دنیا کی دو تہائی فعال سیٹلائٹس کا کنٹرول رکھنے والے ’خلائی بادشاہ‘ ایلون مسک اور ان کا خواب

ویب ڈیسک

28 جون 1971 کو پریٹوریا، جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے اور صرف بارہ سال کی عمر میں خود سے کمپیوٹر پروگرامنگ سیکھ کر اپنا پہلا ویڈیو گیم ’Blastar‘ بنا کر پانچ سو ڈالر میں فروخت کرنے والے ایلون مسک رواں ہفتے اسٹار لنک کے سات ہزار ویں سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے بعد اب زمین کے گرد گردش کرنے والے تمام فعال سیٹلائٹس کے تقریباً دو تہائی کو کنٹرول کرنے والے واحد فرد بن گئے ہیں۔

ایلون مسک کی خلائی کمپنی اسپیس ایکس، انٹرنیٹ سیٹلائٹ کانسٹیلیشن کو بناتی اور آپریٹ کرتی ہے اور 2019 میں پہلے سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد سے ہر روز اس نیٹ ورک میں اوسطاً تین سیٹلائٹس کا اضافہ ہو رہا ہے۔

سیٹلائٹ ٹریکر ’سیلس ٹریک‘ کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسپیس ایکس کے پاس زمین کے نچلے مدار میں اسٹار لنک کے چھ ہزار 370 فعال سیٹلائٹس ہیں، جن میں کئی سو سے زیادہ غیر فعال یا ڈی آربٹڈ ہیں یعنی مدار سے بھٹک چکے ہیں

یہ اعداد و شمار صرف تین سالوں میں چھ گنا سے زیادہ بڑھ گئے ہیں، جو اب تمام آپریشنل سیٹلائٹس کے 62 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں اور اسٹار لنک کے قریب ترین حریف برطانوی اسٹارٹ اپ ’ون ویب‘ کے مصنوعی سیاروں کی تعداد سے تقریباً دس گنا زیادہ ہیں۔

یہ فرم، جو فرانسیسی سیٹلائٹ کمپنی یوٹلسیٹ کی ذیلی کمپنی ہے، یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے 2022 میں روس کے خلائی ادارے ’سویوز‘ کے ساتھ لانچنگ منسوخ ہونے کے بعد اپنے سیٹلائٹس کو خلا میں پہنچانے کے لیے اسپیس راکٹوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوئی۔

ایلون مسک کی اسٹار لنک سروس کا مقصد زمین کے دور دراز علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کرنا ہے، جو کہ تجارتی لحاظ سے ایک اہم اقدام ہے۔ اس کے ذریعے وہ عالمی انٹرنیٹ مارکیٹ پر بڑی حد تک قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

اسپیس ایکس کا منصوبہ ہے کہ وہ اسٹارلنک کانسٹیلیشن کو مکمل کرنے کے لیے بیالیس ہزار سیٹلائٹس لانچ کرے گا، جو دنیا کے کسی بھی کونے میں تیز رفتار انٹرنیٹ اور فون کنیکٹیویٹی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسٹار لنک اس وقت ایک سو دو ملکوں میں کام کر رہی ہے، جہاں اس کے زمینی ڈش کے ذریعے نیٹ ورک تک رسائی کے لیے ماہانہ تین سو ڈالر فیس ادا کرنے والے تیس لاکھ سے زیادہ صارفین ہیں۔

کمپنی کو توقع ہے کہ وہ اپنی سروس مزید درجنوں ممالک میں شروع کرے گی، لیکن صرف افغانستان، چین، ایران، شمالی کوریا، روس اور شام انٹرنیٹ پابندیوں یا تجارتی پابندیوں کی وجہ سے موجودہ فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

ایلون مسک نے اسپیس ایکس کے تازہ ترین سٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد ان کے زیرِ ملکیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا، ”اسٹار لنک اب زمین کے تمام فعال سیٹلائٹس کا تقریباً دو تہائی حصہ بن چکا ہے، جن میں جمعرات کو فلوریڈا سے فالکن9 راکٹ کے ذریعے اکیس مزید اسٹار لنکس خلا میں بھیجے گئے تھے۔“

دنیا کی دو تہائی فعال سیٹلائٹس کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اسپیس ایکس کے غلبے نے دنیا کے امیر ترین شخص کے اسپیس ایکس اور اسٹار لنک نیٹ ورک پر کنٹرول کے ذریعے حاصل کی گئی طاقت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے، خاص طور پر وہ ممالک جن کی قومی سلامتی اور مواصلاتی نظام پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔

ان ممالک کا ماننا ہے کہ اگر ایک پرائیویٹ کمپنی کے پاس اتنی بڑی تعداد میں سیٹلائٹس کا کنٹرول ہو، تو وہ ان ممالک کی مواصلاتی، فوجی، اور خلائی سرگرمیوں کو مانیٹر کر سکتی ہے۔ یہ ممالک اپنے مواصلاتی نظام کی حفاظت اور جاسوسی کے خطرات سے بچنے کے لیے محتاط ہیں۔

بہت سے ممالک کو اس بات کا خوف ہے کہ ایلون مسک کی اسٹار لنک سروس ان کے اپنے قومی مواصلاتی نظام پر اثر انداز ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان ترقی پذیر ممالک میں جو مواصلاتی سہولیات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مختلف ممالک کو اس بات پر تشویش ہے کہ ایلون مسک کے سیٹلائٹس بین الاقوامی ریگولیشنز کی پابندی کیے بغیر خلائی ٹریفک میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں، جس سے مستقبل میں تصادم اور سیٹلائٹس کی خرابی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

