”واٹسن، یہاں تشریف لائیے۔۔۔ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔“ بظاہر تو ان چند الفاظ میں کچھ بھی ایسا خاص نہیں کہ انہیں اتنی اہمیت دی جائے۔۔ لیکن اس کے باوجود لگ بھگ ڈیڑھ صدی قبل ادا کیے گئے یہ الفاظ آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔۔ دراصل یہ وہ الفاظ ہیں، جو 10 مارچ 1876 کو پہلی بار ٹیلی فون پر ادا کیے گئے تھے
اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے سائنسدان اور موجد الیگزینڈر گراہم بیل کی عمر اس وقت صرف 29 سال تھی اور ان کو تین روز قبل ہی ٹیلی فون کا پیٹنٹ حاصل ہوا تھا۔
مارچ کا مہینہ الیگزینڈر گراہم بیل کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ 3 مارچ 1847 کو پیدا ہوئے، 7 مارچ کو انہوں نے ٹیلی فون کا پیٹنٹ حاصل کیا اور 10 مارچ کو دنیا کی پہلی ٹیلی فون کال کی، جس نے فاصلوں کو سمیٹ کر قربت میں بدل دیا
گراہم بیل کے دادا، والد اور چچا خطیب تھے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ ان کی والدہ اور بیوی بول سن نہیں سکتی تھیں، جس نے نوجوان گراہم بیل کو قوتِ سماعت اور گویائی پر تحقیق کی جانب مائل کیا، لیکن اس تحقیق کا نتیجہ آگے چل کر حادثاتی طور پر ٹیلی فون کی صورت میں نکلا
ٹیلی فون کی ایجاد کے چند ہی برس بعد 1881 میں الیگزینڈر گراہم بیل نے پہلا میٹل ڈیٹیکٹر ایجاد کیا۔ یہ ایجاد بھی ایک طرح سے حادثاتی ہی تھی۔ جیسا کہ امریکہ کے بیسویں صدر جیمز اے گارفیلڈ ایک حملہ آور کی جانب سے ماری گئی دو گولیاں لگنے سے مر رہے تھے۔ ان دنوں ایکسرے مشین ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی، جس سے گولیوں کو نکالنے میں آسانی ہوتی۔ گراہم بیل نے مہلک سلگ کو تلاش کرنے کی ناکام کوشش میں جلدی سے ایک خام دھات کا پتہ لگانے والا آلہ میٹل ڈیٹیکٹر ایجاد کیا۔ بیل کا میٹل ڈیٹیکٹر ایک برقی مقناطیسی آلہ تھا، جس نے اگرچہ ڈاکٹروں کا کام تو آسان کیا مگر گارفیلڈ کو بچایا نہ جا سکا۔
گراہم بیل کی زندگی مشکلات، دکھ اور تکالیف سے بھری گزری۔ ان کے چھوٹے بھائی ایڈورڈ سال 1867 کے موسمِ بہار میں تپ دق میں مبتلا ہو کر چل بسے۔ ان کے بڑے بھائی کی موت بھی اسی وجہ سے ہوئی اور بیس برس کے گراہم بیل بھی بیمار رہنے لگے تھے۔ تبھی ان کے دل شکستہ والدین نے اپنے باقی ماندہ خاندان کے ساتھ ایک صحت مند مقام پر منقتل ہونے کا فیصلہ کیا اور یوں یہ خاندان کینیڈا کے شہر اونٹاریو منتقل ہو گیا۔
تیئیس برس کے گراہم بیل کے لیے کینیڈا جانے کا فیصلہ قبول کرنا آسان نہیں تھا، کیوں کہ لندن میں وہ سماعت اور گویائی سے محروم بچوں کے ساتھ کام کر رہے تھے، جس میں انہوں نے کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کی تھی، لیکن کینیڈا منتقلی کے بعد بھی ان کا جذبہ سرد نہیں ہوا۔ وہ آوازوں پر تجربات کرتے رہے اور اس قدر محو ہو گئے کہ ان کو نجی پریکٹس کا سلسلہ درمیان ہی میں ترک کرنا پڑا۔
تعلیم سے فراغت کے بعد گراہم بیل نے گونگے بہرے بچوں کے لیے ایک اسکول کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت گراہم بیل کی عمر صرف پچیس سال کی تھی۔ اس کم عمری میں گراہم بیل نے تدریس کا کام شروع کیا۔ گراہم بیل نے گونگے بہرے بچوں کی تکالیف کو محسوس کیا اور ایسے آلات بنانے میں مصروف ہو گئے جن کی مدد سے ان بچوں کو بآسانی پڑھایا جا سکے
گراہم بیل کی زندگی کے اس دور میں ان کے دو طالب علموں چھ برس کے جارجی سینڈرز اور پندرہ برس کی میبل ہبرڈ نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ دو بچے نہ ہوتے تو شاید ٹیلی فون کے خواب کو تعبیر نہ مل پاتی، کیوں کہ ان دونوں بچوں کے والد تھامس سینڈرز اور گارڈنر ہبرڈ دولت مند تھے، جو نہ صرف آنے والے برسوں میں گراہم بیل کی سائنسی سرگرمیوں میں ان کے معاون اور دوست بن گئے بلکہ ان کی تحقیق میں مالی مدد کرتے رہے۔
