ایک نئے مطالعے کے دعوے کے مطابق ’ڈارک مَیٹر‘ کا وجود نہیں اور کائنات 27 ارب سال پرانی ہے!

ویب ڈیسک

کائنات ہمیشہ سے ایسے راز رکھتی ہے جو ہماری تجسس کو جنم دیتے ہیں۔ موجودہ علم کے مطابق، کائنات تین بنیادی اجزاء پر مشتمل ہے: ’نارمل مَیٹر‘ ، ’ڈارک انرجی‘ اور ’ڈارک مَیٹر‘ ۔ تاہم، نئی تحقیق اس قائم شدہ ماڈل کو چیلنج کر رہی ہے۔

راجندرا گپتا، جو کہ فزکس کے ایک تجربہ کار پروفیسر ہیں، اس پرانے نظریے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ برسوں کی تحقیق کے بعد، گپتا کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ کو چیلنج کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف اوٹاوا سے منسلک راجندرا گپتا نے ایک مطالعہ کیا ہے، جس میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ شاید ہمیں کائنات کے نظام کو سمجھنے کے لیے ڈارک میٹر (تاریک مادہ) یا ڈارک انرجی (تاریک توانائی) کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے اس جرات مندانہ دعوے نے سائنسی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔

راجندرا گپتا، جو اوٹاوا یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر ہیں، نے حالیہ تحقیق کے ذریعے ایک نیا کائناتی ماڈل پیش کیا ہے جو سائنس کی دنیا میں ایک بڑا تنازعہ پیدا کر رہا ہے۔ گپتا کا یہ دعویٰ ہے کہ کائنات 27 ارب سال پرانی ہے، جو موجودہ سائنسدانوں کی طرف سے تسلیم شدہ 13.8 ارب سال کی عمر سے تقریباً دوگنی ہے۔ اس کے ساتھ، گپتا نے ’ڈارک میٹر‘ اور ’ڈارک انرجی‘ جیسے تصورات کی ضرورت کو بھی چیلنج کیا ہے، جنہیں روایتی طور پر کائنات کی تشکیل اور پھیلاؤ کو سمجھنے کے لیے ضروری مانا جاتا تھا۔

گپتا کا نیا نظریہ دو بنیادی تصورات کو جوڑتا ہے: ’تھکی ہوئی روشنی‘ (Tired Light یا TL) اور ’کووریائنگ کپلنگ کانسٹنٹس‘ (Covarying Coupling Constants یا CCC)۔ اس نظریے کے تحت، کائنات کے بنیادی اصول، جنہیں ہم عام طور پر غیر متغیر سمجھتے ہیں، درحقیقت کائنات کے مختلف حصوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔

اب تک سائنس نے ہمیں ہمیشہ سکھایا ہے کہ قدرت کے بنیادی اصول — جیسے روشنی کی رفتار یا الیکٹران کا چارج — غیر متغیر ہیں۔ لیکن کیا ہوگا اگر یہ اصول کائنات میں مستقل نہ ہوں؟

’کووریائنگ کپلنگ کانسٹنٹس‘ CCC نظریہ یہ تجویز کرتا ہے کہ یہ اصول دراصل کائنات کے مختلف حصوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے، تو یہ ہماری سمجھ کو بدل سکتا ہے، چھوٹے ذرات سے لے کر بڑی کہکشاؤں تک۔

پھر ’تھکی ہوئی روشنی‘ کا تصور آتا ہے۔ عام طور پر، ہم سمجھتے ہیں کہ دور دراز کہکشاؤں سے روشنی کا سرخ ہوتا جانا — یعنی طولِ موج کا بڑھنا — اس لیے ہوتا ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔

لیکن ٹائرڈ لائٹ TL ماڈل ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتا ہے: شاید روشنی طویل فاصلے پر توانائی کھو دیتی ہے۔ یہ توانائی کا نقصان بغیر کائنات کے پھیلاؤ کے، سرخ شفٹ کو پیدا کر سکتا ہے۔

تو جب آپ ان دونوں نظریات کو یکجا کرتے ہیں، تو CCC+TL ماڈل ایک نیا فریم ورک پیش کرتا ہے تاکہ کائناتی مظاہر کو سمجھا جا سکے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ قدرت کے اصول بدل سکتے ہیں اور روشنی وقت کے ساتھ توانائی کھو سکتی ہے، یہ ماڈل ان مشاہدات کے متبادل وضاحتیں پیش کرتا ہے جو دہائیوں سے سائنسدانوں کو حیران کیے ہوئے ہیں۔

تو، اگر ہم اسے دیکھ نہیں سکتے، تو ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ ’ڈارک مَیٹر‘ حقیقی ہے؟ 1930 کی دہائی میں، ایک ماہرِ فلکیات فریٹز زویکی نے دیکھا کہ کہکشائیں ایک جھرمٹ میں ایسی حرکات کر رہی ہیں، جو ان کی نظر آنے والی کمیت سے میل نہیں کھاتی تھیں۔

