سائنسدانوں نے زمین کے قریب موجود ایک بلیک ہول دریافت کیا ہے۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہمارا نظام شمسی جس کہکشاں میں موجود ہے، اسے ’ملکی وے‘ کہا جاتا ہے اور اس کے وسط میں پہلے ہی ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت ہو چکا ہے۔
لیکن سائنسدانوں کے خیال میں ہماری کہکشاں میں کروڑوں چھوٹے بلیک ہولز بھی ہو سکتے ہیں، پر ان کو ابھی دریافت نہیں کیا جا سکا اور جو دریافت ہوئے ہیں، ان کا حجم ہمارے سورج سے اوسطاً 10 گنا بڑا ہوتا ہے۔
اب یورپین اسپیس ایجنسی (ای ایس اے) کے ایک مشن نے سورج سے 33 گنا بڑا بلیک ہول دریافت کیا ہے، جو زمین سے 1926 نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ہے۔
کائنات کا قدیم ترین اور بہت بڑا بلیک ہول دریافت
یہ بلیک ہول، جسے Gaia نامی مشن نے دریافت کیا، اس کا اندازہ سب سے پہلے ای ایس اے کے سائنسدانوں کو ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے درمیان ہوا تھا۔
انہوں نے Aquila نامی جھرمٹ کے ایک پرانے بڑے ستارے میں ایسی تبدیلیوں کو دیکھا تھا، جس سے ایک بڑے بلیک ہول کی موجودگی کا اندازہ ہوا۔
اس بلیک ہول کو Gaia بی ایچ 3 کا نام دیا گیا ہے اور سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ وہ ستارہ اس بلیک ہول کے گرد چکر لگا رہا تھا۔
یہ زمین کے سب سے قریب موجود بلیک ہولز میں دوسرے نمبر پر موجود ہے اور چونکہ اس کے قریب خلائی اجسام موجود نہیں تو ایکسرے ٹیلی اسکوپس کے لیے اس کی تصویر لینا بھی مشکل ہے۔
ای ایس اے کی ٹیم نے زمین پر موجود ٹیلی اسکوپس کو استعمال کرکے اس نو دریافت شدہ بلیک ہول کے حجم کی تصدیق کی جبکہ اس حوالے سے ابتدائی نتائج بھی ایک مقالے میں جاری کیے گئے۔
خیال رہے کہ کائنات کے اسراروں میں سے ایک اسرار بلیک ہول بھی ہے، جسے جاننے اور سمجھنے کے لیے سائنسدان تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔
بلیک ہول کائنات کا وہ اسرار ہے، جسے کئی نام دیے گئے ہیں، کبھی اسے ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کہا جاتا ہے تو کبھی موت کا گڑھا۔۔
کوئی بھی ستارہ بلیک ہول اس وقت بنتا ہے، جب اس کے تمام مادے کو چھوٹی جگہ میں قید کر دیا جائے۔ اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں مقید کردیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہوجائے گا۔