دنیا کو لفظوں سے ویڈیو پر منتقل کیا جا رہا ہے

حسنین جمال

دنیا کو لکھے ہوئے لفظ سے ویڈیو پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

آپ خود بتائیں، آپ کے لیے کیا دیکھنا آسان ہے؟ ویڈیو یا ایک ہزار لفظ لمبی تحریر؟

ہمارے یہاں اردو والوں میں پٹ سیاپا پڑا ہوا ہے کہ بچے اب کتاب نہیں پڑھتے، ہم نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا کہ ہم میں سے جو کتاب لکھنے والے ہیں، وہ اپنے خیالات کو ایک ویڈیو کی شکل میں ڈھال دیں؟

ویڈیو ایک مشکل طریقہ ہے اپنی بات پہنچانے کا، لکھنے والوں کے لیے۔

آپ میں سے کتنے ہیں، جنہوں نے کبھی لکھا ہوا ڈرامہ پڑھا ہو؟ دنیا کا سب سے بورنگ ترین کام ہے۔۔ لیکن جب وہی ڈرامہ آپ موبائل پر دیکھتے ہیں تو چلتی ویڈیو روک کر اس کے ڈائیلاگ بھی بعض اوقات الگ سے جا کے نوٹ کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

سیدھی سی بات ہے، ویڈیو آپ کی آنکھوں اور کانوں کو مستقل مصروف رکھتی ہے، دماغ میں بھی کوئی خیال نہیں آنے دیتی، جب کہ صرف لکھا ہوا ٹیکسٹ پڑھنے کے لیے عام آدمی کو باقاعدہ ایک عادت بنانا پڑتی ہے۔

تو وہ ڈرامہ چل رہا ہوتا ہے، منظر پہ منظر بدل رہے ہوتے ہیں، فقرے پہ فقرہ آ رہا ہوتا ہے اور اس پورے ماحول کا ایک حصہ بنے ہوئے آپ کو، اچانک ایک لائن پسند آ جاتی ہے۔ وہی لائن اگر لکھے ہوئے ڈرامے کی شکل میں دی جاتی تو کبھی آپ کے فرشتے بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔

کوئی تین سال پرانی بات ہے، میرے باس نے مجھے کہا تھا کہ ویڈیو اب مستقبل ہے۔

اُس وقت میں ایک ہارڈ کور لکھنے والا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ لفظوں کی حکمرانی صدیوں سے چلی آ رہی ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگی، لیکن پچھلے تین برس میں، خود میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے بادشاہ لکھنے والے اپنی ویڈیو بنانے پر نہ صرف متوجہ ہوئے بلکہ انہوں نے اس مقصد کے لیے پروفیشنل لوگوں کی خدمات لیں۔

پہلی سطر تھی کہ ’دنیا کو لکھے ہوئے لفظ سے ویڈیو پر منتقل کیا جا رہا ہے۔‘ یہ کیوں لکھا میں نے؟

ویڈیو تو پچھلے سو برس سے موجود ہے، سنیما ہے، ٹی وی ہے، کروڑوں روپے لگا کے بنائے گئے چینل ہیں، تو وہ کیوں نہیں منتقل کر سکے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل پہ اگر آپ کوئی بھی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو آپ غور کریں کہ انہیں آپ کا زیادہ سے زیادہ وقت چاہیے ہوتا ہے۔

تصویر یا ٹیکسٹ۔۔۔ یہ دونوں فارمیٹ آپ کو اس ایپلیکیشن سے اتنی دیر تک نہیں جوڑتے، جتنے وقت کے لیے ایک دلچسپ ویڈیو باندھ کے رکھتی ہے۔ اب اسی ٹائم میں وہ ایپ آپ کو اشتہار بھی دکھاتی ہے، آپ کی پسند ناپسند کا جائزہ بھی لیتی ہے اور آپ کے سامنے اُس ویڈیو کے بعد کیا پیش کرنا ہے، یہ سارا حساب کتاب بھی لگاتی ہے۔

بڑے دماغ تاریخی طور پر ویڈیو کے نزدیک اس لیے نہیں آئے کہ ایک کامیاب ڈرامے یا فلم میں ان کا نام دوسروں کے ساتھ مکس ہو جانا تھا۔

