اس زمین پر بستے انسان نے ہمیشہ آسمان کو ایک افسانوی دُنیا جیسا پایا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر دور کا انسان اپنے سر پہ منڈلاتی جادوئی دُنیا کے راز جاننے کے لئے ہمیشہ متجسس اور پرجوش رہا ہے۔ یہ اس کائنات کا سحر ہی ہے، جس نے انسان کو ایک کھوج میں مصروف رکھا ہے اور انسان کئی کٹھنائیوں سے گزر کر آج انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن ISS کو ممکن بنا کر خلا میں رہ رہا ہے۔ زمین سے لگ بھگ چار سو کلومیٹر کی اونچائی پہ اڑنے والا یہ اسٹیشن بلاشبہ انسانی ہاتھوں سے بنا ایک عظیم کارنامہ ہے
یہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن، خلا میں انسان کا پہلا گھر ہے۔ جہاں انسان زمین سے باہر رہنے اور خود کو نئے ماحول میں ڈھالنا سیکھ رہا ہے، جو خلا میں تیرتی ہوئی بستیاں بسانے اور دور دراز کے سیاروں میں آباد ہونے میں اسے مدد دے گا۔
سائنسدان اب تک ہزاروں سیٹلائیٹس خلاء میں بھیج چکے ہیں، ان میں سے تقریباً سات ہزار سیٹلائٹس اب بھی فعال ہیں اور اس وقت بھی زمین کے گرد چکر لگا رہے ہیں، جبکہ باقی غیر فعال یا خلا میں ملبے کی شکل میں موجود ہیں۔ یہ تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ نئے سیٹلائٹس کو مسلسل لانچ کیا جا رہا ہے، خاص طور پر جیسے کہ اسپیس ایکس کی اسٹارلنک یا دیگر مواصلاتی پروجیکٹس کی وجہ سے۔
اِن تمام سیٹلائیٹس میں سائز کے لحاظ سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (International Space Station یا ISS) خلاء میں بھیجے جانے والا سب سے بڑا شاہکار ہے۔ اس کو بنانے اور خلاء میں بھیجنے کے لئے امریکہ، روس، جاپان، یورپ اور کینیڈا نے مل کر کام کیا۔ یہ ممالک نہ صرف آئی ایس ایس کی تعمیر اور خلاء میں اس کے قیام کے لیے تعاون کر رہے ہیں بلکہ اس کے روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز، تحقیق اور عملے کی فراہمی میں بھی حصہ لیتے ہیں۔
آئی ایس ایس میں ہر وقت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے چھ سائنسدان موجود رہتے ہیں، یہ سائنسدان شفٹ کی صورت میں چند ماہ کے لئے آتے جاتے رہتے ہیں، ان میں بہت کم سائنسدان وہ خوش نصیب ہوتے ہیں، جنہیں آئی ایس ایس میں دوبارہ قدم رکھنا نصیب ہوتا ہے۔ اب تک بیس سے زائد ممالک کے سائنسدان اور خلانوَرد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (ISS) میں وقت گزار چکے ہیں۔ ان میں امریکہ، روس، کینیڈا، جاپان، اور یورپی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک جیسے کہ اٹلی، فرانس، جرمنی، برازیل، ملائیشیا، جنوبی کوریا، اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ یہ خلانوَرد مختلف سائنسی تحقیق، تجربات اور تکنیکی کاموں کے لیے آئی ایس ایس پر جاتے ہیں۔
اس ضمن میں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ خلائی میدان کے اہم کھلاڑی چین کے خلا باز کبھی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں نہیں رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ امریکہ کی طرف سے عائد پابندیاں ہیں جو کہ 2011 کے ’وولف امینڈمنٹ‘ کے تحت نافذ کی گئی تھیں۔ اس قانون کے تحت ناسا اور امریکہ کے دیگر اداروں کو چین کے ساتھ براہ راست تعاون کرنے سے روکا گیا ہے، جس میں آئی ایس ایس پر چینی خلا بازوں کی موجودگی بھی شامل ہے۔
