لائیکا کی المناک کہانی: ایک آوارہ کتیا، جو ستاروں تک جا پہنچی

ویب ڈیسک

3 نومبر 1957 کا دن، جب سوویت یونین نے خلا کی وسعتوں میں ایک تاریخ رقم کی۔ زمین کے مدار میں پہلی بار کسی جاندار کو بھیجا گیا۔ لیکن یہ کوئی انسان نہیں تھا—یہ ایک کتا تھا، ایک عام سا آوارہ کتا، جو ماسکو کی گلیوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔

یہ سوویت خلائی جہاز اسپتنک 2 کا حیران کن مشن تھا، جو خلائی تحقیق کی دنیا میں ایک عظیم سنگ میل بن گیا۔ لیکن اس عظمت کی قیمت لائیکا کو چکانی تھی، ایک آوارہ کتیا، جو سرد راتوں اور خالی پیٹ کے عذاب سہنے کی عادی تھی، اچانک سائنسی ترقی کا محور بن گئی—اور ساتھ ہی ان اخلاقی سوالات کی علامت بھی، جو جانوروں پر تجربات سے جڑے ہیں۔

سائنس دان جانتے تھے کہ یہ سفر صرف ایک طرفہ ہوگا، ایک ایسی منزل کی طرف جس کا اختتام زندگی کی قربانی پر ہوگا۔ لائیکا کی کہانی، یا یوں کہیں اس کی المناک داستان، ان گنت قربانیوں کی گواہی دیتی ہے جو انسانیت کی علم کی پیاس بجھانے کے لیے دی گئیں۔

یہ کہانی صرف ایک کتے کی نہیں، بلکہ ایک ایسے خواب کی ہے جس نے انسان کو آسمان چھونے پر مجبور کر دیا—اور اس خواب کی قیمت لائیکا نے اپنے معصوم وجود سے ادا کی۔

لائیکا: گلیوں کی دھول سے خلا کے ستاروں تک کا سفر

ماسکو کی گلیوں میں آزاد گھومتی لائیکا، اُن بے شمار آوارہ کتوں میں سے ایک تھی جنہیں سوویت خلائی پروگرام کے لیے چنا گیا۔ اُس وقت کے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ آوارہ کتے، جو پہلے ہی سخت موسموں اور بھوک کے عادی ہوتے ہیں، خلا کے بے رحم ماحول کو جھیلنے کے لیے زیادہ موزوں ہوں گے۔

لیکن آوارہ کتوں پر انحصار محض عملی ضرورت نہیں تھی؛ یہ سوویت عزم اور مضبوطی کی ایک علامت بھی بن گیا۔ یہ کتے ایسے جاندار سمجھے گئے جو شدید سردی، گرمی اور بھوک جیسے حالات کی سختیوں سے لڑ کر زندہ رہنے کا ہنر جانتے تھے۔ یوں، وہ سوویت قوم کی جرات اور استقامت کی زندہ تصویر بن گئے اور مضبوط بقا کے مظہر سمجھے گئے

اس طرح، لائیکا اور اس کے آوارہ ساتھیوں نے اس دور کی خلائی دوڑ کے عزم اور قربانی کو مجسم کیا، تاہم لائیکا کے انتخاب کی وجہ صرف اس کا آوارہ ہونا نہیں تھا بلکہ اس کے مزاج میں وہ سکون اور برداشت تھی جو مکمل تنہائی اور شدید دباؤ جھیلنے کے لیے ضروری تھی۔ مگر یہ کہانی جتنی حیرت انگیز ہے، اتنی ہی تلخ بھی۔

لائیکا اور اس کے ساتھی کتوں کو سخت ترین تربیت کے مراحل سے گزارا گیا، ایک ایسی تربیت جو آج کے معیار کے مطابق بے حد ظالمانہ کہلائے گی۔ انہیں چھوٹے پنجروں میں قید کیا گیا، اور وقت گزرنے کے ساتھ انہیں مزید اس قدر تنگ پنجروں میں منتقل کیا گیا کہ حرکت بھی مشکل ہو گئی، تاکہ انہیں اسپتنک 2 کے تنگ حالات کا عادی بنایا جا سکے۔ یہ قید بیس دن تک جاری رہتی، جو ان کے لیے یقیناً ذہنی اور جسمانی اذیت کا باعث تھی۔

