انسانی سرگرمیاں اور زمین سے معدوم ہوتی زندگی۔۔۔

ویب ڈیسک

ہمارے سیارے کی تاریخ میں نامساعد حالات پانچ مرتبہ زیادہ تر جانداروں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی وجہ بنے ہیں

کرہ ارض کو ایک مرتبہ پھر ویسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق زمین پر زندگی ایک بار پھر خطرے میں پڑ سکتی ہے، کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہم چھٹی بڑی معدومیت کا شکار ہو سکتے ہیں

دنیا بھر کے معتبر سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ جس رفتار سے فطرت تباہ ہو رہی ہے، اس کے حوالے سے ہم بحران کا شکار ہیں۔ ایسے میں آج کا ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی زمین پر زیادہ تر زندگی کھونے کے راستے پر چل رہے ہیں؟

حقائق بتاتے ہیں کہ انسانوں کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں، زمین کے استعمال میں تبدیلیاں اور آلودگی تیزی سے کرۂ ارض کو تبدیل کر رہی ہے، جس سے مختلف انواع کے لیے موافقیت پیدا کرنا اور زندہ رہنا مشکل ہو رہا ہے

کینیڈا میں فطرت کے لیے ’آخری موقع‘ قرار دیے جانے والے سربراہی اجلاس میں سائنسدان اور رہنما بحران کے پیمانے کو بتانے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں

حال ہی میں ’کوپ-15‘ (COP15) نامی ماحولیات پر بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا ”دنیا بھر میں سینکڑوں برسوں سے ہم نے افراتفری کا ایک ہنگامہ برپا کیا، تباہی کے اقدامات کیے ہیں۔ اب دس لاکھ حیاتیاتی انواع معدومیت کے دہانے پر ہیں“

بڑے پیمانے پر معدومیت سے کیا مراد ہے؟

بڑے پیمانے پر معدومیت سے مراد زمین کی تاریخ میں ایسے واقعات ہیں، جب کرۂ ارض پر تیزی سے اپنی تین چوتھائی یا اس سے زیادہ انواع معدومیت کا شکار ہوجاتی ہیں

سائنسدان جو فوسل ریکارڈ (ماضی کی پتھر میں بدلی ہوئی اشیا کا سائینٹیفک مطالعہ نیز مدفون یا پتھر میں بدلے ہوئے ہونے کے حالات) کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ ’پانچ عظیم‘ (Big Five) بڑے پیمانے پر معدومیتوں کا حوالہ دیتے ہیں، جو چوَّن کروڑ سالوں کے دوران رونما ہوئے ہیں

جو واقعہ کچھ عرصہ پہلے وقوع پذیر ہوتا ہے، وہی زیادہ مشہور بھی ہوتا ہے- جب ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ایک سیارچہ (ایسٹرائیڈ) کرہ ارض کے اب میکسیکو والے حصے سے ٹکرایا تو اُس واقعے نے جنوب مغربی امریکہ کے اُس خطے میں آگ لگا دی اور زمین پر چلنے والے ڈائنوسارز کو معدوم کر دیا

دیگر مثالوں میں پچیس کروڑ سال پہلے ’قدیم حیاتی‘ دور کا تباہی کا واقعہ ’عظیم معدومیت‘ (Great Dying) شامل ہے، جب زمین پر تقریباً نوے فی صد انواع فنا ہوگئی تھیں

یہ بالکل معلوم نہیں ہے کہ ان تمام تمام بڑے پیمانے پر معدومیت کے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ کیا تھی، لیکن ان کے امکانات میں آب و ہوا، سمندروں اور زمین میں تیز اور ڈرامائی تبدیلیاں بھی شامل تھیں

کیا ہم چھٹی ’عظیم معدومیت‘ کی دہلیز پر کھڑے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم زندگی کی محتلف انواع کو اس سے کہیں زیادہ تیزی سے کھو رہے ہیں، جتنا کہ زندگی کا ارتقاء اُنہیں پیدا کر رہا ہے، اور کچھ ماہرین تو کہتے ہیں کہ یہ ہمیں ایک نئے بڑے پیمانے پر معدوم ہونے کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔۔ اس معدومیت کا شکار ہماری اپنی نسلِ انسانی بھی ہوگی