چین نے اپنی خود کی خلائی اسٹیشن ’تیانگونگ‘ کی تعمیر شروع کی ہے اور اس پر اپنے خلا بازوں کو بھیجا ہے۔ تیانگونگ چین کا مستقل مدار میں موجود خلائی اسٹیشن ہے، جس کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔
بہرحال اتنی اونچائی پہ ہونے اور free falling کے باعث انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں صفر کشش ثقل Zero gravity کو تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ زیرو گریویٹی میں آئی ایس ایس پر متعدد سائنسی، تکنیکی، اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کا مقصد خلا کے ماحول میں مختلف تحقیق اور تجربات کو انجام دینا ہے، جو زمین پر ممکن نہیں ہوتے۔
زیرو گریوٹی کے ماحول کے باعث آئی ایس ایس کو مختلف تجربات کے لئے وقف کر دیا گیا، جن میں سر فہرست لمبے عرصے تک زیرو گریوٹی میں رہتے ہوئے خلائی ماحول کے متعلق آگاہی حاصل کرنا اور اس کے انسان پہ جسمانی و نفسیاتی امکانات دیکھنا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی جانچا جاتا ہے کہ کشش ثقل کی غیر موجودگی کے پودوں اور دیگر جانوروں پہ کیا اثرات ہو سکتے ہیں، اس کے لئے خلائی اسٹیشن میں ایک حصہ (ماڈیول) مختص ہے، جہاں پودے اگائے جاتے ہیں۔
اب تک بیکٹیریا سے لے کر چوہے تک مختلف جانداروں کو خلائی اسٹیشن لے جایا گیا ہے جہاں سائنسدان یہ جان کر حیران رہ گئے کہ مختلف جانداروں نے پانچ منٹ کے اندر اندر خلائی ماحول کو سمجھ لیا اور خلاء میں تیرنا سیکھ لیا۔
آئی ایس ایس پر زیروگریوٹی کے ذریعے ہم مختلف اشیاء کی پراپرٹی کو تجربات کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں، مثلاً جیسے جب یہاں موم بتی جلائی گئی تو اس کا شعلہ سیدھا ہونے کی بجائے گول تھا، جس نے موم بتی کو ڈھانپ کر فوراً بند کر دیا، جس سے معلوم ہوا کہ چونکہ گرم ہوا میں ایٹمز/مالیکیولز دُور ہونے کے باعث گرم ہوا کی کثافت Density کم ہوجاتی ہے، ویسے ہی ٹھنڈی ہوا میں ایٹمز/مالیکیول نزدیک ہونے کے باعث ٹھنڈی ہوا کی کثافت زیادہ ہوجاتی ہے، لہٰذاجب زمین پہ موم بتی جلائی جاتی ہے تو کششِ ثقل کے باعث کم کثافت والی (گرم) ہوا اوپر اٹھ جاتی ہے اور زیادہ کثیف ہوا، جو ٹھنڈی) ہوتی ہے، نیچے آ جاتی ہے۔
اس لیے موم بتی کا شعلہ سیدھا ہوتا ہے، یہی عمل جب ISS میں کیا جائے تو وہاں زیروگریوٹی ہے۔ لہٰذا گرم ہوا اوپر نہیں اٹھتی بلکہ وہیں موجود رہتی ہے، لہٰذا وہاں موم بتی کا شعلہ سیدھا نہیں ہو پاتا اورموم بتی کو گول شکل میں ڈھانپ لیتا ہے، جس وجہ سے موم بتی کو تازہ ہوا مل پاتی اور وہ بجھ جاتی ہے، لہٰذا آپ خلاء میں لکڑی، موم بتی یا ماچس نہیں جلا سکتے۔
ایسے کئی حیران کن تجربات انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں کیے گئے ہیں، جن کی مدد سے کئی مظاہر کی نئی شکلیں ہمیں دیکھنے کو ملی ہیں۔
آئی ایس ایس میں چھوٹے راکٹس بھی موجود ہوتے ہیں جن کو استعمال میں لاتے ہوئے بغیر زمینی مدد کے بھی یہ خود کو چار سو کلومیٹر کی بلندی پر ایڈجسٹ کر لیتی ہے۔
