ایک دیو مالائی قدیم تصور، جس نے انسان کی تخیلاتی دنیا کو صدیوں سے مسحور کر رکھا ہے: سلیمانی ٹوپی۔۔ وہ جادوئی ٹوپی جو پہننے والے کو نظروں سے غائب کر دے، ایک ایسا خواب جسے کہانیاں، افسانے، اور فلمیں بار بار زندہ کرتی رہی ہیں۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی انڈین سینما کی سائنس فکشن سپر ہیرو فلم ’مسٹر انڈیا‘ بھی تھی، جس میں ایک سائنسدان ہیرو کو ایک آلے کا استعمال کرتے ہوئے غیر مرئی بنا دیتا ہے۔
اس فلم کا خیال ایچ جی ویلز کی سائنس فکشن کی کتاب The Invisible Man (غیر مرئی آدمی) سے آیا، جس میں سائنس دان نے ایک ایسا تجربہ کیا تھا، جو انسان کو غائب کر دیتا ہے لیکن دوبارہ اسے ظاہر کرنے سے قاصر تھا۔ اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے انگنت فلمیں بنائی گئیں۔
تو آپ تصور کریں کہ آپ اپنے ماحول میں مکمل طور پر ضم ہو جاتے ہیں، بغیر کوئی نشان چھوڑے۔۔ جیتے جاگتے گِرگٹ یا آکٹوپس کی طرح! پلک جھپکتے میں اپنے گرد و نواح سے ہم آہنگ ہو جانا شاید سائنس فکشن لگے، لیکن چینی محققین کی ایک شاندار جدت نے اس خیال کو حقیقت کے قریب پہنچا دیا ہے۔
سو یہ اب صرف ایک خیالی تصور نہیں رہا۔ چین کے سائنسدانوں نے ایک ایسی ایجاد کر ڈالی ہے جو ’سلیمانی ٹوپی‘ کے اس تصور کو حقیقت کے قریب لے آتی ہے۔ ایک ایسا مواد جو اپنے اردگرد کی روشنی کے مطابق مالیکیولی سطح پر رنگ بدل کر اپنے ماحول میں اس طرح ضم ہو جاتا ہے کہ گویا وہاں کچھ موجود ہی نہیں۔
اس تحقیق کے مرکزی محقق وانگ ڈونگ شینگ نے چائنا سائنس ڈیلی کو ایک انٹرویو میں کہا، ”اس ٹیکنالوجی کو لباس پر لاگو کرنے سے کسی فرد کو عملی طور پر ’غیر مرئی‘ بنایا جا سکتا ہے۔“
قدرت کے راز ہمیشہ انسان کے لیے حیرت کا باعث رہے ہیں۔ بہت سے جانوروں میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنی شکل و صورت بدل کر ماحول میں گھل مل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گِرگٹ اور آکٹوپس جیسے مختلف جاندار اپنی بقا کے لیے رنگ بدلنے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جبکہ انسانوں کے وضع کیے گئے طریقے اس عمل کی نقل کرنے کے معاملے میں پیچیدہ ہوتے ہیں اور ماحول کی شناخت، اس کی خصوصیات پر عمل اور اس جیسا نظر آنے کے لیے ظاہری شکل کو بدلنے جیسے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایسے کیموفلاج سسٹمز میں اکثر برقی آلات استعمال ہوتے ہیں، جن سے ساخت کی پیچیدگی، محدود استعمال اور زیادہ لاگت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں
لیکن یونیورسٹی آف الیکٹرانک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آف چائنا سے منسلک، وانگ اور ان کی ٹیم نے ان جانداروں کی کیموفلاج کی اس خاصیت سے متاثر ہو کر ایک ایسا مواد تیار کیا ہے، جو روشنی کی طول موج کے مطابق اپنے رنگ تبدیل کرتا ہے اور ماحول سے مطابقت پیدا کر لیتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ ایجاد ایسا لباس بنانے میں مدد دے سکتی ہے، جسے پہن کر انسان ’دکھائی نہ دے۔‘
چینی سائنسدانوں کے تیار کردہ اس انقلابی مواد کی مدد سے نظروں سے اوجھل ہونے کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور اس کے استعمالات وسیع اور متنوع ہو سکتے ہیں۔ فوج اور دفاع سے لے کر تعمیرات اور فیشن تک، SAP ٹیکنالوجی صنعتوں کو بدل سکتی ہے۔ گاڑیوں یا عمارتوں کو اس مواد سے کوٹ کرنا انہیں اپنے ماحول میں ضم ہونے کے قابل بنا سکتا ہے۔ مزید برآں، اس کی انتہائی موسمی حالات میں کارکردگی، جیسے -20°C سے 70°C تک، اسے فوجی اور صنعتی استعمال کے لیے خاص طور پر موزوں بناتی ہے۔
یہ مواد سیلف ایڈاپٹیو فوٹوکرومزم (SAP) ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، جس کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پیچیدہ الیکٹرانک آلات کے بغیر کام کرتا ہے۔ یعنی، نہ مہنگی مشینری کی ضرورت اور نہ ہی بیرونی توانائی کے ذرائع پر انحصار۔ بس ایک شفاف کوٹنگ یا کپڑے پر اسپرے کریں، اور آپ کا ماحول آپ کا لباس یا سطح کا حصہ بن جائے گا۔
