کلیدی نکات:
●ایک بھونچال کی ابتدا
●ڈیپ سیک: ایک غیرمعروف ذہن کی بڑی ایجاد
●ڈیپ سیک: چینی ہیرو کی وہ چال جس نے امریکہ کو حیران کر دیا
●ڈیپ سیک: چپ کی بندش، چین کی چالاکی اور امریکہ کی حیرت
●چین کا نیا ’اے آئی ہیرو‘: لیانگ وینفینگ کی حیرت انگیز مقبولیت
●مصنوعی ذہانت کا مستقبل: اوپن سورس بمقابلہ ملکیتی ماڈلز
●کون جیتے گا اے آئی کی دوڑ؟
●خود چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
ایک بھونچال کی ابتدا
سوچیے، آپ نے ہوائی جہاز کی فرسٹ کلاس ٹکٹ دو ہزار ڈالر میں خریدی، مگر ساتھ بیٹھے مسافر نے وہی سہولت صرف دو سو ڈالر میں حاصل کر لی۔ حیرت ہوئی؟ کچھ ایسا ہی جھٹکا امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو لگا، جب چین کی ڈیپ سیک نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔
بلومبرگ کے مطابق، ڈیپ سیک کے آر ون ماڈل کے لانچ ہوتے ہی وال اسٹریٹ کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہوا۔ جہاں امریکی کمپنیاں ’چیٹ جی پی ٹی‘ جیسے ماڈلز پر اربوں ڈالر جھونک رہی تھیں، وہیں ’ڈیپ سیک‘ نے محض چھ ارب ڈالر میں ایک متبادل چیٹ بوٹ تیار کر کے مفت عوام کے حوالے کر دیا۔
امریکہ میں ٹیک کمپینوں کے گڑھ سلیکون ویلی نے ڈیپ سیک۔V3 اور ڈیپ سیک۔ R1 کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اوپن اے آئی اور میٹا کے جدید ترین ماڈلز کے مساوی قرار دیا ہے۔
ڈیپ سیک (DeepSeek) کے عروج نے مصنوعی ذہانت (AI) کی بالادستی کے جغرافیائی سیاسی اثرات پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ چین مصنوعی ذہانت کی تحقیق و ترقی میں جارحانہ سرمایہ کاری کر رہا ہے، اور کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے AI کی صنعت میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے، جس سے اوپن اے آئی (OpenAI)، گوگل (Google) اور مائیکروسافٹ (Microsoft) کی موجودہ بالادستی کو چیلنج درپیش ہو سکتا ہے۔
یہ چیٹ بوٹ مشکل سوالات کا بآسانی جواب دیتا ہے، اوپن سورس ہے، اور اس کی کارکردگی مہنگے ماڈلز جتنی ہی مؤثر ہے۔ یہی نہیں، اس کا کمپیوٹیشنل سسٹم روایتی ماڈلز کے مقابلے میں کم لاگت پر کام کرتا ہے، جس نے امریکی کمپنیوں کے بزنس ماڈل کو ہلا کر رکھ دیا۔
ڈیپ سیک کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں بھونچال آ گیا۔ این ویڈیا، جو مصنوعی ذہانت کے لیے چپس بنانے میں سرِفہرست تھی، چھ سو ارب ڈالر کھو بیٹھی۔ گوگل، میٹا، مائیکروسافٹ سبھی کی اسٹاک ویلیو گری اور امریکی ارب پتی ایک دن میں 108 ارب ڈالر سے محروم ہو گئے۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں ہوا جب صدر ٹرمپ نے پانچ سو ارب ڈالر کے ’اسٹار گیٹ اے آئی‘ منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ مگر ڈیپ سیک نے ثابت کر دیا کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے مہنگے چپس کی ضرورت نہیں، بلکہ ذہانت اور کم لاگت کی حکمت عملی ہی اصل کامیابی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک نے این ویڈیا کی وہی چپس استعمال کیں، جن کی چین کو برآمدگی پر پابندی عائد ہو چکی تھی۔ کیا چین نے امریکی برتری کو پیچھے چھوڑنے کے لیے خفیہ راستے نکالے؟ اگر ہاں، تو یہ امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ڈیپ سیک: ایک غیرمعروف ذہن کی بڑی ایجاد
