یوکرین، روس تنازع: ممکنہ روسی حملے کے پیش نظر امریکا اور برطانیہ کا یوکرین سے اپنے سفارتی عملے کا انخلا

ویب ڈیسک

روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے دوران برطانیہ نے یوکرین میں واقع اپنے سفارت خانے میں تعینات عملے کی برطانیہ واپسی کے عمل کا آغاز کر دیا ہے

حکام نے کہا ہے کہ برطانوی سفارتکاروں کو کوئی خاص خطرہ نہیں ہے تاہم تقریباً نصف سفارتی عملے کو واپس برطانیہ بلا لیا جائے گا

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی، جب امریکا نے یوکرین میں تعینات اپنے سفارتی عملے کے خاندانوں کو فوری طور پر یہ کہتے ہوئے یوکرین چھوڑنے کا حکم دیا، کہ امریکی حکومت ہنگامی صورتحال میں امریکی شہریوں کے انخلا کی حالت میں نہیں ہوگی

امریکی محکمہ خارجہ نے شہریوں کے لیے سفری کی ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے یوکرین سے بڑھتی کشیدگی کے باعث شہریوں کو روس کے سفر سے خبردار کیا ہے

خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اتوار کو جاری کیے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یوکرین کے ساتھ حالیہ بڑھتی کشیدگی کے سبب شہری روس کا سفر نہ کریں‘، کیونکہ وہاں ان کو ’ہراساں‘ کیا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں سفارت خانے کی جانب سے ’امریکی شہریوں کو تعاون فراہم کرنے کی صلاحیت محدود‘ ہوگی

ادھر امریکہ نے یوکرین میں مقیم سفارتی عملے کے اہلخانہ کو بھی ملک چھوڑنے کی ہدایت کی ہے

محکمہ خارجہ نے اتوار کو بتایا کہ روس سے لاحق ’مسلسل خطرے کے باعث‘ امریکی سفارت کاروں کے اہلخانہ کو یوکرین کے دارالحکومت سے واپس آنے کا حکم دیا گیا ہے۔
واشنگٹن نے سفارتخانے کے دیگر سٹاف سے بھی ’رضاکارانہ‘ واپسی اور امریکی شہریوں کو ’یوکرین چھوڑنے کا سوچنے‘ کے لیے کہا ہے۔
حکام نے شہریوں سے کہا ہے کہ روس کے حملے کی صورت میں وہ اس پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ ان کا انخلا کرا سکیں۔
روس گذشتہ کچھ عرصے سے یوکرین کی سرحد پر ہزاروں فوجیوں کو جمع کر رہا ہے جو ٹینکوں، جنگی گاڑیوں، توپخانے اور میزائلوں سے لیس ہیں

اس دوران امریکہ اور یورپ کی جانب سے روس کو سخت نتائج سے خبردار کیا گیا ہے جبکہ سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں جن کے تاحال معمولی نتائج نکلے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر عہدیدار نے رپورٹرز کو بتایا کہ یوکرین کے دارالحکومت میں سفارتخانہ کھلا رہے گا اور ناظم الامور کرسٹینا کیون وہاں فی الوقت وہاں موجود ہیں۔
عہدیدار نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری انتباہ کو دہرایا کہ روس کا یوکرین پر حملہ ‘کسی وقت بھی’ ہو سکتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ‘ایسی صورت میں اپنے شہریوں کے فوری انخلا کی پوزیشن میں نہیں ہوگا’ اس لیے امریکی شہری کمرشل اور پرائیویٹ ٹرانسپوٹ کے ذریعے جس قدر جلدی ممکن ہو یوکرین چھوڑ دیں۔
عہدیدار نے یوکرین میں موجود امریکی شہریوں کی تعداد بتانے سے گریز کیا تاہم محکمہ خارجہ کے ایک نمائندے نے گذشتہ ماہ بتایا تھا کہ مشرقی یورپ کے ملک میں دس سے پندرہ ہزار امریکی شہری مقیم ہیں

امریکا کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کی اطلاعات موجود ہیں جبکہ دوسری جانب روس نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ یا مداخلت کا منصوبہ بنا رہا ہے

دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ روس یوکرین کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہا ہے

دفتر خارجہ کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ فی الحال یوکرین میں امریکا کا سفارتخانہ کُھلا ہے لیکن ’وائٹ ہاؤس سے مسلسل تنبیہ کی جا رہی ہے کہ کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا ہے کہ حکومت ’ایسی ہنگامی صورتحال میں امریکی شہریوں کے انخلا کی حالت میں نہیں ہو گی۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام امریکا کی ان احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے جو دفتر خارجہ اس وقت نافذ کرتا ہے جب کسی بحران کی وجہ سے امریکی سفارتی عملے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو

خیال ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں ایسی کوئی اہم پیشرفت نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر امریکی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہ۔

بین الاقوامی فوجی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ روس کی جانب سے اپنی سرحد پر قریب ایک لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کے بعد یورپ میں ایک نئی لڑائی کا خطرہ موجود ہے
ہفتے کے روز امریکا کی طرف سے بھیجی گئی قریباً 90 ٹن فوجی امداد یوکرین پہنچائی گئی، جس میں صف اول کے فوجیوں کے لیے ہتھیار بھی شامل تھے

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ صدر پوتن کیا سوچ رہے ہیں یہ سمجھنے کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے جن میں یوکرین کا دفاع بڑھانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں

واضح رہے کہ روس نے اس سے قبل بھی یوکرین کے خطے پر قبضہ کیا تھا۔ سنہ 2014 میں جب کریمیا میں ماسکو کے حمایت یافتہ صدر کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو روس نے کریمیا میں مداخلت کر کے اسے اپنے اندر ضم کر لیا تھا

اس وقت سے مشرقی روس کے سرحدی علاقوں میں یوکرین کی فوج اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ دنباس کے خطے میں اب تک قریباً چودہ ہزار افراد مارے گئے ہیں

اتوار کو برطانوی دفتر خارجہ نے صدر پوتن پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین میں ماسکو کے حمایت یافتہ رہنما کو لانا چاہتے ہیں

برطانوی وزرا نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین میں کسی مداخلت یا حملے کی صورت میں روسی حکومت کے خلاف سخت ردعمل دیا جائے گا

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس یوکرین کی حکومت گرانے اور تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے برطانوی دفتر خارجہ کے حالیہ بیان پر اپنا ردعمل نہیں دیا ہے

روس اور یوکرین کے درمیان کیا تنازع ہے؟

مشرقی یوکرین میں سنہ 2014 سے روس نواز علیحدگی پسندوں اور یوکرینی فوج کے درمیان تنازع جاری ہے، تاہم ایک کمزور سی جنگ بندی بھی نافذ ہے

سرحد پر روسی فوجیوں کے جمع ہونے کے بعد مغربی اور یوکرینی انٹیلیجنس سروسز کا اندازہ ہے کہ دراندازی یا حملہ 2022ع کے اوائل میں ہو سکتا ہے

اس دوران روس نے نیٹو ممالک پر یوکرین کو اسلحے کے ذریعے ‘ابھارنے’ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ خطے میں تناؤ کو فروغ دے رہا ہے

روس کا بنیادی مطالبہ نیٹو میں مشرق کی جانب توسیع ہے۔ روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریابکوف نے حالیہ مذاکرات کے بعد کہا ہے کہ ‘یہ یقینی بنانا نہایت ضروری ہے کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو کا رکن نہ بنے۔’

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close