جو مارے گئے مگر گِنے نہیں گئے۔۔ پاکستان کے تازہ سیاسی تصادم کے پوشیدہ متاثرین کے بارے میں الجزیرہ کی رپورٹ

ویب ڈیسک

الجزیرہ (انگلش) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، رپورٹ میں پی ٹی آئی کے ان حامیوں کے اہل خانہ سے بات کی گئی ہے، جن کی پچھلے ہفتے ہونے والی اموات کو حکومت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

انہی میں سے ایک انیس شہزاد ہے، جن کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں ان کی موت کی وجہ پیلوک-ان چوٹ اور گولی کا زخم درج ہے۔ وہ 26 نومبر کو دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے ہزاروں حامیوں کے ساتھ مظاہرے کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ’جھڑپوں‘ میں مارے گئے تھے۔ عمران خان کی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، کا اصرار ہے کہ وہ اس دن پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے درجن بھر شہریوں میں شامل تھے۔

تاہم، حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ مظاہرین میں سے کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا، حتیٰ کہ 20 سالہ شہزاد بھی نہیں۔

پی ٹی آئی کے ارکان کے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے اور پھر رات گئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے ذریعے منتشر کیے جانے کے ایک ہفتے بعد، حکومت اور پی ٹی آئی ان جھڑپوں میں ہونے والے جانی نقصان کے متضاد بیانات پر سخت کشیدگی کا شکار ہیں۔

ابتدائی طور پر پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ سیکڑوں حامی ہلاک ہو چکے ہیں، لیکن بعد میں پارٹی چیئرمین گوہر علی خان نے کہا کہ جاں بحق مظاہرین کی تعداد 12 ہے۔ لیکن ان کے اس بیان کو خود پی ٹی آئی کارکن ماننے کو تیار نہیں اور اسے دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں کیونکہ خود عمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ یا تو گوہر علی خان کے پاس معلومات نہیں ہیں یا پھر کوئی اور وجہ ہے کہ انہوں نے مجھ تک صحیح معلومات نہیں پہنچائی

وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے منگل کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پیغام میں اس بات کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا: ”یہ لاشیں صرف ٹک ٹاک، فیس بک اور واٹس ایپ پر ہی ملیں گی۔“ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا ”لاشیں نہ ہوئیں، پودے ہو گئے۔۔“

واضح رہے کہ کئی ہلاک شدہ مظاہرین میں سے کئی کی نمازِ جنازہ ان کے آبائی علاقوں میں ادا کی گئی ہیں۔ لیکن باوجود اس کے حکومت کسی بھی جنازے کے انعقاد کو سرے سے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری جانب ہلاک شدگان کے ورثاء کی جانب سے فاتحہ کے لیے بیٹھنے پر بھی ہراساں کیے جانے کے دعوے سامنے آئے ہیں۔

اس سے پہلے، 28 نومبر کو غیر ملکی میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران، تارڑ نے یہ موقف برقرار رکھا کہ مظاہروں کے دوران کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ انہوں نے اسلام آباد کے دو بڑے سرکاری اسپتالوں — پمز اور پولی کلینک — کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس کوئی لاش نہیں لائی گئی۔ انہوں نے الجزیرہ کے ایک سوال کے جواب میں کہا، ”محکمہ صحت نے اس حوالے سے دو علیحدہ بیانات جاری کیے ہیں۔“

الجزیرہ نے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے چار پی ٹی آئی حامیوں کے خاندانوں سے بات کی، جن میں شہزاد بھی شامل ہیں، اور عطاء تارڑ، وزیر داخلہ محسن نقوی، اور وزیر اعظم شہباز شریف کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ سے بھی دعووں اور جوابی دعووں پر تبصرہ لینے کے لیے رابطہ کیا۔ تاہم، حکام میں سے کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے اب ان 12 حامیوں کے نام جاری کیے ہیں، جنہیں 24 سے 26 نومبر کے دوران ہلاک کیا گیا، جن میں کم از کم 10 افراد گولیوں کے زخموں کا شکار ہوئے۔ ان میں شہزاد بھی شامل تھے، جو پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے کوٹلی ستیاں سے تعلق رکھتے تھے۔