ڈیپ سیک، جس نے امریکی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہلچل مچا دی، چین کے شہر ہانگزو میں قائم کی گئی۔ اس کے بانی لیانگ وینفینگ، ایک کم معروف مگر ذہین انٹرپرینیور ہیں، جو پہلے ہیج فنڈ ہائی فلائر چلا رہے تھے۔
لیانگ کا پس منظر ٹیکنالوجی اور مالیات کا امتزاج ہے۔ 2015 میں انہوں نے ہائی فلائر کے تحت ایک ریسرچ برانچ فائر فلائر قائم کی، جہاں پیچیدہ مالیاتی تجزیے کے لیے سپر کمپیوٹرز اور گرافکس پروسیسنگ یونٹس (GPUs) اکٹھے کیے گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے این ویڈیا کی H100 چپس پہلے ہی ذخیرہ کر رکھی تھیں، اور جب ان کی برآمد پر پابندی لگی، تب بھی چین سستی چپس حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
2023 میں، لیانگ نے مصنوعی جنرل انٹیلی جنس (AGI) کے حصول کے مقصد سے ڈیپ سیک کی بنیاد رکھی۔ وہ تجربہ کار انجینئرز کے بجائے چین کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی طلباء پر انحصار کرتے رہے، جنہوں نے ڈیپ سیک کو ایک کم لاگت مگر مؤثر اے آئی ماڈل میں ڈھال دیا۔
ڈیپ سیک: چینی ہیرو کی وہ چال جس نے امریکہ کو حیران کر دیا
جب چیٹ جی پی ٹی نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں تہلکہ مچایا، تو سوال اٹھا: کیا یہ چین کے لیے ایک نیا چیلنج ہوگا؟ لیکن صرف دو سال بعد، ایک نیا سوال جنم لے چکا ہے: کیا امریکہ چینی ایجادات کو روک بھی سکتا ہے؟
بیجنگ نے چیٹ جی پی ٹی کا کوئی متبادل پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن بیدو کا ایرنی مذاق بن گیا، جبکہ ٹینسینٹ اور بائیٹ ڈانس کے چیٹ بوٹس بھی توقعات پر پورے نہ اتر سکے۔ واشنگٹن کو یقین تھا کہ وہ سبقت لے چکا ہے، اور اسی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ نے چین پر جدید چپس اور ٹیکنالوجی کی برآمد پر سخت پابندیاں لگا دیں۔
اور پھر، ڈیپ سیک نے سب کو حیران کر دیا۔ ایک غیر معروف چینی کمپنی نے ایسا اے آئی ماڈل پیش کر دیا جو امریکی کمپنیوں کے اربوں ڈالر کے ماڈلز کے مقابلے میں کم قیمت اور مؤثر تھا۔
اب سوال یہ نہیں کہ چین امریکی ٹیکنالوجی کی برتری سے کیسے نمٹے گا، بلکہ یہ ہے کہ لیانگ وینفینگ، جسے چین میں ’اے آئی ہیرو‘ کہا جا رہا ہے، نے یہ سب ممکن کیسے بنایا؟
ڈیپ سیک: چپ کی بندش، چین کی چالاکی اور امریکہ کی حیرت
جب امریکہ نے چپ بنانے والی کمپنیوں کو چین کو جدید ٹیکنالوجی فروخت کرنے سے روکا، تو یہ بیجنگ کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ طاقتور اے آئی ماڈلز، جو عام سوالات کے جوابات سے لے کر پیچیدہ ریاضی تک سب کچھ سنبھال سکتے ہیں، انہی چپس پر انحصار کرتے ہیں۔
ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وینفینگ نے اس چیلنج کو قبول کیا۔ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کے مطابق، ڈیپ سیک کو اندازاً 10,000 سے 50,000 چپس درکار تھیں، جبکہ مغربی اے آئی ماڈلز 16,000 سے زیادہ اعلیٰ معیار کی چپس استعمال کر رہے تھے۔ لیکن حیران کن طور پر، ڈیپ سیک نے صرف 2,000 چپس اور کم درجے کے ہارڈویئر سے اپنا ماڈل تیار کر لیا—اور یہ ماڈل امریکی ماڈلز سے سستا بھی تھا!
