انٹرنیٹ کے باوا اس کے مستقبل سے خوفزدہ کیوں ہیں؟

ویب ڈیسک

انٹرنیٹ بنانے میں شامل حضرات نے انٹرنیٹ کو لاحق مختلف اقسام کے خطرات کی نشاندھی کی ہے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ خطرات نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ اس کا استعمال کرنے والے افراد کو بھی خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔

حال ہی میں ’انٹرنیٹ کے بانیوں‘ میں سے ایک ونٹ سرف نے متنبہ کیا ہے کہ ہم ایک ایسی ٹیکنالوجی پر انحصار بڑھا رہے ہیں، جو ہماری سوچ سے زیادہ نازک ہے

انہوں نے کہا ”ہم ایک ’ڈیجیٹل تاریک دور‘ میں جا سکتے ہیں، جو ہمیں اپنی تاریخ تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر کر دے گا۔“

ونٹ سرف نے ان خیالات کا اظہار رائل سوسائٹی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے انٹرنیٹ کے 50 سال مکمل ہونے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ واضح رہے کہ سرف نے اس طرح کے خیالات کا اظہار پہلی بار نہیں کیا، بلکہ وہ اس سے قبل بھی اس حوالے سے اپنے خدشات کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔

اپنے خطاب میں ونٹ سرف نے متنبہ کیا کہ ویب بھی ہماری زندگی کا ایک بڑھتا ہوا مرکزی حصہ بن رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ ”جب یہ اپنے مقصد کے مطابق کام نہیں کرتی یا برے ارادے اور مقاصد رکھنے والے لوگ اسے استعمال کرتے ہیں تو اس کے نتائج ہوتے ہیں۔“

انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے انٹرنیٹ تقریبا ہر جگہ پھیل گیا ہے، اس وجہ سے لوگ نقصان دہ مقاصد کے لے استعمال کر سکتے ہیں، جیسا کہ رینسم ویئر۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ونٹ سرف نے کہا ”انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی دستیابی کے نتائج یہ ہیں کہ یہ عام عوام کے لیے قابل رسائی ہو گیا ہے، جو کہ اس کی ابتدا میں نہیں تھا اور اس کے نتائج یہ ہیں کہ عام عوام کے کچھ حصے ضرورتاً اچھے ارادے نہیں رکھتے، لہٰذا ان کی ٹیکنالوجی تک رسائی بہت سارے طریقوں سے بہت تعمیری ہے لیکن کچھ بہت تباہ کن بھی ہے۔‘

انہوں نے خبردار کیا کہ ”اس ٹیکنالوجی کے قابل اعتماد ہونے اور لچک کے بارے میں بہت ساری تشویش ہے، جس پر ہم تیزی سے انحصار کر رہے ہیں۔۔ اور یہ کہ ہم سافٹ ویئر کو بڑھتی ہوئی خود مختاری دے رہے ہیں کہ وہ ہماری طرف سے ایسے اقدامات کریں جنہیں ہم شاید سمجھ نہ پائیں۔ مثال کے طور پر ہم اپنے موبائل پر ان کی ’سہولت اور افادیت‘ کی وجہ سے بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، لیکن جب وہ خراب ہو جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے استعمال کرنے کے لیے ’کوئی متبادل‘ نہ ہو، جس سے ہم انتہائی کمزور سسٹمز کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔“

ونٹ سرف نے یہ بھی مشورہ دیا کہ کمزوری مستقبل میں بھی رہتی ہے۔ آج ہمارے پاس جو ڈیجیٹل میڈیا ہے، اس میں سے کوئی بھی اس کاغذ کی طرح کچھ بھی نہیں ہے، جو ہم پہلے استعمال کرتے تھے، لہٰذا ہم اب ان فائلوں تک رسائی حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے، جو ہمیں ہماری تاریخ کی سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا ”میں سوچنے لگا ہوں کہ ہمیں کس قسم کا ایکو سسٹم بنانا ہوگا جو ہر کسی کو یقین دلائے کہ ڈیجیٹل مواد کی کچھ سنجیدہ لمبی عمر ہے۔“

