ہمارے وجود کی دور دراز مستقبل کی شکل کے بارے میں سوچنا اکثر غیر معمولی قیاس آرائیوں کو دعوت دیتا ہے، جیسے کہ قد، دماغ کی جسامت، اور جلد کی رنگت وغیرہ۔ تاہم، ہمارے جسم کی آج کی معمولی تبدیلیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ارتقا کس قدر غیر متوقع ہو سکتا ہے۔
ایک ایسی عام سی چیز کو لے لیجیے جیسے ہمارے بازوؤں میں ایک اضافی خون کی شریان، جو موجودہ رجحانات کے مطابق آنے والی چند نسلوں کے اندر عام ہو سکتی ہے۔
ایک شریان جو ہمارے رحمِ مادر میں ہوتے وقت عارضی طور پر ہمارے بازوؤں کے درمیان سے گزرتی ہے، وہ پہلے کی طرح ختم نہیں ہو رہی، جیسا کہ آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی اور ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے محققین کی 2020 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا۔
حالیہ تحقیق کے مطابق، انسانوں میں بازوؤں میں ایک اضافی شریان، جسے "میڈین آرٹری” کہا جاتا ہے، تیزی سے پائی جا رہی ہے۔ یہ شریان عام طور پر جنین کے دوران خون کی فراہمی کے لیے بنتی ہے اور بعد میں دو بڑی شریانوں (ریڈیل اور النر) کی تشکیل کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اب زیادہ افراد میں یہ شریان بالغ عمر تک برقرار رہ رہی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ پہلے سے کہیں زیادہ بالغ افراد ایسے ہیں، جن کے پاس کلائی کے نیچے خون کی ایک اضافی رگ موجود ہے۔
فلنڈرز یونیورسٹی کے اناٹومسٹ تیگن لوکس نے 2020 میں وضاحت کی، ”اٹھارہویں صدی سے، اناٹومسٹ بالغوں میں اس شریان کی موجودگی کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ہماری تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی تعداد میں واضح اضافہ ہو رہا ہے۔“
ان کا کہنا تھا، ”1880 کی دہائی میں پیدا ہونے والے لوگوں میں اس شریان کی موجودگی کا تناسب تقریباً 10 فیصد تھا، جبکہ بیسویں صدی کے آخر میں پیدا ہونے والوں میں یہ تناسب 30 فیصد ہے، جو ارتقا کے تناظر میں ایک مختصر مدت کے دوران ایک نمایاں اضافہ ہے۔“
درمیانی شریان (median artery) تمام انسانوں میں نشوونما کے ابتدائی مراحل میں بنتی ہے اور ہمارے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو خون کی فراہمی کے لیے ہمارے بازوؤں کے درمیان سے گزرتی ہے۔
تقریباً آٹھ ہفتوں کے دوران یہ شریان ختم ہو جاتی ہے اور یہ کام دو دوسری رگوں – radial (جسے ہم نبض چیک کرتے وقت محسوس کرتے ہیں) اور ulnar شریان – کو سونپ دیا جاتا ہے۔
اناٹومسٹ کچھ عرصے سے جانتے ہیں کہ اس درمیانی شریان کا ختم ہو جانا کوئی حتمی بات نہیں۔ کچھ معاملات میں یہ ایک مہینے تک اور برقرار رہتی ہے۔
کبھی کبھی ہم اس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، اور یہ شریان یا تو صرف بازو کو خون فراہم کرتی ہے، یا کچھ معاملات میں ہاتھ کو بھی۔
اس مستقل خون کی نالی کی موجودگی کا موازنہ کرنے کے لیے، لوکس اور ان کے ساتھی میکیج ہینیبرگ اور جالیا کماراٹیلکے نے ایڈیلیڈ یونیورسٹی میں یورپی نسل کے 80 افراد کے کٹے ہوئے جسمانی اعضا کا معائنہ کیا۔
یہ عطیہ دہندگان 51 سے 101 سال کی عمر کے تھے، جس کا مطلب ہے کہ وہ تقریباً سبھی بیسویں صدی کے پہلے نصف میں پیدا ہوئے تھے۔
تحقیقی ٹیم نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ کتنی بار انہوں نے خون کی بڑی مقدار لے جانے والی درمیانی شریان پائی، اور ان نتائج کا موازنہ لٹریچر میں موجود ریکارڈ سے کیا، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کوئی بھی شمار ممکنہ طور پر اس شریان کی موجودگی کو زیادہ ظاہر کر سکتا ہے۔
