ان دنوں امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ٹی ٹئینٹی کرکٹ ورلڈ کپ جاری ہے۔ اسی سلسلے میں آج ہم کرکٹ کی چند دلچسپ اصطلاحات سے منسوب کہانیوں پر بات کریں گے۔
گوگلی یا گگلی
اگرچہ یہ ایک معروف اصطلاح ہے لیکن کرکٹ سے گہری دلچسپی نہ رکھنے والوں کے لیے اس کو سمجھنا قدرے مشکل ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں واپڈا کے ایک جرنیل چیئرمین غلام صفدر بٹ کرکٹ بورڈ کے بھی سربراہ تھے۔ تب یہ رواج تھا کہ ہر چیئرمین واپڈا کرکٹ بورڈ کا سربراہ ہوتا تھا
عمران خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ غلام صفدر بٹ کو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ گگلی گیند کیا ہوتی ہے؟ ویسے آج کل بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ اس وقت جو صاحب پی سی بی کے چیئرمین لگے ہوئے ہیں، انہیں بھی اس بارے میں شاید ہی معلوم ہو۔۔
ایسا ہی کچھ چند سال پہلے انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) میں بھی ہوا، جب راجھستان رائلز کے مالکان میں سے ایک انڈین اداکارہ شلپا شیٹھی کے بارے میں خبر آئی کہ وہ گراﺅنڈ میں اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے گئیں اور ایک فاسٹ باﺅلر کو تھپکی دے کر کہا کہ ’شاباش اچھی گگلی کرانا۔‘ وہ بے چارہ مسکرا کر چل پڑا۔ بعد میں شلپا شیٹھی کو بتایا گیا کہ گگلی اسپنر کراتے ہیں، فاسٹ بولر نہیں۔
گگلی گیند دراصل رِسٹ اسپنرز یعنی رائیٹ آرم لیگ اسپنرز کی وہ ورائٹی ہے، جس میں وہ لیگ بریک کے انداز میں آف بریک کرا دیتے ہیں، یعنی وہ گیند جو لیگ اسٹمپ پر پڑ کر آف اسٹمپ کی طرف جانے کے بجائے آف اسٹمپ پر پڑ کر اندر لیگ اسٹمپ کی طرف آئے۔
یہ گیند اچھے بھلے بیٹرز کو چکرا دیتی ہے۔ وہ گیند کو لیگ بریک سمجھ کر کھیلنے جاتے ہیں اور گیند انہیں چکمہ دے کر گھوم کر اندر کی طرف آ جاتی ہے۔
گوگلی گیند کا پس منظر بھی خاصہ دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں کہ انگلینڈ کے ایک اسپنر برنارڈ بوسانیٹ نے آج سے کوئی سوا سو سال پہلے ایک انڈور گیم کھیلتے ہوئے یہ گیند ایجاد کی۔ وہ اپنے دوست کے ساتھ کھیل رہے تھے، جس میں طویل میز کی ایک طرف بیٹھ کر دوسری طرف ٹینس بال یوں پھینکنی تھی کہ دوسرا اسے پکڑ نہ سکے۔
برنارڈ نے لیگ بریک کے انداز میں گیندیں پھینکیں اور پھر کلائی کو گھما کر اسی انداز میں آف بریک پھینکی کہ سامنے بیٹھا دوست دھوکا کھا گیا۔ وہ اس ورائٹی میں بعد ازاں مزید بہتری لائے اور آسٹریلیا کے خلاف 1903-4 کی ایشز سیریز جیت لی۔ جب سڈنی ٹیسٹ کی چوتھی اننگ میں انہوں نے اپنی پراسرار گگلی گیند کے سہارے پانچ وکٹیں لیں۔ اگلے سال انہوں نے ایک میچ میں آٹھ وکٹیں بھی لیں۔ بدقسمتی سے وہ چند ایک ٹیسٹ میچ ہی کھیل سکے اور پھر ریٹائر ہو گئے۔
اس گیند کو گوگلی یا گگلی کہنے کی دو وجوہات بتائی جاتی ہیں، ایک تو اس لیے کہ اس گیند سے بیٹرز کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں ہیں۔ دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس زمانے میں گوگلی نام سے بچوں کی ایک کھلونا گیند، جو رگبی گیند سے مشابہہ تھی، مشہور ہوئی۔ وہ گیند کسی بھی زوایے پر لڑھک جاتی تھی۔ اس سے گوگلی یا گگلی گیند مشہور ہوئی۔