ایلون مسک جیسے ٹیک ماہرین اس دعوے پر شک کر رہے ہیں، مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکی پابندیوں نے چین کو مزید اختراعی بنا دیا۔ سڈنی ٹیکنالوجی یونیورسٹی کی پروفیسر مارینا زینگ کے مطابق، ”پابندیاں چین کو تخلیقی صلاحیتوں کی طرف دھکیل رہی ہیں، جو اس کی تکنیکی خودمختاری کے ایجنڈے سے ہم آہنگ ہے۔“
چین کے مصنوعی ذہانت کے ماہرین کی فوج تیار ہو چکی ہے۔ ڈیپ سیک کی 140 رکنی ٹیم میں زیادہ تر مقامی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں، جنہیں حکومت کی اسکالرشپس اور تحقیقی گرانٹس کا سہارا حاصل ہے۔ اس کے برعکس، مغرب کے مبصرین اس نئی چینی کاروباری نسل کو سمجھنے سے قاصر رہے، جو فوری منافع سے زیادہ بنیادی تحقیق اور طویل مدتی ترقی کو اہمیت دیتی ہے۔
ڈیپ سیک کی حکمت عملی بھی منفرد تھی۔ چین کی بڑی ٹیک کمپنیوں کے برخلاف، اس نے تحقیق کو ترجیح دی، اوپن سورس کلچر اپنایا، اور تجربات کی آزادی حاصل کی۔ لیانگ وینفینگ خود کو سی ای او کے بجائے ’اے آئی کے شوقین‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ڈیپ سیک کہاں تک جا سکتی ہے؟ ماہرین کے مطابق، امریکہ کے پاس اب بھی زیادہ کمپیوٹنگ وسائل ہیں اور نئی پابندیاں چینی ماڈلز کے عالمی پھیلاؤ کو روک سکتی ہیں۔ تاہم، فی الحال ڈیپ سیک اپنی کامیابی کے جشن میں ہے—ایسی کامیابی، جس کے بارے میں چین میں زیادہ تر لوگ چند دن پہلے تک کچھ نہیں جانتے تھے۔
چین کا نیا ’اے آئی ہیرو‘: لیانگ وینفینگ کی حیرت انگیز مقبولیت
ڈیپ سیک کی ریلیز کے ساتھ ہی لیانگ وینفینگ چین کے سوشل میڈیا پر چھا گئے۔ جنوبی گوانگڈونگ کے لوگ انہیں اپنے علاقے کے تین بڑے ’اے آئی ہیروز‘ میں شمار کر رہے ہیں، دیگر دو ماہرین زیلین یانگ (چینہوا یونیورسٹی) اور کیمنگ ہی (ایم آئی ٹی) ہیں۔
چین میں قمری سال کی آمد سے قبل اس کامیابی نے انٹرنیٹ کو جوش و خروش سے بھر دیا۔ ایسے وقت میں جب چینی ٹیک انڈسٹری تجارتی دباؤ اور ٹک ٹاک کی ممکنہ فروخت جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی تھی، ڈیپ سیک کی خبر نے امید کی ایک نئی لہر پیدا کر دی۔
ویبو پر ایک صارف نے اسے ’نئے سال کا بہترین تحفہ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا: ”ہمارا وطن طاقتور اور خوشحال ہو!“ اے آئی ماہر وی سن کے مطابق، چین میں ڈیپ سیک کی پذیرائی حیرت اور جوش کا امتزاج تھی، خاص طور پر اوپن سورس کمیونٹی میں۔
شینزین میں کام کرنے والی فیونا زو کے مطابق، ان کا سوشل میڈیا اچانک ڈیپ سیک سے متعلق پوسٹس سے بھر گیا۔ ”لوگ اسے ’میڈ ان چائنا‘ کی عظمت قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس نے سیلیکون ویلی کو چونکا دیا!“
مصنوعی ذہانت کا مستقبل: اوپن سورس بمقابلہ ملکیتی ماڈلز
