ایشین کپ میں متحدہ عرب امارات کے خلاف میچ میں پہلی بار برابر کا مقابلہ کرنے کے بعد ٹورنامنٹ میں فلسطینی فٹ بال ٹیم کے آگے بڑھنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
فلسطینی ٹیم میں ایسے کھلاڑی بھی کھیل رہے ہیں، جو غزہ میں جاری جنگ کے دوران اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ میچوں کے دوران تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطینی ٹیم سے اظہار یکجہتی کے لیے اسٹیڈیم کا رخ کرتی ہے۔
فلسطینی ٹیم کے کوچ میکرم ڈابوب کہتے ہیں ”مجھے یقین ہے کہ ہم نے ایک شاندار میچ کھیلا ہے، ہم جیت کے حقدار ہیں، ہمارے کھلاڑی بہت بہادر ہیں مگر ہم نے بہت سے مواقع ضائع کیے۔“ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’صرف ایک نکتے نے ہماری جیت کے امکانات کو زندہ رکھا۔‘
متحدہ عرب امارات کے کوچ پاؤلو بینٹو نے کھلاڑیوں کی مزاحمت کو سراہتے ہوئے کہا ”میں یہ کہنا چاہتا ہوں ہمارے کھلاڑی آخری دم تک لڑتے رہے، اس میچ سے بھی یہی ظاہر ہے، کھلاڑی دس ہوں یا گیارہ، ٹیم ہمیشہ ایسا ہی جذبہ پیش کرتی ہے۔“
شام کے وقت ہونے والے میچ کے آغاز سے قبل ’آزاد فلسطین‘ کے نعرے بھی گونجتے رہے جبکہ میچ کے دوران بھی ان کو دوہرایا جاتا رہا۔
میچ کے 23ویں منٹ میں یو اے ای اس وقت آگے نکل گیا جب عادل نے علی صالح کے پاس پر گول کیا۔
فلسطینی ٹیم کو اسکور برابر کرنے کا موقع اس وقت ملا، جب خلیفہ الحمادی کی جانب سے عدی دباغ کو گراؤنڈ کے کونے پر گھسیٹا گیا۔
اس کے بعد وڈیو اسسٹنٹ ریفری (وی اے آر) سے جائزہ لینے کا کہا گیا اور جیسے ہی ان کی جانب سے پینلٹی کا اشارہ کیا گیا، اسٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھا۔
اسی وقت الحمادی کو سرخ کارڈ دکھایا گیا، جس سے فلسطین کے حق میں نعرے مزید تیز ہو گئے، تاہم فلسیطین کی جانب سے تیمر صیام کک کے ذریعے گول کرنے میں ناکام رہے۔
بعدازاں ناصر نے پہلے ہاف کے آخر میں گیند کو تقریباً اپنے ہی گول پوسٹ کی طرف موڑ دیا تھا اور اس کو روکنے کی کوشش میں گول لائن کلیئرنس کر لی۔
فلسطین کی مردوں کی قومی فٹ بال ٹیم کے کوچ مکرم دابوب نے اعتراف کیا کہ ایشین کپ میں ابتدائی کھیل کے دوران ان کے لیے اپنے کھلاڑیوں کے جذبات پر قابو پانا مشکل تھا۔ یہ میچ اسرائیلی جارحیت کے ایک سو دن مکمل ہونے کے موقع پر کھیلا گیا تھا۔
دابوب نے بدھ کے روز دوسرے گروپ مرحلے کے کھیل میں متحدہ عرب امارات کا سامنا کرنے سے پہلے کہا تھا، ”پچھلے کھیل میں شروع میں توجہ وہ نہیں تھی، جو ہم چاہتے تھے۔“
”کوئی بھی کوچ وہ صورت حال نہیں چاہتا، جو ہماری ایران کے خلاف کھیلتے وقت تھی لیکن اب متحدہ عرب امارات کے خلاف کھیل مختلف ہے، کیونکہ ہمارے لیے آگے بڑھنے کے ایک جیسے امکانات ہیں اور ہمارے لیے تین پوائنٹس حاصل کرنا اہم ہے۔‘‘
فلسطینی فٹبال ٹیم نے ایشین کپ کا آغاز غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران اپنی ڈومیسٹک لیگ کی معطلی کے ساتھ کیا تھا۔
فلسطینی کپتان مصعب الباطت افتتاحی تقریب کے آغاز اور اختتام پر کھلاڑیوں کے حلف لینے کی تقریب اور فلسطینی موسیقی کے لیے اسٹیج پر پہنچے، جبکہ ان کے ایران کے ساتھ میچ کے دوران ’آزاد فلسطین‘ کے نعرے سنائی دیے۔ اس کے علاوہ قطر میں متعدد قومیتوں کے مداح فلسطین کی قمیضوں میں ملبوس یا فلسطینی پرچم اور وہاں کے روایاتی رومال یا کفایوں میں لپٹے ہوئے نظر آئے۔
فلسطین نے کبھی بھی ایشین کپ کا کوئی میچ نہیں جیتا، لیکن محمد صالح جیسے کھلاڑیوں کے لیے کھیل کے دوران معمول کا فوکس رکھنا ناممکن ہے۔ فلسطینی ٹیم میں دفاعی پوزیشن پر کھیلنے والے اس کھلاڑی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی کئی دنوں سے اپنے گھر والوں سے بات نہیں ہو سکی تھی
صالح نے کہا ”میرے گھر والے، کھلی زمین پر ایک خیمے میں رہ رہے ہیں، خدا ان کی مدد کرے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ شہر میں ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے اور ان کے خاندان کو سو سے زائد دنوں سے جاری لڑائی کے دوران مسلسل نقل مکانی کرنی پڑی۔
ٹورنامنٹ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلےصالح کو بتایا گیا تھا کہ ان کے چچا، خالہ اور ان کے بچے اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں۔ صالح کا کہنا تھا، ”ہم غزہ کے لیے فٹ بال کھیلتے ہیں۔‘‘
صالح نے کہا، ”ٹیم میں ایسے کھلاڑی بھی ہیں، جن کے اہل خانہ کیمپ میں رہتے ہوئے شہید ہوئے لیکن ہم جنگجو ہیں اور یہ جذبہ فلسطینی حب الوطنی سے لبریز ہے۔ یہ ٹیم ہماری قومی شناخت کی عظیم ترین علامت ہے اور یہ ٹیم تمام فلسطینیوں کے لیے ہے۔‘‘
تیسرے نمبر پر آنے والی متعدد ٹیموں کے ناک آؤٹ راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرنے کے ساتھ ہی فلسطین کو اپنے آخری گروپ میچ میں ہانگ کانگ کے خلاف فتح کی امید ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا کھیل بہت سے لوگوں کے لیے محض اپنی توجہ بٹانے کی کوشش ہے لیکن اس سے کھیل کے حقیقی معنی ختم نہیں ہوتے۔