گراہم بیل اس وقت تیس برس کے تھے، جب وہ اپنی ہی طالبہ میبل کی محبت میں گرفتار ہو گئے، جو ان سے دس برس چھوٹی تھیں۔ دونوں نے جلد ہی شادی کر لی۔ گراہم بیل اس وقت تک ٹیلی فون ایجاد کر چکے تھے۔
انیسویں صدی کے وسط سے ہی جب ٹیلی فون ایجاد نہیں ہوا تھا، تو دور دراز مقامات پر پیغام رسانی کے لیے برقی ٹیلی گراف استعمال کیا جاتا تھا، جس سے خطوط کی نسبت نہ صرف تحریری پیغام بھیجنا آسان گیا تھا بلکہ اسے بھیجنے پر وقت بھی کم صرف ہوتا تھا۔ یہ ٹیلی گراف کرنٹ کا استعمال کرتے ہوئے پیغام کو کوڈ میں تبدیل کرتا اور دوسری جانب موجود تربیت یافتہ آپریٹر اس کوڈ کو ترجمہ کر کے اسے آگے پہنچا دیتا۔
گراہم بیل طویل عرصے سے ایک ایسا ٹیلی گراف تیار کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جس پر ایک ہی وقت میں مختلف فریکوئنسز پر بہت سے پیغامات ایک ساتھ بھیجنا اور وصول کرنا ممکن ہو پاتا۔ ان کے ذہن میں یہ خاکہ تھا کہ ایسا ایک ہی تار پر ہو اور بہت زیادہ تاریں نہ بچھانی پڑیں، جن پر غیرمعمولی لاگت آتی۔
گراہم بیل اپنی اسی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچے کہ تار سے منسلک ٹیلی گراف کے ذریعے انسانی آواز کو منتقل کرنا ممکن ہو سکتا ہے، تاہم اس وقت تک وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا یہ مفروضہ بہت جلد حقیقت بننے جا رہا ہے۔
مسئلہ مگر یہ تھا کہ اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے گراہم بیل تکنیکی علم سے نابلد تھے۔ تبھی ان کی ملاقات بوسٹن کی ایک دکان میں کام کرنے والے بیس سالہ ایک ذہین الیکٹریکل انجینئر تھامسن واٹسن سے ہوئی۔
یہ وہی تھامسن واٹسن ہیں، جن کا نام ٹیلی فون پر سب سے پہلے لیا گیا۔ ”واٹسن، یہاں تشریف لائیے۔۔۔ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔“
تھامس واٹسن کو ٹیلی فون کی ایجاد میں گراہم بیل کے اسسٹنٹ یا معاون کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے پینتیس ایجادات پیٹنٹ کروائی تھیں اور ایک موجد کے طور پر ان کی پہچان مسلمہ ہے۔
وہ ایک مرنجان مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے ٹیلی فون کے لیے اشارہ ارسال کرنے والی ڈیوائس بنانے کی کوشش کی کیوں کہ کسی کے لیے بھی سارا دن فون سے چپکے رہنا اور کال کا انتظار کرنا آسان نہیں تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے بہت سے تجربات کیے اور بالآخر گھنٹی بنانے میں کامیاب ہو گئے، جو اس وقت بجتی جب کالر کی جانب سے کال کی جا رہی ہوتی۔ یہ ساٹھ برس تک مینوفیکچر کی جاتی رہی۔ انہوں نے وہ سوئچ ایجاد کیا جو فون بند کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ یوں کہہ لیجئے کہ ابتدائی دور کے ٹیلی فون کو بہتر بنانے میں تھامسن واٹسن کا اہم کردار ہے
لیکن انہوں نے بیل ٹیلی فون کمپنی میں زیادہ عرصہ نہیں گزارا اور ٹیلی فون کی ایجاد کے محض پانچ برس بعد ہی کمپنی چھوڑ دی اور ٹیلی فون کی رائلٹی کی مد میں حاصل ہونے والی رقم سے مختلف کاروبار شروع کیے۔ کاروبار سے جی اچاٹ ہوا تو اداکاری کرنے لگے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 14 فروری 1876 کو جب گراہم بیل نے امریکی پیٹنٹ آفس میں ’آوازوں کو منتقل کرنے‘ کے پیٹنٹ کی درخواست دی تھی، اسی روز ایک اور موجد الیشا گرے نے بھی ایسے ہی پیٹنٹ کے لیے درخواست دی تھی، جس میں انہوں نے آواز کی منتقلی کے لیے پانی کا استعمال تجویز کیا تھا۔ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ دونوں سائنسدانوں کے پاس اس وقت تک کوئی ٹیلی فون نامی آلہ موجود نہیں تھا۔