گگلی گیند کے حوالے سے آخری دلچسپ بات یہ کہ لیجنڈری آسٹریلوی بلے باز ڈان بریڈ مین اپنی آخری ٹیسٹ اننگز میں صفر پر آﺅٹ ہوئے تھے۔ بریڈمین کی ٹیسٹ ایوریج 99 ہے۔ اگر وہ چند رنز بنا لیتے تو ان کی ٹیسٹ ایوریج سو ہوتی۔ انہیں انگلش اسپنر ایرک ہولیز نے آﺅٹ کیا تھا اور وہ گیند گگلی ہی تھی۔ شہرہ آفاق آسٹریلوی بلے باز اس گیند کو سمجھ نہیں سکا اور بولڈ ہوگیا۔
’چائنا مین‘
یہ بھی ایسی ہی ایک دلچسپ ورائٹی ہے لیکن اس کا تعلق لیفٹ آرم اسپنرز سے ہے۔ گوگلی کی طرح لیفٹ آرم اسپنر اگر گیند کو لیگ بریک کرانے کے بجائے اندر لے آئے یعنی آف بریک کرا دے تو یہ ایک انہونی گیند بن جاتی ہے۔ اس گیند کو ’چائنا مین‘ کہنے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک ویسٹ انڈین اسپنر ’ایلس اچونگ‘ جن کے والد چینی نژاد اور والدہ کیریبین افریقی تھیں، انکوں نے 1933 میں انگلینڈ کے مشہور اولڈ ٹریفورڈ گراﺅنڈ میں بولنگ کے دوران ایک ایسی گیند کرائی، جس پر انگلش بلے باز والٹر رانبز دھوکا کھا کر اسٹمپ آوٹ ہو گئے۔ واپس جاتے ہوئے وہ جھنجھلا کر بڑبڑاتے جا رہے تھے ”اس ’چائنا مین‘ نے مجھے آوٹ کرا دیا۔“ ایک ویسٹ انڈین فیلڈر نے یہ بات سنی تو اونچی آواز میں پکارے، ”تم گیند کو کہہ رہے ہو یا باﺅلر کو؟“ اس نے فوری طور پر گیند کا نام لے دیا اور یوں اس اسپن ورائٹی کا نام چائنامین پڑ گیا۔
بعد میں انگلینڈ کی مشہور کاﺅنٹی یارک شائر کے ایک بولر نے دعویٰ کیا کہ وہ ’چائنا مین‘ کا بانی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں آرتھو ڈاکس (روایتی) لیفٹ آرم اسپنر یعنی انگلیوں سے اسپن کرانے والے بولر اس ورائٹی کو استعمال کرتے تھے جو کہ بڑا مشکل ہنر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شہرہ آفاق ویسٹ انڈین آل راﺅنڈر گیری سوبرز بھی روایتی لیفٹ آرم اسپن باﺅلنگ کے ساتھ چائنا مین بھی کرا لیتے تھے۔ ویسے سوبرز کا عجیب وغریب معاملہ تھا کہ وہ پرانی گیند سے اسپن اور بہت بار نئی گیند سے میڈیم فاسٹ باﺅلنگ بھی کرا لیتے، ان کی کچھ ٹیسٹ وکٹیں بطور فاسٹ بولر ہیں۔
جدید زمانے میں ایک جنوبی افریقی سپنر پال ایڈمز اپنے عجیب وغریب بولنگ ایکشن کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے۔ وہ بھی بڑی عمدہ چائنا مین کرا لیتے تھے مگر شاید اپنے ایکشن کی وجہ سے، جس میں گیند پھینکتے وقت ان کا سر سیدھا نہیں ہوتا تھا، ان کی لینتھ اچھی نہیں رہتی تھی، اسی وجہ سے وہ لمبی کرکٹ نہ کھیل پایا۔
مسٹری اسپنر
مسٹری اسپنر بنیادی طور پر وہ اسپنر ہے، جو اپنی روٹین کے بولنگ ایکشن میں حیران کن طور پر دو مختلف گیندیں کرا دے۔ آج کل کئی ’کھبے رِسٹ اسپنرز‘ مشہور ہو گئے ہیں جو کلائی سے لیگ بریک کرانے کے ساتھ اندر بھی گیند لاتے ہیں۔ انہیں اب مسٹری اسپنر کہا جاتا ہے اور چائنامین ورائٹی کی جگہ اسے ’رانگ آن‘ کہا جاتا ہے۔ چائنامین شاید نسل پرستانہ اصطلاح سمجھ کر رد کر دی گئی۔