ان کی اس تحقیق کے نتائج جرنل آف اناٹومی میں شائع ہوئے۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ یہ شریان آج کے بالغوں میں ایک صدی پہلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ عام ہے، یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے جو یہ بتاتا ہے کہ قدرتی انتخاب ان لوگوں کے حق میں ہے، جن کے جسم میں یہ اضافی خون کی فراہمی کی شریان برقرار ہے۔
لوکس نے کہا، ”یہ اضافہ درمیانی شریان کی نشوونما میں شامل جینز میں تبدیلیوں یا ماؤں کے حمل کے دوران صحت کے مسائل کی وجہ سے ہو سکتا ہے، یا دونوں وجوہات کی بنا پر۔“
ہم تصور کر سکتے ہیں کہ درمیانی شریان کا مستقل ہونا انگلیوں کی مہارت یا بازوؤں کی طاقت کو بہتر بنا سکتا ہے، کیونکہ پیدا ہونے کے بعد بھی خون کی فراہمی جاری رہتی ہے۔ لیکن اس شریان کی موجودگی ہمیں ’کارپل ٹنل سنڈروم‘ (Carpal Tunnel Syndrome) کا شکار بھی بنا سکتی ہے،
کارپل ٹنل سنڈروم ایک ایسی تکلیف دہ حالت ہے، جس میں ہاتھ یا کلائی میں موجود اعصاب پر دباؤ پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ہاتھوں اور انگلیوں میں درد، سنسناہٹ، یا کمزوری محسوس ہوتی ہے اور اس سے ہمارے ہاتھوں کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت کو کم ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کلائی میں موجود ’کارپل ٹنل‘ نامی ایک چھوٹا سا راستہ سوجن یا کسی دباؤ کے باعث تنگ ہو جاتا ہے اور وہاں سے گزرنے والے درمیانی اعصاب (median nerve) پر دباؤ پڑنے لگتا ہے۔
تاہم یہ شریان اضافی خون کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بعض طبی سرجریوں میں بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ محققین کے مطابق، یہ ایک ’مائیکرو ایوولیوشن‘ کی علامت ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی جسم ابھی بھی ارتقاء کے مراحل سے گزر رہا ہے۔
بہرحال ان عوامل کی نشاندہی کرنا جو درمیانی شریان کو برقرار رکھنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مزید تحقیق کا تقاضا کرتا ہے۔
تحقیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چاہے وجوہات کچھ بھی ہوں، ہمیں مستقبل میں اس شریان کو زیادہ دیکھنے کی توقع رکھنی چاہیے۔
لوکس کے مطابق، ”اگر یہ رجحان جاری رہا تو 2100 تک اکثریت کے بازوؤں میں درمیانی شریان موجود ہو گی۔“
بالغوں میں درمیانی شریان کی یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایک گھٹنے کی ہڈی جسے ’فابیلا‘ کہا جاتا ہے، جو آج ایک صدی پہلے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ عام ہے۔
چاہے یہ کتنے ہی چھوٹے فرق کیوں نہ ہوں، ارتقاء کی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں بڑے پیمانے پر ایسے تغیرات کا باعث بنتی ہیں، جو کسی نسل کی پہچان بن جاتی ہیں۔
یہ مل کر خود نئے دباؤ پیدا کرتی ہیں، جو ہمیں صحت اور بیماری کے نئے راستوں پر ڈال دیتی ہیں، جن کا ہم آج تصور بھی نہیں کر سکتے۔
انسانی ارتقا ایک مسلسل جاری عمل ہے، اور ماحول سے مطابقت حاصل کرنے کے لیے جسمانی اور جینیاتی تبدیلیاں اب بھی ہو سکتی ہیں، لیکن یہ عمل بہت سست رفتار ہے۔ جدید دور میں، انسانوں نے اپنی زندگیوں میں ماحول کی سختیوں کو کم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، طب، اور معاشرتی ڈھانچے کا سہارا لیا ہے، جس کی وجہ سے جسمانی ارتقائی تبدیلیاں اب اتنی زیادہ نمایاں نہیں ہیں جتنی کہ ہزاروں سال پہلے ہوتی تھیں۔
تاہم، کچھ ارتقائی تبدیلیاں اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جیسے کہ ماحولیاتی عوامل کے مطابق جینیاتی موافقت (مثلاً، مختلف بیماریوں کے خلاف مدافعت یا خوراک کی دستیابی کے مطابق جسمانی تبدیلیاں)۔ لیکن جسمانی ارتقاء کی بجائے، انسان اب زیادہ تر ثقافتی اور ٹیکنالوجیکل ارتقاء سے اپنی بقا اور کامیابی کو یقینی بنا رہا ہے۔
