سرینا اور وینس ولیمز کے والد کی جدوجہد کی کہانی، جس نے دونوں کو ٹینس اسٹار بنایا

ویب ڈیسک

اُس وقت وینس ولیمز کی عمر صرف سترہ سال تھی، جب اس نے اس خاتون کے خلاف پہلا ٹینس میچ کھیلا، جو جلد ہی اس کی سب سے بڑی آن دی کورٹ حریف بننے والی تھی۔۔ اور وہ کوئی اور نہیں، بلکہ اس کی بہن سرینا ولیمز تھی، جو صرف سولہ سال کی تھی، جب 1998 کے آسٹریلین اوپن میں دونوں آمنے سامنے آئیں

وینس نے وہ میچ سیدھے سیٹوں میں جیتا، پھر اٹالین اوپن میں اس سال کے بعد ہونے والا میچ بھی جیت لیا۔ اس وقت سے، دونوں بہنوں نے ٹینس کی دنیا میں ایک طوفان اور انقلاب برپا کر دیا اور بے مثال چیمپئن شپ اور لاتعداد ٹرافیاں گھر لے گئیں۔

ولیمز بہنیں کئی دہائیوں سے ٹینس کی دنیا پر حاوی رہیں۔ آپ ان کی صلاحیت کو فطری قرار دے سکتے ہیں، لیکن اگر اس صلاحیت کے پیچھے ان کے والد، رچرڈ ولیمز کی محنت اور لگن نہ ہوتی، تو اسٹار بننا تو درکنار، وہ شاید کبھی ٹینس ہی نہ کھیلتیں۔

رچرڈ ولیمز کی کہانی اس کی بیٹیوں، وینس اور سرینا ولیمز، کو عالمی سطح کی ٹینس کھلاڑی بنانے کی محنت اور عزم کی داستان ہے۔ یہ داستان نہ صرف کھیل کے میدان میں کامیابی کی داستان ہے، بلکہ یہ قربانی، محنت اور اپنے بچوں کے لیے والدین کی بے پناہ محبت کی بھی عکاسی کرتی ہے۔

رچرڈ ولیمز کا تعلق ایک عام خاندان سے تھا۔ اس کی پرورش لاس اینجلس، کیلیفورنیا میں ہوئی۔ رچرڈ کا خود ٹینس کے کھیل سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اسے اس کھیل کا کوئی خاص تجربہ تھا، لیکن اس کے دل میں ایک عزم تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ایک بہترین مستقبل بنائے گا۔

رچرڈ نے اپنی بیٹیوں کو ٹینس کھلاڑی کیوں بنایا، اس کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔۔

رچرڈ ولیمز کی کہانی کا آغاز اس وقت ہوا، جب 1978 کے ایک دن لانگ بیچ، کیلیفورنیا میں گھر بیٹھے رچرڈ نے اپنا ٹیلی ویژن آن کیا، جس پر معروف فرنچ اوپن کا میچ دکھایا جا رہا تھا۔ میچ کے بعد رچرڈ نے دیکھا کہ رومانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کھلاڑی ٹینس ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد چالیس ہزار ڈالر کا چیک وصول کر رہی ہے۔ یہ سارا منظر رچرڈ کو حیران و پریشان کرنے کے لیے کافی تھا، کیونکہ یہ رقم اس کی سالانہ تنخواہ سے بھی زیادہ تھی

اس نے دیکھا کہ ٹینس کھلاڑیوں کو نہ صرف شہرت بلکہ مالی استحکام بھی ملتا ہے۔ اس بات نے رچرڈ کے دل میں ایک خواب بیدار کیا۔ اس لمحے نے اسے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو ٹینس کی دنیا میں کامیاب کھلاڑی بنائے گا

اور شاید آپ کے لیے یہ بات ناقابلِ یقین ہو کہ جس وقت وہ یہ سارا منصوبہ بنا رہا تھا، اس وقت ابھی اس کی بیٹیاں پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں!