’ڈَک‘
کرکٹ میں صفر پر آﺅٹ ہونا ڈَک کہلاتا ہے۔ ڈَک سے مراد دراصل بطخ کا انڈہ ہے، جو زیرو سے مشابہہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرکٹ کی طرح ٹینس میں بھی زیرو یعنی صفر کے لیے ایک عجیب اصطلاح ’لوؤ‘ استعمال کی جاتی ہے۔ اگر کوئی کھلاڑی چھ صفر سے دوسرے کو سیٹ ہرائے تو اسے سکس لوؤ سے جیتنا کہتے ہیں۔ دو صدیوں سے یہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے مگر ٹینس کے ماہرین نہیں جانتے کہ اس کی ابتدا کیسے ہوئی۔ ایک توجیہہ یہ دی جاتی ہے کہ اس سے مراد اس کھلاڑی کی کھیل کے لیے محبت ہے کہ صفر اسکور کے باوجود وہ کھیل رہا ہے۔
خیر کرکٹ میں ڈَک سے مراد انڈہ ہے۔ ایک زمانے میں آسٹریلیا کے چینل نائن پر جیسے ہی کوئی کھلاڑی صفر پر آﺅٹ ہوتا تو بطخ کی شکل کا کارٹون آنسو بہاتا پویلین کی طرف چل پڑتا اور جانے سے پہلے ایک انڈا دے جاتا۔ 92 کے ورلڈ کپ میچز دیکھنے والوں نے یہ نظارہ بہت بار دیکھا ہوگا۔
اگر کوئی بلے باز اپنی پہلی گیند پر آﺅٹ ہوجائے تو اسے گولڈن ڈک کہتے ہیں۔ اگر کوئی کھلاڑی دونوں اننگز میں پہلی گیند پر ہی آوٹ ہوا ہو جائے تو یہ ’کنگ پئیر‘ کہلائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر میچ کی پہلی گیند پر کوئی بلے باز آﺅٹ ہوجائے تو وہ ڈک ’ڈائمنڈ ڈک‘ کہلائے گی۔
ڈک کے حوالے سے بعض اتفاقات دلچسپ ہیں۔ انڈین کھلاڑی اجیت اگرکر دورۂ آسٹریلیا میں پانچ مسلسل اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوا۔ اسے پریس نے اس کے شہر کی مناسبت سے ’بمبئی ڈک‘ کا نام دیا۔ سابق آسٹریلوی کپتان کم ہیوز نے باغی آسٹریلوی ٹیم کے ساتھ جب جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تو تیسرے ان آفیشل ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں وہ پہلی گیند پر آﺅٹ ہوا، مگر دلچسپ اتفاق یہ ہوا کہ وہ زخمی روڈنی ہاگ کے رنر کی حیثیت میں ایک بار پھر میدان میں آیا اور آتے ہی پہلی گیند پر اپنے کھلاڑی کو صفر پر رن آوٹ کرا دیا، یعنی تکنیکی طور پر ایک میچ میں تین صفر۔
1946 میں انڈیا کی ٹیم نے گلیمورگن کا دورہ کیا، ایک میچ میں کاﺅنٹی کا کھلاڑی پیٹر جج اپنی پہلی گیند پر انڈین لیگ سپنر چندراسروتی کے ہاتھوں آﺅٹ ہو گیا۔ یہ آخری کھلاڑی تھا۔ انڈیا نے گلیمورگن کو فالو آن کرایا۔ انہوں نے وکٹ بچانے کے لیے پیٹر جج ہی کو بطور اوپنر بھیج دیا۔ ادھر سے چندرا سروتی ہی نے نئی گیند سے بولنگ شروع کی۔ پیٹر جج اپنی پہلی گیند پر آوٹ ہوگیا۔ ماہرین کے مطابق تکنیکی طور پر اس سے تیز رفتار پیئر حاصل کرنا کرکٹ میں ممکن ہی نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا جو بھی کھلاڑی کسی بھی قسم کی کرکٹ میں ڈک حاصل کرتا ہے، وہ ایسسکس انگلینڈ کے ایک پرائمری کلب کی رکنیت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ یہ کلب بینائی سے معذور لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے عطیات جمع کرتا ہے۔ اس کلب کا سربراہ انگلش اسپنر ڈیرک انڈروڈ تھا، جو ابھی چند ہفتے قبل دنیا سے رخصت ہوا۔ انڈروڈ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ کینٹ کاﺅنٹی کی جانب سے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں ایک دن میں دو بار ڈک یعنی صفر پر آﺅٹ ہوا تھا۔ اس لیے اسے کلب کی قیادت کا حقدار سمجھا گیا تھا۔