کوئی نادیدہ چیز ان پر گریویٹیشنل کشش ڈال رہی تھی۔ تب سے، مزید شواہد سامنے آئے ہیں، جیسے کہ کہکشاؤں کی گردش — وہ تیزی سے گھومتی ہیں، جتنا کہ انہیں نظر آنے والے مادے کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

زیادہ تر نظریات کے مطابق، ڈارک مَیٹر کائنات کے کام کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کہکشاؤں کو ایک ساتھ رکھتا ہے، جیسے کوئی نظر نہ آنے والی گوند۔

بغیر اس کے، کہکشائیں شاید اتنی کمیت نہ رکھتی ہوں کہ سالم رہ سکیں۔ یہ اس بات پر بھی اثر ڈالتی ہے کہ روشنی خلا میں کیسے سفر کرتی ہے، اسے اس طرح موڑتی ہے کہ ہم ڈارک میٹر کے چھپے ہوئے مقامات کا نقشہ بنا سکیں۔

سادہ الفاظ میں بات کریں تو گپتا کی تحقیق کے مطابق، یہ ریڈ شفٹ روشنی کی توانائی کے نقصان کی وجہ سے ہوتی ہے، نہ کہ کائنات کے پھیلنے کی وجہ سے جیسا کہ روایتی نظریات میں تصور کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ ’تھکی ہوئی روشنی‘ کے تصور کا بنیادی حصہ ہے۔ CCC ماڈل میں، گپتا یہ تجویز کرتے ہیں کہ قدرتی کپلنگ کانسٹنٹس جیسے روشنی کی رفتار یا الیکٹران کا چارج مستقل نہیں ہیں، بلکہ یہ بھی کائنات کے مختلف حصوں میں بدل سکتے ہیں۔

سالوں سے، ڈارک میٹر کہکشاؤں کے رویے اور ستاروں کی حرکت کی وضاحت کے لیے بنیادی نظریہ رہا ہے، جس کی بنیاد پر کائنات کی عام طور پر ”قبول شدہ“ عمر تقریباً 13.8 ارب سال سمجھی جاتی ہے۔

سمجھا جاتا ہے کہ یہ کائنات کا تقریباً 27 فی صد حصہ بناتا ہے، جب کہ معمولی مادہ (ordinary matter) کا حصہ 5 فی صد سے بھی کم ہے، اور باقی ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔

لیکن گپتا کی حالیہ دریافتیں اس ماڈل میں خلل ڈالتی ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اس مطالعے کے نتائج ہماری پچھلی تحقیق کی تصدیق کرتے ہیں، جس میں تجویز کیا گیا تھا کہ کائنات 26.7 ارب سال پرانی ہے، اور ڈارک میٹر کے وجود کی ضرورت کو رد کرتی ہے۔“

ان کا مزید کہنا ہے، ”روایتی کاسمولوجیکل نظریات کے برخلاف، جہاں کائنات کے تیز رفتار پھیلاؤ کو ڈارک انرجی سے منسوب کیا جاتا ہے، ہمارے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ پھیلاؤ قدرت کی قوتوں کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہے، نہ کہ ڈارک انرجی کی وجہ سے۔“

گپتا کی تحقیق کا ایک اہم حصہ ’ریڈ شفٹ‘ پر مرکوز ہے، جس میں روشنی خلا میں سفر کرتے ہوئے سپیکٹرم کے سرخ حصے کی طرف پھیلتی ہے۔

کم ریڈ شفٹ پر کہکشاؤں کی تقسیم اور زیادہ ریڈ شفٹ پر ابتدائی کائنات میں دیکھے گئے نمونوں کا تجزیہ کرکے، وہ ڈارک میٹر کے وجود کے خلاف ایک دلیل تیار کرتے ہیں۔

روایتی نظریات کے مطابق، ڈارک میٹر ایک ایسا نادیدہ مادہ ہے جو کائنات کا 27 فیصد حصہ بناتا ہے۔ یہ مادہ براہِ راست نظر نہیں آتا، لیکن اس کا وجود کہکشاؤں کی حرکت اور کائنات میں موجود بڑے پیمانے پر کشش ثقل کے اثرات سے معلوم ہوتا ہے۔ لیکن گپتا کا نظریہ اس ڈارک میٹر کی ضرورت کو مکمل طور پر رد کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات کے پھیلاؤ کی وضاحت کے لیے ہمیں ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کی ضرورت نہیں ہے۔

گپتا پراعتماد انداز میں نتیجہ اخذ کرتے ہیں، ”ایسے کئی مقالات ہیں جو ڈارک میٹر کے وجود پر سوال اٹھاتے ہیں، لیکن میری معلومات کے مطابق میرا مقالہ پہلا ہے جو اس کے کائناتی وجود کو رد کرتا ہے جبکہ ان کلیدی کاسمولوجیکل مشاہدات سے مطابقت رکھتا ہے جن کی تصدیق ہم نے وقت کے ساتھ کی ہے۔“