ان تمام خدشات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ایک ہی شخص یا کمپنی کو سیٹلائٹس اور انٹرنیٹ نیٹ ورک پر بہت زیادہ کنٹرول مل جائے، تو اس کا اثر عالمی سیاست، دفاع اور اقتصادیات پر بھی ہو سکتا ہے۔

ایلون مسلک کے عزائم کی بات کریں تو وہ اسٹار لنک کے ذریعے دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی فراہمی کو ممکن بنا کر وہ ایک عالمی نیٹ ورک قائم کرنا چاہتے ہیں جو انٹرنیٹ کی انحصاری کو کم کرے۔

ایلون مسک کا اسپیس ایکس کے ذریعے سیٹلائٹس کا تسلسل سے لانچ کرنا انہیں خلائی صنعت میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں لا رہا ہے۔ ان کا ایک مقصد مریخ پر انسانوں کی آباد کاری بھی ہے، اور یہ سیٹلائٹس مواصلاتی انفراسٹرکچر کے طور پر اس مشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔

ایلون مسک انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ کے میدان میں ایک مواصلاتی اجارہ داری قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو انہیں مستقبل میں تجارتی اور سیاسی طور پر مضبوط کر سکتا ہے۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ کم زمینی مدار میں سیٹلائٹس بھیجنا مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ سعید موستشا کہتے ہیں ”سیٹلائٹس دوسرے خلائی جہازوں سے ٹکرا سکتے ہیں اور ملبے کے ٹکڑے پیدا کر سکتے ہیں اور یہ ٹکڑے تیز رفتار میں سفر کرتے ہوئے بہت زیادہ نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔“

یاد رہے کہ حال ہی میں اسٹار لنک سیٹلائٹس کے ساتھ کئی قریب قریب ٹکراؤ ہوئے ہیں، جن میں چین کے خلائی اسٹیشن کے ساتھ بھی قریب ٹکراؤ شامل ہے۔

پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر کنگ کہتے ہیں ”اگر بہت زیادہ ٹکڑے بن جائیں، تو یہ کم زمینی مدار کو مستقبل میں ناقابل استعمال بنا سکتے ہیں، اور ہم شاید کم زمینی مدار سے اوپر بلند مداروں میں نہ جا سکیں، جہاں ہمارے نیویگیشنل اور ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائٹس موجود ہیں۔“

اسٹار لنک کے سیٹلائٹس فلکیات دانوں کے لیے بھی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

سورج نکلنے اور غروب ہونے کے وقت، یہ ننگی آنکھ سے نظر آتے ہیں کیونکہ سورج کی روشنی ان کے پروں سے منعکس ہوتی ہے۔

یہ دوربین کی تصاویر پر لکیریں پیدا کر سکتے ہیں، جس سے ستاروں اور سیاروں کا منظر دھندلا جاتا ہے۔

جبکہ اسٹار لنک کا کہنا ہے کہ وہ آسمان میں اپنے سیٹلائٹس کی روشنی کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک انسانوں کو مریخ پر بسانا چاہتے ہیں۔۔ وہ کب تک ایسا کر سکیں گے یہ کہنا تو مشکل ہے، مگر کچھ عرصہ قبل انہوں نے اسٹار شپ کو مریخ پر پہنچانے کی مدت کی ضرور پیشگوئی کر رکھی ہے۔

خیال رہے کہ انسانوں کو چاند اور مریخ پر پہنچانے کے لیے اسپیس ایکس کا تیار کردہ راکٹ اسٹار شپ بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ رواں سال 14 مارچ کو اسٹار شپ نے زمین کے مدار کے گرد اولین پرواز کامیابی سے مکمل کی مگر لینڈنگ کے دوران تباہ ہو گیا۔

اس جزوی کامیابی کے بعد اسپیس ایکس کے چیف ایگزیکٹو نے حیران کن پیشگوئی کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کمپنی کا تیار کردہ راکٹ آئندہ پانچ برسوں میں سرخ سیارے تک پہنچ جائے گا۔

یہ پیشگوئی کافی حیران کن ہے کیونکہ دنیا کا طاقتور ترین راکٹ اسٹار شپ ابھی مکمل طور پر تیار تصور نہیں کیا جا سکتا۔

اسٹار شپ کی آزمائشی پرواز کے بعد ایک ایکس پوسٹ میں ایلون مسک نے یہ بھی کہا کہ یہ راکٹ متعدد سیاروں پر زندگی کو ممکن بنائے گا۔

واضح رہے کہ ناسا کی جانب سے 2026 میں آرٹیمس 3 مشن کے تحت انسانوں کو چاند کی سطح پر اتارا جائے گا اور یہ کام اسٹار شپ کی مدد سے ہوگا

مگر اسٹار شپ کی تیاری میں تاخیر سے ناسا کا آرٹیمس 3 مشن بھی التوا کا شکار ہو سکتا ہے تو مریخ پر پانچ برس کے اندر اس کے پہنچنے کی بات ناقابل یقین لگتی ہے۔

مریخ پر پہنچنا ایلون مسک کا پرانا خواب ہے اور دسمبر 2023 میں ایک ایکس پوسٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ انسانوں کو زمین سے باہر نکل کر چاند پر بَیس اور مریخ پر شہر تعمیر کرنے چاہیے۔

اگست 2022 میں ایک جریدے کے لیے تحریر کیے گئے مضمون میں ایلون مسک نے کہا تھا کہ انسانی تہذیب کو دیگر سیاروں تک جانے کے قابل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا ”اگر زمین رہائش کے قابل نہ رہے تو ہمیں ایک خلائی طیارے سے نئے گھر کی جانب پرواز کرنا ہوگا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close