رابندر ناتھ ٹیگور

ڈاکٹر مبارک علی

رابندر ناتھ ٹیگور ہندوستان کے مشہور شاعر، ناول نگار، فلسفی اور آرٹسٹ تھے۔ انہوں نے شانتی نکیتن یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، جو اپنی نوعیت کی پہلی یونیورسٹی تھی، جہاں آرٹ، موسیقی اور رقص کی خاص طور سے تعلیم دی جاتی تھی۔

شانتی نکیتن یونیورسٹی میں کلاسیں درختوں کے نیچے ہوتی تھیں۔ اُستاد اور شاگردوں کے درمیان گہرے روابط تھے۔ ٹیگور کو 1913ء میں گیتا اَنجلی پر ادب کا نوبل انعام ملا، جس کی وجہ سے انہیں بین الاقوامی شہرت ملی۔ انہوں نے یورپ اور امریکہ میں کئی لیکچرز دیے اور اپنے خیالات و افکار کو بنگالی اور انگریزی میں لکھ کر شائع کراتے رہے۔

ٹیگور نے اس ماحول کا تجربہ کیا کہ جس وقت یورپ اور ایشیا میں قوم پرستی کا نظریہ اُبھر چکا تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف یورپی سامراج اور کالونیل ازم تھا، دوسری جانب ایشیا اور افریقہ کی کالونیز میں قوم پرستی کے جذبے کے تحت آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تھی۔

یورپی کالونیل ازم کی مثال اگر ہم برطانیہ سے لیں تو اس وقت اس کا اقتدار ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں پھیلا ہوا تھا۔ یہ اقتدار پر امن طریقے سے نہیں آیا تھا۔ اس کی ابتداء تجارت اور کاروبار سے ہوئی تھی اور پھر فوجی طاقت کے ذریعے ان ملکوں میں سیاسی تسلط حاصل کیا۔ تجارت اور سیاست کے اس ملاپ سے کالونیز کا معاشی استحصال کیا گیا اور جب یہ لوٹ کی دولت برطانیہ آئی تو حکمران طبقے نے اس کے ذریعے اپنی شان و شوکت کا اظہار کیا، لیکن برطانیہ کے عوام کو اس سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ وہ اسی طرح سے غربت و مفلسی اور سماجی طور پر نچلے طبقوں میں رہے، لیکن انہیں یہ تاثر دیا گیا کہ سفید فام قومیں برتر ہیں اور ان میں خاص طور سے انگریز قوم بہادر منظم اور ذہنی طور پر سب سے اعلیٰ و افضل ہے۔

ان خیالات نے ان میں قوم پرستی اور وطن پرستی کے جذبات کو پیدا کیا، جس کی وجہ سے انہوں نے انگریز قوم کی جنگوں، قتل و غارت گری اور خونریزی ان سب کی حمایت کی۔ انہیں اس پر فخر تھا کہ ان کی قوم دنیا پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ ان جرنلز کو ہیرو تسلیم کرتے تھے، جنہوں نے فتوحات کی تھیں۔ ان سیاسی عہدیداروں کے کارناموں کو لائق تحسین سمجھتے تھے کہ جنہوں نے کالونیز کے انتظامات کو بہ حسن و خوبی سرانجام دیا تھا۔

انگریز قوم پرستی کی ایک مثال جنرل ڈائر کی ہے، جس نے 1919ء میں جلیان والے باغ میں لوگوں کا قتل عام کیا۔ انگریز قوم نے اسے ہیرو بنا کر اس کے لیے چندہ اکٹھا کیا اور اسے برطانوی اقتدار کا دفاع کرنے والا قرار دے کر اس کے قتلِ عام کو صحیح قدم قرار دیا۔

قوم پرستی کی دوسری شکل ہندوستان میں تھی، جہاں اس کے تحت آزادی کی جدوجہد جاری رہی۔ اس جدوجہد کی وجہ سے قومی ہیروز نے قیدوبند کی سزائیں برداشت کیں اور جانیں بھی دیں، لیکن ہندوستان میں قوم پرستی کا یہ جذبہ محدود طبقے میں تھا جبکہ عوام اس سے نابلد تھے۔