ونٹ سرف نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ انہیں حال ہی میں کچھ فلاپی ڈسک ملے ہیں، جن میں صرف چند دہائیوں پہلے بنائی گئی فائلیں شامل ہیں، جو اب پڑھی نہیں جا سکتیں۔ انہوں نے کہا ”یہ سوچنا شرمناک ہے کہ پانچ یا چھ ہزار سال پہلے پکی ہوئی مٹی کی بنائے گئے ٹیبلٹس اب بھی قابلِ فہم ہیں۔“

ونٹ سرف کا مزید کہنا تھا کہ ان مسائل کو حل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ’اپنے پورے ایکو سسٹم پر دوبارہ غور کرنا‘ ہوگا، جس میں نئے قانونی ڈھانچے اور بین الاقوامی معاہدوں کے ساتھ ساتھ ایسی ٹیکنالوجی بھی شامل ہوگی تاکہ ہم اپنے ڈیجیٹل ماحول پر انحصار کر سکیں۔

مثال کے طور پر اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ایک نیا ’ڈیجیٹل سماجی معاہدہ‘ لکھنا، جس میں لوگوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ آن لائن دنیا کے ساتھ بات چیت کرنے کے طریقے کے لیے زیادہ ذمہ دار بنیں۔

ونٹ سرف نے کہا ”ہمیں ٹیکنالوجی کو محفوظ طریقے سے استعمال کرنے کے بارے میں لوگوں کا وجدان بہتر بنانے اور انہیں اپنے تحفظ کے لیے زیادہ وسائل استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ہمیں زیادہ تنقیدی سوچ اور تنقیدی طور پر سوچنے پر تیار رہنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان معلومات کے بارے میں جو ہمیں ملتی ہیں،“ یہ مسئلہ زبانوں کے بڑے ماڈلز کی وسیع دستیابی کی وجہ سے گھمبیر ہو گیا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ وہ مصنوعی ذہانت کی طاقت کے بارے میں اتنے فکرمند نہیں ہیں، جتنے کچھ دوسرے ٹیکنالوجسٹ ہیں۔ اگرچہ کمپیوٹنگ نے ’حیرت انگیز‘ نئی صلاحیتیں پیدا کیں لیکن مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر خوف ’اسے حقیقت سے زیادہ طاقتور سمجھنے کا نتیجہ ہے‘ جزوی طور پر اس لیے مصنوعی ذہانت کو انسان کی لکھی تحریر کو بنیاد بناتے ہوئے تربیت دی گئی اور اکثر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس طرح بات کرتی ہے، جس طرح ہم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے ابتدائی دنوں میں اکثر یہ امید پائی جاتی تھی کہ آیا اس نظام کا غلط استعمال کیا جائے گا یا نہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ونٹ سرف کا کہنا تھا ”جب ہم نے یہ کام کرنا شروع کیا، تو ہم صرف انجینئروں کا ایک گروپ تھے، اور ہم صرف اتنا کام کرنا چاہتے تھے کہ اس طرح کے دائرے اور پیمانے پر کام کیا جا سکے۔۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس بارے میں زیادہ سوچ رہے تھے کہ کس طرح لوگ اس نظام کا غلط استعمال کر سکتے ہیں، چاہے ان کی نیت آپ کی مدد کرنے کی ہی کیوں نہ ہو۔“

انہوں نے کہا ”سکیورٹی کے بارے میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ویب ٹریفک کو انکرپٹ کرنا تاکہ انٹرنیٹ کے استعمال کے دوران اس کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالی جا سکے۔۔ لیکن ہمیں حفاظت کے بارے میں کم تشویش تھی، لہٰذا اس حقیقت کے بارے میں کم سوچا گیا کہ ٹریفک میں میل ویئر ہو سکتا ہے، جو اس کمپیوٹر پر حملہ کرے گا، جس کے لیے اسے بھیجا گیا“

انہوں نے کہا ، ”اس لیے میرا خیال ہے کہ ہمیں اس ایکوسسٹم کے بارے میں از سرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے جو ہم تخلیق کر رہے ہیں۔ یہ کوئی خیالی شے نہیں بلکہ حقیقی دنیا کے نتائج ہیں۔“