شہزاد کے کزن، نفیس ستی، نے نوجوان کو ایک مخلص پی ٹی آئی حامی قرار دیا جو ریلی میں شامل ہونے پر اصرار کر رہا تھا۔ ستی نے الجزیرہ کو بتایا: ”ہم سب نے اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ بضد تھا کیونکہ عمران خان، اس کا سیاسی آئیڈیل تھا۔“

مظاہرین، جن کی قیادت خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کر رہی تھیں، فروری کے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دینے، سیاسی قیدیوں بشمول خان کی رہائی، اور آئینی ترمیم کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے، جس کے تحت حکومت کو اعلیٰ عدالتی تقرریوں پر نگرانی کا اختیار ملا ہے۔

26 نومبر کی دوپہر کو، سینکڑوں پی ٹی آئی حامی ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، جو اسلام آباد کے سرکاری دفاتر کے قریب احتجاج کا مرکز تھا۔ وہاں انہوں نے پولیس کی چوکیوں کو آگ لگا دی، خان کے حق میں نعرے لگائے، اور پارٹی کے جھنڈے لہرائے۔ شہزاد بھی ان میں شامل تھا۔

جلد ہی مظاہرین کا سامنا نیم فوجی دستوں سے ہوا، جنہوں نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔ مبینہ طور پر مظاہرین پر براہِ راست گولیاں بھی چلائی گئیں، لیکن حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ جبکہ موقع پر موجود غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے گولیاں چلائے جانے کی تصدیق کی گئی ہے ۔

مثال کے طور پر محکمہ اطلاعات کے ایک بیوروکریٹ سلمان راشدی نے سروس سے مستعفی ہوتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ایسے مناظر دیکھے کہ برداشت نہ کر سکا، انہوں نے کہا ”اگر میں اس نظام کو بہتر نہیں کر سکتا تو میرے لیے یہ مناسب تھا کہ میں اس سے علحیدہ ہو جاؤں۔ ریاست کا ملازم آئین اور قانون کا پابند ہوتا ہے اور اگر کوئی حکومت آپ کو ماورائے آئین اور ماورائے قانون حکم دیتی ہے تو یہ آپ کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ آپ اس کام کو کرنے سے انکار کر دیں۔“

شہزاد کے خاندان کو شام 4 بجے کے قریب پولی کلینک سے فون موصول ہوا، جس میں انہیں اطلاع دی گئی کہ وہ شدید زخمی ہو چکا ہے۔ جب تک وہ وہاں پہنچے، انیس زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

ستی نے کہا، ”ایک ہفتہ گزر گیا ہے، لیکن اس کی ماں اور سب سے چھوٹا بھائی ابھی تک صدمے میں ہیں۔ اس کا بھائی بار بار بے ہوش ہو رہا ہے۔ ہمارا پورا خاندان برباد ہو چکا ہے۔“

یہ سانحہ صرف انیس کے خاندان تک محدود نہیں۔ ایک اور پی ٹی آئی حامی، 24 سالہ مبین اورنگزیب، جو ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے تھے، نو افراد کے خاندان کے واحد کفیل تھے اور کئی سالوں سے اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے۔

مبین کے چھوٹے بھائی، اسد، نے بتایا کہ وہ ایک متحرک پی ٹی آئی کارکن تھے اور احتجاج میں شرکت کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن خاندان کو خطرات کی شدت کا اندازہ نہیں تھا۔

اسد نے الجزیرہ کو بتایا: ”وہ میری بہن سے فون پر بات کر رہے تھے کہ اچانک کال منقطع ہوگئی۔ جب میری بہن نے دوبارہ فون کیا تو ایک اجنبی نے جواب دیا اور بتایا کہ مبین کو گولی لگی ہے اور انہیں اسپتال لے جایا جا رہا ہے۔“

اسد اور دیگر اہل خانہ پولی کلینک پہنچنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے، جہاں مبین کو لے جایا گیا تھا۔ راستے بند کر دیے گئے تھے تاکہ مزید مظاہرین اسلام آباد کے مرکز تک نہ پہنچ سکیں، اور اسپتال پہنچنے والے افراد نے بتایا کہ حکام نے کوئی بھی تعاون نہ کرنے کا رویہ اختیار کیا۔

اسد نے کہا، ”اسپتال والوں نے شروع میں لاش دینے سے انکار کر دیا۔ گھنٹوں کی منت سماجت کے بعد، انہوں نے آدھی رات کے قریب لاش حوالے کی۔“