میکسیکو سٹی کی یو این اے ایم یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات ڈاکٹر جیرارڈو سیبالوس کہتے ہیں ”ہم ارتقاء کا راستہ بدل رہے ہیں۔ اگرچہ ہم بڑے پیمانے پر معدومیت میں نہیں ہیں لیکن ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ اس نظام کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جس نے ہمارے لیے زندہ رہنا ممکن بنایا ہے“

معدومیت کی شرح کی پیمائش کرنا مشکل ہے کیونکہ آج بھی ہم اکثر انواع کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے یا یہ کہ وہ کتنے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں

تاہم دستیاب محدود ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے پچھلے پانچ سو سالوں میں ایک فی صد سے کم انواع کو کھو دیا ہے، لیکن بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں، کیونکہ زیادہ تر انواع، جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں، ان کو 1800ع کی دہائی کے وسط تک بیان نہیں کیا گیا تھا

2015ع میں سائنسدانوں نے زمینی گھونگوں کی دو سو معلوم انواع کے میوزیم کے مجموعوں، ریکارڈز اور ماہر تبصروں کا مطالعہ کیا۔ انہیں پتہ چلا کہ جب سے اصلی جنگلی حیات میں ایک نوع کے طور پر ان انواع کی درجہ بندی کی گئی تھی، اس وقت سے بہت سی انواع کو جنگلی حیات میں نہیں دیکھا گیا تھا اور اُس کا دسواں حصہ پہلے ہی سے معدوم ہو چکا تھا

اگر وسیع تر رجحانات کی علامت کے طور پر لیا جائے تو رپورٹ تیار کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہم تمام معلوم انواع میں سے ساڑھے سات فی صد سے تیرہ فی صد تک کے درمیان پہلے ہی کھو چکے ہیں

مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے اورنیتھولوجسٹ (پرندوں کے ماہر) ڈاکٹر الیگزینڈر لیز کہتے ہیں ”یہ ایک بہت بڑے نقصان کا اشارہ ہے، جو موجودہ اعداد و شمار کا نمائندہ نہیں ہے“

اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ حالیہ برسوں میں کتنی انواع معدوم ہوئی ہیں، جنگلی حیات کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے

یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ صرف پچاس سالوں میں عالمی جنگلی حیات کی آبادی میں اوسطاً انسٹھ فی صد کمی آئی ہے

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے ماہر حیاتیات پروفیسر انٹونی بارنوسکی کہتے ہیں ”آپ کو (معدومیت کے) اس مقام تک لے جانے میں پچاس سال سے زیادہ وقفے نہیں لگتے، جہاں ان میں سے زیادہ تر انواع تباہ اور ختم ہونے والی ہیں“

سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ہم فوسل ریکارڈ کو دیکھ کر اور اس وقت کے دوران، جب بڑے پیمانے پر معدوم نہیں ہو رہے تھے، معدومیت کی اوسط ’پس منظر کی شرح‘ کا حساب لگانے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہوئے ہم کتنی تیزی سے انواع کو کھو رہے ہیں

اس کے بعد وہ اس پس منظر کی شرح کا موازنہ معدومیت کی جدید شرحوں کے ساتھ کرتے ہیں، جو ریکارڈز سے جمع ہوتے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دونوں کی صف بندی کیسے ہوتی ہے

مانووا یونیورسٹی آف ہوائی کے ماہر ماحولیات ڈاکٹر رابرٹ کووی کے مطابق، ان مطالعات سے پائے جانے والے تخمینوں کی ضخامت ہمیں بتاتی ہے کہ آج معدومیت کی شرح نمایاں طور پر پہلے سے زیادہ ہے – سو سے ہزار گنا کے درمیان زیادہ