صرف یہ ہی نہیں، انہیں راکٹ کے لانچ کی شدت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیز رفتار سینٹری فیوجز میں رکھا جاتا، جہاں وہ شدید جی فورسز کا سامنا کرتے۔ اسی دوران، انہیں کان پھاڑ دینے والے شور کے ماحول میں بھی رکھا گیا تاکہ راکٹ کے پرواز کرنے کی آوازوں سے مانوس ہو کر انہیں برداشت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ یہ سب تجربات اُن کی خلائی تیاری کے لیے ضروری سمجھے گئے، لیکن ہر قدم پر ان کے آرام اور فلاح کو قربان کر دیا گیا۔

یہ تربیت صرف ایک مشن کی تیاری نہیں تھی بلکہ اُن قربانیوں کی داستان بھی تھی جو انسانیت کے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے دی جاتی ہیں۔

ظالمانہ تربیت اور بے رحمانہ آزمائشوں کے باوجود، لائیکا نے ان سائنس دانوں اور انجینئروں کے دل جیت لیے جو اس کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ اس کا نام پہلے ’کدرایاوکا‘ رکھا گیا، جس کا مطلب ہے ’چھوٹی گھنگھریالی‘ ، لیکن اسے پیار سے ’لائیکا‘ کہا گیا، جو روسی زبان میں ’بھونکنے والی‘ کے معنی رکھتا ہے۔

انہی سائنس دانوں نے، جنہوں نے اسے خلائی سفر پر روانہ کیا، محبت سے اسے یہ القاب دیے، جیسے ’چھوٹی گھنگھریالی‘ اور ’چھوٹا کیڑا‘ اور بہت سے لوگ اس سے گہری وابستگی محسوس کرنے لگے۔ تاہم، ساتھ ہی، یہ پیشہ ور لوگ اس کے ممکنہ المناک انجام سے بخوبی واقف تھے اور یہ حقیقت سب جانتے تھے کہ جس مشن کے لیے لائیکا کو چنا گیا ہے، وہ اس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔

ڈاکٹر ولادیمیر یزدوسکی، جو سوویت خلائی پروگرام کے اہم معالجین میں شامل تھے، نے اپنی کتاب میں لائیکا کو ’خاموش اور دلکش‘ کے طور پر بیان کیا۔ ایک پرسکون فطرت رکھنے والی یہ کتیا، کسی ہلچل کے بغیر، سب کی محبت کا مرکز بن گئی۔ یہی پرسکون مزاج اسے اس ناقابلِ برداشت مشن کے لیے مثالی بناتا تھا؛ شاید یہی وہ خوبی تھی جس نے اسے اپنے ساتھی کتوں سے زیادہ سخت تربیت جھیلنے کے قابل بنایا۔

لانچ سے ایک رات پہلے، ڈاکٹر یزدوسکی نے لائیکا کے ساتھ خاص وقت گزارا۔ وہ اسے اپنے گھر لے گئے تاکہ اس کا آخری وقت خوشگوار بنایا جا سکے۔ وہ اسے اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیتے، جس سے اسے ایک مختصر لمحے کے لیے عام زندگی اور خوشی کا احساس ملا اور وہ چند لمحات کے لیے اپنی آنے والی تقدیر بھول جاتی۔ اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر یزدوسکی کہتے ہیں، ”میں اس کے لیے کچھ اچھا کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اس کے پاس جینے کے لیے بہت کم وقت رہ گیا تھا۔“

اور پھر وہ وقت آن پہنچا، جس کے لیے لائیکا کو تیار کیا گیا تھا۔ 31 اکتوبر 1957 کو، لائیکا کو احتیاط سے اسپتنک 2 کے سیٹلائٹ کیپسول میں رکھا گیا۔ اس کے جسم پر سینسر نصب کیے گئے تاکہ سفر کے دوران اس کی دل کی دھڑکن اور سانس کی رفتار کا جائزہ لیا جا سکے۔ 3 نومبر کو جب کیپسول کا دروازہ بند کیا جا رہا تھا، روسی انجینئر یوگینی شبروف نے اپنی کتاب ’روڈز ٹو اسپیس: این اورل ہسٹری آف دی سوویت اسپیس پروگرام‘ میں لکھا، ”ہم نے اس کی ناک چومی، اسے خوشگوار سفر کی دعا دی، اور دل تھام کر رخصت کیا، یہ جانتے ہوئے کہ وہ زندہ واپس نہیں آئے گی۔“

