کسی بھی سیارے پر زندگی کے لیے ضروری عنصر پانی کی تلاش، دہائیوں سے بے نتیجہ رہی ہے۔ کرہ ارض کا قریب ترین ساتھی، چاند بھی اس معاملے میں مایوس کن سگنل دے رہا تھا، کیونکہ ابتدائی اپولو مشنز نے یہاں پانی کی کوئی نشانی رپورٹ نہیں کی تھی۔
تاہم، حال ہی میں ایک اہم دریافت میں، چینی سائنسدانوں نے چاند کی مٹی میں پانی کے مالیکیول دریافت کیے ہیں، جس سے ہمارے چاند کی ترکیب اور ممکنہ صلاحیت کے بارے میں ہماری سمجھ بدل گئی ہے
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے مطابق، چاند کی سطح سے اکٹھے کیے گئے چٹان کے نمونوں میں ’ہائیڈریٹڈ مالیکیولز‘ سے بھرے کرسٹل موجود ہیں۔
چانگے (چانگ-اَ) فائیو (Chang’e-5) مشن نے اس چاند پر پانی کے آثار نہ ہونے کے دیرینہ نظریے کو الٹ دیا ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ ہمارا قریبی آسمانی ہمسایہ پہلے سے کہیں زیادہ راز چھپائے ہوئے ہو سکتا ہے۔ یہ دریافت نہ صرف سائنسی تحقیق کے نئے دروازے کھولتی ہے بلکہ مستقبل میں چاند کے وسائل کے استعمال کے لئے بے شمار امکانات کے دروازے بھی کھولتی ہے۔
خلا کی گہرائیوں اور دوسرے سیاروں پر جانے کے لیے سائنس دان چاند کو ایک پڑاؤ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ چاند پر پانی کی موجودگی ان کی کوششوں کو حقیقت کے زیادہ قریب لا سکتی ہے۔
ابتدا میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ چاند ایک سنگلاخ اور خشک سیارچہ ہے اور وہاں پانی کی موجودگی کا امکان نہیں ہے۔ کئی دہائیوں قبل امریکی اپولو مشنز چاند کی مٹی میں پانی نہ پانے کے باعث خالی ہاتھ واپس آئے تھے۔ ناسا نے چاند کی جانب راکٹ بھیجنے شروع کیے اور پھر اپالو کی مہمات میں چاند کی سطح پر خلاباز اتارے گئے جو واپسی پر مٹی اور چٹانوں کے نمونے بھی اپنے ساتھ لائے تو ان میں پانی ڈھونڈنے کی کوششیں کیں گئیں، لیکن لیبارٹری ٹیسٹ ان میں پانی کی موجودگی ظاہر نہ کر سکے۔جس کے باعث ناسا نے نتیجہ اخذ کیا کہ چاند کی مٹی مکمل طور پر خشک ہے۔
تاہم، 2020 میں چانگے-5 مشن کے ذریعے واپس لائی گئی چاند کی مٹی کا جب چینی سائنسدانوں نے تجزیہ کیا، تو انہوں نے ہائیڈریٹڈ منرلز میں پانی کے مالیکیول دریافت کیے
ایک چینی سائنسدان کا کہنا ہے، ”اگر یہ پانی بردار منرل چاند کے نمونوں میں موجود ہے، تو اس سے زیادہ ایک نمونہ ملنا چاہیے۔“
چاند پر پانی کی تلاش کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ 1960 کی دہائی میں امریکہ کے اپولو مشنز کے دوران، سائنسدانوں نے چاند پر پانی کے ثبوت کی تلاش کی تھی۔
لیکن اپولو کے مٹی کے نمونوں کے ابتدائی تجزیوں نے ’خشک چاند‘ کے نظریے کو مضبوط کیا، اور کئی سالوں تک چاند پر پانی کی موجودگی کے امکان کو ختم کیا۔
واضح رہے کہ سن 2008 میں براؤن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے نئے ترقی یافتہ آلات کی مدد سے انہی پرانے نمونوں کا دوبارہ تجزیہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ آتش فشانی چٹانوں کے نمونوں میں ہائیڈروجن موجود ہے۔
چونکہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنتا ہے تو اس قیاس کو تقویت ملی کہ چاند کے ابتدائی دور میں، جب وہاں آتش فشاں لاوا اگل رہے تھے، پانی موجود تھا اور ممکن ہے کہ کسی شکل میں اب بھی موجود ہو۔
حال ہی میں مائیکرو انالیسس اور ریموٹ سینسنگ میں تکنیکی ترقی نے اس نظریے کو مزید چیلنج کیا ہے، مثال کے طور پر، 2009 میں، بھارت کے چندریان-1 اسپیس کرافٹ نے چاند کے روشن علاقوں میں ہائیڈریٹڈ منرلز کے نشانات دریافت کیے تھے، جن میں آکسیجن اور ہائیڈروجن مالیکیول شامل تھے۔ یوں بھارتی چاند گاڑی چندریان کے بھیجے گئے ڈیٹا کی مدد سے سائنسدانوں نے چاند کا جو تفصیلی نقشہ تیار کیا، اس میں ایک مقام پر پانی کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
2020 میں، ناسا نے چاند کی روشن سطح پر پانی کی موجودگی کا اعلان کیا، انفراریڈ فلکیات کے لیے اسٹرٹوسفیئرک آبزرویٹری کے نتائج کی بنیاد پر، جس نے چاند کے جنوبی نصف کرہ میں زمین سے دکھائی دینے والے سب سے بڑے گڑھوں میں سے ایک، کلیویس کریٹر میں پانی کے مالیکیولز کی نشاندہی کی۔
ان دریافتوں کے باوجود، اونچائی اور قطبی علاقوں سے چاند کے نمونوں کی عدم موجودگی نے چاند کی ہائیڈروجن کی اصل اور کیمیائی شکل کو غیر واضح چھوڑ دیا