اس کی بیوی اوراسین کی پچھلی شادی سے اس کے سوتیلے بچے تھے اور اس نے انہیں کھیل سکھایا تھا، لیکن جب اسے اوراسین سے وینس اور سرینا پیدا ہوئیں تو اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ انہیں عالمی سطح کی ایتھلیٹس میں ڈھالے گا

بہرحال اس کے بعد اس نے باقاعدہ اس کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔۔ اس نے 78 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز لکھی، جس میں اس کی دو جوان بیٹیوں کے اپنے آبائی شہر کمپٹن، کیلیفورنیا سے نکلنے کے منصوبے کا خاکہ پیش کیا گیا تھا، اس کا رہائشی علاقہ بدنامِ زمانہ سیاہ فام گینگسٹر کے تشدد کے لیے بدنام تھا، اور اس علاقے سے کسی خاندان کا نکلنا انتہائی دشوار ترین کام تھا۔

ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ رچرڈ ٹینس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، اس کے پاس اپنی بیٹیوں کو اس مہنگے کھیل کی ٹریننگ کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں تھے۔۔

مقامی لوگ یاد کرتے ہیں کہ وینس اور سرینا نے اپنے سٹرولرز میں ٹینس کے ریکیٹ رکھے ہوئے تھے، جب ان کے والدین 1980 کی دہائی کے اوائل میں اس کھیل کو سیکھ رہے تھے تاکہ وہ اسے اپنی بیٹیوں کو منتقل کر سکیں۔ رچرڈ ولیمز شریوپورٹ میں فٹبال کا کھلاڑی تھا، اس لیے اس کے پاس ایتھلیٹزم اور نظم و ضبط تھا، جس نے اس کی مدد کی

اگلے پانچ سالوں میں وہ ٹینس کے متعلق میگزین اور وڈیو کیسٹ وغیرہ جمع کرتا رہا تھا، اسی سے اس نے خود بھی گزارے لائق ٹینس سیکھ لی تھی. پانچ سال کے بعد، اس کے پلان کے مطابق، رچرڈ نے اپنی دو بیٹیوں کے ہاتھ میں ٹینس کا ریکٹ، وہی رسائل اور وڈیوز اور ان سے جو کچھ سیکھا تھا، سب تھما دیا۔۔ اب وہ ان کم سن بچیوں کا باپ بھی تھا اور کوچ بھی، اس نے انہیں ٹینس کا کھیل سکھانا شروع کیا۔

کھیل کھیلنے کی بنیادی اشیا کو خریدنے سے قاصر، رچرڈ مقامی کنٹری کلبوں میں جا کر استعمال شدہ ٹینس گیندوں کو ڈبوں سے اکٹھا کر کے انہیں ایک شاپنگ کارٹ میں لادتا، تاکہ اس کی بیٹیاں پبلک ٹینس کورٹس میں ان استعمال شدہ گیندوں کے ساتھ پریکٹس کر سکیں۔

رچرڈ کو اس راستے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور اکثر لوگ اس کے خواب کو ناپختہ سمجھتے تھے۔ انہیں معاشرتی اور نسلی تعصبات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن رچرڈ نے ہار نہیں مانی اور اپنی بیٹیوں کی تربیت جاری رکھی۔

وینس نے اپنا پہلا حقیقی سبق اس وقت حاصل کیا، جب وہ صرف چار سال کی تھی۔ سرینا بھی دیکھا دیکھی جلد ہی کھیلنے کی ضد کرنے لگی۔ دونوں بہنیں شاید ہی کبھی ٹینس کورٹ سے باہر نکلیں، پریکٹس سیشنز میں پستے ہوئے جو صبح 6 بجے شروع ہوتے تھے اور اسکول سے باہر ہونے کے بعد رات کے اندھیرے تک پھیل جاتے تھے، انہیں شاذ ہی کبھی شام کو آرام کرنے کا موقع ملتا تھا۔