اس خلائی اسٹیشن میں موجود سائنسدان زمین کی فضاء پہ تحقیق کے ساتھ ساتھ کائنات کے مختلف مظاہر کو بھی سمجھنے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروفِ عمل ہیں، جن میں ڈارک میٹر، اینٹی میٹر، کاسمک ریز کو سمجھنے کی کوششیں شامل ہیں۔
چونکہ سائنسدانوں کا اگلا ہدف مریخ پر قدم جمانا ہے، آئی ایس ایس اس مقصد کے لیے کلیدی تجربہ گاہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ سال پہلے رُوسی سائنسدان نے مطالبہ کیا کہ آئی ایس ایس میں جانے والے سائنسدانوں کو مریخ کے سفر کی ٹریننگ بھی دی جانی چاہیے کیونکہ مریخ کا سفر نو ماہ سے دو سال تک طویل ہو سکتا ہے لہٰذا اس اسٹیشن کو ایک ٹیسٹ فلائٹ بنایا جائے اور سائنسدانوں کو لمبے عرصے کے لئے وہاں رکھا جائے تاکہ لمبے عرصے تک ریڈیشنز میں رہنے اور کشش ثقل کی غیرموجودگی کے جسمانی نقصانات کا آئیڈیا ہو سکے، اس کے علاوہ شدید تنہائی ہونے کے باعث ذہنی صحت کے متعلق بھی رپورٹ تیار کی جا سکے
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر خلا باز مسلسل ایک سال کے عرصے تک بھی رہے ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور مشن امریکی خلا باز اسکاٹ کیلی اور روسی خلا باز میخائل کورنینکو کا تھا، جنہوں نے مارچ 2015 سے مارچ 2016 تک آئی ایس ایس پر تقریباً 340 دن گزارے۔ یہ مشن ناسا اور روسی خلائی ایجنسی روسکوسموس کے مشترکہ پروگرام کا حصہ تھا، جس کا مقصد طویل مدتی خلا میں قیام کے انسانی جسم پر اثرات کا مطالعہ کرنا تھا۔
اس طویل مشن کے دوران خلا بازوں کی صحت، نفسیاتی حالت، اور جسمانی کارکردگی کا بغور مطالعہ کیا گیا تاکہ مستقبل میں مریخ یا دیگر دور دراز مقامات پر جانے والے مشنوں کے لیے تیاری کی جا سکے۔
اب تک آئی ایس ایس میں قیام کے دوران کسی خلاباز کی موت واقع نہیں ہوئی ہے۔ البتہ، خلا میں حادثات اور اموات کی مثالیں موجود ہیں، لیکن وہ آئی ایس ایس سے متعلق نہیں ہیں۔
انٹرنیشل اسپیس اسٹیشن کے سائنسدان خلاء میں مختلف تجربات کے علاوہ زمین کے باسیوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ وہ تعلیمی اداروں سے بذریعہ انٹرنیٹ رابطہ کرتے ہیں، خلاء کے نظارے دکھانے کے ساتھ ساتھ ان کے سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں ، جس وجہ سے ترقی یافتہ ممالک کے طلباء میں فلکیات کی جانب رغبت زیادہ پائی جاتی ہے،۔
زمین سے تقریباً چار سو کلومیٹر دوری پر 7.6 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرنے والے خلائی اسٹیشن میں زندگی کی شروعات 2 نومبر 2000 میں ہوئی تھی۔ اب تک وہاں دنیا کے بیس ملکوں کے دو سو ساٹھ سے زیادہ افراد جا چکے ہیں، جن میں سے کچھ وہاں ایک برس سے زیادہ قیام بھی کر چکے ہیں۔ اب خلا کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھل رہے ہیں۔ اور اسپس ایکس جیسی پرائیویٹ فلائٹس سے لوگوں کی خلا میں آمد و رفت شروع ہو گئی ہے۔
ذیل کی سطور میں ہم آپ یہ بتائیں گے کہ خلا میں تیرتے ہوئے پہلے انسانی گھر میں روز و شب کیسے ہوتے ہیں اور وہاں موجود خلا باز کس طرح زندگی گزارتے ہیں