بہرحال گراہم بیل درخواست جمع کروانے کے تین ہفتوں بعد 7 مارچ کو ٹیلی فون کا پیٹنٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
یہ تنازع ہمیشہ موجود رہا ہے کہ گراہم بیل یا الیشا گرے میں سے کس نے پیٹنٹ کے لیے پہلے درخواست دی تھی اور یہ بھی کہ گراہم بیل نے الیشا گرے کے پانی کو ٹرانسمیٹر کے طور پر استعمال کرنے کے تصور کو چوری کیا۔ اس حقیقت سے نظریں چرانا بہرحال ممکن نہیں ہے کہ پیٹنٹ ملنے کے محض تین روز بعد گراہم بیل کے ٹیلی فون سے پہلی کال کی جا چکی تھی۔
گراہم بیل کے الیشا گرے کے تصور کو چوری کرنے کی کہانی پر کچھ حالیہ محققین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ الیشا گرے کو ٹیلی فون کا حقیقی موجد تصور کیا جانا چاہیے، کیوں کہ الیگزینڈر گراہم بیل نے مبینہ طور پر ان کا تصور ہی چوری کیا تھا۔ الیشا گرے اگرچہ ایسے ٹرانسمیٹر بنانے پر گراہم بیل سے دو برس پہلے سے کام کر رہے تھے، مگر عدالتوں نے اپنے بعدازاں دیے گئے فیصلوں میں گراہم بیل کو ٹیلی فون کا پیٹنٹ دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
گراہم بیل نے جولائی 1877 میں بیل ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی، جس نے تقریباً اگلی دو دہائیوں کے دوران گراہم بیل کے پیٹنٹ کو 587 بار چیلنج کیے جانے کا کامیابی سے دفاع کیا۔
علاوہ ازیں دو دہائیاں قبل سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے ایک جرمن سائنسدان فلپ ریئس نے الیگزینڈر گراہم بیل سے پندرہ سال پہلے ٹیلی فون ایجاد کر لیا تھا۔
گمنامی کے اندھیروں میں پڑی رہنے والی فائلوں میں کہا گیا کہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے گراہم بیل کی شہرت کو قائم رکھنے کے لئے جرمنی میں سن اٹھارہ سو تریسٹھ میں تیار ہونے والے آلے کے کامیاب تجربات کو منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا۔
ان فائلوں میں کہا گیا ہے کہ جرمن سائنسدان فلپ ریئس نے جو ٹیلی فون ایجاد کیا تھا وہ آواز نہ صرف دوسری طرف بھیج سکتا تھا بلکہ وصول بھی کر سکتا ہے۔
ان فائلوں میں برطانوی بزنس مین سر فرینک گل پر فلپ ریئس کے کام کو عام نظروں سے مخفی رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ شواہد لندن میں قائم سائنس میوزیم میں پڑی پرانی فائلوں سے سامنے آئے۔ ان فائلوں کو میوزیم کے مہتمم جان لفن نے از سرنو ’دریافت‘ کیا
سر فرینک گل ایک کمپنی اسٹینڈرڈ ٹیلی فونز اینڈ کیبلز کے چیئرمین تھے، جس نے فلپ ریئس کے تیار کردہ آلے پر تجربات کئے تھے۔
اس وقت سر فرینک گل کی کمپنی امریکن ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف کمپنی سے سے ایک ٹھیکہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی، جو بیل کمپنی کی ایک شاخ تھی۔
فرنیک گل کے خیال میں اگر جرمن سائنسدان کے ایجاد کئے ہوئے آلے پر ہونے والے کامیاب تجربات کی بات عام ہو گئی، تو ان کی کمپنی کے ٹھیکہ حاصل کرنے کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔
اس سے پہلے بھی کئی محققین کہہ چکے ہیں کہ جرمن سائنسدان نے گراہم بیل سے کئی سال پہلے ٹیلی فون ایجاد کرلیا تھا۔ دو دہائیاں قبل فائل میں پائے جانے والے شواہد انہیں دعوؤں کو تقویت دیتے ہیں۔
بہرحال، قانونی طور پر اب بھی ٹیلی فون کی ایجاد کا سہرا گراہم بیل ہی کے سر ہے