لائیکا کا اسپتنک 2 پر سفر خلا کی تحقیق میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اکتوبر 1957 میں اسپتنک 1 کی کامیابی کے محض ایک ماہ بعد، اسپتنک 2 کا یہ مشن ترتیب دیا گیا تھا، جس کا مقصد خلا میں جانداروں پر سفر کے اثرات کا مطالعہ کرنا تھا۔

لیکن اس سفر کی تخلیق کسی متعین منصوبے کے تحت نہیں تھی؛ یہ جلدبازی میں تیار کیا گیا تھا اور وقت کا شدید دباؤ تھا۔ سائنس دانوں کے پاس صرف چار ہفتے تھے کہ وہ ابتدائی خاکوں کی بنیاد پر اسے مکمل کر سکیں۔ یہ دوڑ سرد جنگ کی ٹکر میں سوویت یونین کی تکنیکی برتری ثابت کرنے کی خواہش سے جڑی ہوئی تھی۔

یہ مشن اپنی نوعیت میں انقلابی تو تھا، مگر یہ ناقص تکنیکی حیثیت کا حامل بھی تھا۔ واپسی کے لیے محفوظ ٹیکنالوجی موجود نہ تھی، اور سوویت حکام اچھی طرح جانتے تھے کہ لائیکا کا یہ مشن اس کی جان لے لے گا۔ اس لیے، رپورٹوں کے مطابق، لائیکا کو صرف ایک ہفتے کے کھانے اور زندگی کے سہولت ساز آلات فراہم کیے گئے تھے۔

ابتدا میں سوویت ذرائع نے دعویٰ کیا کہ لائیکا کئی دن تک مدار میں زندہ رہی۔ تاہم، 2002 میں دوسرے ورلڈ اسپیس کانگریس میں یہ سچ سامنے آیا کہ لائیکا لانچ کے چند گھنٹوں میں ہی ہلاک ہو گئی تھی۔ زیادہ گرمی اور ممکنہ طور پر ذہنی دباؤ کی وجہ سے، کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کے چوتھے مدار کے دوران ہائپر تھرمیا (زیادہ درجہ حرارت) سے جان کی بازی ہار گئی۔ اسپتنک 2 کے تھرمل کنٹرول سسٹم کی ناکامی نے کیبن کا درجہ حرارت مہلک سطح تک پہنچا دیا، جو کہ پہلے سے متوقع تھا۔

لائیکا کی موت ایک ایسی المناک حقیقت تھی جسے روکا جا سکتا تھا۔ مشن کی جلد بازی اور تکنیکی خامیوں نے ان اخلاقی سمجھوتوں کو اجاگر کیا جو سائنسدانوں نے ترقی کے نام پر کیے۔ لیکن لائیکا کے مختصر عرصے نے خلا کے سفر کے جسمانی اثرات پر قیمتی معلومات فراہم کیں۔

روسی اکیڈمی آف سائنسز کے جریدے ’ہیرالڈ‘ کی تحقیق کے مطابق، لائیکا کے مشن سے یہ اہم نتائج سامنے آئے کہ خلا میں جاندار کس طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ اس کے سفر نے ثابت کیا کہ ایک جاندار لانچ اور زیرو گریویٹی کو کم از کم عارضی طور پر برداشت کر سکتا ہے۔ یہ نتائج خلا کی تحقیق میں اہم ثابت ہوئے، اور 1961 میں یوری گاگارین کے تاریخی مشن کا آغاز ممکن ہوا، جب ایک انسان پہلی بار خلا میں گیا۔

لائیکا کے مشن سے حاصل کردہ ڈیٹا نے سائنس دانوں کو مائیکرو گریویٹی (بے وزنی) کے دل و عروقی نظام، سانس کی کارکردگی اور دباؤ کے ردعمل پر اثرات کو سمجھنے میں مدد دی۔ یہ علم انسانی خلابازوں کے لیے زندگی کے سہولت ساز نظام اور پروٹوکول کی تیاری میں بہت ضروری ثابت ہوا۔ کئی پہلوؤں سے، لائیکا کی چڑھائی گئی بَلی ان بے شمار خلائی پروگراموں کی کامیابیوں کا سنگ بنیاد بنی جو بعد میں آئے۔