خلائی اسٹیشن پر جانے والوں کو پہلا تجربہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے دن اور رات بہت چھوٹے ہیں اور ہر پینتالیس منٹ کے بعد وہاں سورج کو نکلتے اور غروب ہوتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، کیونکہ خلائی اسٹیشن زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور نوے منٹ یعنی ڈیڑھ گھنٹے میں وہ اپنا چکر مکمل کر لیتا ہے۔ تاہم خلائی اسٹیشن میں روزمرہ کے معمولات زمین کے چوبیس گھنٹے والے کلاک کے مطابق چلتے ہیں۔
خلائی اسٹیشن کے تین بنیادی حصے ہیں۔ پہلا ڈاکنگ ایریا ہے، جس سے خلائی جہاز آ کر جڑتے ہیں اور اس راستے سامان لایا یا بھیجا جاتا ہے اور خلابازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ دوسرا حصہ رہائشی ہے، جس میں لگ بھگ پانچ لوگوں کی گنجائش ہے، جس میں ٹوائلٹ اور کھانے کی میز اور اوَن بھی موجود ہے۔ تیسرا حصہ تجربہ گاہوں پر مشتمل ہے۔
خلائی اسٹیشن کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ خلا باز وہاں بیمار نہیں ہوتے کیونکہ خلا میں جراثیم یا وائرس موجود نہیں ہے۔ وہاں جراثیم صرف خلابازوں کے ساتھ ہی جا سکتے ہیں، اور اس صورتحال سے بچنے کے لیے بہت احتیاط کی جاتی ہے۔
لیکن بہرحال جراثیم نہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ خلا باز وہاں بلکل بھی بیمار نہیں ہوتے۔ وہاں صحت کو متاثر کرنے والی کئی اور چیزیں موجود ہیں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ وہاں کششِ ثقل نہیں ہے۔ چنانچہ وہاں انسان پاؤں پر کھڑے ہونے کی بجائے غبارے کی طرح تیرنا شروع کر دیتے ہیں اور انہیں کھڑا ہونے کے لیے کسی چیز کو پکڑنے اور سہارا لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔
خلائی اسٹیشن میں جاتے ہی سر بھاری ہونا اور چہرے پر سوجن آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کی جی متلانے اور چکر بھی آنے لگیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کشش ثقل کا نہ ہونے سے پاؤں کی جانب خون کی گردش سست پڑ جاتی ہے اور اس کا رخ چہرے کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس پر قابو پانے کا طریقہ ورزش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلائی اسٹیشن میں خلاباز روزانہ دو گھنٹے تک ورزش کرتے ہیں۔ وہاں ٹریڈ مل اور ایکسرسائز سائیکل موجود ہے۔
ورزش اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر خلا باز اپنی ٹانگوں کو حرکت نہیں دیں گے تو ٹانگوں کے اعصاب کمزور ہو جائیں گے اور چلنا پھرنا مشکل ہوتا جائے گا۔
خلائی اسٹیشن میں سونے میں بھی پیش آتی ہے کیونکہ وہاں ہر 45 منٹ کے بعد دن اور 45 منٹ کے بعد رات ہو جاتی ہے۔ دوسرا خلائی اسٹیشن میں نصب آلات اور مشینوں کا شور بہت ہے اور تیسرا یہ کہ بے وزنی کی وجہ سے انسان بستر پر ٹک نہیں سکتے اور لڑھک سکتے ہیں۔ لیکن آنکھوں پر موٹا غلاف چڑھا کر، کانوں کو بند کر کے اور خود کو بستر کے ساتھ باندھ کر نیند لی جاتی ہے۔ شروع میں تو مشکل ہوتی ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کی عادت ہو جاتی ہے، اور ویسے بھی خلا بازوں کو ان حالات سے نمٹنے کے لیے خاص ترتیب دی جاتی ہے۔