میں ایک ڈرامہ لکھوں یا فلم کے لیے کہانی لکھوں تو کیا ہوگا؟ مجھے خوف ہوگا کہ سارا کریڈٹ ہیرو ہیروئین لے جائیں گے، پروڈیوسر ہے، ڈائریکٹر ہے، گانے والے ہیں، شاعری ہے۔۔۔ میں تو محض ایک کہانی کار بن کے رہ جاؤں گا۔ تب، پھر میں ایک کتاب لکھتا ہوں، جس پہ صرف میرا نام ہوتا ہے لیکن اسے کوئی نہیں پڑھتا، یا ہزار دو ہزار لوگ پڑھ لیتے ہیں۔

یہ تاریخی چیزوں کا حساب تھا۔ آج کل ویڈیو کی شکل میں اپنی بات کہنا ایک لکھنے والے کو اس لیے مشکل لگتا ہے کہ تحریر ون ڈائمنشنل چیز ہے۔

آپ لکھتے جاتے ہیں، لکھتے جاتے ہیں لیکن کبھی آپ نے سوچا کہ اس چیز کو ویڈیو کی شکل میں پیش کرنا ہو تو آپ کیا کریں گے؟

آج کی دنیا میں، جو لوگ نیٹ فلکس سیریز بنا رہے ہیں، کوالٹی کی فلمیں اور ڈرامے بنا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر اپنے پورے پورے چینل چلا رہے ہیں اور ان سے کما رہے ہیں، وہ عام لکھنے والوں سے بہت اوپر کی چیز ہیں۔

آپ سوچیں کہ ایک بندہ ہے، جس نے اپنی بات صرف لکھ کر پہنچانی ہے، جب کہ دوسری طرف ایک شخص ہے، جس نے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا ہے کہ میرا لکھا ہوا ویڈیو کی شکل میں دنیا تک کیسے پہنچاتا جا سکتا ہے؟ یہ شدید ٹیڑھا کام ہے۔

بے شمار لوگوں نے تحقیق کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ صرف تحریر کی جگہ عام آدمی ویڈیو، حرکت کرتی تصویروں اور متحرک الفاظ پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اسی وجہ سے آپ کی میٹنگ بھی اب پاور پوائنٹ پہ ہوتی ہے اور اعدادوشمار کی جگہ گراف بنتے ہیں، کیونکہ ان سے آپ کی بات زیادہ واضح ہو کر سمجھ میں آتی ہے۔

ہر کامیاب ویڈیو کی پیدائش بلاشبہ لفظوں سے، ایک کانسیپٹ سے ہوتی ہے، لیکن صرف وہی لفظ لکھ کے اگر دنیا کے سامنے رکھ دیے جائیں تو شاید دس لوگ پڑھیں اور ان میں دلچسپی لیں۔ وہی کانسیپٹ اگر اپنی شکل مکمل کر لے گا تو اس بات کو سننے والے لوگ لاکھوں میں ہو سکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔

کتاب یا تحریر کی خدانخواستہ موت واقع نہیں ہو رہی، لیکن انہیں پڑھوانے کے لیے بھی اب آپ کو ویڈیو اور تصویروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ ساری سائنس ہے۔ دِکھے گا تو بِکے گا ورنہ کہیں دب کے دفن ہو جائے گا۔

اس وقت میں پوری ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ ویڈیو مستقبل ہے۔

اگر آپ ایک لکھنے والے دماغ ہیں تو آپ کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ اپنا لکھا ہوا سب کچھ، یا تھوڑا بہت بھی، ایسی ویڈیوز کی شکل میں پیش کرنے کی اہلیت پیدا کریں، جنہیں عام آدمی دیکھنا چاہے۔

آپ میں سے بہت دوست میری اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے۔ سوشل میڈیا پہ جائیں اور اپنے پچھلے دس پندرہ اسٹیٹس دیکھیں، جو آپ نے لکھے تھے، سوچیں کہ اگر انہیں ویڈیو کی شکل میں پیش کرنا ہوتا تو آپ کیا کرتے؟ اگر کوئی آئیڈیا دماغ میں آتا ہے تو زیادہ نہیں، صرف ایک منٹ کی ویڈیو بنائیں اور اسے اپنے اکاؤنٹ پہ شیئر کر دیں۔

عرق بہے گا اور نتیجہ دیکھیں گے، تب پوری بات سمجھ میں آ جائے گی۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close