ٹیگور بحیثیت مجموعی قوم پرستی کے خلاف تھے۔ ان کے مطابق یہ جذبہ جدید یورپ میں پیدا ہوا اور اسی جذبے کے تحت قومی ریاست کی بنیاد پڑی۔ ان کی دلیل تھی کہ قوم پرستی تنگ نظری کو پیدا کرتی ہے اور قوم خود کو برتر سمجھ کر دوسری قوموں کو کمتر گردانتی ہے۔ اس لیے جب یہ جذبہ تمام قوموں میں پیدا ہو جائے تو وہ تمام اخلاقی قدروں کو نظرانداز کر کے ہر صورت میں اپنے مفادات کا حصول چاہتی ہیں۔

طاقتور کمزور پر تسلط حاصل کرتی ہے اور اس کی لالچ اور توسیع سلطنت برابر بڑھتی رہتی ہیں، جس کی وجہ سے امن و امان کی جگہ بربادی اور تباہی آجاتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے پروفیشنل افراد اپنی ترقی کی راہ میں آنے والے ہر فرد اور جماعت کو سازش اور طاقت کے ذریعے ہٹا دیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے ٹیگور قومی ریاست کے بھی خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ خود غرض ہوتی ہے۔ اس لیے ٹیگور ہندوستانی قوم پرستی کے خلاف تھے۔ اس کے نتیجے میں قوم اور عوام ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔

ٹیگور قوم پرستی کی جگہ یونیورسل ازم کے قائل تھے، جس میں قوموں کے درمیان ہم آہنگی اور ملاپ ہو، نہ کہ دُشمنی اور عداوت۔ اسی جذبے کے تحت تصادم کی جگہ امن و امان قائم ہوگا۔

ٹیگور گاندھی جی کی سیاست کے بھی مخالف تھے۔ وہ ترک موالات اور سودیشی تحریکوں کی افادیت کا قائل نہ تھے۔ کیونکہ ان تحریکوں میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ برطانوی حکومت سے کوئی تعاون نہیں کیا جائے۔ انگریزی مال کا بائیکاٹ کیا جائے اور سرکاری ملازمتوں سے استعفے دے دیے جائے۔ ٹیگور نے اس پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اگر اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ ملازمتیں چھوڑ دیں گے تو اس کا نقصان طالب علموں کو ہوگا۔ ان کی پڑھائی ختم ہو جائے گی اور اس سے ہندوستان کی ترقی میں رکاوٹ آئے گی۔ وہ گاندھی جی کے چرخا کاٹنے کو بھی بے مصرف سمجھتے تھے کیونکہ ٹیگور نے عام روایت سے ہٹ کر بات کی۔ اس لیے سیاسی حلقوں میں ان پر بڑی تنقید کی گئی۔

ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں یورپ کے دانشوروں کی یہ رائے تھی کہ اس میں نہ تو کوئی ٹریجڈی ہے اور نہ کوئی تصادم اور جب تک تاریخ میں یہ دونوں چیزیں نہ ہوں تو وہ ایک جگہ رُک جاتی ہے۔ اس پر ٹیگور نے کچھ مقالات شائع کیے اور اس بات کی وضاحت کی کہ مہا بھارت کی جنگ میں مفادات کا تصادم بھی ہے اور جنگ کا المیہ بھی ہے۔ وہ اس بات کے ضرور قائل تھے کہ بدھ مذہب کی تعلیمات نے اس کے پیروکاروں کو دنیاوی سرگرمیوں سے علیحدہ کر کے انہیں معاشرے کے لیے بے مصرف بنا دیا۔

ٹیگور انگریزی کالونیل ازم کے مخالف نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزی حکومت کی وجہ سے ہندوستان میں ترقی کا عمل شروع ہوا ہے۔ اس سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ انگریز اپنے کردار اور عمل میں ہندوستانیوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہیں۔ اس لیے دنیاوی ترقی کے لیے ان کی حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔

ٹیگور نے اپنے یہ خیالات اپنے مضامین اور ناولوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچائے۔ انہوں نے انگریزی میں بھی لکھا اور اپنی تحریروں کا انگریزی ترجمہ بھی کرایا۔ مقصد یہ تھا کہ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان قربت پیدا ہو اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ترقی کر سکیں۔

ٹیگور کی شخصیت کی اہم بات یہ تھی کہ ان کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے کوئی ملازمت نہیں کی اور اپنا سارا وقت علمی و ادبی کاموں میں گزارا۔ ان کی جانب سے ایسی کوئی تحریک نہیں چلائی گئی، جس کے ذریعے وہ بنگال کے غریب و مفلس دیہاتوں کی زندگی سدھار سکتے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close