گپتا کا نظریہ ریڈ شفٹ کے مشاہدات پر مبنی ہے، جس میں روشنی خلا میں سفر کرتے ہوئے پھیلتی ہے اور سرخ ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق، یہ ریڈ شفٹ کائنات کے پھیلنے کی وجہ سے نہیں، بلکہ روشنی کی توانائی کے نقصان کی وجہ سے ہے۔ گپتا نے کم اور زیادہ ریڈ شفٹ پر کہکشاؤں کی تقسیم اور مشاہدات کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ڈارک میٹر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

تو آخر اس سب کا مطلب کیا ہے؟

اگر CCC+TL ماڈل درست ثابت ہوتا ہے، تو یہ ہماری موجودہ فہم کا بڑا حصہ تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ چیزوں کی نئی وضاحتیں پیش کر سکتا ہے، جیسے کہ کائناتی مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ ریڈی ایشن یا کہکشاؤں کی تشکیل اور ارتقاء۔

گپتا کا نظریہ نہ صرف ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کو بلکہ براہ راست بڑے پیمانے پر قبول شدہ بلکہ بگ بینگ تھیوری کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ بگ بینگ تھیوری کے تحت، کائنات 13.8 ارب سال پہلے ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آئی تھی اور اس کے بعد سے مسلسل پھیل رہی ہے۔ لیکن گپتا کے مطابق، کائنات کی عمر دراصل 27 ارب سال ہے، جو روایتی نظریات کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ کاسمولوجی میں نئی سوچ کے دروازے کھول سکتا ہے۔

گپتا کے نظریے پر سائنسی برادری میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ کاسمولوجیکل ماڈلز میں بہت زیادہ ڈیٹا ہے جو بگ بینگ اور ڈارک میٹر کی تصدیق کرتا ہے، جیسے کہ فزیکل قوانین کی مستقل مزاجی اور کائنات کا پھیلاؤ۔۔ گپتا کے نظریے کو مستند ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پیش گوئیوں کو تجربات اور مشاہدات کے ذریعے پرکھا جائے۔

تو اب آگے کیا ہو؟ کیا ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر صرف بگ بینگ تھیوری کی ریاضی کو درست کرنے کے لیے سائنسی ذہنوں کی تخلیق ہیں؟ کیا واقعی کائنات 13.8 ارب سال کی بجائے 26.7 ارب سال پرانی ہو سکتی ہے؟

راجندرا گپتا کا TL+CCC ماڈل ایک جرات مندانہ نظریہ ہے جو ڈارک میٹر کے تصور کو چیلنج کرتا ہے اور کائنات کی عمر کے بارے میں نئی بصیرتیں پیش کرتا ہے۔ اگر یہ ماڈل درست ثابت ہوتا ہے تو یہ ہماری موجودہ کاسمولوجی کی بنیادوں کو ہلا سکتا ہے اور کائنات کی تشریح کے لیے ایک نیا فریم ورک مہیا کر سکتا ہے۔ تاہم، اس نظریے کی تصدیق یا تردید کے لیے مزید مشاہدات اور تجربات کی ضرورت ہے۔

محققین اس ماڈل کو جانچنے کے طریقے تلاش کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ وہ دور دراز ستاروں کا مطالعہ کر رہے ہیں، کائناتی ریڈی ایشن کی پیمائش کر رہے ہیں، اور وسیع مقدار میں ڈیٹا کا تجزیہ کر رہے ہیں۔

جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، خاص طور پر زیادہ طاقتور دوربینوں اور ڈیٹیکٹرز کے ساتھ، ہم وہ شواہد حاصل کر سکتے ہیں جو ان نئے نظریات کی تصدیق یا چیلنج کرنے میں مدد کریں گے۔

آخر میں، کائنات کو سمجھنے کی جستجو ایک بہت بڑے پزل کو حل کرنے جیسی ہے، جس میں ہمیں آخری تصویر کا علم نہیں۔

ہر نیا ٹکڑا یا خیال ہمیں کچھ اور دکھاتا ہے، چاہے اس کا مطلب ان حصوں پر دوبارہ غور کرنا ہو، جنہیں ہم سمجھتے تھے۔

چاہے CCC+TL ماڈل کاسمولوجی کا اہم حصہ بن جائے یا ہمیں دیگر دریافتوں کی طرف لے جائے، یہ سب کائنات کو سمجھنے کے دلچسپ سفر کا حصہ ہے۔

یہ مطالعہ بنیادی طور پر ’دی ایسٹروفزیکل جرنل‘ میں شائع ہوا ہے، اور سائنس کی دنیا میں ایک اہم بحث کا آغاز کر چکا ہے۔ کیا گپتا کا نظریہ مستقبل کی کاسمولوجی کا حصہ بنے گا یا ہمیں کائنات کے بارے میں مزید غیر متوقع دریافتیں حاصل ہوں گی؟ وقت ہی بتائے گا۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں ارتھ ڈاٹ کام میں شائع آرٹیکل سے مدد لی گئی ہے۔ ترجمہ، ترتیب و اضافہ: امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close