کچھ سائنسدانوں ان نتائج کی درستگی پر شک کرتے ہیں، لیکن زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ معدوم ہونے کی شرح ماضی کے اکثر اوقات کے مقابلے آج زیادہ ہے

بہرحال چاہے ان سب کا مطلب یہ ہو کہ ہم بڑے پیمانے پر معدومیت میں ہیں یا نہیں، اس معاملے پر بہت زیادہ بحث ہوتی ہے

میکسیکو سٹی کی یو این اے ایم یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات ڈاکٹر سیبالوز کا کہنا ہے ”میرا خیال ہے کہ ہم 2150ع کے آخر تک مکمل طور پر بڑے پیمانے پر معدومیت میں داخل ہو جائیں گے، اور یہ کہ ہم اگلی دو صدیوں میں تمام پودوں اور جانوروں کا ستر فی صد کھو سکتے ہیں“

دیگر ماہرین شدید اندازہ لگاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف یہ نہیں جانتے کہ انواع کے معدوم ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔

ڈاکٹر لیز پوچھتے ہیں کہ ’ہم بڑے پیمانے پر معدومیت کے واقعے کے انجام تک نہیں پہنچے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ – کیا ہم اب معدومیت کے انجام کے قریب پہنچ چکے ہیں؟ اور ہم یہ نہیں جان سکتے۔ اس پورے ناپید ہونے کے سلسلے کو پورا ہونے میں ہزاروں سال لگ سکتے ہیں۔‘

یہاں تک کہ ایسے ماہرین بھی ہیں، جو کہتے ہیں کہ اس میں پھنس جانا کہ آیا ہم بڑے پیمانے پر معدومیت میں ہیں یا داخل ہو رہے ہیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے

امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے ماہر امراضیات، پروفیسر پنسیلی ہل کا کہنا ہے ”فطرت پر ہمارے کاموں کے اثرات کے نقصان کو محسوس کرنے کے لیے انسانوں کے لیے بڑے پیمانے پر معدوم ہونے کے واقعے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہمیں اس بارے میں کارروائی کرنے کی ضرورت کے لیے معیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے“

وہ کہتی ہیں ”بہت چھوٹی آب و ہوا کی خرابیوں نے پورے معاشرے کو ختم کر دیا ہے۔ بیس سال کی خراب خشک سالی ایک پوری تہذیب کو تباہ کر سکتی ہے – یہی وہ پیمانہ ہے جو ہمارے لیے اہمیت رکھتا ہے“

ہم کیا کر سکتے ہیں؟

جیسا کہ ’کوپ-15‘ (COP15) کے سربراہی اجلاس میں اگلی دہائی کے لیے فطرت کے تحفظ کے لیے رہنما اہداف طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ماہرین ماحولیات کو امید ہے کہ دنیا 2030ع تک زمین اور سمندر کے تیس فی صد حصے کی حفاظت کا عہد کرے گی

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم گلوبل وارمنگ کے اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کر دیں اور کلیدی قدرتی رہائش گاہوں کی حفاظت کریں تو ہم جنگلی حیات کی بحالی میں مدد کر سکتے ہیں اور بہت سی انواع کو معدوم ہونے سے بچا سکتے ہیں

شکاگو یونیورسٹی کے ماہر امراضیات کے پروفیسر ڈیوڈ جبلونسکی کا کہنا ہے ”صرف انفرادی انواع کے بجائے، ایسی قدرتی رہائش گاہیں، جو ماحولیاتی نیٹ ورکس کو محفوظ کر سکتی ہیں، فطرت کی بحالی میں مدد کرنے کا بہترین طریقہ لگتا ہے“

ڈیوک یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات پروفیسر اسٹورٹ پِم کہتے ہیں ”ہم ایسی انواع کے بارے میں جانتے ہیں جو معدوم ہو جاتیں اگر ہم نے ان کی حفاظت کی کوشش نہ کی ہوتی“

انہوں نے کہا ”ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ تحفظ کے اقدامات سے ہم معدومیت کی شرح کو کم کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ہم اپنے اقدامات سے اثر پذیر ہو رہے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close