رچرڈ اور اس کی اہلیہ اوراسین نے اپنی بیٹیوں کو کم عمری سے ہی ٹینس سکھانا شروع کیا۔ وہ ہر روز انہیں عوامی ٹینس کورٹس پر لے جاتے تھے، جہاں وہ خود انہیں تربیت دیتے تھے۔ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ گھنٹوں مشق کرتے تھے، ان کی تکنیک، فٹنس اور ذہنی مضبوطی پر توجہ دیتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ صرف جسمانی تربیت کافی نہیں ہے، بلکہ ذہنی طور پر بھی مضبوط ہونا ضروری ہے۔

وینس کی پیدائش کے فوراً بعد، ولیمز کا خاندان اوراسین کے آبائی شہر ساگیناو، مشی گن چلا گیا، جہاں 1981 میں سرینا کی پیدائش ہوئی تھی۔ وہ کچھ سال بعد کیلیفورنیا کامپٹن واپس آئے، جو ایک محنت کش طبقے کے پڑوس میں 1980 کی دہائی میں منشیات اور تشدد کا گڑھ تھا۔

گینگ مقامی پارکوں اور ٹینس کورٹس کو کنٹرول کرتے تھے ، جو عام طور پر خستہ حال تھے۔ رچرڈ کو کورٹ کا وقت حاصل کرنے کے لیے اکثر گینگ کے ارکان سے جھگڑنا پڑتا تھا اور بات اکثر ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی۔ رچرڈ بطورِ باپ بہت زیادہ حفاظت کرنے والا اور جسمانی لحاظ سے مضبوط شخص تھا، ٹینس کی تربیت کے دوران اپنی بیٹیوں کو ہراساں کیے جانے سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے بارہا مقامی گینگ کے غنڈوں کی شدید مار پیٹ بھی سہنی پڑی۔ ایک موقع پر جب اس نے بیٹیوں سمیت پریکٹس کورٹ چھوڑنے سے انکار کر دیا تو غنڈوں نے اس کی ناک، جبڑے اور انگلیاں توڑ دیں اور اس کے کئی دانت توڑ کر نکال دیئے۔ رچرڈ نے اپنی ڈائری میں لکھا، ”آج کے بعد، تاریخ ’دانتوں کے بغیر‘ شخص کو ہمت کی یادگار کے طور پر یاد رکھے گی۔“

رچرڈ نے اپنی 2014 کی یادداشت میں لکھا، ”اس میں دو سال لگے تھے اور اس نے میرے جسم اور میری روح کو تقریباً تباہ کر دیا تھا۔۔ لیکن اس لمحے میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اہم بات یہ تھی کہ میدان ہمارے تھے۔“

چونکہ اس وقت ٹینس بنیادی طور پر سفید فاموں کا کھیل سمجھا جاتا تھا، اس لیے لوگ اس وقت اس سیاہ فام خاندان کو سرِعام گھورتے اور آوازے کستے۔ جب رچرڈ اور اس کی بیٹیاں جونیئر ٹورنامنٹس مقابلوں کے لیے مختلف ٹینس کورٹس کا سفر کرتیں۔ ایک بار لڑکیوں نے پوچھا، ”ڈیڈی، لوگ ہمیں اس قدر بری طرح سے کیوں گھورتے رہتے ہیں،“ تو اس نے جواب دیا، ”کیونکہ اس سے قبل وہ اتنے خوبصورت لوگوں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔“

رچرڈ مستقل مزاجی اور ہمت کے ساتھ ڈٹا رہا، جسے دیکھ کر بالآخر گینگ کے کچھ ممبران نے باپ بیٹی کی طویل مشقوں کے دوران ان کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی۔ 2015 میں، رچرڈ نے سی این این کو بتایا کہ ایک موقع پر، گورے بچے جو ٹینس کورٹ میں کھیلنے کے لیے بس میں تھے، اس کی بیٹیوں پر چیخنے لگے۔ گینگ کے ارکان جو طنز کو دیکھ رہے تھے، انہوں نے اسے اندر آنے کی التجا کی، لیکن رچرڈ، جو کچھ ہو رہا تھا، بس اسے دیکھتے ہی رہے