لائیکا کی داستان جانوروں پر تجربات کے پیچیدہ اخلاقی سوالات کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ اس کی ہلاکت نے دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی، خاص طور پر جانوروں کے حقوق کے محافظوں کی جانب سے ایسی تجرباتی سرگرمیوں کی مذمت کی گئی جن میں زندہ مخلوق کی تکالیف کے ساتھ زندہ بچنے کی کوئی بھی امید نہیں تھی۔ اگرچہ لائیکا کی کہانی حیرت و تحسین کا باعث بنی، لیکن اس نے سائنسی ترقی کی قیمت کے طور پر جانوروں کے استعمال میں چھپے ہوئے اخلاقی تضادات کو بھی بے نقاب کیا۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ سائنسی ترقی کے لیے جانوروں کے استعمال میں کتنے گہرے اخلاقی مسائل شامل ہیں۔

اس کے مشن کے بعد کے سالوں میں، ٹیکنالوجی نے ایسی قربانیوں کی ضرورت کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ آج کل، سیمولیشنز، روبوٹکس اور دیگر جدید طریقوں کی بدولت سائنس دان تجربات کر سکتے ہیں بغیر کسی زندہ مخلوق پر انحصار کیے۔ یہ ترقی ہمارے سائنسی سفر کی کامیابیوں کی گواہی دیتی ہے، مگر ساتھ ہی یہ ہمارے ان کامیابیوں کے لیے ماضی میں ادا کی گئی او قیمت کو بھی یاد دلاتی ہے، جس کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں ہے۔

پھر بھی، لائیکا کی میراث آج بھی زندہ ہے۔ اسے مختلف طریقوں سے یاد کیا جاتا ہے—سائنس میں اس کی عظیم خدمات کے طور پر اور ان اخلاقی چیلنجز کی علامت کے طور پر جو تحقیق اور دریافت کے سفر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کی یادگاریں، مجسمے اور فن پارے اس کی قربانی کی علامت ہیں۔ سب سے زیادہ مناسب طور پر، ماسکو میں اس کا ایک مجسمہ نصب ہے، جس میں اسے ایک راکٹ کے اوپر کھڑا دکھایا گیا ہے، جو اس کی قربانی کو ہمیشہ یادگار بناتا ہے۔

ایسی دنیا میں جہاں سرمایہ ہوس انسانیت کو بے دریغ قتل و غارت کی طرف دھکیل دیتی ہے، اور جنگی جنون مصنوعی جنگیں ایجاد کرتا ہے، تاکہ اپنے بنائے گئے ہتھیاروں کو آزمایا جا سکے اور جہاں انسان لیبارٹری کے تجربات میں استعمال ہونے والے چوہوں کی طرح لاکھوں کی تعداد میں ہتھیاروں کی آزمائش کے لیے ایجاد کی گئی جنگوں کی بھینٹ چڑھ کر مٹی میں مل جاتے ہیں، ایسی دنیا میں لائیکا کی قربانی پر اٹھنے والے اخلاقی سوال بے معنی، غیر اہم اور احمقانہ لگنے لگتے ہیں۔ لیکن شاید یہی وہ سوال ہیں جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کسی بھی ترقی کی بنیاد معصوم زندگیوں کے خون پر رکھنا کس قدر بے رحمانہ اور بے حس رویہ ہے۔ لائیکا کی کہانی صرف ایک کتیا کی موت کی نہیں، بلکہ انسان کے اُس ضمیر کی گواہی بھی ہے جو اکثر طاقت، حرص اور خود غرضی کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ یہ داستان ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے عزم اور ترقی کے خوابوں کو انسانیت اور اخلاقیات کے ترازو میں تولنے کی ہمت پیدا کریں۔ شاید یہی اس آوارہ کتیا کی حقیقی میراث ہے۔

(اس فیچر کی تیاری میں فاربس پر شائع اسکاٹ ٹریورز کے ایک آرٹیکل سے مدد لی گئی۔ امر گل)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close