر بتا دی۔

ویب ڈیسک

بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے ملیر کی زمین غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کے حوالے سے متنازع پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے تازہ بیان نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے، جس میں انہوں نے کسی کے دباؤ میں نہ آنے کا اعلان کیا ہے، تاہم سینئر صحافی عمر چیمہ نے ملک ریاض کی جانب سے ’کسی کے دباؤ میں نہ آنے‘ کے اعلان کی وجہ بتائی ہے

سینئر صحافی عمر چیمہ نے اس حوالے سے ایک وی لاگ میں بتایا ”میں نے ایک شخصیت سے ملک ریاض کے اس ٹویٹ کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ملک ریاض کے خلاف آئندہ آنے والے دنوں میں ایک ریفرنس آنے والا ہے، یہ کراچی میں زمینوں سے متعلق ہے، یہ وہی کیس ہے جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کو 460 ارب روپے جمع کرانے کا حکم دیا گیا، لیکن ان کی جانب سے ادائیگی تاحال نہیں کی گئی“

عمر چیمہ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں یہ موجود تھا کہ اگر ملک ریاض پیسے جمع کرانے میں ناکام ہوتے ہیں تو ان کے خلاف ریفرنس فائل کیا جائے گا۔

عمر چیمہ نے کہا ”مجھے بتایا گیا کہ ملک ریاض صاحب کے ٹویٹ کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے خلاف ریفرنس آ رہا ہے ، اب وہ یہ کہیں گے کہ کیوں کہ میں سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا تھا، اس لیے مجھے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ تاحال ملک ریاض کے خلاف ریفرنس بنانے سے کسی کی جانب سے روکا نہیں گیا۔“

ملک ریاض کے اِس بیان کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گرم ہو گئی ہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف گواہی دینے کے لیے ملک ریاض پر بعض حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے، تاہم سینئر صحافی عمر چیمہ ملک ریاض کی جانب سے جاری اس بیان کی وجہ کے بارے میں ایسا نہیں سمجھتے

ایک وی لاگ میں عمر چیمہ نے کہا کہ میں نے قومی ادارہ احتساب (نیب) کے کچھ لوگوں سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ملک ریاض کے خلاف آئندہ آنے والے دنوں میں ایک ریفرنس آنے والا ہے، یہ کراچی میں زمینوں سےمتعلق ہے، یہ وہی کیس ہے جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے ملک ریاض کو 460 ارب روپے جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا لیکن انہوں نے تاحال ادائیگی نہیں کی۔

عمر چیمہ نے بتایا کہ اس کیس کا 190ملین پاؤنڈ اور عمران خان سے کوئی تعلق نہیں، یہ کیس زمینوں پر مبینہ قبضوں سے متعلق ہے، اسی پر ان کا یہ خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں ممکنہ ریفرنس کی وجہ سے یہ ٹویٹ کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ دو روز قبل ملک ریاض کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک سال سے مجھ پر سمجھوتہ کرنے کے لیے بہت دباؤ ہے، لیکن میں کبھی بھی کسی کو اجازت نہیں دوں گا کہ وہ مجھے سیاسی مقاصد کے لیے پیادہ کے طور پر استعمال کرے۔

لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان پر کس کے لیے اور کون دباؤ ڈال رہا ہے۔

ملک ریاض سیاسی جماعتوں، میڈیا کے ساتھ ساتھ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے روابط کے لیے جانے جاتے ہیں اور م ایسا سمجھا جاتا ہے کہ کوئی ان کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔

انھوں نے لکھا ’’ساری زندگی اللہ نے ہمیشہ مجھے اپنے اصول پر قائم رہنے کی ہمت دی، ملک میں ’اسٹیٹ آف دی آرٹ پروجیکٹس‘ متعارف کرانے پر مجھے، اور میرے کاروبار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، 1996 سے آج تک ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی سزا بھگت رہا ہوں۔‘‘

ملک ریاض نے کہا ’’ماضی میں بھی اس طرح کے دباؤ کا پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ سامنا کیا ہے، آج بھی یہی کہوں گا کہ مجھے استعمال کرنا ہے تو میری لاش کے اوپر سے جانا پڑے گا، بیماری اور پریشانی کے باوجود ثابت قدم ہوں۔‘‘

ان کے بقول، وہ روزانہ مالیاتی اور کاروباری نقصان برداشت کر رہے ہیں، اور یہ کہ انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے لیکن وہ دباؤ کے باوجود ہتھیار نہیں ڈا لیں گے۔

متعدد سیاسی ماہرین اور سیاست دانوں نے ملک ریاض کی جانب سے کی گئی دباؤ کی بات کے بارے میں یہ کہتے ہوئے تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ ملک ریاض نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار کس کو ٹھہراتے ہیں اور ان پر دباؤ ڈالنے کی وجہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ 9 جنوری کو احتساب عدالت نے ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض سمیت القادر ٹرسٹ کیس کے 5 شریک ملزمان کی جائیدادیں منجمد کر دی تھیں، جنہیں تفتیش میں شامل نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔

اس وقت ریئل اسٹیٹ ٹائیکون کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملک سے باہر ہیں۔

پراپرٹی ٹائیکون کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے سابق صدر اور پی ٹی آئی رہنما عارف علوی نے کہا کہ پریشر ککر ایک دن پھٹ جائے گا اور نقصان کس کو پہنچے گا؟ انہیں نہیں جنہوں نے بیرون ممالک فرار ہونے کے راستے یقینی بنائے ہیں بلکہ نقصان ہمارا ہوگا، جو وفادار پاکستانی ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close