مئی 1876 امریکن فلاڈیلفیا کانٹینینٹل انیسویں صدی کی نئی ایجادات کی نمائش کا کامیاب ترین میلہ تھا، جس میں ٹائپ رائٹرز، سلائی مشینیں اور ہینز کیچپ تک نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ یہ مئی 1876 میں شروع ہوا، جس میں گراہم بیل نے اپنے ٹیلی فون کے پروٹوٹائپ کو ثابت کیا کہ اس کے کام کرنے کا طریقہ کار کیا ہے، جس کے بعد لوگوں اور سائنس دانوں میں اس ایجاد کے بارے میں مزید جاننے کے لیے تجسس دن بدن بڑھنے لگا تھا۔
گراہم بیل کا خواب سچ ثابت ہو چکا تھا۔ انہوں نے ہبرڈ، سینڈرز اور واٹسن کے ساتھ مل کر جب ٹیلی فون کو تجارتی مقاصد کے لیے مینوفیکچر کرنے کے لیے کمپنی بنائی تو اس وقت امریکہ میں ایسی تیرہ سو ڈیوائسز کام کر رہی تھیں۔
اور صرف تین سال بعد 1880 میں نئے سال کے موقع پر یہ تعداد تیس ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ تاہم، اسی دوران گراہم بیل کی ٹیلی فون میں دلچسپی کم ہونے لگی۔ وہ دولت مند تو ہو ہی چکے تھے۔ انہوں نے بیل ٹیلی فون کمپنی میں اپنا حصہ فروخت کر دیا اور 1880 کی دہائی کے وسط میں ٹیلی فون انڈسٹری میں ان کا کردار تقریباً ختم ہونے کے قریب تھا۔
یہ 25 جنوری 1915 کا ایک سرد دن تھا، جب الیگزینڈر گراہم بیل نے نیویارک سٹی سے اپنے معاون تھامس واٹسن کو سان فرانسسکو میں کال کی اور اپنا مشہور زمانہ جملہ دہرایا، ’واٹسن، یہاں تشریف لائیے…..میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔‘ جس کے جواب میں واٹسن نے کہا، ”مجھے وہاں پہنچنے میں پانچ روز لگ جائیں گے۔“
یہ ایک طویل فاصلے کی کال تھی، جس میں کالر اور ریسیور کے درمیان ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ حائل تھا۔ امریکی صدر ووڈرو ولسن کے علاوہ دونوں شہروں کے میئر بھی اس تاریخ ساز موقع پر موجود تھے۔
ٹیلی فون کی ایجاد کے ساتھ ہی گراہم بیل کی شہرت دنیا بھر میں پھیل چکی تھی۔ جنوری 1878 میں برطانوی ملکہ وکٹوریہ نے گراہم بیل کو دعوت دی۔ کہا جاتا ہے کہ ملکہ نے اس موقع پر کہا کہ ’‘یہ ایک غیرمعمولی ایجاد ہے۔“ انہوں نے بعد ازاں اسے نصب کرنے کے لیے بھی کہا۔ اسی سال برطانیہ میں گراہم بیل کے فون کی فروخت کے لیے ٹیلی فون کمپنی لمیٹڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
گراہم بیل نے ایک طویل زندگی گزاری اور اپنی ایجاد ٹیلی فون کو مزید ترقی پاتے دیکھا۔ وہ 2 اگست 1922 میں کینیڈا کی وکٹوریہ کاؤنٹی میں وفات پا گئے۔ یوں ان کا اور میبل کا نصف صدی سے زیادہ پر محیط ساتھ ختم ہوا۔
گراہم بیل کی جب تدفین کی گئی تو امریکہ میں ان کے اعزاز میں ایک منٹ کے لیے ٹیلی فون سروس معطل رکھی گئی۔
واٹسن اپنی زندگی کے آخری برسوں میں انگلینڈ میں انڈیا سے تعلق رکھنے والے روحانی گرو مہربابا سے ملاقات میں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوئے اور انہوں نے امریکہ میں ان کے اولین دورے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن واٹسن جلد ہی ان کے اثر سے باہر نکل آئے۔
الیگزینڈر گراہم بیل اور تھامس واٹسن دونوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ گراہم بیل کی ساری زندگی علمی تشنگی نہ مٹ سکی اور وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتے رہے کہ وہ ٹیلی فون ایجاد نہ بھی کرتے تو سائنس کی دنیا میں ان جیسے ذہین دماغ بہت زیادہ نہیں رہے ہوں گے۔
وہ ایک ایسے موجد تھے، جنہوں نے دنیا کو ایک ایسے بندھن میں جوڑا، جس سے ترقی کے نئے در وا ہوا اور رابطے بڑھے تو چند ہی برسوں میں امریکہ کے لاکھوں گھروں میں ٹیلی فون نصب ہو چکا تھا اور آج اس ایجاد کے بغیر دنیا کا تصور کرنا بھی ناممکن ہے۔