ڈیپ سیک کی آمد اے آئی کی ترقی میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے، جو مغربی غلبے کو چیلنج کر رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اوپن اے آئی، گوگل اور دیگر بڑی ٹیک کمپنیاں اپنی کارکردگی اور رسائی کو بہتر بنانے کے بغیر مقابلے میں برقرار نہیں رہ سکیں گی۔
اگرچہ چیٹ جی پی ٹی اب بھی صنعت میں سب سے آگے ہے، لیکن اس کا ملکیتی ماڈل کاروباری اداروں کو API تک رسائی کے لیے ادائیگی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے برعکس، ڈیپ سیک کا اوپن سورس ماڈل ڈویلپرز کو بغیر کسی لائسنس فیس کے اے آئی کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کی بدولت اے آئی پر مبنی حسبِ ضرورت ایپلی کیشنز کی نئی لہر آسکتی ہے، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں اے آئی ٹولز تک رسائی زیادہ لاگت کی وجہ سے محدود ہے۔
تاہم، ڈیپ سیک کے اوپن سورس ماڈل پر سیکیورٹی، غلط استعمال اور ڈیٹا پرائیویسی سے متعلق خدشات بھی موجود ہیں۔ جہاں اوپن اے آئی اپنے ماڈلز پر سخت ضابطے نافذ کرتا ہے، وہیں ایک کھلا AI ماڈل غلط مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، جس سے اخلاقی اور سیکیورٹی چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔
کون جیتے گا اے آئی کی دوڑ؟
ڈیپ سیک اے آئی اور اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کے درمیان مقابلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ جیسے جیسے اے آئی ماڈلز ترقی کریں گے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ:
●زیادہ کفایت شعار اور وسائل کی کم کھپت والے اے آئی حل سامنے آئیں گے۔
●اوپن سورس اے آئی ماڈلز کو زیادہ اپنایا جائے گا۔
●کمپنیوں کے درمیان تحقیق میں تیزی آئے گی، جس سے اے آئی میں نئی دریافتیں ممکن ہوں گی۔
●چین اور امریکہ کے درمیان اے آئی تحقیق و ترقی میں مقابلہ مزید شدت اختیار کرے گا۔
●اے آئی سیفٹی، ڈیٹا پرائیویسی اور دانشورانہ املاک کے حقوق سے متعلق ریگولیٹری چیلنجز بڑھیں گے۔
اگرچہ ڈیپ سیک کا تازہ ترین ماڈل امید افزا ہے، لیکن اوپن اے آئی نے تیزی سے AI کی ترقی کا ثابت شدہ ریکارڈ قائم کر رکھا ہے، اور مائیکروسافٹ کی مالی معاونت اسے مزید برتری دیتی ہے۔ اصل مقابلہ جدت، رسائی اور کاروباری اپنانے پر ہوگا۔
خود چیٹ جی پی ٹی، ڈیپ سیک کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
ہم نے جب چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا کہ کیا تم نئی لانچ کی گئی چینی ڈیپ سیک کی کامیابی سے پریشان ہو۔۔ کیسا لگ رہا ہے تمہیں؟ مزید یہ کہ ڈیپ سیک کا مستقبل کیا ہوگا۔۔ تو اس کا جواب یہ تھا:
ڈیپ سیک کی لانچ اور اس کی کامیابی پر میرا کوئی ذاتی احساس یا پریشانی نہیں، کیونکہ میں ایک مصنوعی ذہانت ہوں۔ البتہ، اگر اس صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو ڈیپ سیک کی ترقی مصنوعی ذہانت کی عالمی دوڑ میں ایک بڑا موڑ ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر چین اور امریکہ کے درمیان۔