’ڈراپ اِن پچ‘
امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں آئی سی سی انٹرنیشنل ٹی20 کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پیر کو امریکی شہر نیویارک کے ناساؤ کرکٹ اسٹیڈیم میں لو سکورنگ کے باعث سری لنکا کی جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد ’ڈراپ اِن پچز‘ کے بارے میں بہت بات کی گئی
واضح رہے کہ ناساؤ کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں سری لنکا کی پوری ٹیم صرف 77 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی تھی جبکہ 78 رنز کا ہدف جنوبی افریقہ نے 17ویں اوور میں چار وکٹوں کے نقصان پر حاصل کیا تھا۔
اس کے بعد سری لنکا کے کپتان وینندو ہاسارنگا اور جنوبی افریقہ کے کپتان ایڈن مرکرم، کرکٹ ایکسپرٹس اور شائقین کی جانب سے بھی ڈراپ اِن پچ پر تنقید کی گئی
واضح رہے کہ روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کا جوڑ بھی 9 جون کو اسی سٹیڈیم میں پڑنا ہے۔
تو آخر ’ڈراپ ان پیچ‘ کیا ہے؟ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ دکھنے میں ’ڈراپ اِن پچ‘ معمول میں استعمال ہونے والی پچ سے کوئی خاص مختلف نہیں ہوتی لیکن اسے کرکٹ کے میدان سے باہر کسی فیکٹری یا مخصوص ماحول والی جگہ پر مصنوعی طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔
بوقتِ ضرورت اس ڈراپ ان پچ کو گراؤنڈ میں پہنچا کر کرین کی مدد سے نصب کر دیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد یہ دوبارہ اُکھاڑ دی جاتی ہے۔
ڈراپ اِن پچ کا استعمال زیادہ تر ان میدانوں میں کیا جاتا ہے، جن پر کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیل بھی کھیلے جاتے ہوں۔
ابتدائی طور پر سال 1977 میں کیری پیکر کی جانب سے شروع ہونے والی کیری پیکر سیریز کے دوران ’ڈراپ اِن پچز‘ کو متعارف کروایا گیا تھا۔
آسٹریلیا میں کھیلی جانے والی اس سیریز کے انعقاد کے لیے جب آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے اپنے ٹیسٹ وینیوز دینے سے انکار کر دیا تو کیری پیکر ورلڈ سیریز کا انعقاد ان میدانوں پر کیا گیا جو کہ بنیادی طور پر فٹبال یا دوسرے کھیلوں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
ایسے میں اس ورلڈ سیریز کے لیے گراؤنڈ سے باہر پچز تیار کروا کر ان میدانوں میں نصب کی گئیں۔
عام طور پرآسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں موسم گرما کے دوران کرکٹ کھیلی جاتی ہے جبکہ موسم سرما میں یہ میدان فٹبال کے لیے استعمال ہوتے ہیں اسی وجہ سے آسٹریلیا کے ملبورن کرکٹ گراؤنڈ اور نیوزی لینڈ میں ڈراپ اِن پچز کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ٹی20 ورلڈ کپ کے رواں سیزن کے موقع پر امریکہ کے مختلف اسٹیڈیم انہی پیچز کی مدد سے تیار کیے گئے ہیں۔