ہاں مگر کھانے کے معاملے میں زیادہ مشکل نہیں ہوتی کیونکہ جو کچھ ہمیں کھانے کے لیے زمین پر ملتا ہے، تقریباً وہ سبھی چیزیں خلائی اسٹیشن پر بھی دستیاب ہیں۔ آپ کا دل کسی خاص چیز کو کھانے کو چاہے تو آپ منگوا سکتے ہیں۔ زمینی مرکز سے تقریباً ہر دو مہینے کے بعد خلائی اسٹیشن کے لیے سپلائی جاتی ہے۔ اور کبھی کبھار تو اس میں آئس کریم بھی شامل ہوتی ہے، جسے خلاباز بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ خلائی اسٹیشن میں آئس کریم اسٹاک نہیں کی جا سکتی کیونکہ فریزر بہت چھوٹا ہے اور اسے زیادہ تر سائنسی تجربات کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
خلائی اسٹیشن میں کھانے کی کافی ورائٹی ہے۔ کھانے کی شکل مختلف ہو سکتی ہے لیکن تقریباً سبھی کچھ مل جاتا ہے۔ ناشتے میں دلیہ، دودھ، دہی، مختلف قسم کی آملیٹ، سوپ، پھل اور کافی دستیاب ہے۔
دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے بھی بہت کچھ موجود ہے۔ چکن، بیف، مچھلی، جھینگے، چاول، سبزیاں اور پھل اور کئی طرح کے مشروبات مل سکتے ہیں۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ زمین سے سپلائی کب آئی تھی۔ مشروبات زیادہ تر ٹوتھ پیسٹ جیسی ٹیوب میں ہوتے ہیں، جنہیں دبا کر منہ میں ڈالا جاتا ہے۔ کیونکہ بے وزنی کی وجہ سے پانی اور مشروبات گولے سے بن کر تیرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ انہیں پینے کی بجائے چوسنا پڑتا ہے، لیکن اب ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوئی ہے جس سے پانی وغیرہ کو پینا ممکن ہو گیا ہے۔
خلائی اسٹیشن پر خلا بازوں کو مشہور برینڈ کے کیچپ اور چٹنیاں بھی مل جاتی ہیں اور بے وزنی کی کیفیت اور منہ کے خراب ذائقے کے باعث وہ انہیں شوق سے کھاتے ہیں۔
کھانے کے پیکٹ یا ڈبے کو عام طور پر اوَن میں گرم کر کے کھایا جاتا ہے۔ یہ اون گرم ہوا کے اصول پر کام کرتا ہے۔ آپ چاہیں تو اپنا کھانا خود تیار کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے خوراک کے پسے ہوئے پیکٹ موجود ہیں۔ آپ اس میں پانی ڈال کر گرم کر لیں
خلائی اسٹیشن کو بھیجی جانے والی سپلائی کی بات چل رہی ہے تو ذرا اس کے اخراجات کے بارے میں مزید بات بھی ہو جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ناسا نے سال میں پانچ سپلائز خلائی اسٹیشن تک پہنچانے کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا معاہدہ کیا ہے۔ جب کہ وزن کے حساب سے سامان کی قیمت اس کے علاوہ ہے۔
پانی خلائی اسٹیشن کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہے، کیونکہ پانی زمین سے آتا ہے اور وہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ زمین سے خلائی اسٹشن میں ایک گیلن پانی پہنچانے کے اخراجات 83 ہزار ڈالر سے زیادہ ہیں۔خلائی اسٹیشن بھیجی جانے والی سپلائی میں چونکہ اور بھی بہت سی چیزیں شامل ہوتی ہیں، اس لیے پانی کی ایک محدود مقدار ہی بھیجی جا سکتی ہے۔
پانی کی بچت کے لیے خلائی اسٹیشن میں فلٹریشن اور ری سائیکلنگ کا خصوصی نظام نصب کیا گیا ہے۔ یہ نظام استعمال شدہ پانی سمیت پیشاب کو بھی صاف کر کے دوبارہ پینے کے قابل بنا دیتا ہے۔ چنانچہ کافی بنانے اور پینے میں یہی پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ کافی پیتے ہوئے خلاباز عموماً مذاق میں یہ کہتے ہیں کہ یہ وہی کافی ہے، جو ہم نے پرسوں پی کر خارج کر دی تھی۔