یہ بات گذشتہ ماہ ’سائنس ایڈوانسز‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتائی گئی۔
تحقیق میں سائنس دانوں نے نئے مواد کے بارے میں بتایا جو ایک خاص عمل جسے خود کو تبدیل کرنے کی صلاحیت جسے ’ایس اے پی‘ SAP (سیلف ایڈیپٹیو فوٹوکرومز) کہتے ہیں، کے ذریعے اپنے ماحول جیسا ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، بالکل گرگٹ یا آکٹوپس کی طرح۔
جب ’ایس اے پی‘ (SAP) موادوں کو مخصوص طول موج والی روشنی کے سامنے رکھا جاتا ہے تو ان کے مالیکیولز اپنی ترتیب بدل لیتے ہیں، جس سے مواد کا رنگ تبدیل ہو جاتا ہے۔
یہ ایس اے پی مواد نامیاتی رنگوں اور ایسے مالیکیولز سے بنایا جاتے ہیں، جنہیں ’ڈونر ایکسپٹر سٹین ہاؤس ایڈکٹس‘ کہا جاتا ہے، جو روشنی کے اثر سے اپنی ساخت اور کیمیائی خصوصیات تبدیل کر لیتے ہیں۔
محققین نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ”ایس اے پی مواد اندھیرے میں اپنی ابتدائی سیاہ حالت میں ہوتے ہیں اور پس منظر میں موجود منعکس اور منتقل ہونے والی روشنی کے ذریعے کسی دوسرے رنگ میں خودبخود بدل جاتے ہیں۔“
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ انسانی ساختہ کیموفلاج سسٹمز کے مقابلے میں یہ نئے ایس اے پی مواد زیادہ سادہ، سستے اور استعمال میں آسان ہیں۔
وہ اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں، ”ہم نے اس کام میں مواد کی اندرونی خصوصیت کے طور پر فعال کیموفلاج کے بارے میں بتایا ہے اور خودبخود گھل مل جانے والے فوٹوکرومزم کی بات کی ہے۔“
سائنسدانوں نے ان موادو کو جانچنے کے لیے دو تجربات کیے۔ ایک تجربے میں ایس اے پی محلول سے بھرا ہوا شفاف کنٹینر مختلف رنگوں جن میں سرخ، سبز، زرد اور سیاہ شامل ہیں، پلاسٹک کے شفاف ڈبوں میں ڈالا گیا۔ سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ ایس اے پی محلول نے اپنے اردگرد موجود پلاسٹک کے ڈبوں کے رنگ سے مطابقت پیدا کر لی۔
دوسرے تجربے میں ایس اے پی محلول والے کنٹینر کو ایسے ماحول میں رکھا گیا، جہاں پس منظر میں سرخ، سبز یا زرد رنگ موجود تھا۔ اس تجربے کے دوران سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ایس اے پی محلول نے اپنے اردگرد کے ماحول جیسا ہو جانے کے لیے تقریباً ایک منٹ میں رنگ بدل لیا۔
تحقیق کے مطابق ایس اے پی مواد میں ’کیموفلاج سسٹمز، سمارٹ کوٹنگز، ڈسپلے ڈیوائسز‘ اور یہاں تک کہ ’جعل سازی روکنے والی ٹیکنالوجی‘ میں استعمال ہونے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔
تحقیق کے سربراہ وانگ ڈونگ شینگ نے چائنا سائنس ڈیلی کو بتایا: ”بنیادی طور پر اس ٹیکنالوجی کو کپڑوں پر استعمال کرنے سے کسی فرد کو عملاً ’دکھائی نہ دینے والا‘ بنایا جا سکتا ہے۔“
چینی محققین، جنہوں نے اس پر 2008 سے کام شروع کیا تھا، کا کہنا ہے کہ یہ صرف شروعات ہے۔ موجودہ مواد تمام رنگوں کو نقل نہیں کر سکتا، لیکن مستقبل میں مزید فوٹوکرومک مالیکیولز شامل کر کے یہ خلا بھی پُر کیا جا سکے گا۔ تصور کریں کہ جامنی اور نیلے رنگ بھی شامل ہو جائیں اور آپ مکمل طور پر کسی بھی ماحول میں غائب ہو سکیں۔
یہ مواد صرف ایک افسانوی تصور نہیں بلکہ سائنس کا ایک نیا باب ہے۔ اس کے استعمالات فوجی میدان سے لے کر فیشن انڈسٹری تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سوچئے، ایک ایسا فوجی لباس جو دشمن کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل ہو جائے۔ یا پھر ایک ایسا گھر جو اپنے ماحول میں ضم ہو کر ماحولیاتی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرے۔
یہ ٹیکنالوجی نہ صرف پوشیدگی کو ایک حقیقت کے قریب لے آئی ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ سائنس اور افسانے کی سرحدیں اب دھندلا رہی ہیں۔ سلیمانی ٹوپی، جو کبھی جادوگر کی دنیا تک محدود تھی، اب لیب کی دنیا میں حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