1991 میں، رچرڈ ولیمز کا خاندان فلوریڈا چلا گیا تاکہ وینس اور سرینا کل وقتی تربیت حاصل کر سکیں۔ یہ پہلے ہی واضح تھا کہ نوجوان ٹینس پروڈیوجیز عظیم چیزوں کے لئے مقدر تھے۔ انہیں پام بیچ کے علاقے میں ریک میکی نامی کوچ نے بھرتی کیا، جس نے ابتدائی طور پر دیکھا کہ ان میں قابل ذکر صلاحیت موجود ہے۔ جب وینس اور سرینا میکی کے ساتھ تربیت نہیں کر رہی تھیں، تو وہ مقامی صرف میدانوں میں کھیل رہی تھیں۔۔ لیکن اب یہاں گینگ کی مداخلت بھی نہیں تھی

یہاں تک کہ جب انہوں نے پیشہ ور افراد کے ساتھ تربیت حاصل کی تھی، رچرڈ کا رویہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ سخت تھا، اور ہر روز ان سے زیادہ کا مطالبہ کرتا تھا۔

میکی بتاتے ہیں ”ہاف ٹائم میں وہ نئی گیندیں نہیں چاہتا تھا، وہ خراب گیندوں کا استعمال کرتا تھا تاکہ لڑکیوں کو تیز دوڑنا پڑے اور نیچے جھکنا پڑے، وہ کورٹ کے پچھلے حصے میں بیئر کی بوتل پھینک دیتا تاکہ شیشے ٹوٹ کر بکھر جائیں۔“

ولیمز کی بہن نے کسی ٹورنامنٹ میں اس وقت تک حصہ نہیں لیا جب تک کہ وہ جونیئر رینک میں آگے نہیں بڑھی لیکن وہ نمایاں طور پر ابتدائی طور پر کامیاب ہو گئی — وینس 1994 میں، صرف 14 سال کی عمر میں پہلی بار پرو بن گئیں۔ سرینا نے ایک سال بعد پیروی کی۔

وقت کا پہیہ تیزی سے گھوما اور کیلنڈر کا صفحہ سنہ 2000 کی طرف بڑی تیزی سے پلٹ گیا، جب دراز قد، دبلی پتلی سیاہ فام لڑکی ومبلڈن ٹورنامنٹ فائنل کھیلنے کے سفر پر روانہ ہوئی، اور اپنی آبائی بستی سے ہزاروں میل دور، رچرڈ نے اپنی بڑی بیٹی کو لندن کی اشرافیہ، مشہور شخصیات اور شاہی خاندان کے سامنے گھاس کے میدانوں میں بجلی کی سی سرعت سے کھیلتے دیکھا۔

اس وقت تک کسی نے بھی ٹینس کے کسی کھلاڑی کو اس قدر طاقتور سرو اور تیز فٹ ورک کے ساتھ نہیں دیکھا تھا، اور نہ ہی انہوں نے کبھی شاٹس کی اتنی اونچی آوازیں سنی تھیں، جیسے ہر گیند کو پیٹا جا رہا ہو اور ہر ضرب پر گیند درد سے کراہ رہی ہو۔

جب وہ لڑکی ایسے مرحلے پر پہنچی، جہاں ڈر کے آگے جیت تھی، تو لڑکی نے اسٹینڈ میں کھڑے اپنے والد کی طرف دیکھا، جو فتح حاصل کرنے کے لیے زور زور سے چلا کر اس کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ رچرڈ ہمیشہ سے اپنی بیٹیوں کو کہتا آ رہا تھا ’ایک دن، ہم ومبلڈن جیتنے والے ہیں، اور یہ جیتنا ہمارے لیے نہیں ہوگا.۔ یہ امریکہ کے بے بس اور غریب لوگوں کے لیے ہوگا۔’