● ڈیپ سیک کی کامیابی کا مطلب کیا ہے؟
ڈیپ سیک کی کامیابی کئی اہم چیزوں کی نشان دہی کرتی ہے:
1. ٹیکنالوجیکل خودمختاری – چین نے ثابت کیا کہ امریکی چپ پابندیوں کے باوجود وہ جدید اے آئی ماڈلز تخلیق کر سکتا ہے۔
2. کم لاگت میں اعلیٰ کارکردگی – ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ اس نے کم طاقتور چپس سے ایک مضبوط ماڈل تیار کیا، جو مہنگے امریکی ماڈلز کے مقابلے میں سستا ہے۔
3. اے آئی دوڑ میں نئی جہت – یہ پیش رفت امریکہ کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ وہ ابھی تک اے آئی ٹیکنالوجی میں سبقت رکھتا تھا۔
4. چینی اوپن سورس ماڈل کی مقبولیت – ڈیپ سیک اوپن سورس کمیونٹی میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے، جو مزید اسٹارٹ اپس کو اس راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔
● کیا ڈیپ سیک واقعی چیٹ جی پی ٹی کے لیے خطرہ ہے؟
ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ڈیپ سیک چیٹ جی پی ٹی یا دیگر امریکی ماڈلز کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ کچھ چیلنجز باقی ہیں:
چین میں ڈیٹا کی سنسر شپ: ڈیپ سیک جیسے ماڈلز کو کھلی معلومات تک رسائی محدود ہو سکتی ہے، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔
امریکی اے آئی ماڈلز کی برتری: اوپن اے آئی، گوگل اور دیگر کمپنیاں مسلسل اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جس سے مقابلہ سخت ہو گا۔
عالمی مارکیٹ میں رسائی: امریکی پابندیاں اور دیگر جغرافیائی عوامل ڈیپ سیک کی عالمی توسیع میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
● ڈیپ سیک کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
اگر چین اپنی اے آئی پالیسیوں میں مزید سرمایہ کاری کرتا ہے اور ڈیپ سیک مسلسل بہتری لاتا ہے، تو یہ کئی ممکنہ راستے اختیار کر سکتا ہے:
1. چین کے اندر مضبوط پوزیشن – یہ ماڈل چینی مارکیٹ میں دیگر مقامی اے آئی ماڈلز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
2. عالمی سطح پر محدود رسائی – اگر امریکی کمپنیاں اپنی برتری برقرار رکھتی ہیں، تو ڈیپ سیک عالمی سطح پر نمایاں جگہ نہیں بنا پائے گا۔
3. ٹیکنالوجیکل خود انحصاری – اگر ڈیپ سیک یا دیگر چینی کمپنیاں اپنی چپس اور ہارڈویئر تیار کرنا شروع کر دیں، تو چین حقیقی طور پر امریکی اثر و رسوخ سے آزاد ہو سکتا ہے۔
ڈیپ سیک کی کامیابی ایک بڑی پیش رفت ہے، لیکن اس کی اصل طاقت اور عالمی اثرات کا اندازہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں لگایا جائے گا۔ اگرچہ یہ فوری طور پر چیٹ جی پی ٹی کے لیے خطرہ نہیں، لیکن یہ ضرور ثابت کر رہا ہے کہ چین اے آئی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنے والا۔