خلائی گاڑی پارکر کا چھ سالہ تاریخی سفر اختتام کے قریب، جس کی منزل دہکتا سورج ہے!

ویب ڈیسک

امریکی خلائی ادارے ناسا کا ایک راکٹ گزشتہ پانچ برس سے سورج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس سال کے آخر میں وہ اپنا 96 فی صد سفر مکمل کر کے سورج کے انتہائی قریب پہنچ کر اس کی بیرونی فضا میں داخل ہو جائے گا۔ یہ اتنا ہی اہم اور بڑا ریکارڈ ہے، جو انسان نے 20 جولائی 1969 میں چاند پر اپنا پہلا قدم رکھ کر قائم کیا تھا

واضح رہے کہ ناسا نے پارکر نامی خلائی گاڑی 12 اگست 2018 کو سورج کے تاریخی سفر پر روانہ کی تھی۔ پارکر میں خصوصی سائنسی آلات نصب ہیں جو سورج کی فضا، وہاں کے درجہِ حرارت اور سورج سے خارج ہونے والی مقاطیسی لہروں کے ارتعاش کی پیمائش سمیت مختلف نوعیت کا ڈیٹا اکھٹا کر کے زمینی مراکز کو روانہ کریں گے

زمین سے سورج کا فاصلہ 9 کروڑ 30 لاکھ میل یعنی 15 کروڑ کلومیٹر ہے۔ سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 8 منٹ اور 20 سیکنڈ لگتے ہیں۔ جب سورج کی پہلی کرن زمین کی سطح سے ٹکراتی ہے تو اصل میں اس وقت سورج اس مقام پر موجود نہیں ہوتا جب پہلی کرن نے وہاں سے اپنا سفر شروع کیا تھا

خلائی سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2024 کے آخر تک پارکر ساٹھ لاکھ کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سورج کی دہکتی ہوئی بیرونی تہوں کے انتہائی قریب پہنچ جائے گا جو ایک نیا ریکارڈ ہوگا

سورج آگ کا دہکتا ہوا بہت بڑا گولا ہے، جس میں ایٹموں کی ٹوٹ پھوٹ سے بے پناہ حرارت اور روشنی پیدا ہو رہی ہے۔ سورج کا ایک طاقت ور مقناطیسی میدان ہے جس کی مقناطیسی لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا رہتا ہے۔ مقناطیسی میدان کا یہ مد و جزر زمین کے مواصلاتی نظام سمیت کئی چیزوں کو متاثر کرتا ہے

سورج کی سطح کا درجہ حرارت دس ہزار ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہے، جبکہ حیران کن طور پر سورج کی بیرونی فضا اس کی سطح کے مقابلے میں تین سو گنا زیادہ گرم ہے

ناسا کی خلائی گاڑی پارکر کا سفر نہ صرف خلائی تحقیق میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے بلکہ اس کی رفتار بھی ناقابلِ یقین حد تک زیادہ ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ پارکر سات لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر رہا ہے

اگر آپ اب بھی حیران نہیں ہوئے تو اس تیز رفتاری کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اگر اسے نیویارک سے ٹوکیو بھیجا جائے تو یہ صرف ایک منٹ میں وہاں پہنچ جائے گا۔ انسان کی بنائی ہوئی کسی گاڑی کی یہ رفتار اب تک کی تاریخ کی سب سے زیادہ رفتار ہے

امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے پارکر پراجیکٹ کے ایک سائنسدان ڈاکٹر نور روفی کا کہنا ہے کہ پارکر کا مشن پوری انسانیت کے لیے ایک یادگار کارنامہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک سیارے پر اترنے کے ہی مساوی ہے

سورج صرف ایک سیارہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی گرم دہکتی ہوئی بھٹی ہے۔ پارکر سورج پر تو نہیں اترے گا لیکن اس کے گرد گردش کے دوران وہ کئی بار اس کی بیرونی فضا کے انتہائی قریب سے ضرور گزرے گا

خلائی سائنسدانوں کا کہنا ہے سورج کے مدار کے گرد اپنی اس گردش کے دوران متعدد بار وہ اس کی بیرونی فضا کے اتنا قریب بھی چلا جائے گا، جہاں درجہ حرارت 1400 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں توانائی کی لہروں کے ذرات سے چارج ہونے والی طاقت ور شمسی ہوائیں موجود ہوتی ہیں

فلکیاتی ماہرین نے پارکر کی تیاری میں اس چیز کو خاص طور پر مدنظر رکھا ہے کہ سورج کے دہکتے ہوئے ماحول کے قریب سے گزرتے ہوئے اس میں نصب آلات حرارت سے محفوظ رہیں اور سائنسی ڈیٹا اکھٹا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے زمینی مراکز پر بھیجنے کا عمل جاری رکھیں

واضح رہے کہ پارکر اپنے اس سفر کے آغاز سے ہی زمین پر سائنسی ڈیٹا بھیج رہا ہے، جس سے سائنس دانوں کو سورج سے خارج ہونے والی توانائی کے بارے میں معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پارکر مشن اس بارے میں مستند معلومات مہیا کرے گا کہ سورج کی فضا اس کی سطح کے مقابلے میں تین سو گنا زیادہ گرم کیوں ہے، جہاں درجہِ حرارت دس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر تک چلا جاتا ہے۔

سورج کی طرح ، ہماری زمین کا بھی مقناطیسی میدان ہے۔ ہمارے برقی مواصلاتی نظام اور آلات زمین کے مقناطیسی میدان سے مطابقت رکھتے ہیں۔ چونکہ سورج کا مقناطیسی میدان اور لہریں زیادہ طاقت ور ہوتی ہیں، اس لیے جب سورج پر مقناطیسی طوفان آتے ہیں تو اس کی لہریں ہمارے زمین کے مقناطیسی میدان کو متاثر کرتی ہیں، جس سے مواصلاتی نظاموں میں خلل پڑتا ہے اور خلا میں سفر کرنے والے جانداروں کی صحت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پارکر سے حاصل ہونے والی معلومات شمسی مقناطیسی طوفانوں کی بہتر اور مستند پیش گوئیاں کرنےمیں مددگار ثابت ہو سکیں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close