ونٹ سرف کا کہنا تھا ”یہ جغرافیائی و سیاسی معنوں میں ایسی جگہ ہے، جہاں مسابقت کی فضا ہے۔ جہاں آن لائن ماحول میں قومی اور ذاتی سلامتی کے معاملے میں ہمارے خدشات حقیقی ہیں۔۔ اور ہم آپ کو ابتدا میں ہی یقین دلا سکتے ہیں کہ یہ فہرست میں سب سے اوپر نہیں تھا۔ صرف یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ہر کمپیوٹر کے ہر دوسرے کے ساتھ بات کرنے کی صورت میں کیا ہوتا ہے۔“

یونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن میں برطانوی کمپیوٹر سائنسدان ڈیم وینڈی ہال، جنہوں نے ویب کے کچھ بنیادی نظام بنانے میں مدد کی، نے اسی تقریب کے دوران برطانوی نشریاتی ادارے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ انٹرنیٹ کے مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں۔

ان کا کہنا تھا ”انٹرنیٹ، وہ بنیادی ڈھانچہ ایک کمپیوٹر دوسرے کے ساتھ کیسے بات کرے گا، اسے تقریباً پچاس برس ہو چکے ہیں۔ اور یہ دور میں قائم رہا حتیٰ کہ کووڈ میں بھی۔۔ 2020 میں ہم سب نے اسے بہت زیادہ استعمال کیا اور یہ موجود اور قائم کرتا رہا۔۔ اور تصور میں لائیں کہ انٹرنیٹ یا ویب کے بغیر کووڈ کیسا ہوتا۔“

تاہم ڈیم وینڈی نے ابتدائی انٹرنیٹ اور ویب کی تاریخ سے سبق سیکھنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اتفاق کیا کہ مصنوعی ذہانت بالآخر ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ اپنے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ ڈیم وینڈی مصنوعی ذہانت سے متعلق اقوام متحدہ کے مشاورتی ادارے میں بھی کام کرتی ہیں، جس کا مقصد بین الاقوامی گورننس کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ ان خطرات سے بچا جا سکے

ان کا کہنا تھا ”خود ویب کے مقابلے میں مصنوعی ذہانت ممکنہ طور پر زیادہ خطرناک ہے۔ میں کوئی ایسا فرد نہیں جو یہ کہے کہ اگلے سال یا مختصر وقت میں ہمیں حقیقی خطرے کا سامنا ہوگا، لیکن اگر ہم نے مصنوعی ذہانت کو اپنے ہاتھ سے جانے دیا تو اسے وہ لوگ استعمال کریں گے، جن کے مقاصد اچھے نہیں۔“

انہوں نے کہا ”اگر ہم نے مصنوعی ذہانت کو قابو سے باہر ہونے دیا تو ایسے کام ہوں جنہیں ہمیں نہیں روک سکتے، ان کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو، ہمیں مسئلے کا سامنا ہے۔“

ڈیم وینڈی نے اس بات کو یقینی بنانے کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا کہ ٹیکنالوجی ہر ایک کے لیے مفید ہے لیکن اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ٹیکنالوجی عالمی جنوب کے لوگوں کے ساتھ ساتھ امیر ممالک میں بھی دستیاب ہو اور لوگوں کو مصنوعی ذہانت کے بدنیت عناصر سے محفوظ رکھا جائے

انہوں نے مزید خطرات کی طرف اشارہ کیا، جن پر دفاع اور سلامتی کے شعبے کو کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ’ہمیں مستقبل میں مصنوعی ذہانت کی ممکنہ جنگوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔‘

تاہم ڈیم وینڈی نے کہا کہ وہ ان ’زبردستی کاموں‘ کے حوالے سے پُرامید ہیں، جنہیں مصنوعی ذہانت انجام دے سکتی ہے، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ ’یہ ہمارے لیے صحت کی تعلیم، توانائی کی فراہمی، غذائی تحفظ‘ اور دوسرے شعبوں میں کیسے مددگار ثابت ہوگی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا ”ہمیں امید ہے کہ دنیا گڈگورننس کے لیے اکٹھی ہوگی، لیکن اب بھی یہ اہم کام انجام دینے کی ضرورت ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close