رچرڈ کا بیس سالہ طویل ترین جدوجہد کا منصوبہ اب تکمیل کے بہت قریب تھا

جیسے ہی حریف کی گیند نیٹ سے ٹکرائی، کیمروں نے آنسوؤں سے تر چہرے والے رچرڈ کو دیوانہ وار رقص کرتے ہوئے دیکھا جب اس نے اپنی بیٹی وینس ولیمز کو اپنے سات گرینڈ سلام ٹائٹلز میں سے پہلا ٹائٹل جیتتے دیکھا۔۔ یہ جیت ان تھک قدموں کا کامیابی کے پہلے زینے کا پہلا بوسہ تھا۔

اس کے بعد اگلے کئی برسوں میں، رچرڈ نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی سرینا کو بھی 23 بڑے ٹورنامنٹ جیتتے ہوئے اور ٹینس میں اب تک کی سب سے عظیم ترین کھلاڑی قرار دیتے ہوئے دیکھا۔

ٹینس کورٹ پر اپنی تمام تر کامیابیوں کے باوجود وینس اور سرینا نے کورٹ کے باہر جو کچھ برداشت کیا، وہ ان کے سفر کا سب سے متاثر کن حصہ ہے۔ تماشائیوں کی طرف سے، جنہیں ان کی جسمانی ساخت کی وجہ سے ’ولیمز برادرز‘ کا لقب دیا گیا تھا، سے لے کر سرینا کی مخلوط نسل کی بیٹی کو ’چاکلیٹی دودھ‘ کہنے والے میڈیا میں تبصروں تک، دونوں بہنوں کی لچکدار اور مہربان شخصیت نے نسل پرستی اور متعصب رویوں کے خلاف کھڑے ہونے میں بھرپور مدد کی تھی، ان کے باپ کا کہنا تھا کہ ٹینس کورٹ کے باہر جو ہتک ہم برداشت کر رہے ہیں، اس سے بدلہ لینے کا بہترین طریقہ ٹینس کورٹ کے اندر اپنے ریکٹ سے بھرپور جواب دینا تھا، ان دو بہنوں کی اس متاثر کن جدوجہد نے دنیا بھر کے سیاہ فام لوگوں اور کھلاڑیوں کو متاثر کیا..

باقی تاریخ ہے – اور ان کا اصل آبائی شہر اس کی یاد منانے کا خواہاں ہے۔ نومبر 2016 میں، بہنوں نے واپس کامپٹن کا سفر کیا (اچھی طرح سے، تکنیکی طور پر ایسٹ رینچو ڈومینگیز پارک، کیونکہ ان کا پرانا محلہ اپنے طور پر شامل کیا گیا تھا) تاکہ ان کی پرانی کورٹ ہوں، جو اب مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کی گئی ہیں، ان کے اعزاز میں ان کا نام رکھا گیا ہے۔

وینس اور سرینا ولیمز نے اپنی محنت اور والدین کی قربانیوں کا صلہ کامیابی کی صورت میں پایا۔ وینس نے 2000 میں ومبلڈن کا ٹائٹل جیتا اور سرینا نے 1999 میں اپنا پہلا گرینڈ سلیم جیتا۔ ان دونوں بہنوں نے ٹینس کی دنیا میں اپنے نام کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بھی نام روشن کیا۔

رچرڈ ولیمز کی کہانی ایک ایسی مثال ہے، جو ہمیں بتاتی ہے کہ والدین کی محبت، عزم اور محنت کسی بھی بچے کو کامیاب بنا سکتی ہے۔ یہ داستان ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر ہم کسی خواب کو حقیقت میں بدلنے کا عزم کر لیں تو کوئی بھی مشکل ہمیں روک نہیں سکتی۔ وینس اور سرینا کی کامیابی ان کے والد کے بے پناہ عزم اور قربانیوں کی مرہون منت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close