خلائی اسٹیشن میں کئی ملکوں کے خلاباز جاتے ہیں جن میں روسی بھی شامل ہیں۔ وہ پیشاب کو صاف کر کے بنایا جانے والا پانی استعمال نہیں کرتے، اس لیے انہوں نے اپنا الگ فلٹریشن پلانٹ نصب کیا ہے۔
خلائی اسٹیشن کا فلٹریشن پلانٹ اتنا طاقت ور ہے کہ خلا بازوں کے پسینے اور سانس میں موجود نمی میں سے بھی پانی چوس کر اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنا دیتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلائی اسٹیشن میں استعمال کیا جانے والا تقریباً اٹھانوے فی صد پانی دوبارہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔
خلائی اسٹیشن میں پانی ایک اور لیکن سب سے اہم مقصد کے لیے بھی استعمال جاتا ہے اور وہ ہے آکسیجن تیار کرنا، جو ہماری زندگی کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کے بغیر چند منٹ بھی زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ خلائی اسٹیشن کا ایک پلانٹ پانی کے ایٹم کو توڑ کر اسے آکسیجن اور ہائیڈروجن گیس میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد ہائیڈروجن کو خلا میں خارج کر دیا جاتا ہے ۔
خلائی جہاز میں ہوا کا دباؤ اتنا ہی رکھا جاتا ہے جتنا کہ زمین پر ہے اور ہوا میں آکسیجن کا تناسب بھی زمین جیسا ہی رکھا جاتا ہے، چنانچہ خلا بازوں کو خلائی جہاز کے اندر سانس لینے کے لیے ماسک لگانے اور خلائی لباس پہننے کی ضرورت نہیں رہتی اور وہ نیکر اور بنیان میں بھی آرام سے وقت گزار سکتے ہیں۔
خلائی اسٹیشن میں نہایا بھی جا سکتا ہے، لیکن وہاں کا غسل زمینی غسل سے بہت مختلف ہے۔ نہانے کے لیے دو تولیے استعمال کیے جاتے ہیں، ایک گیلا اور دوسرا خشک، گیلے تولیے سے خلا باز جسم کو صاف کرتے ہیں اور خشک تولیے سے اسے پونچھ لیتے ہیں۔ سر دھونے کے لیے ایک خاص شیمپو ہے جو پانی کے بغیر ہی بالوں کو صاف کر دیتا ہے۔
ٹوتھ پیسٹ چیونگم جیسا ہے جسے چبا کر نگل لیتے ہیں اور دانت صاف ہو جاتے ہیں۔
ٹوائلٹ میں پیشاب اور فضلہ الگ الگ حصوں میں جاتا ہے۔ پیشاب کو ری سائیکل کر لیا جاتا ہے، جب کہ فضلے کو ایک کنٹیز میں بند کر کے زمین پر جانے سامان کے ساتھ بھیج دیا جاتا ہے۔ جب راکٹ زمین کے فضائی کرے میں داخل ہوتا ہے تو اس کنٹینر کو کھول دیا جاتا ہے ۔ فضلہ فضا میں بکھر کر ہوا کی رگڑ سے جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔
خلائی اسٹیشن کو زیادہ سے زیادہ خودکفیل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ زمین کی سپلائز پر اس کا انحصار کم سے کم کیا جا سکے۔ سائنس دان خلا میں سبزیاں اگانے اور قدرتی عمل کے ذریعے آکسیجن بنانے کے بھی تجربات کر رہے ہیں۔
خلائی اسٹیشن اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کر رہا ہے اور اس کے شمسی پینل 90 کلوواٹ تک بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خلائی اسٹیشن میں زمین سے رابطے کو ایک مربوط نظام موجود ہے اور آپ وہاں سے نمبر گھما کر دنیا بھر میں کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں۔