اس کے بعد سے، سائنسدان واپس کیے گئے نمونے میں چٹانوں کا تجزیہ کر رہے ہیں اور اب کیمیائی فارمولے (NH4)MgCl3·6H2O کے ساتھ ایک معدنیات کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے، جس میں 40 فی صد سے زیادہ پانی موجود ہے۔
محققین نے مطالعہ میں لکھا ہے، ”امونیم کی موجودگی زیادہ پیچیدہ قمری degassing [آتش فشاں] کی تاریخ کی نشاندہی کرتی ہے اور چاند پر رہائش کے وسائل کے طور پر اس کی صلاحیت کو اجاگر کرتی ہے۔“
اس دریافت سے چین کو چاند پر دستیاب وسائل کے بارے میں اپنی سمجھ کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی، جو اسے مستقبل کے خلائی مشنوں میں استعمال کرنے کی امید ہے ۔
زمین پر پائے جانے والے آتش فشاں چٹانوں سے معدنیات کی مماثلت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ ممکنہ طور پر چاند پر اب معدوم آتش فشاں کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا۔ اور یہ صرف پانی کی موجودگی ہی نہیں ہے جس نے سائنسدانوں کو پرجوش کر دیا ہے – امونیا، راکٹ کے ایندھن کا ایک اور اہم جزو بھی اندر پھنسا ہوا پایا گیا۔
چانگے-5 رواں ماہ آٹھ دسمبر کو چاند کے نمونے لے کر چاند کی سطح سے باہر نکلا تھا۔ چینی اسپیس ایجنسی نے اس موقع پر ایک تصویر بھی جاری کی تھی۔
چاند پر بھیجے جانے والے راکٹوں اور چاند گاڑیوں سے حاصل ہونے والی سائنسی معلومات اور چٹانوں کے نمونوں پر تحقیق کاسلسلہ جاری رہا اور 2020 میں ناسا کے سائنسدانوں نے یہ خبر سنائی کہ چاند کے جنوبی حصے کی کھائیوں اور گڑھوں کی مٹی میں پانی موجود ہے لیکن وہ قلیل مقدار ہے جو ایک کیوبک میٹر مٹی میں محض 12 اونس کے لگ بھگ ہے۔
چین نے خلائی دوڑ میں داخل ہونے کے بعد اپنی تحقیق چاند پر مرکوز کی اور اس نے چانگے سیریز کی چاند گاڑیاں چاند کے مختلف حصوں میں اتاریں۔ چانگے۔5 نے اپنا مشن 2020 میں مکمل کیا اور چاند سے چٹانوں اور مٹی کے نمونے زمین پر لایا، جن پر چین کی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں کام ہوا۔
اب چین کے سائنسدانوں کے ایک گروپ نے ایک سائنسی جریدے نیچر آسٹرونومی میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ میں چاند سے لائے گئے نمونوں میں پانی کے مستند آثار کا دعویٰ کیا ہے۔
آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ چانگے۔5 نے یہ نمونے چاند کے اونچائی والے ان حصوں سے اکھٹے کیے، جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں پانی نمکیات کی شکل میں پانی کی موجودگی کا امکان نمایاں طور پر زیادہ ہے۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف فزکس اور چینی یونیورسٹیوں کے ماہرین اور سائنسدانوں نے چانگے۔5 کے لائے ہوئے نمونوں میں ایک مرکب یو ایل ایم ون دریافت کیا ہے، جس میں پانی اور امونیم کے مالیکیولز پائے گئے ہیں۔
چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس مرکب میں پانی کے مالیکیولز کی تعداد 41 فی صد ہے۔
اس سلسلے میں مزید دریافتوں کی توقع ہے، جب جون میں چین کے چانگ ای-6 مشن کی واپسی ہوگی، جو چاند کے قدیم ترین بیسن کے دور دراز علاقے سے 2 کلو گرام تک مواد واپس لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ اپالو سیریز کے اختتام کے لگ بھگ چالیس برسوں کے بعد چانگے۔5 چاند سے مٹی اور چٹانوں کے نمونے لانے والا پہلا مشن تھا۔
چین نے پچھلی دہائی کے دوران اپنے خلائی پروگرام پر بہت زیادہ وسائل صرف کیے ہیں اور اس کا دائرہ نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے۔ وہ روایتی خلائی طاقتوں امریکہ اور روس کے مقابلے میں آنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین نہ صرف روس اور امریکہ کے بعد اپنے خلابازوں کو زمین کے مدار سے باہر بھیجنے والا تیسرا ملک بن چکا ہے بلکہ اس نے خلا میں اپنا ایک الگ خلائی اسٹیشن بھی قائم کر لیا ہے۔
چین 2030 تک چاند پر اپنے خلاباز اتارنے اور وہاں اپنا ایک سائنسی مرکز بنانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔
چین واحد ملک نہیں ہے جو چاند کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے – ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے پہلے کہا تھا کہ چین کے قمری مشن کی رفتار اور پیشرفت نے ملک کو چاند کے قطب جنوب میں جانے کے لیے امریکہ کے ساتھ دوڑ میں ڈال دیا ہے۔
بل نیلسن کا کہنا تھا، ”میری تشویش یہ ہے کہ وہ پہلے وہاں پہنچیں اور پھر کہیں: ’یہ ہمارا علاقہ ہے، آپ باہر رہیں‘ کیونکہ چاند کا قطب جنوبی ایک اہم حصہ ہے۔ سوچو کہ وہاں پانی ہے، اور اگر پانی ہے، تو راکٹ کا ایندھن ہے۔“