اسی طرح انسان کے بازو میں ایک اضافی شریان کا ظاہر ہونا ارتقائی تبدیلیوں کی ایک حالیہ مثال ہو سکتا ہے۔ کچھ سائنسدانوں کے مطابق، اس شریان کا بڑھتا ہوا پایا جانا انسانی جسم میں جدید دور کی ارتقائی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ممکنہ طور پر اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ انسان کا جسم بدلتے ہوئے ماحول، زندگی کے مختلف طریقوں، اور ممکنہ طور پر جدید ٹیکنالوجی اور خوراک کی بدولت نئی موافقتیں پیدا کر رہا ہے۔
درمیانی شریان (median artery) کا ختم ہونے کے بجائے برقرار رہنے کی کئی ممکنہ سائنسی وجوہات اور توجیہات ہو سکتی ہیں، جو زیادہ تر جینیاتی، ماحولیاتی، اور جدید زندگی کے تقاضوں سے منسلک ہیں، مثال کے طور پر:
1. جینیاتی تبدیلیاں اور قدرتی انتخاب:
ارتقاء کے دوران، انسانی جسم میں جینیاتی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، اور کچھ جینیاتی تبدیلیاں مخصوص فائدے دے سکتی ہیں۔ درمیانی شریان کے برقرار رہنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ شریان کسی نہ کسی طور پر فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے، اور قدرتی انتخاب (natural selection) کے تحت ایسی خصوصیات جو انسان کی بقا یا کارکردگی کو بہتر بناتی ہیں، زیادہ عام ہوتی جا رہی ہیں۔
2. جدید دور میں ہاتھوں کا زیادہ استعمال:
آج کے دور میں ہم کمپیوٹر، موبائل، اور دیگر مشینوں پر بہت زیادہ کام کرتے ہیں، جس سے ہمارے ہاتھوں پر مسلسل دباؤ ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہاتھوں میں خون کی بہتر فراہمی کی ضرورت بڑھ رہی ہو، اور درمیانی شریان اس کام میں معاون ثابت ہو رہی ہو۔ یہ شریان بازو اور ہاتھ میں زیادہ خون فراہم کر کے ہاتھ کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
3. ماحولیات اور طرزِ زندگی:
انسانی جسم پر ماحول اور طرزِ زندگی کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ ماضی میں، جب انسان زیادہ جسمانی مشقت والے کام کرتا تھا، بازو کی دوسری شریانیں (ulnar اور radial) کافی تھیں۔ لیکن اب جدید زندگی میں بیٹھنے والے کاموں اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے بازو اور ہاتھوں میں مختلف قسم کی خون کی ضروریات پیدا ہو سکتی ہیں۔ درمیانی شریان کا برقرار رہنا ایک ارتقائی موافقت ہو سکتا ہے جو ان بدلتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سامنے آ رہی ہے۔
4. پیدائشی تبدیلیوں میں اضافہ:
ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جدید جینیاتی تغیرات (mutations) زیادہ عام ہو رہی ہیں، اور یہ تبدیلیاں جسم کے کچھ حصوں کو برقرار رکھنے یا بدلنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ چونکہ درمیانی شریان پہلے بھی جنین کی نشوونما کے دوران موجود ہوتی ہے، یہ ممکن ہے کہ جینیاتی عوامل اس کے ختم ہونے کے عمل کو کمزور کر رہے ہوں، اور یوں یہ شریان بالغوں میں بھی برقرار رہ رہی ہو۔
5. طبی اور سرجری کی ضروریات:
آج کے دور میں انسانوں کی لمبی عمریں اور پیچیدہ طبی مسائل کے بڑھتے ہوئے علاج کا عمل بھی اس شریان کی افادیت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ شریان بازو کی سرجری اور علاج کے لیے ایک اضافی حفاظتی جال فراہم کر سکتی ہے، خاص طور پر خون کی روانی کو بہتر کرنے کے لیے۔
تو یوں قدرت بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے انسانی جسم کو اپڈیٹ کر رہی ہے، تاہم اس پر تحقیق جاری ہے۔ بہرحال یہ ایک دلچسپ پیش رفت ہے، اور آنے والے وقت میں مزید تحقیق سے اس کے اثرات اور فوائد یا پھر نقصانات پر مزید روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔
(اس فیچر کی تیاری میں ’جرنل آف اناٹومی‘ اور سائنس الرٹ میں شائع تحقیقی مضامین سے مدد لی گئی ہے۔ ترجمہ، ترتیب و اضافہ: امر گل)