خاندان ابھی تک اپنے نقصان کو قبول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 22 سالہ اسد نے کہا، ”وہ تین بہنوں کے بعد پہلے بیٹے تھے اور ہمارے والدین کے سب سے پیارے۔ آپ ان کی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔“ اس نے مزید کہا کہ اب خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اس پر آ گئی ہے۔

دیگر اہل خانہ نے بھی الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسپتال حکام سے اپنے پیاروں کی لاشیں واپس حاصل کرنا کتنا مشکل تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ حلف نامے پر دستخط کریں، جس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ وہ ایف آئی آر درج نہیں کرائیں گے اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کریں گے۔

مبین کے خاندان کی طرح مردان (خیبر پختونخوا) سے تعلق رکھنے والے عبدالولی بھی اپنے بھائی ملک صدر علی کی لاش حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہے، جو 26 نومبر کی شام کو جاں بحق ہو گئے تھے۔

صدر علی، جو پی ٹی آئی کے سرگرم رکن تھے اور پارٹی کے پروگرامز میں شرکت کے لیے دبئی سے اکثر سفر کرتے تھے، پمز اسپتال کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے مطابق سر پر گولی لگنے کے باعث ہلاک ہوئے۔

ولی نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ ایک بیان پر دستخط کریں، جس میں ان کے بھائی کے قتل پر ایف آئی آر درج نہ کرانے کا وعدہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا، ”وہ مجھ پر دباؤ ڈالتے رہے، لیکن میں کیسے وعدہ کرتا جب میرا بھائی قتل ہوا تھا؟“ مسلسل منت سماجت کے بعد ہی خاندان کو علی کی لاش تدفین کے لیے لے جانے کی اجازت ملی۔ اس وقت تک وہ 12 گھنٹے سے زیادہ انتظار کر چکے تھے۔

پی ٹی آئی کے متاثرین کی فہرست میں محمد الیاس کا نام بھی شامل ہے، جو مبینہ طور پر 25 نومبر کی رات سیکیورٹی فورسز کی ایک ہٹ اینڈ رن حادثے میں جاں بحق ہوئے۔

الیاس کی لاش 26 نومبر کی ابتدائی صبح پمز اسپتال لائی گئی، جیسا کہ اسپتال کے جاری کردہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں درج ہے۔

ان کے بڑے بھائی صفیر علی، جو خود اکتوبر میں پی ٹی آئی کے ایک احتجاج کے بعد تقریباً چار ہفتے جیل میں گزار چکے تھے، نے بتایا کہ وہ اور الیاس 25 نومبر کی رات اسلام آباد کے داخلی مقام پر خیبر پختونخوا سے آنے والے حامیوں کے قافلے کا استقبال کرنے کے لیے دیگر پارٹی کارکنوں کے ساتھ موجود تھے۔

صفیر نے اس رات کے ہنگامے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی کی گاڑیاں مظاہرین کے ہجوم میں تیزی سے داخل ہو رہی تھیں، ”انہوں نے کئی لوگوں کو ٹکر ماری، جن میں میرا بھائی بھی شامل تھا۔“

انہوں نے الزام لگایا کہ اسپتال حکام نے الیاس کی لاش کی حوالگی میں تاخیر کی اور انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بری الذمہ قرار دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ صفیر نے کہا، ”میں نے ایسا بیان دینے سے انکار کر دیا، تو انہوں نے مجھے 12 گھنٹے سے زیادہ انتظار کرایا اور پھر لاش حوالے کی۔“

لیکن انہوں نے کہا کہ اپنے بھائی کو کھونے یا خود جیل میں وقت گزارنے کے باوجود، ان کی پی ٹی آئی اور اس کے رہنما عمران خان کے لیے حمایت کم نہیں ہوئی۔

صفیر نے کہا، ”دیکھیں، میرے والد 1987 میں کراچی میں نسلی تشدد کے دوران مارے گئے تھے۔ اب میرا بھائی قتل ہوا جبکہ اس کی بیوی چھ ماہ کی حاملہ ہے۔ لیکن یہ نقصانات میرے پی ٹی آئی یا خان کے لیے نظریاتی عزم کو نہیں بدل سکتے۔ ہم نظریاتی حامی ہیں، اور ہم خان کے لیے اپنی جان بھی دے سکتے ہیں۔“

ماخذ: الجزیرہ انگریزی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close